ون ویلنگ اور نوجوان!

عید کی خوشی نوجوانوں نے یوں منائی کہ وہ موٹر سائیکل لے کر گھرو ں سے نکل کھڑے ہوئے، سڑکوں پر انہوں نے دوڑیں لگائیں، راہ گیر ہراساں ہوئے، سواریوں والے پریشان ہوئے اور اِدھر اُدھر ہنگامہ آرائی رہی۔ کچھ سڑکوں پر پیدل لوگ کم ہی ہوتے ہیں، یہ سڑکیں شوقین موٹر سائکل سواروں کے لئے بہترین شاہراہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان سڑکوں سے گزرگاہ کا کام تو لیا ہی جاتا ہے، مگر خوشی منانے والے نوجوان یہاں موٹر سائکل کے کرتب بھی دکھاتے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر ایسے سواروں کے مختلف پوز دکھائے جاتے ہیں، ایک نوجوان موٹر سائکل پر لیٹ کراپنے موبائل کے ذریعے کسی کوایس ایم ایس کر رہے ہیں، تبصرہ کرنے والے نے بھی خوب کہا کہ یہ صاحب حضرت عزرائیل کو ایس ایم ایس کر رہے ہیں کہ جلد تشریف لے آئیے۔ کوئی نوجوان موٹر سائکل چلا رہے ہیں، مگر ان کا رخ پچھلی جانب ہے، کوئی چلتے موٹر سائکل پر کھڑے ہیں، یہ سارے کرتب دکھاتے ہوئے ٹریفک بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے، لطف اندوز ہوتی ہے، اور دل ہی دل میں کسی بڑے حادثے کا خوف بھی طاری رہتا ہے۔اس کرتب کاری میں ایک نہایت خطرناک کھیل ’ون ویلنگ ‘نے بھی اپنی جگہ بنا رکھی ہے۔

ان کرتبوں اور ون ویل کے کھیل میں عید کے موقع پر کچھ جانوں کی قربانی بھی دے دی جاتی ہے کیونکہ کسی کو زندگی دینے کے لئے کچھ قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نوجوان اپنے خون سے کہانیاں لکھتے اور ان میں رنگ بھرتے ہیں۔ خون ہمیشہ رنگ لاتا ہے، ہر سال ون ویلنگ میں جان دینے والوں کا خون بھی رائیگاں نہیں جاتا، یعنی اس کھیل کی کشش ہی کچھ اتنی ہے کہ ہر سال بہت سے لوگوں کے مر جانے کے باوجود اگلے برس بہت سے نوجوان جان دینے کے لئے تیاری کرکے میدان میں اتر آتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ان لوگوں نے زندگی ہارنے کا پروگرام عید کی سرگرمیوں میں شامل کر رکھا ہوتا ہے۔ عید خوشی کا موقع ہے، یہ نوجوان بظاہر اپنی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے باہر نکلتے ہیں، مگر زندگی ہار جاتے ہیں، ان کی اپنے مقصد کے لئے لگن کا اندازہ لگائیے، کہ وہ جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ گھر سے تو نئے کپڑے پہن کر نکلے تھے، طرح طرح کے پکوان کھانے کی تیاری تھی، خوب ہلّا گُلا کرنے کا منصوبہ تھا، مل جل کر سب کچھ ہوا، کھایا پیا، ہنگامہ کیا، شرارتیں کیں اور آخر میں ون ویلنگ کا دور ہوا، جواِس راہ میں کام آگیا وہ کامیاب ہوا اور جو کام نہ آیا وہ ناکام لوٹ آیا، گویا اب وہ اگلی عید پر قسمت آزمائے گا، یا پھر یومِ آزادی وغیرہ کے موقع پر۔ یہ نہیں کہ ون ویلنگ کرنے والے نوجوان اس انجام سے بے خبر ہوتے ہیں، بلکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ جہاں ان کے پیش رو چلے گئے، اس راہ پر چلنے سے وہ بھی یقینا اسی منزل پر پہنچیں گے، مگر جب لگن ہی ’منزل ‘ پر پہنچنے کی ہے، تو پھر موت سے فرار کس طرح ممکن ہے۔

ویلنگ کرنے والے نوجوان اپنے بچھڑنے والے ساتھیوں اور ان کے والدین کے حالات سے خوب واقف ہوتے ہیں، ان کی بے بسی اور آہ و بکا کا بھی انہیں خوب اندازہ ہوتا ہے، گھر خالی ہو جاتا ہے، دوست سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں، زخموں سے چور مردہ جسم ہو یا نوجوان ویلر کے والدین کے بین، نوجوانوں پر ان چیزوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ، وہ اپنے ایک نوجوان دوست کو منوں مٹی تلے دفن کرکے پھر سے آستین چڑھا کر میدان میں آجاتے ہیں۔موت کے کنویں میں جانے سے نوجوانوں کو کون روکے گا؟ اس میں سب سے پہلا اور اہم فرض والدین کا ہے، جو اپنے بچوں کو موٹر سائکل دے کر خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے لگتے ہیں، انہیں کوئی خبر اور آگاہی نہیں ہوتی کہ ان کا بچہ کس ماحول میں وقت گزار رہا ہے، کتنی دیر بعد گھر لوٹ رہا ہے؟ اگر والدین اپنے بچوں کے دوستوں پر نگاہ رکھیں اور بچے کو اعتماد میں لے کر محتاط رہنے کا درس دیں تو اس خونی کھیل میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ دوسرا فرض پولیس کا ہے، وہ ایسی شاہراہوں پر خصوصی ناکوں یا خفیہ کیمروں کا بندوبست کرے، تاکہ کوئی اپنے اور دوسروں کے لئے کسی اہم سڑک کو موت کاکنواں اور خطرے کی علامت نہ بننے دے۔ یہاں مجبوری یہ ہے کہ پولیس روکتی بھی ہے مگر یہ فوراً فون ملا کر اپنے کسی بڑے سے بات کرواتے اور رہائی پالیتے ہیں۔ گرفتاری ان کے لئے مذاق سے کم نہیں، گزشتہ دنوں عید کے موقع پر ایسے ہی گرفتار شدگان نے پولیس وین میں بیٹھ کر سیلفیاں بنائیں، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جاتے ہی وہ رہا ہو جائیں گے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 434716 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.