پنجاب کا ڈاکو کلچر اورلوٹ مار کی روایت

شاید ہم کسی موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ موقع ملا تو پیالی میں طوفان اٹھا دیا۔ حالانکہ ایسے طوفان کچھ بگاڑ پیدا نہیں کرتے۔ جن کے خلاف طوفان اٹھایا جاتا ہے وہ ہنس دیتے ہیں اور ان کے پروردہ پنجاب کے روایتی فنکاروں کی طرح آلات سے مسلح ہو کر مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ دو، چار دن شور رہتا ہے، کچھ خرید و فروخت ہوتی ہے، کچھ دھمکیاں اور کچھ اثر و رسوخ کام کرتا ہے اور پھر زندگی معمول پر آجاتی ہے۔ پانامہ لیکس کے بہلاوے میں آکرآج پھر ویسا ہی شور بھرپا ہے۔ حکومت ریٹائرڈ جج پر مشتمل کمیٹی بنانا چاہتی ہے، اس لئے کہ سمجھتی ہے لوگ ججوں پر اعتبار کرتے ہیں اور مرضی کے جج سے مرضی کا فیصلہ حاصل کرکے لوگوں کو مطمن کیا جا سکے گا مگر لوگ جانتے ہیں کہ بہت عرصے تک کسی بھی شخص کے جج بننے کے لئے بنیادی قابلیت کسی بھی سیاسی مسلک یا سیاسی پارٹی سے وابستگی رہی ہے اور ہمارے نوّے فیصد جج اسی قابلیت کے بل بوتے پر جج رہے ہیں اور زیادہ تر کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہی رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ مسلم لیگ (ن) کا معمولی ملازم بھی اگر لاء گریجوایٹ ہوتا تو جج کا مرتبہ پا لیتا۔

عمران خان کہتے ہیں کہ ایک ریٹائرڈ پولیس آفیسر کو اس کمیشن کا سربراہ بنادیا جائے جو نواز شریف اور ان کے خاندان کے اثاثہ جات کے حوالے سے تحقیقات کرے۔عمران خان کو پتہ ہونا چائیے کہ اس ملک میں ایک خاص طبقہ ہے جو کسی بھی پارٹی میں ہو، کسی بھی عہدے پر ہو، مگر اک دوجے سے وفاداری نبھاتا ہے۔ عمران خان جس افسر کی بات کرتے ہیں اس کا تعلق بھی اسی مخصوص طبقے سے ہی ہے۔وہ افسر آج کل حکومت سے اچھے تعلقات کے سبب کسی اچھی پوزیشن کا امیدوار ہے۔ ماضی کے حوالے سے دیکھیں تو ارسلان افتخار اور ان کے والد محترم سے انہوں نے خوب وفاداری نبھائی ہے انہوں نے ارسلان افتخار کے بارے ایسی تحقیقات کیں کہ سب گول کر گئے اور جب عوام کا شور و غل کچھ کم ہوا تو انہیں ایمانداری کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا تھا۔ موجودہ حکومت سے بھی ان کے بہت اچھے تعلقات کے سبب ان سے بہتری کی کوئی امید نہیں۔ ان کا سگا بھتیجا جو گریڈ سترہ کا ملازم ہے، اس حکومت کی نظرم کرم سے گریڈ بیس میں کام کر رہا ہے۔

بہرحال یہ باتیں اپنی جگہ مگر اصل بات یہ ہے کہ اتنا شور مچانے کا کیا فائدہ۔ پچھلی کئی سو سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کونسا حکمران تھا جس نے لوٹ مار نہیں کی، کس نے ڈاکہ نہیں ڈالا، کون ہے جس نے معزز بننے کے لئے غیر قانونی ذرائع سے دولت حاصل نہیں کی؟ کمزور اور بھوکے لوگ پہلے لوٹ مار کرتے، لوٹ مار سے دولت اکھٹی کرتے اور اس دولت کے بل بوتے پر معزز ہو جاتے اور لوگوں پر حکمرانی کرنے لگتے۔ ان کی دولت اور طاقت ان کے سب عیبوں پر پردہ ڈال لیتی۔ یہی پنجاب کا کلچر اور یہی برصغیر کی روایت رہی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ دنیا بھر کا مسلمہ اصول یہی ہے کہ لوٹو، دولت بنا کر معزز ہو جاؤ اور پھر لوگوں پر حکمرانی کرو۔ ۔

پنجاب پر پنجاب کے عظیم سپوت مہاراجہ رنجیت سنگھ نے چالیس سال حکومت کی۔ اس کا تعلق سکھوں کی مثل سکر چکیہ سے تھا۔ سکرچک کا رہائشی ویسوجٹ محنت مزدوری کرتا تھا،گھر میں غربت اس قدر تھی کہ کوئی بھی اس کے بیٹے نودھا کو بیٹی دینے کو تیار نہ تھا۔ ایسے حالات میں نودھا گھر کی غربت سے تنگ آکر چاہتا تھا کہ سکھ ہو کر لوٹ مار کرے اور امیر ہو جائے۔ چنانچہ باپ کے منع کرنے کے باوجود اس نے سکھ مذہب اختیار کر لیا اور لوٹ مار کی ابتدا کر دی۔ لوٹ مار کے دوران ایک گاؤں کے لوگ مقابلے پر آگئے اور نودھا سنگھ مارا گیا۔ نودھا سنگھ کے بعد اس کا وارث اس کا بیٹا چڑت سنگھ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کرنے لگا۔ گوجرانوالہ اور اس کے اردگرد کا بہت سا علاقہ اس کے قبضے میں آگیا۔ اتفاقاً اپنی بندوق پھٹ جانے سے چڑت سنگھ ہلاک ہو گیا تو اس کے بعداس کا بیٹا مہان سنگھ اس کا جانشین قرار پایا۔ مہان سنگھ بیمار ہو کر مرا تو اس کے بعد اس کا بیٹا رنجیت سنگھ اس کا وارث قرار پایا۔ رنجیت سنگھ لوٹ مار میں اس قدر یکتا تھا کہ پورا پنجاب اس کے قبضہ میں آگیا۔ آج رنجیت سنگھ تاریخ میں ایک نامور اور معزز نام ہے۔پنجاب کا کوئی شہر ایسا نہیں جو مہا راجہ رنجیت سنگھ کی غارت گری اور لوٹ مار سے محفوظ رہا ہو۔

امرتسر کے ایک قریبی گاؤں بیج وڑکا رہنے والا چھجا سنگھ غربت کے ہاتھوں پریشان تھا اور بہت بھنگ پیتا تھا۔ بھنگی مثل کے اس بانی نے دو تین دوستوں کو ملا کر لوٹ مار کی ابتدا کی اور دیکھتے ہی دیکھتے بارہ ہزار سواروں پر مشتمل گروہ تشکیل دیا اور اس گروہ کی مدد سے گجرات، چنیوٹ اور لاہور پر قبضہ کر لیا۔ لاہور پر سب سے پہلے قبضہ کرنے والا گوجر سنگھ اسی کی اولاد میں سے تھا۔بھنگیوں کی مشہور توپ اسی خاندان سے منسوب ہے۔ سکھوں کے ایک اور مشہور مثل رام گڑھی کا بانی سردار جساسنگھ لاہور کے قریب ایک گاؤں ایچو گل کا رہنے والا تھا۔ اس کا باپ بھگوانا ایک گیانی تھا۔ شروع شروع میں وہ باپ کے ساتھ مل کر گیانی کے طور پر کام کرتا رہا، مگر جب دیکھا کہ گزارہ نہیں ہوتا تو سکھ بن کر لوٹ مار شروع کر دی اور تھوڑی ہی مدت میں بہت عزت اور دولت حاصل کر کے معزز ہو گیا۔

لاہور کے قریب کاہنہ میں ایک جاٹ خوشحال سندھو رہتا تھا، جو انتہائی غریب اور مفلس تھا۔ مفلسی اور فاقہ کشی سے تنگ آکر اس کا بیڑا بیٹا جے چند گھر سے بھاگ کر سکھوں سے جا ملا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ کچھ عرصہ بعد جب جے چند، جے سنگھ بن کر گھر لوٹا تو اس نے کاہنہ کے نوجوانوں پر مشتمل اپنا گروہ تشکیل دیا، جنہیں کہنیا مثل کہا جاتا ہے۔ لوٹ مار اور بے سبب دولت حاصل کرنے کے سبب اس گروہ کے لوگ اس قدر معزز قرار پائے کہ رنجیت سنگھ کی پہلی بیوی مہتاب کور، جے سنگھ کے پوتے گور بخش سنگھ کی بیٹی تھی۔ رنجیت سنگھ کی ابتدائی فتوحات میں مہتاب کور کی ماں سدا کور کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔

موضع بھڑوال چونیاں کے نکہ گاؤں کا ہیرا سندھو قوم جاٹ محنت مزدوری کرتا تھا۔ جب مزدوری نہ ملتی تو گدائی سے کام چلا لیتا۔ مگر پھر بھی گزاراہ نہ ہوتا اور ہفتے میں چار چار دن گھر میں فاقہ ہوتا۔ تنگ آکر وہ سکھ بن گیا اور ڈاکہ زنی اور لوٹ مار شروع کر دی۔ جلد ہی اس نے بے پناہ دولت اکٹھی کر لی اور پھر اردگرد کے علاقے میں اپنی ریاست قائم کر لی۔ پاک پتن پر چڑھائی کے دوران ماتھے پر گولی لگنے سے ہیرا سنگھ مارا گیا۔ مگر اس کی اولادنے اس علاقے کے وسیع علاقے پر اپنی سلطنت قائم کر لی اور معزز لوگ شمار ہونے لگے۔ یہ سکھوں کی لکی مثل کہلاتی ہے۔ مہاراجہ رنجیت کے بیٹے کھڑک سنگھ کی والدہ رانی راج کور ہیرا سنگھ کی اولاد میں سے تھی۔بعد میں رنجیت سنگھ نے کسی بات پر ناراض ہو کر ان کے علاقے پر قبضہ کر لیا اور کچھ گاؤں ان کو خرچے کے لئے دے دئیے۔ ہیرا سنگھ کا پوتا کانھا سنگھ انگریزوں کاوظیفہ خوار تھا۔ پاکستان بنتے ہی کانھا سنگھ کی اولاد نے بھارت ہجرت کرنے کی بجائے اسلام قبول کر لیا اور آج بحیثیت مسلمان اپنے علاقے کے معززین میں شمار ہوتے ہیں۔

کاہنہ سے پہلے گجومتہ کے قریب لاہور میں ایک گاؤں آہلو کے نام سے ہے۔ بھاگو نام کا ایک شخص وہاں شراب بیچتا تھا۔ گاؤں میں کام نہ ملا تو اردگرد ہاتھ پاؤں مارے۔ جب کچھ بن نہ پڑا تو سکھ بن پر قزاقی اور رہزنی شروع کر دی۔ ہوشیار آدمی تھا، تھوڑے ہی دنوں میں چھوٹی سی جماعت کا سردار بن گیا جو آہلو والیہ مثل کہلاتی ہے۔ کپور تھلہ ریاست کے والی اسی بھاگو کی اولاد سے ہیں۔

یہ تو سکھوں کے حوالے سے چند مثالیں ہیں، مسلمان سارے کے سارے جو آج صاحب عزت نظر آتے ہیں انہوں نے انگریزوں سے مل کر اس ملک اور ملک کے عوام کو جی بھر کر لوٹا ہے ہمارے ملک میں آج کے ہر معزز آدمی کے ساتھ اس کے اجداد کے حوالے سے لوٹ مار کی ایک داستان وابستہ ہے۔ یہاں کے عام لوگ لٹنے کے لئے ہی پیدا ہوئے ہیں اور پیدا ہوتے رہیں گے۔ اس لئے طوفان اٹھانے کا کچھ فائدہ نہیں۔ جب تک قوم کی اجتماعی غیرت نہیں جاگتی، سب اﷲ پر چھوڑ دو۔ بس حکمران کو زندہ باد کہتے جاؤ۔ حکمرانوں قدم بڑھاؤ …… ہم ہر طرح تمہارے ساتھ ہیں۔جب ہمارے اجداد نے تمام عمر ڈاکوؤں اور ان کے پروردہ میراثیوں اور بھانڈوں کے زیر سایہ ظلم سہتے گزاری ہے تو ہم بغاوت کرنے والے کون؟
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444634 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More