قیام پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں

۱۴ اگست ۱۹۴۷ء ۲۷ رمضان المبارک کو اﷲ رب العزت نے مسلمانوں کو ایک الگ ریاست پاکستان کی صورت میں عنایت فرمائی ۔جسکا آغاز برصغیر پاک و ہند میں ہندؤں کے متعصبانہ رویے سے شروع ہوا اور مسلمانوں نے اپنی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد شروع کی ،۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو قراد داد پاکستان منظور کی اور پھر برصغیر کے مسلمانوں کا الگ ملک کا قیام ایک جنون بن گیا ۔جس کی تکمیل دس لاکھ سے زائد شہیدوں کے لہو سے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو ہوئی ۔

قیام ِ پاکستان اﷲ کا بہت بڑا احسان ہے امت مسلمہ پر اﷲ تعالیٰ نے اسی کی طرف اشارہ کیا اور ساتھ جھنجوڑا بھی کہ اگر تم نے قدر نہ کی تو عذاب ایسا آئے گا کہ وہ پھر صرف ظالم پر ہی نہیں بلکہ ا س کے ارد گرد والوں کو بھی لپیٹ مین لے لے گا ۔ارشاد ہوتا ہے ۔
’’ اور اُس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کیساتھ اُنہیں لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں گنہگار ہیں اور جان رکھو کہ اﷲ سخت عذاب دینے والا ہے اور (اُس وقت کو) یاد کرو جب تم زمین (مکہ) میں قلیل اور ضعیف سمجھے جاتے تھے اور ڈرتے رہتے تھے کہ لوگ تمہیں اُڑا (نہ) لے جائیں (یعنی بے جان و مال نہ کر دیں) تو اُس نے تمہیں جگہ دی اور اپنی مدد سے تمہیں تقویت بخشی اور پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں تاکہ (ا ُسکا) شکر کرو ۔‘‘ (الانفال :۲۵،۲۶)

پاکستان ایسا ملک اﷲ نے ہمیں دیا ہے کہ جس میں ہر طرح کی نعمتیں دنیا کے مقابلہ میں سب سے زیادہ عمدہ ملک ہے ۔

پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جس میں چاروں موسم پائے جاتے ہیں ،حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر نے بتایا کہ پاکستان میں تھر کوئلے کے ۱۷۵ ارب ٹن کے ذخائر موجود ہیں جو کہ ۶۱۸ارب بیرل خام تیل کے برابر ہے سعودی عرب کے تیل کے ذخائز ۲۶۰ ارب بیرل ہیں گویا پاکستان کے ذخائز سعود ی عرب سے دوگناسے بھی زائد ہے ۔اسی طرح کینڈا کے ۱۷۹،ایران کے ۱۳۹،اور عراق کے ۱۱۵ارب بیرل کے ذخائز ہیں جو کہ ۶۹۰ارب بیرل بنتے ہیں یعنی پاکستان کے ذخائر کے تقریبا برابر ۔پاکستان میں کوئلے کے ذخائز ۱۷۵ملین جبکہ دنیا میں کوئلے کی عام قیمت ۷۰ ڈالر ٹن ہے اس لحاظ سے صرف کوئلے کی فروخت سے ہم ۱۳ ٹریلین ڈالر حاصل کر سکتے ہیں اور یہ رقم مساوی ہے اس رقم کے جو امریکہ نے پچھلے ۲۰۰ سالوں میں بینکوں سے بطور قرض لی ہے ۔

پنجاب کے کئی علاقوں میں لوہے کے ۱۴۰ ارب روپے کے ذخائر ہیں ۔پنجاب میں ۵۰ سے زائد شوگر ملوں کو صحیح چینلائز کر دیا جائے تو بڑی مقدار میں بجلی پیدا کی جا سکتی ہے ۔

آب و ہوا کے اعتبار سے ہر موسم یعنی سردی ،گرمی اور خزاں بہار یہاں موجود ہیں ۔ان موسموں کی بدولت الحمد ﷲ دنیا کی تقریبا ہرفصل اور پھل یہاں پایا جاتا ہے ۔دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان میں موجود ہے ۔

پاکستان دنیا کی بہترین آٹھویں ایٹمی طاقت ہے اور اس کی فوج دنیا کی ساتویں بڑی بہترین فوج ہے ۔دنیا کے ۲۰۰ ممالک میں پاکستان معاشی طور پر دنیا کی ۲۴ طاقت ہے ۔کپاس کی پیداوار میں پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے ۔دودھ کی پیدا وار میں ہم دنیا میں تیسرے نمبر پر ہیں ۔پاکستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کا ۳۶واں بڑا ملک ہے ۔فنی عمارت رکھنے والی آبادی کے لحاظ سے اسلامی دنیا میں ترکی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔گنا پیدا کرنے میں ہمارا دنیا میں ۵واں نمبر ہے ۔

غور کیجئے !اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اس قدر عظیم ملک عنایت فرمایامگر ہم اﷲ کی نا شکری ،اپنی کرپشن اور قیام پاکستان کے مقاصد کو بھول جانے کی وجہ سے آج دنیا کی ذلیل قوم نظر آرہے ہیں اور چوری کے لیے تماشا بنے ہوئے ہیں ۔

پاکستان ہم نے کیسے حاصل کیا ․․؟……کیا ہم بھول گئے کہ ہمارے بڑوں نے قیام پاکستان کے لیے کہ یہاں اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکا نظام آزادانہ ہو ،اس کے لیے کتنی محنتیں اور قربانیاں دی ہیں۔بھول گئے ہیں ۔ہندوستان سے مہاجر بن کر آئے ہوئے پاکستانیوں کی جن میں دس لاکھ شہیدوں کا شامل ہے ۔چند ایک مثالیں ملاحظہ کریں :
انگریز مؤرخ ڈاکٹر ٹامس اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے کہ ’’۱۸۶۴ء سے ۱۸۶۷ء تک کے ۳ سال ہندوستان کی تاریخ کے بڑے المناک سال تھے ،ان ۳ سالوں میں چودہ ہزار علماء دین کو انگریزوں نے تختہ ٔدار پر لٹکایا ۔ڈاکٹر ٹامس لکھتے ہیں کہ دلی کی چاندنی چوک سے پشاور تک کوئی درخت ایسا نہ تھا ، جس پر علماء کی گردنیں لٹکتی ہوئی نظر نہ آتی تھیں ۔علماء کو خنزیر کی کھالوں میں بند کر کے جلتے ہوئے تنور میں ڈالا جاتا ،لاہور کی شاہی مسجد کے صحن میں پھانسی کا پھندا تیار کیا گیا اور انگریزوں نے ایک ایک دن میں ۸۰ ،۸۰ علماء کو پھانسی پر لٹکایا ۔‘‘

اگر اﷲ کسی قوم کو الگ آزادانہ اسلامی ریاست عنایت کر دے تو اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ اﷲ کے نظام کو چلانے کے لیے ساری قوتیں‘ طاقتیں صرف کر دیں ۔اور اﷲ اور اسکے رسول اﷲ کی اطاعت کو بجا لائے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور بُرے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے ۔‘‘ [الحج:۴۱]
میرا وطن پاکستان …… وطن کی محبت انسان کا ایک فطری جذبہ ہے۔ صحابہ کرام مہاجرین y اگرچہ برضا و رغبت اﷲ و رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کی خاطر اپنے وطن، اپنے گھر بار سب کو چھوڑ کر مدینہ آگئے تھے لیکن شروع شروع میں ان کو وطن کی یاد ے خوب ستایا۔ مدینہ میں آتے ہی حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بخار میں مبتلا ہو گئے جب کچھ صحت یابی ہوئی تو یہ اشعار پڑھے:
أَلَا لَیْسَتَ شِعْرِیْ ھَلْ أَبِیْتَنَّ لَیْلَۃً
کاش! پھر مکہ کی وادی میں رہوں میں ایک رات
بِوَادٍ وَ حَوْلِیْ إِذْخِرٌ وَ جَلِیْلُ
ایسی وادی میں کہ جہاں میرے ارد گرد جلیل واذخر ہوں
وَ ھَلْ أَرِدْنَ یَوْمًا مِیَاہَ مَجَنَّۃٍ
اور کاش مجنہ کے چشموں پر حاضری دوں
وَ ھَلْ یَبْدُوْنَ لِیْ شَامَۃٌ وَ طَفِیْلُ
کاش! پھر دیکھوں میں شامہ کاش! پھر دیکھوں طفیل
یہ حالت زار دیکھ کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کہا:

اے میرے اﷲ! شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور اُمیہ بن خلف مردودوں پر لعنت فرما۔ انہوں نے ہمیں اپنے وطن سے اس وبا کی سر زمین کی طرف نکالا۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی محبت اور وہاں سے وباء و بیماری کے رفع کی دعا کی۔
’’اے اﷲ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کر دے جس طرح مکہ کی محبت ہے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اے اﷲ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور مدینہ کی آب و ہوا ہمارے لیے صحت خیز کردے یہاں تک کے بخار کو حجفہ میں بھیج دے‘‘ صحیح بخاری (۱۸۸۹) (۵۶۵۴)

اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور مدینہ نہ صرف آب و ہوا بلکہ ہر لحاظ سے ایک جنت کا نمونہ بن گیا۔ اور اﷲ نے اسے ہر قسم کی برکتوں سے نوازا اور سب سے بڑا شرف جو کائنات عالم میں اسے حاصل ہے وہ یہ کہ یہاں سرکارِ دو عالم رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمآرام فرما رہے ہیں۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنے وطن کے متعلق کہا کرتے تھے سیدناعبد اﷲ بن عباسرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے لیے فرمایا:
’’کس قدر تو پاکیزہ شہر اور مجھے محبوب ہے اور اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی ‘میں تیرے سوا کہیں سکونت اختیار نہ کرتا‘‘ ترمذی (۳۹۲۶)صحیح

عبد اﷲ بن عدی بن حمراء کہتے ہیں میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ اپنی اونٹنی پر حزورۃ کے مقام پر کھڑے تھے آپ فرما رہے تھے:’’اﷲ کی قسم!اﷲ کی زمین میں سب سے بہتر ین اور اﷲ کی زمین میں مجھے سب سے زیادہ پیارا ہے‘اگر مجھے تیرے اندر سے نکالا نہ جاتاتو میں کبھی نہ نکلتا‘‘ ترمذی (۳۹۲۵)

مالک بن حویرث رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
’’میں اپنی قوم کے چند لوگوں کے ساتھ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکے پاس آیا،ہم آپ کے پاس بیس راتیں ٹھہرے،آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمبہت رحم کرنے والے،نرم دل تھے،جب آپ نے ہمارا اپنے گھر والوں کے متعلق شوق محسوس کیا تو فرمایا:جاؤ اپنے اہل وعیال مین چلے جاؤ اور انہیں دین،نماز سیکھاؤ،اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور جو عمر رسیدہ ہو وہ امامت کرائے‘‘ صحیح بخاری (۶۲۸)

وطن چھوڑنے پر اﷲ کی مددضرور نصیب ہوتی ہے۔
’’ اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو اﷲ اُن کا مدد گار ہے (وہ وقت تمہیں یاد ہو گا) جب اُن کو کافروں نے گھروں سے نکال دیا (اس وقت) دو (ہی شخص تھے جن) میں (ایک ابوبکر تھے) دوسرے (خود رسول اﷲ) جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو اﷲ ہمارے ساتھ ہے، تو اﷲ نے اُن پر تسکین نازل فرمائی اور اُن کو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کو پست کر دیا اور بات تو اﷲ ہی کی بلند ہے اور اﷲ زبردست (اور) حکمت والا ہے ، تم ہلکے ہویا بوجھل (یعنی مال و اسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت، گھروں سے) نکل آؤ اور اﷲ کے رستے میں مال اور جان سے لڑو یہی تمہارے حق میں اچھاہے بشرطیکہ سمجھو‘‘ [التوبۃ:۴۱۔۴۰]
’’(اور) ان مفلسانِ تارک الوطن کے لئے بھی جو اپنے گھروں اور مالوں سے خارج (اور جدا) کر دئیے گئے ہیں (اور) اﷲ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار اور اﷲ اور اس کے پیغمبر کے مددگار ہیں یہی لوگ سچے (ایماندار) ہیں اور (ان لوگوں کے لئے بھی) جومہاجرین سے پہلے (ہجرت کے) گھر (یعنی مدینے) میں مقیم اور ایمان میں (مستقل) رہے (اور) جو لوگ ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو ملا اس سے اپنے دل میں کچھ خواہش (اور) خلش نہیں پاتے اور ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو اور جو شخص حرصِ نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں‘‘ [الحشر:۸۔۹]

آزادی کا مفہوم دین اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے آزاد ملک کا پاسبی آزاد ہے نہ کہ جشنِ آزادی منانے والا ہر گناہ کے لیے آزاد ہے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔نہیں نہیں آج ہم آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی غلامی کا شکار ہیں ۔ہماری ثقافت و تہذیب ،آئین و قانون ،عدلیہ اور اقضیہ سب انگریز کی غلامی ک بعد بھی ۔۔۔کے غلام ہیں ہمارا داہنا بازو (مشرقی پاکستان )کاٹ دیا گیا ۔

حکمران کافروں کی چاپلوسی کرنے پر مجبور ۔۔کیا یہ آزادی ہے اور یہ جشن کس چیز کا جشن ہے ۔
آج ہم ۱۴ اگست جشن آزادی کے نام پر سرکاری غیر سرکاری عمارتوں کو سبز ہلالی جھنڈیوں سے سجا کر ،لال ،پیلی بتیوں ،مانوس کی زیبائش کر کے ،شراب و کباب کی محافل سجا کر ملک و ملت کے ازلی دشمن بھارت کی فحش بے ہودہ فلموں کو دیکھ کر ،نائٹ کلبوں میں عریاں اور تھرکتے جسموں کی نمائش کروا کر ،موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر اور آلودگی پھیلاتی گاڑیوں کے پریشر ہارن بجا کر مناتے ہیں۔اور ہم سمجھتے ہیں کہ آج اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ملک ِ پاکستان دیا تھا اس کی خوشی منا رہے ہیں ۔لاکھوں شہیدوں کی روحوں کو ایصال ِ ثواب پہنچا رہے ہیں ۔ٍ آئیے محمد کریمصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکو جب اﷲ خوشی دیتا تھا ۔تو ان کی حالت کیا ہوتی تھی:
’’جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی خوشی والا معاملہ یا خوشخبری ملتی تو اﷲ کے حضور سجدہ میں گر پڑتے(اور شکرانے کا سجدہ کرتے)‘‘ مسند احمد (۲۷۷۴)

حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کی طرف روانہ کیا وہاں جاکر حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اہل یمن کے قبول اسلام کی خوشخبری آپصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو بطور خط لکھ کر سنائی تو جب:
’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے وہ خط پڑھا تو اس پر اﷲ کا شکر ادا کرنے کیلئے سجدے میں گر گئے‘‘
البیھقی(۲؍۳۶۹)صحیح

حضرت سعد بن ابی وقاصرضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’میں مومنوں کے بارے میں اﷲ کے فیصلے پر تعجب زدہ ہوا کہ اگر مومن کو بھلائی(خوشی وخیر)پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کی حمد اور شکر کرتا ہے اور اگر مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے رب کی حمد اور صبر کرتا ہے (پھر فرمایا)مومن کو ہر چیز کے بدلے اجر دیا جاتا ہے حتی کہ اپنی بیوی کے منہ میں آجانے والے لقمہ کا بھی‘‘ مسند احمد(۳؍۴۹)(۱۴۸۷) صحیح

صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
’’اگر مومن کو خوشی پہنچتی ہے تو وہ اﷲ کا شکر کرتا ہے اور یہ اسکے حق میں بہتر ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی اسکے حق میں بہتر ہے‘‘ صحیح مسلم (۷۵۰۰)(۲۹۹۹)
اﷲ تعالیٰ نے بھی قرآن میں یہی حکم سنایا ہے کہ ہر نعمت کا شکر ادا کرو نا قدری نہ کرو۔ ’’پس مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو میری (نعمتوں کی)نا شکری نہ کرو‘‘ البقرۃ(۲؍۱۵۲)
’’اﷲ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اگر تم اسکی عبادت کرتے ہو ‘‘ سورۃ النحل( ؍۱۱۴)
خوشی کا سبب بننے والے کا بھی شکریہ ادا کرو‘حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اﷲ کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا ‘‘ ابی داؤد (۴۸۱۱) صحیح
ظفر آدمی نہ اس کو جانئیے گا
ہو وہ کتنا بھی فہم و ذکاء
جسے عیش میں یا دخدا نہ رہا
جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
Azeem Hasalpuri
About the Author: Azeem Hasalpuri Read More Articles by Azeem Hasalpuri: 29 Articles with 41276 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.