گمنام سپاہی (حصہ چہارم )

It is a novel for youths.
بیگم وقار الدین چند روز سے سوچ رہی تھیں کہ اب حمنٰی نویں کلاس میں آگئی ہے ۔ حالات کے لحاظ سے اسے بھی تر بیت دینی شروع کر دینی چاہیے مگر یہ لڑکوں سے کافی مختلف ہوگی۔کیونکہ بہتر یہ ہی ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں اپنی ہی صنف کے مطابق کام کریں تاکہ بھلا ہو مگر پہلے اس کی پسند معلوم کرنا ضروری ہے ۔اگر دلچسپی کا کام ہو تو تو خواہ لڑکا ہو یا لڑکی چلنے کے بجائے دوڑنے لگتا ہے !
یہ سب سوچ کر انہوں نے حمنٰی کو اپنے کمرے میں آنے کو کہا ۔ عصر اور مغرب کے درمیان جب امجد اور اسود نماز کوگئے ہوئے تھے حمنٰی نے ان کے کمرے میں دستک دی وہ نماز پڑھ کر جائے نماز ہی لپیٹ رہی تھیں
" میں آ جاؤں دادی جان ؟ "
ہاں ضرور " انہوں نے فوراً کہا
" میری بیٹی نے ہوم ورک کر لیا!؟ " دادی نے پیار سے پوچھا
" جی دادی جان ! لنچ کے بعد ہی کر لیا تھا "
اس نے ان کے بستر کے کنارے بیٹھتے ہوئے کہا۔ انہوں نے دیکھا کہ اس نے سلیقے سے دوپٹہ اوڑھا ہوا اور بال بندھے ہوئے ہیں۔ان کا دل خوش ہوگیا
" میں تم سے آج یہ پوچھنا چا ہتی ہوں کہ تمہیں کون سا مضمون پسند ہے ؟ "
" کیوں دادی جان ؟ " حمنٰی حیران تھی۔
"اس لیے کہ انسان جو کچھ بننا چاہتا ہے اس میں اس کی پسند کا بہت ہاتھ ہو تا ہے اور پھر جو کچھ وہ بنے اس کی ذات سے دوسروں کو بھی فائدہ ہونا چاہیے کہ مومن ایک پھل دار درخت کی مانند ہے کہ جو اس کو پتھر مارے وہ اس کو بھی پھل دے ۔سمجھ رہی ہو نا میری بات کہ اگر کوئی دوسرا تکلیف بھی پہنچائے تو بھی اس کو اپنی ذات سے محروم نہ کرے۔دوسرے الفاط میں اگر ہم کوئی نیکی نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنی ذات سے فائدہ دیں !
" جی میں سمجھ گئی دادی جان ! "
" تو یہ بتاؤ تمہیں کون سے مضامین پسند ہیں ؟ کیا آگے بننے کا ارادہ ہے ؟ ''
" جی مجھے سائنس پسند ہے ۔ میں میڈیکل پڑھنا چا ہتی ہوں ''
" بہت اچھا ارادہ ہے ! ڈاکٹر بنے گی میری بیٹی ! تو جیسے اور بہت سے ڈاکٹر ہیں پیسہ کمانے کے لیے اس شعبے میں آ ئے ہیں ''
" نہیں دادی جان ! میں ایسا نہیں کروں گی ۔ابھی آپ نےہی تو کہا کہ مومن ایک پھلدار درخت کی طرح ہوتا ہے تو مجھے ایسا ہی بننا ہے " حمنٰی شوق اور سنجیدگی سے بولی۔
" جیو میری بچی ! اللہ تمہیں اپنے ارادے میں کامیاب کرے ! تو میری پیاری ابھی تمہارے ڈاکٹر بننے میں بہت وقت ہے مگر انسان کا کام بہت پہلے شروع ہوجاتا ہے ۔یعنی چودہ پندرہ سال کی عمر سے انسان اس راہ پر چلنے لگتا ہے کہ وہ محاورہ ہے نا کہ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آ جاتے ہیں ۔ "
" میں سمجھی نہیں دادی جان اس کا کیا مطلب ہوا ؟''
" بیٹی انسان کی دلچسپیاں بتادیتی ہیں کہ اس کا ذہن کیسا ہے اور وہ کیا کرنا چاہتا ہے ۔۔بہت بچپن سے ہی معلوم ہونے لگتا ہے "
" میں سمجھ گئی دادی جان ! آپ بتائیں مجھے اب کیا کرنا چا ہیے ؟
" کام تو تم شروع کر چکی ہو " دادی نے اپنی مشفقانہ مسکراہٹ سے کہا۔
" کیا کام میں نے شروع کردیا ہے ؟ " حمنٰی بڑی حیرانی سے بولی
" یہ جو تم خورشید بیٹے کو اتنی محنت اور توجہ سے پڑھا رہی ہو ! تو جب تک تم پڑھا سلتی ہو پڑھاؤ اور پھر تمہارے دادا اور بھائی پڑھالیں گے۔تمہیں سائنس پسند ہے تو اس کے لیے کچھ پروگرام سوچیں گے۔"
" ایک بات پوچھوں آپ سے ! "
" سو بات پوچھو میری جان ! پوچھنے سےہی تو علم میں اضافہ ہوتا ہے َ "
" دادی جان جو لڑکیاں اعلٰی تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں وہ انسانیت کے فائدہ کے لیے کیا کر یں؟ کس طرح لوگوں کوفائدہ پہنچائیں؟"
" گڈ ! بہت اچھا سوال کیا ہے تم نے! اچھا تو سنو اللہ نے ہر ایک کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ضروری تو نہیں کہ تمام لڑکیاں ڈاکٹر ، انجینئر، سائنسدان ہوں تبھی اپنےمعاشرے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں ۔جوزیادہ پڑھ لکھ نہ سکیں وہ بھی اپنی حیثیت میں اپنے خاندان ، محلے اور شہر کو ضرور فائدہ پہنچائیں۔ سمجھیں ؟"
"کیسے ؟ مگر کیسے دادی جان ؟" اس نے الجھ کر سوال کیا۔
"میں بتاتی ہوں ۔۔" انہوں نے گاؤ تکیے سے ٹیک لگاتے ہوئے خوشگوار لہجے میں کہا
"اور یہ جو تم نے سوال کیا ہے نا کہ وہ کیا کریں جو تعلیم یافتہ نہ ہوں تو تمہارے اس سوال سے ہی پتہ چل رہا ہے کہ تمہیں دوسروں کی فکر ہے ! شاباش بیٹی شاباش !! اگر یہ جذبہ ہماری اسی فی صد لوگوں میں بھی پیدا ہو جائے تو پاکستان ایک فلاحی مملکت بن جائے ! اللہ کرے ایسا ہوجائے!
"ہاں تو حمنیٰ بیٹی جس لڑکی کو سلائی کا شوق ہو وہ سلائی سیکھے ، دوسروں کو سکھائے اور ان لوگوں کو کپڑے سی کر دے جو سلائی نہ کر سکتے ہوں یا درزی کو سلائی نہ دے سکتے ہوں ۔اپنے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھے کون ایسے لوگ ہیں ۔ کم از کم عید ، بقر عید میں تو ضرور کرے !جس کو کڑھائی کو شوق ہو وہ وہ دوسروں کو کڑھائی سکھائے اس طرح وہ اپنی آ مدنی بڑھا کرگھریلو حالات بہتر کر سکیں گی۔
'' جن کے گھر کچے ہیں وہ اس پر سبزیاں اگائیں ا ان کی دیکھ بھال کریں اور جب وہ پیداوار دیں توپڑوسیوں اور ارد گرد بھجوائیں اس سے ان کا خرچ بچ جائے گا ۔
" جو اچار، چٹنیاں ،مربے بنا سکتی ہوں وہ اسے بنا کر لوگوں کے گھروں پر معمولی قیمت میں سپلائی کریں ۔
" جسے صحت کے شعبے سے دلچسپی ہو وہ نزلہ زکام، سر درد ، بخار، ہاضؐے کی گولیاں ، وٹا منز کی گولیاں اسٹور سے خرید کر اپنے پاس رکھ لیں ۔ زیادہ خریداری پر دکان دار قیمت میں رعایت سے دیتے ہیں ۔ لوگوں کو دوائیں سستی دے کر ان سے دعائیں لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی دادی جان کے مشورے جاری تھے کہ مغرب کی اذان کی آواز گونجنے لگی اور وہ خاموش ہوکر اذان سننے لگیں ۔ اذان کی دعا پڑھ رہی تھیں تو حمنٰی بڑے جوش سے بولی
" آپ نے کتنے کام کی باتیں بتائی ہیں ۔ یقیناً اور بھی ہوں گی ؟"
" ہاں اور بہت سی ہیں ۔ اگر ہر کوئی اپنے حصے کا کا م کرے تو سب کو سہولت مل سکتی ہے ! میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا ! "
" بالکل صحیح کہہ رہی ہیں آپ ! "
" اچھا اب نماز کی تیا ری کرو ۔ آج کا پہلا سبق تو میں نے تمہیں دے دیا ہے نا! مغرب کے بعد تمہارے داداجان اور امجد، اسود بھی آ جائیں گے۔ یہ تین گھنٹےچار بجے سے سات بجے تک خدمت خلق میں گزارتے ہیں ۔ اب یہ ہماری مرضی ہے کہ سو کر گزارے یا تفریح میں یا پھر خدمت کرکے دعائیں سمیٹے! ہاں ! رشیدہ سے کہو رات کے لیے آلو کے قتلے بنا لے۔ ساتھ میں تھوڑی سی پودینے کی چٹنی بھی اور تھوڑے سے دہی کی نمکین پتلی لسی بھی ۔گرمی میں بڑی مفید ہوتی ہے اور نوالہ بھی آسانی سے اترتا ہے "
مغرب کے بعد سب سے پہلے دادا جان گھر میں داخل ہوئے ۔ " ارے بھئی حمنٰی کی دادی صاحبہ ہم نے ٹھیکیدار سے کہہ دیا ہے کہ مئی کی پہلی تاریخ کو سوئمنگ پول کا افتتاح کرنا ہے اس نے وعدہ کر لیا ہے ۔۔" امجد اور اسود بھی ساتھ آ ئے۔
"دادا جان، دادی جان آپ لوگوں کو امجد بھائی کا کارنامہ بتاناہے ۔ اسود چیخا
" کیا ؟؟ " سب ایک ساتھ بول پڑے
" صبر صبر بتا تا ہوں بھئی ! دادی جان پہلے ذرا چائے بنوائیں اچھی سی تا کہ ہماری باتوں میں بھی تازگی پید اہو !
" ہاں کیوں نہیں " ا ابھی انہوں نے باہر آواز لگانے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ امجد بول پڑا نہ نہ دادی جان اپ رہنے دیں میں کہہ دیتاہوں اور فوراًباہر نکل گیا ۔
"اچھا جلدی بتاؤ ! " ان سے بھی صبر نہ ہورہا تھا۔
"ہاں تو میں اور بھائی جان گھر سے نکلے ۔صفدر بھائی کے گھر جانے کا ارادہ تھا۔ وہ بھائی جان کے کلاس فیلو ہیں ۔اسٹاپ پر اترے تو ریلوے پھاٹک بند تھا۔ صفدر بھائی کا گھر پھاٹک کے اس طرف ہے ۔ہم وہی کھڑے ہوگئے۔ دیکھا کہ پچاس پچپن سال کا ایک آدمی پھا ٹک کراس کرکےپٹریوں پر چلا آرہا ہے اور ساتھ ہی دیو ہیکل انجن بھی پٹریوں پر پوری رفتار سےآ رہا ہے۔ اس شخص کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا حالانکہ اتنے سارے لوگ اسے چیخ چیخ کر روک رہے تھے۔پھاٹک کے نام پر ایک سر یا ادھر اور ادھر لگا ہوا تھا۔ اور پھر پلک جھپکتے ہی بھائی جان اس شخص کو لیے دوسری طرف جا گرے۔ریل کے گزرنے تک تو سب کی سانسیں رکی رہیں جب گزر گئی تو دیکھا کہ بھائی جان اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے کھڑے ہیں ۔ایک لمحے کی بھی دیر ہوتی تو بہت برا ہوتا ۔ پھر میں بھی دوڑ کر ادھر پہنچا تو بھائی جان اس سے کہہ رہے تھے
" خدا کا شکر ہے کہ آپ خیریت سے ہیں ! آپ کو آوازیں کیوں نہٰں سنائی دے رہی تھیں ؟ آپ کہاں سے آ رہے ہیں ؟ کیا کرتے ہیں آ پ ؟ "
" بیٹا میں مستری کا کام کرتا ہوں ۔ کام کر کے گھر جا رہا تھا ۔آج اصل میں میرا آلہ سماعت نہیں مل رہا تھا تو میں ایسے ہی نکل آ یا کہ چلو ایک دن نہ لگا یا تو کوئبات نہٰں مگر معلوم نہ تھا کہ آج ہی یہ ہو جاے گا۔۔۔۔مجھے تو اس وقت ہوش آیا جب آپ مجھے لے کر جھٹکے سے یہاں آگرے۔۔۔"
" وہ بھائی جان کے ہاتھ چوم رہے تھے ۔ دعائیں دے رہے تھے اور آپ کے پوتے شر مائے شر مائے کہہ رہے تھے کہ کوئی بات نہیں انکل ! اللہ جب کسی کی جان بچا نا چاہتا ہے تو کوئی نہ کوئی وسیلہ پیدا کر دیتا ہے ۔
"ہاں بیٹا ! مگر جو بندوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا شکر کیسے ادا کرے گا؟ بس بیٹا میری دعائیں اور شکریہ تمہارے ساتھ رہے گا۔ "
۔۔۔" جی ٹھیک ہے ! پھر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر آ گئے۔
'' مگر وہ اب ہے کہاں ؟ چائے پر بھی نہیں آ یا ! "
" وہ اپنے کمرے میں شر مندہ بیٹھے ہیں ! ۔۔"
" ارے میرا ہیرا بچہ ! " دادی جان نے بہت پیار سے کہا
Asiya Abdullah
About the Author: Asiya Abdullah Read More Articles by Asiya Abdullah: 23 Articles with 20424 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.