تنازع خواتین کے احترام کا!

سوال یہاں بھی اٹھتے ہیں، تحریک انصاف کے جلسے میں خواتین پر پَل پڑنے والے درندے کون تھے؟ آیا وہ پی ٹی آئی کے جنونی ہی تھے، یا کسی اور نے سازش کرکے اپنے لوگ بھیجے تھے ؟ بات نکلتے نکلتے نکلی، پہلے صرف یہ خبر آئی کہ اسلام آباد والے جلسے میں خواتین پر حملہ ہوا، اس کی بازگشت بعد میں سنائی دی، پھر کچھ متحرک تصاویر بھی منظر عام پر آگئیں۔ اس کے بعد تمام تر پریشانیوں اور بندوبست کے باوجود لاہور میں بھی یہی کچھ ہوگیا۔ ایک ایک کرکے تصاویر بھی سامنے آنے لگیں، کچھ کے چہرے پہچانے بھی جانے لگے، معاملہ چونکہ متنازع لوگوں کا تھا، اس لئے اس کا اٹھایا جانا فطری امر تھا۔ چینلز نے بھی تصاویر دکھائیں، وزیرداخلہ نے بھی تصاویر کو نادرا تک پہنچانے کا اعلان کیا، اور ملزمان کے گھر تک پہنچنے کی خبر سنائی۔ وزیراعظم نے بھی ایکشن لیا اور معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے۔ چند روز تک معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا، کیونکہ اپنے ہاں ایشوز بہت زیادہ ہوتے ہیں ، یکے بعد دیگرے چلے آتے ہیں، اس لئے جب ایک آجاتا ہے تو پہلے والا منظر سے ہٹ جاتا ہے، اگر بہت بڑا ہو تو چند روز میں منظر سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اگر خواتین پر حملے والے ایشو کو اٹھایا جارہا ہے تو یہ ہے بھی اٹھائے جانے کے لائق، کیونکہ کوئی تو کسی مظلوم کی آواز بنے۔ یہ آواز اٹھانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ سیاسی نہیں انسانی مسئلہ ہے، انسانیت کے ناطے غیر انسانی کام کرنے والوں کی نشاندہی کرنا، انہیں گرفتار کرنا اور قرار واقعی سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کی ذمہ داری مسلم لیگ ن پر ہے، حکومت انہی کی ہے اور تحریک انصاف کی براہِ راست ٹکر بھی انہی سے ہے۔

قوم نے منظر دیکھا کہ بہت سے نوجوان خواتین پر حملہ آور ہیں، اور بہت برے طریقے سے جھپٹ رہے ہیں، یوں جیسے گِدھیں اپنی خوراک پر گر رہی ہوتی ہیں۔ غیرت، حمیت اور انسانیت سے عاری یہ لوگ کسی قانون کے پابند نہیں ہوتے، ایک ہنگامہ سا برپا تھا اور موقع کو غنیمت جانتے ہوئے یہ کاروائی کردی گئی۔ ٹی وی کیمروں نے کسی حد تک ملزمان کو پہچاننے کی کوشش کی، جن کی تصاویر چوہدری نثارنے نادرا کو بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ یہاں اس بات کو ایک طرف رکھیں کہ یہ جلسہ کس کا تھا اور ملزمان اپنے تھے یا پرائے؟ مسئلہ یہ ہے کہ آخر ہم لوگ خواتین کا احترام کرنے میں اس قدر بخیلی سے کام کیوں لیتے ہیں اور اگر موقع مل جائے تو کس درندگی کے ساتھ حملہ آور بھی ہو جاتے ہیں۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ ہماری خواتین ہی اپنے بھائی بندوں کے درمیان محفوظ نہیں، ان کے ساتھ رہنے ، چلنے پھرنے والے بھی دراصل بھیڑیے ہی ہیں، جو صرف موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ یہ واقعہ ہماری ذہنی غلاظت کی عکاسی کرتا ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

ایک طبقہ فکر کا یہ بھی خیال ہے کہ خواتین کا اس طرح جلسوں میں جانا بذاتِ خود ’’آبیل مجھے مار‘‘ کہنے کے مترادف ہے۔ صبح سے ہی ہمارے ٹی وی چینلز بہت سی خواتین کی تیاری کے مراحل دکھا رہے تھے، کہ کس طرح بیوٹی پارلرز کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں اور تیاری کے بعد جلسہ میں یہ خواتین کس طرح اچھل اچھل کے ناچ رہی ہیں، اور لوگوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہیں۔ بناؤ سنگھار کا فطری تقاضا ہے کہ یہ دوسروں کو دکھانے کے لئے کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ کوئی بھی انسان اگر بن سنور کر نکلتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ اسے لوگ دیکھیں گے۔ بہت سے لوگ دیکھنے میں آتے ہیں، جو گھر میں دھوتی پوش ہوتے ہیں، ہوائی چپل پہنتے ہیں، مگر جب وہ دفتر یا کسی تقریب میں جاتے ہیں تو سوٹ بوٹ کے ساتھ۔ یہی عالم خواتین کا ہے۔ سج دھج کے نکلنے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ دوسرے دیکھیں، ورنہ سادگی ہی بہتر ہوتی ہے۔ اسلام کا نام لیتے ہم شرمانے لگتے ہیں اور بہت سے لوگ اسلام کے نام پر چِڑ جاتے ہیں، اسلام نے عورت کو مِحرم کے بغیر باہر نکلنے سے منع کیا ہے۔ مگر ہم اس عمل کو عورت کی آزادی کے منافی جانتے ہیں۔ ظاہر ہے جب اسلام کی بات ہوگی تو امن اور سلامتی کی بات ہوگی اور جب اپنی مرضی کی کہانی ہوگی تو پریشانیاں اورمسائل کا سامنا ہوگا۔ جہاں خواتین کا اس قدر بن سنور کے نکلنا اور اچھل کود کا اہتمام کرنا غلط ہے، اسی طرح ان پر حملہ کرنے والوں کا اقدام بھی قابلِ گرفت جرم ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 432023 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.