والدین کو اف تک نہ کہو

… "اور تیرے رَبّ نے حکم کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی "اُف" (ہوں) بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا، اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے اِنکساری کے ساتھ جھکے رہنا، اور یوں دُعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے۔"۔۔۔۔
وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدَھُمَا اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا۔ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا۔" (بنی اسرائیل:۲۳، ۲۴)
ترجمہ:… "اور تیرے رَبّ نے حکم کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی "اُف" (ہوں) بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا، اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے اِنکساری کے ساتھ جھکے رہنا، اور یوں دُعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے۔"۔۔۔۔

يہ بني اسرائيل کي آيت ہے جس ميں والدين عظمت بيان کي گئي ہے يہ وہ ہستي ہے جس کا ذکر قران ميں بھي آيا ہے مگر آج ہم کیا کرتے ہیں والدین کے ساتھ یہ بتانے کی ضرورت تو نہيں ليکن کچھ چيزيں ايسي ہوتي ہيں جو معاشرے کي بے حسي کو اجاگر کرتي ہيں ايک بچہ جس کو پال پوس کر بڑا کيا اور اتنا سمجھدار ہوگيا کہ اسکي ماں کا انتقال ہوا تو اس نے ماں کي ميت گھر کے باہر رکھ دي کہ ميري ماں کا مسلک الگ ہے اور جو ميرا مسلک ہے اسکے مطابق ميري ماں کافر ہے اسليئے اسکي گھر ميں جگہ نہيں اور نہ ہي اسکي نماز جنازہ ميں شريک ہوں گا بيٹے اور باپ نے يہ کہہ کر ميت گھر سے باہر رکھ دي يہ کاش کہ اسلام پر عمل کيا ہوتا اور يہ حديث پڑھي ہوتي ۔۔
"حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ہر گناہ کو اللہ تعالیٰ چاہیں تو معاف فرمادیں گے، مگر والدین کی نافرمانی کو معاف نہیں فرماتے بلکہ اس کی سزا مرنے سے پہلے دُنیا میں ملتی ہے۔

کيا تم نے يہ حديث بھي نہيں پڑھي کہ
(مشکوٰة ص:۴۲۱)
ترجمہ:… "حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: فرمانبردار اولاد اپنے والدین کی طرف نظرِ شفقت و محبت سے دیکھے تو ہر مرتبہ دیکھنے پر ایک حجِ مقبول کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔ عرض کیا گیا: خواہ سو مرتبہ دیکھے؟ فرمایا: ہاں! اللہ تعالیٰ اس سے بھی بڑے اور زیادہ پاکیزہ ہیں (ان کے لئے سو حج کا ثواب دینا کیا مشکل ہے)۔

پہلے بيٹا تھکا ہارا آتا تھا نہ بيوي کے پاس گيا نہ اپنے بچے کے پاس گيا اور دودھ کا پيالا ليکر والد/والدہ کے پاس کھڑا ہوگيا يہاں تک کہ صبح ہوگئي مگر اس نے اپني والدہ کو اسليئے نہيں جگايا کہ ماں آرام کررہي تھي
ايک اور حديث ہے کہ
(ابنِ ماجہ ص:۲۶۰)
"حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! والدین کا اولاد کے ذمے کیا حق ہے؟ فرمایا: وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں (یعنی ان کی خدمت کروگے تو جنت میں جاوٴگے، ان کی نافرمانی کروگے تو دوزخ خریدوگے)۔"

۔۔۔آج شادي کے ليئے کوئي ماں کو قتل کررہا ہے تو کوئي جائيداد کے ليئے والدين کو اولڈ ہوم ميں داخل کررہا ہے ۔۔ پھر کہتے ہيں کہ ہمارے دعائيں کيوں قبول نہيں ہوتي ۔۔؟ پريشاني کيوں آرہي ہے ؟ برکت کيوں نہيں ہورہي ؟ بچے نافرمان کيوں ہورہے ہيں ۔۔؟ اللہ ہميں والدين کا فرمانبردار بنادے آمين
M ADNAN ALAM
About the Author: M ADNAN ALAM Read More Articles by M ADNAN ALAM : 44 Articles with 52459 views i am an extrovert but my friends says i m introvert .. View More