اولاد کی تربیت و اصلاح میں عورت کا کردار

اﷲ تعالیٰ نے عورت کے ذمہ نسلوں کو سنوارنے اور ان کی تربیت و نگہ داشت کا کام سپرد کیا ہے جن پر قوموں کے مستقبل کا دارومدارہے
ﷲ تعالیٰ نے اس روئے بسیط پرہرنسل ونوع کی مخلوق کو پیدا فرمایا جس میں انسان کو سب میں معزز ومکرم بناکر تمام مخلوقات عالم پر شرف فضیلت بخشا۔لیکن کرہ ارض پربسنے والے تمام انسانوں میں ایک ایسی عظیم اورممتاز ہستی کو بھی شرف ورود عطا کیا جسے عورت کہاجاتا ہے۔یوں تو اس کے ا ز روئے مقام مختلف نام ہیں ،اگر کسی کی زوجیت میں ہوتوبیوی ،بچے کو جنم دے تو ماں اوربہن،بیٹی اور بہوں اس طرح کے دیگر ناموں سے بھی جانی جاتی ہے ۔عورت کا دنیا میں پہلا روپ ہی رحمت ہے جو بیٹی بن کر تمام خاندان والوں کے قلوب پر راج کرتی ہے تو وہی بہن بن کر بھائی کے رشتے کا حق نبھاتی ہے،اسی طرح بابل کے گھر سے رخصت ہوکر سسرال جاکراپنے رفیقہ حیات کے ساتھ دائمی زندگی کا عہد پورا کرتی ہے،گویا وہ اپنے ہرکردار و ادا سے گوناگوں روپ دھارن کرلیتی ہے ۔

یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ توالد و تناسل اور افزائش نسل کا لا متناہی سلسلے کا انحصار بھی عورت ہی پر مرکوز ہے۔دنیا میں عورت ہی ایک ایسی ہستی ہے جس کے وجود سے قوم و نسل کادوام وبقا ہے ۔عورت محض مردانہ جنسی اشتہا کی تسکین ہی نہیں بلکہ فروغ انسانیت کا عظیم سبب بھی ہے۔ اسی لئے ہر لحاظ سے عورت کا مقام و مرتبہ نہایت ہی بلند و بالا ہے اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔قرآن مجید میں کئی ایک آیا ت ایسی ہیں جو عورت کے مقام و مرتبے کو ایک دلکش،دل نشیں اور عمدہ انداز میں پیش کرتی ہیں جس سے اس کے بلند اخلاق و کردار،عظمت و تقدس اورنسوانی صفات و خصوصیات کا پورے طور پر ذکر ملتاہے۔ عورتوں میں بھی کئی ایک درجات ہیں جس میں سب سے عظیم درجہ ماں کا ہے،جسے بے شمار مشکل گزار گھاٹیوں ،مرحلوں اور منزلوں سے ہوکر گزرنا پڑتاہے، اسلام نے ان ہی تمام صعوبتوں ،مشکلوں اور تکلیفوں کو سامنے رکھتے ہوئے ماں کو سب سے زیادہ حسن سلوک،عزت واحترام اورتملق و قرابت داری کا مستحق وحقدارقرار دیا ہے جو اسلام کا عورت بالخصوص ماں پر ایک عظیم احسان ہے چنانچہ قرآن کریم میں وارد ہوا :’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ،اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا،اس کے حمل اٹھانے کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے‘‘۔(سورہ احقاف آیت ۱۵)اسی طرح حدیث مبارکہ میں مذکور ہے کہ :’’ایک شخص نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا! یا رسول اﷲ ﷺ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تیری ماں ۔اس نے پوچھا پھر کون؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تیری ماں۔اس نے پوچھا پھر کون؟نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تیرا باپ۔

اسی طرح حجۃ الوداع کا وہ تاریخی خطبہ بھی عورتوں کے مراتب و مناصب کوکافی اجاگر کرتاہے جس میں اﷲ کے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا:اے لوگو!تم نے ان کو اﷲ کے نام پر حاصل کیاہے ۔اس کے علاوہ مختلف مواقع پر مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک،ادئے حقوق،اور بہتر معاشرت کی ترغیب دلائی۔آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اولاد کے لئے ماں کی خدمت کا اجر حج و جہاد سے افضل ہے۔یہاں تک فرمایا کہ ان کے قدموں کے نیچے جنت ہیں۔مذکورہ آیات و احادیث کی روشنی میں یہ معلوم ہوگیا کہ عورت کو کتنا عظیم مقام و مرتبہ تفویض کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ کس طرح الفت و محبت ، اخلاص و مروت اورگھریلوو معاشرتی طور پر پیش آنے کی کی تلقین و تاکید کی گئی ہے۔

’’عورت‘‘ گھر ،خاندان اور معاشرے کی ایک عظیم انقلاب آفریں مصلحہ و مربیہ بھی کہلاتی ہے، عورت اپنی آغوش میں پرورش پانے والی اولاد کی عہد طفولیت سے لے کر آغاز شباب تک تربیت و اصلاح کی خودذمہ دارہوتی ہے،یہ تمام ذمہ داریاں صنف نازک کے ناتواں کندھوں پر ہوتی ہے،جو اسے بحسن و خوبی سرانجام دینا ہوتا ہے ،جس سے وہ کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتی، اسی لیے کہا گیا ہے کہ ماں کا تعلیم یافتہ ہونا انتہائی ضروری ہے ،کیوں کہ اولاد کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوا کرتی ہے ،اس لیے کہ ماں کی تربیت کا اولاد پر گہرا اثر پڑتا ہے اگر گھرمیں عورت تعلیم یافتہ ہوتو وہ گھر انسانیت کی یونیورسٹی ہواکرتا ہے ،لہذا دینی و عصری علوم سے وابستہ ہونا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے بچواور بچیوں کو دینی و دنیوی ماحول میں بہتر انداز میں پروان چڑھا سکے۔

یوں تواولاد کو تربیت دینے میں مردوزن دونوں کا یکساں طور پر حق ہے لیکن عورت کو خاص طور پر اس کی زمام قیادت سونپی گئی ہے ۔اس کی ایک وجہ عورت کی بچوں سے بے انتہا قربت ہے جس کی وجہ سے اس کے طرز گفتار،انداز فکر اور حرکات وسکنات بچوں کے نفسیات پر فوری طور پراثر انداز ہوتے ہیں۔اسی طرح خوش اخلاقی،کم سخنی،زود فہمی ،نظافت و پاکیزگی ،متانت و سنجیدگی اور شکر و گزاری جیسے محاسن و اوصاف اگر عورت میں باہم جمع ہوں تو و ہ تمام خوبیاں اولاد کی تربیت پر گہرے اثرات و نقوش چھوڑتی ہیں جو بچے کوایک بہتر ماحول میں تبدیل کردینے میں کافی مؤثر ثابت ہوتی ہیں ۔عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ بچوں کی تربیت،نگہ داشت اور پرورش کرنے میں خواتین اسلام کے احوال و آثار کو اپنائے ۔ ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرے ،اپنے بچوں اور بچیوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مثالی رول ادا کرے۔اولاد کی تربیت و نگہ داشت کے لئے فرامین خدا و ارشادات رسول ﷺ رہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں جن پر عمل کرکے اولاد کو اسلامی اصول و قوانین،شرعی حدود و قیود اور اس کے قدیم و متوارث اقداروروایات کے سانچے میں ڈھال کر انہیں اسلاف و اکابر کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے جو ان کی بہتر دینی، تہذیبی اور معاشرتی زندگی میں ایک انقلاب و تبدیلی کا سبب بن سکتاہے۔ عورت کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دنیاوی لہو و لعب ،ناچ گانے،فضول لغویات،بری عادات اورمنشیات جیسی دیگر برائیوں سے اجتناب کی ترغیب دلائے ،انہیں بغیر تعلیم و تربیت کے’’ شتر بے مہار‘‘کی طرح نہ چھوڑے جوگھر،خاندان اور سماج و معاشرے کے لئے فساد و بگاڑ اکاسبب بنے جیسا کہ آج کل یہ معاملہ عام طور پر دیکھنے کو ملتا ہے جو سر عام دین وشریعت کا مذاق اڑاتے ہوئے اور اپنی خاندانی شرافت و وجاہت کو نیلام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،جن کی شرارت و بے ہودگی سے سارے علاقے کے لوگ تنگ آجاتے ہیں جو معمولات زندگی اور بہتر نظام معاشرت کو متأثرکرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھتے ۔بعدازاں یہ مجرمانہ کاموں کے عادی بن جاتے ہیں جس کا خمیازہ انہیں جیل کی سلاخوں کی پیچھے جاکر بھکتنا پڑتا ہے۔ اسی لئے عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے فرض کو کما حقہ اداکرکے ان کی صحیح سمت رہنمائی کرے۔فرمایا گیا ہے عورت اگر اپنے اس حق کو ادا کرنے میں پہلو تہی سے کام لے گی تو وہ سخت گنہ گار ہوگی۔لہذا عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے اوپر عائد تمام ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کچھ بھی تکاسلی و تکاہلی سے کام نہ لے ،جو بچوں اور بچیوں کی زندگیاں تباہ وبرباد کردینے میں معاون و مددگار ثابت ہو ۔اپنے بچوں اور بچیوں کے جذبات و احساسات کا خیال رکھے ،بر وقت ان کی نفسیاتی تربیت اور قد م قدم پر ان کی نگہ داشت و نگرانی کرتی رہے، تعلیم کی اہمیت،ضرورت اور افادیت کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائے،ان کے ہرطرح کے افعال و اعمال ،عادات و اطواراورحرکات و سکنات پرکڑی نظر رکھے ،صوم و صلاۃ،درودوفاتحہ اور تلاوت قرآن کا عادی بنائے،انہیں چلنے پھرنے،کھانے پینے اوربولنے چالنے کے آداب و اصول سیکھائے، گاہے بگاہے عمدہ نصیحت و موعظت،بزرگوں کے اقوال و ارشادات اورسیرت نبوی ﷺکے اسوہ حسنہ کوبیان کرے،بڑوں کی تعظیم و تکریم،علماوائمہ کرام کا ادب و احترام اور والدین کی خدمت واطاعت کے جذبے سے سرشار کرے،یہی وقت ہے کہ ان کے اندر ان تمام خوبیوں کو راسخ کیا جاسکتا ہے کیوں کہ بچپن کا سیکھایا ہوا بڑھاپے تک دل پر نقش رہتا ہے۔جس کے بعد اولاد کی تربیت پر دینی و اصلاحی اثرات مرتب ہوگے جو آئندہ گھر،خاندان اور معاشرے کے لئے تعلیم و ہدایت،تربیت و نگہ داشت اور عروج و ارتقاکا صالح بنیادوں پرایک قصر عظیم تعمیر ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ نے عورت کے ذمہ نسلوں کو سنوارنے اور ان کی تربیت و نگہ داشت کا کام سپرد کیا ہے جن پر قوموں کے مستقبل کا انحصار ہے،لہذا عورت کو چاہئے کہ کسی بھی صورت اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آر نہ ہوبلکہ اپنے رب ذولجلال کا شکر و احسان بجالائے کہ اس نے عورت کو اس لائق سمجھا کہ اس کو اس امر عظیم کا مستحق قرار دیاجواس کے لئے بہت بڑا اعزازو انعام ہے۔ ٭٭٭
(مضمون نگاراردو،عربی اورانگریزی کے مترجم ہیں)
Mohsin Raza
About the Author: Mohsin Raza Read More Articles by Mohsin Raza: 16 Articles with 20794 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.