بدترہوتے حالات اور والدین کی ذمہ داریاں

بچوں کے اندراصلاحی و تربیتی پہلو اجاگر کرنے کیلئے پرزور مہم چلانے کی ضرورت

 اس طرح کے واقعات اب ہمیں حیرت میں مبتلا نہیں کرتے کیونکہ ہم اس کے عادی ہوچکے ہیں،اب تو رفتہ رفتہ یہ ہمارے معمولات کا حصہ بھی بنتے جارہے ہیں۔ جس کے بیان کرنے کا یہ مطلب ومنشا ہرگزنہیں ہے کہ کسی کی اہانت ودل شکنی کی جائے، اصل مقصدیہ ہے کہ ہماری بند آنکھیں کھل جائیںاوران ہولناک مناظراور اس کے درد ناک انجام سے ہمارے لئے کچھ عبرت واصلاح کا سامان پیداہوجائے اورہمارے اندراخلاقی وروحانی طاقت کاایسا سرچشمہ پھوٹ پڑے جس سے یہ دیمک زدہ سماج سیراب ہوکر صحت مندہو جائے اورایک بار پھر پوری آب وتاب کے ساتھ نکھرآے ۔واقعہ کچھ یوںہے۔گذشتہ شب ایک خاتون رات کے درمیانی حصے میں باندرہ اسٹیشن سے ایک دوسری خاتون کے ہمراہ گھر جارہی تھیں راستے میں ہی ایک نوعمر لڑکاجوغالباً انہی کے انتظارمیں تھا لپک کر خبر دیتا ہے کہ آپ کے لڑکے نے آج خوب شراب پی ہے اورابھی بھی نشے کی حالت میں ہے میںاسے گھر چھوڑکرآرہا ہوںآپ اسے سمجھائیں ورنہ وہ ہاتھ سے نکل جائے گاان کے درمیان ہونے والی گفتگو سے یہ اندازہ ہوا کہ یہ دونوںلڑکے نویں کلاس میں زیرتعلیم ہیںاس واقعے کا سب سے دردناک پہلو یہ تھا کہ لمحہ بھر کے لیے اس خاتون کے چہرے پر فکرمندی کے آثار توابھر ے لیکن فوراً کافوربھی ہوگئے پھر وہ خاتون انتہائی پرسکون انداز میں اپنی ہم سفرخاتون سے معمول کی باتوں میں مصروف ہوگئیں۔

اس طرح کے واقعات اب ہمارے معاشرے میں عام ہوتے جا رہے ہیں۔جس کی ذمہ داری کسی ایک فردواحد کے کاندھوں پرنہیں ڈالی جاسکتی اس قسم کے بگاڑ اورفتنہ وفساد کی ذمہ داری ہم سبھی کواخلاقی طور پر اب قبول کرلینی چاہیے۔والدین بچوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے کیونکہ بچوں کی پرورش وتربیت میں والدین کاکردارانتہائی اہمیت کاحامل ہوتا ہے حصول تعلیم سے لیکرزندگی کے مختلف شعبوںمیں انہیں کامیاب ترین دیکھنے کی خواہش ہروالدین کاخواب ہوتا ہے جسے وہ کسی بھی قیمت پر حاصل کرناچاہتے ہیں۔ والدین بچوں کے لیے آئیڈیل اور تربیت کی اولین سیڑھی بھی ہوتے ہیں۔ماں باپ کی الگ الگ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔باپ محنت ومشقت کے ساتھ گھر کے باہر بچوںکے لیے روٹی روزی فراہم کرنے کی ذمہ داری ادا کرتا ہے تو ماں گھر کے اندرکی تمام ذمے داریاںسنبھالتی ہے لیکن بدلتے وقت، عصری تقاضوں کے دباؤ اور بڑھتی ضرورتوں کے تحت اب خواتین بھی معاشی میدان میں مردوں کے دوش بدوش نکل پڑی ہیں۔ہوش اڑا دینے والی مہنگائی نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیاہے کہ بچوں کے شانداراور خوبصورت مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ اس جدوجہد میں وہ بھی اپنے خاوندکے ساتھ جٹ جائیں ظاہر ہے اس عمل سے وہ سسٹم جو قدرتی طور پر گھروں میں رائج تھا افراتفری کا شکار ہو چکاہے گھر میں ماؤں کی موجودگی بچوں کی تربیت میں اہم رول ادا کرتی تھی جواب قریب قریب مفقود ہو تی جا رہی ہے۔ دوسری ایک اور وباٹی وی کی صورت میں گھروںپرقبضہ جما چکی ہے بہت کم ایسے گھرہوںگے جہاں بچوں کی تعلیم میں خلل نہ پڑنے کے خیال سے ٹی وی بند کردیاجاتاہو چاہے امتحانات ہی کیوںنہ چل رہے ہوںخواتین اپنے طے شدہ سیریل چھوڑنے کو تیارنہیں۔ بڑھتی مہنگائی کے سبب خواتین معاشی استحکام کے لیے گھر اورملازمت کی دوہری ذمہ داریاں نبھانے میںجٹی ہوئی ہیںان حالات میں گھریلوکام کاج کے ساتھ بچوں کی جملہ دیکھ بھال شدید طورپرمتاثرہورہی ہے اورایسے خطرناک نتائج برآمد ہو رہے ہیںجن کاخواب میں بھی تصورکیاجانامحال ہے۔مذکورہ بالا واقعہ اسی ہولناک نتیجے کی ایک مثال ہے۔ایسی صورتحال اوربدلتے زمانی تقاضوںکے سدباب کے لیے خواتین خانہ کاتعاون ان مردوںپر ضروری ہوجاتاہے جوبدلتے حالات کویا تو دیکھ نہیں پاتے یادیکھنانہیں چاہتے یاپھرجان بوجھ کرچشم پوشی اختیارکئے جارہے ہیں۔حال ہی میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق، کچھ مرد حضرات موجودہ صورت حال سے متاثر ضرورہوئے ہیںاوروہ جملہ امور میں خاتون خانہ کی معاونت کرتے نظرآرہے ہیں لیکن ان کی تعداد کھانے میں نمک کے برابر ہے ۔معاشی الجھن اورسنہرے مستقبل کی تلاش والدین کواتناموقع ہی نہیں دیتی کہ وہ بچوں کی نگہدا شت کیلئے وقت جمع کرلیں ۔نتیجہ ظاہر ہے بچے شدیدبے راہ روی کاشکارہورہے ہیںاور اورہر وہ کام کر رہے ہیںجواخلاق سوز ہوں۔موبائیل پر بلیو فلمیں دیکھنااورواٹس اپ پر دن رات فحش اور غیر ضروری باتوں میں مصروف رہناان کادلچسپ مشغلہ بن گیاہے۔ایسے میں جبکہ شیطانی شرانگیزیوںکاگراف اتنابڑھ چکاہو عریانیت،فحاشی اورخرافات کابازارپورے شباب پرہو۔والدین کو اپنی نگہداشت میںتیزی لانے کی سخت ضرورت ہے۔بدترہوتے جارہے معاشرے سے انہیں جنگ کے لیے پوری مستعدی سے اٹھ کھڑے ہوناچاہیے اوربچوں کے اندراصلاحی وتربیتی پہلو اجاگرکرنے کے لیے پرزورمہم چلانی چاہیئے ورنہ عریانیت فحاشی اوربے راہ روی کایہ منہ زورسیلاب سب کچھ بہالے جائے گا۔
اٹھووگرنہ حشر نہیں ہوگا اب کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 96128 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.