رمضان المبارک کا احترام

کہنے والے ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ بجٹ الفاظ کے گھورکھ دندوں کے سوا کچھ نہیں یعنی بجٹ میں الفاظ کے ہیر پھیر کے علاوہ بجٹ کا کوئی بھی نقطہ قابل سماع ،قابل التفات اورقابل عمل ہے نہیں ہوتا۔ بجٹ پر زمین اور آسمان کے قلادے ملانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب اُنکی حکومت بھی ملک پاکستان کے غیورعوام پر راج کر رہی ہوتی ہے تو انکا بجٹ بھی غیرپارلیمانی ، غیر منصفانہ اور عوام دشمن بجٹ ہوتا ہے ۔ یقینا اس بار کا بجٹ بھی مہنگائی کے طوفان تلے دبی عوام کے لیے خوشحالی کا پیغام نہیں لایا کہ جس سے یہ اخذ کیا جاسکے کہ حکومت ہذا کا بجٹ پچھلے حکومتی ادوار کے مقابلے میں کسی قدر عوام دوست بجٹ ہے ۔ ایک بات یہاں انتہائی ضروری ہے کہ بیچارہ مجبور اور مفلوک الحال شخص ڈیزل، جہاز کا ایندھن، فیکٹری، صنعت اور گاڑی کی قیمتوں میں ٹیکس وغیر ہ سے اسے کوئی سروکار نہیں ہوتی وہ توبس دو وقت کی حلال دال حلال عزت سے مل جانے اور اس پر قناعت کرنے کو ہی خدا کا شکر سمجھتا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر یہ سمجھ لینا ہی کافی ہے کہ بجٹ میں روز مرہ اشیاء کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی۔ اسی لیے ہمیشہ کی طرح اس بجٹ میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس بجٹ سے غریب ، غریب سے غریب اور امیر ، امیر سے امیر تر ہوگا ۔ اس بجٹ میں کسانوں، مزدورں کے لیے کچھ خاص نہ کیا گیا ، ایسے ہی تعلیمی شعبہ کوہمیشہ کیطرح اس بار بھی یتیم ہی رکھا گیا ۔ایک طرف حکومت نے بجٹ پیش کر کے 60% سے زیادہ عوام الناس جو غربت کے لیکر (Powerty line) سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ، پر مہنگائی کا ایسا طوفان کھڑا کر دیا جس سے کبھی کبھی یہ احساس ہونے لگتا کہ ایسا بجٹ یا اس سے پہلے پیش کیے گئے بجٹ کسی غیر کی پشت پناہی سے تیار ہوتے ہیں یا کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت اس سے عوام کو غربت کی دلدل میں پھنسا کر ہمیشہ کے لیے غلام رکھنا مقصود ہے۔ اسکی قومی اور بین الاقوامی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ایک طرف سندھ کے وزیر اعلیٰ اور بھٹو ازم کی مثالیں ہیں کہ سندھ کے باسیوں کو مزارعے اور غلام بنا کر رکھو کہ کبھی اپنے حقوق کے لیے کھڑے نہ ہو سکیں ، یاد رہے یہ صرف پاکستان کے ایک ایک علاقے کے معاشرے کی مثال ہے باقی معاشروں میں بھی الا ماشاء اﷲ یہ حالات ہیں۔ اور اسکی بین الاقوامی مثال یہ ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے کشکولول کے گرد گھومتا رہا ہے کوئی بھی حکومت آئی کشکول ضرور تھامااور پاکستانی عوام کو قرضوں کے بوجھ تلے ڈال خود اپنے محلات میں شفٹ ہوگئی۔

انفرادی اور اجتماعی طور پر ہم پراگندے مزاج ہو چکے ہیں جسکا جہاں بس چلتا ہے داؤ لگاتا ہے ، پیسہ کماتا ہے اور جہنم کی آگ جمع کرتا ہے۔رمضان کی آمد کیساتھ ہی اﷲ اور رسول کے فرامین کے دشمنوں نے کساد بازار ی ، ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی مہنگائی کا بازار گرم کر رکھا ہے اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا اور کھسوٹنا شروع کر دیا ہے جو رمضان بھر میں جاری رہے گا ۔حالانکہ رمضان المبارک وہ ماہ مبارکہ ہے جس میں قرآن مجید فرقان حمید کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتارا گیا ۔ یہ وہ بابرکت ماہ ہے جسمیں ہمیں دن بھر خدا ئے وحدہ بزرگ و برتر کی اطاعت گزاری میں روزہ ، نماز،باقی عبادات اور رات میں عظیم بدنی عبادت نما ز تراویح کا سکون نصیب ہوتا ہے۔ اور اس ماہ مقدسہ کی شان یہ ہے کہ اس میں لیلتہ القدر کی رات بھی آتی ہے ، جو ہزارون راتوں سے افضل ہے ،جسمیں اﷲ تعالی آسمان دنیا پر آتے ہیں اور سائل کا انتظار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی ہے مانگے والا جسے میں عطا کروں؟اﷲ جل جلالہ ہمیں اس ماہ مقدسہ میں اپنے گناہوں ، غلطیوں ، لغزشوں اور کوتاہیوں پر گڑگڑا کر معافی مانگے کی توفیق دے اور ہماری عبادات کواپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں اس رمضان المبارک کا احترام اور عزت کرنے ،حقوق اﷲ اور حقوق العبادکی بجا آوری کا ظر ف عطا کرے ۔عوام کیساتھ ساتھ حکمران بھی رمضان المبارک کی ان بابرکت ساعات میں اپنے گناہوں سے توبہ کریں۔آج کے اس کالم کا مقصد قارئین کی توجہ ان فلاحی اداروں کی طرف مبذول کرانا ہے جو فلاحی کا موں بالخصوص یتیم بچوں کے لیے بہترین کام کر رہے ہیں ۔حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ " میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اس طر ح(قریب) ہونگے ۔" (آپ صلعم نے اپنی شہادت کی انگلی اور بیچ والی انگلی ملا کر اشارہ کر کے فرمایا)۔ ان میں سر فہرست الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان ہے جو نہ صرف یتیم بچوں اور انکے خاندانوں کو ماہانہ بنیادوں پرتعلیم کا خرچہ اور دیگر اخراجات ادا کرتی ہے بلکہ ان بچوں کے لئے ملک بھر 7 یتیم بچوں کے لیے آغوش ہومز بنا کر انکی تعلیم، خوراک، رہائش، تربیت اورپہنے کا بندوبست بھی کرتی ہے اسی طرح الخدمت کے 4آغوش ہومز زیر تکمیل ہیں اس منصوبے کے تحت الخدمت ملک بھر سے 7,000 سے زائد بچوں کی کفالت کر رہی ہے جوکہ ایک صد لائق تحسین ہے ۔ الخدمت اس وقت ملک بھر میں اپنے سات میگا پراجیکٹس کو لے کر چل رہی ہے جس سے لاکھوں مستحق افرادفائدہ اٹھاتے ہیں ، ان منصوبوں میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ ، پانی، آرفن کیئر پروگرام، صحت عامہ، تعلیم، قرض حسنہ اور کمیونٹی سروسز شامل ہیں ۔ اسی طرح ہیلپنگ ہینڈز فار ریلیف اینڈ ڈیو یلپمنٹ ملک بھر سے 6200 بچے اسپانسر کر رہی ہے جو کہ ایک عمدہ کام ہے ۔ اسی طرح انجمن فیض الاسلام ،سویٹ ہومز بھی یتیم بچوں کے لیے حوصلہ افزاء کا م کر رہے ہیں۔

کچھ تجاویز جو رمضان المبارک میں عام آدمی کے چہرے پر خوشی لاسکتے ہیں۔(1) تعلیمی ضروریات پر سے ٹیکس ختم کیا جائے (2 ) اینٹ کے بھٹوں پر کام کرنے والے بچے حکومت کی وقت ذمہ داری لے اور انکے لیے تعلیمی مراکز قائم کرے جو کہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔(3) رمضان میں سستے بازاروں کو باقاعدہ چیک کیا جائے کہ کہیں وہ گراں فروشی سے کام تو نہیں لے رہے۔ (4) مختلف منڈیوں اور بازاروں کی ریٹ لسٹیں چیک کراکر جعلی منافع خوروں کو کڑی سزا دی جائے۔ (5)ذخیر ہ اندوزوں کو بے بقاب کیا جائے کہ جن کے بارے میں اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ " بربادی اور ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنا مال جمع کر کر کے اسے گنتے رہتے ہیں اور کیا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ مال ہمیشہ انکے پاس رہے گا ، عنقریب انہیں حطمہ یعنی جہنم کی وادی میں دالا جائے گا " ۔ (6) روزمرہ اشیاء Basic Commodities کو عوام کی دسترس میں کیا جائے۔اسٹریٹ چلڈرن بچوں کو اپنا بلاول، آصفہ، بختاور، حسین، حسن، حمزہ اور اپنا مونس وغیرہ ہی سمجھا جائے جس سے نہ صرف معاشرے سے احساس محرومی کا باب بند ہوگا بلکہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنے گااور امیر اور غریب میں ایک مساویانہ تقسیم کا عمل شفاف بنیادوں پر شروع ہو گا جو کہ اگر نافذ العمل ہو جائے تو حضرت عمراور عمر بن عبد العزیز والا دور آجائے لیکن شاید بد قسمتی سے ہمارے معتدل، روشن خیال اور لبرل معاشرے کو (معاذاﷲ) ضرورت نہیں ہے۔ خدا کرے اس رمضان مقدسہ میں ہم ان بے سہارااور یتیم بچوں کے لیے کچھ کر سکیں۔
Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 100710 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.