سیلاب آزمائش ہے اپنی قومی طاقت ثابت کرنے کا

2005 میں کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں زلزلہ آیا تو گویا پورا ملک مدد کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا عوام نے مثالی جوش وجذبے کا مظاہرہ کیا۔ امدادی سامان کے ٹرکوں کے ٹرک راتوں رات متاثرہ علاقوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس زلزلے میں جو جانی نقصان ہوا وہ ملک کی تاریخ کا ایک غمگین باب ہے لیکن لوگوں کا امدادی جذبہ ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ سوات میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں سوات کی ایک بہت بڑی آبادی کو گھروں سے نکلنا پڑا تو لوگوں نے اپنے گھر اِن آئی ڈی پیز کے لیے خالی کر دیے اور ان کی ہر طرح سے مدد کی گئی۔

آج ایک بار پھر پاکستان پرمشکل وقت ہے اور تاریخ کے بدترین سیلاب نے پورے ملک کو زیر آب کر رکھا ہے، آبادیاں مٹ گئی ہیں، فصلیں تباہ ہوگئیں ہیں بے تحاشا مال مویشی ہلاک ہو گئے ہیں انسانی جانوں کے ضیاع کا مداوا تو کسی صورت ممکن نہیں اور پانی کی نظر ہونے والی جان کا زخم تو کبھی مندمل نہیں ہوتا کہ نہ کوئی جنازہ اٹھتا نہ کوئی مزار ہوتا۔

یہ ہیں وہ انتہائی حالات جس سے اس وقت یہ قوم گزری ہے اور گزر رہی ہے۔ لیکن ایک سوال جو بار بار اور بالکل درست کیا جا رہا ہے کہ مدد کا وہ جذبہ کیوں نظر نہیں آرہا جو اس سے پیشتر مصائب وآفات میں نظر آتا ہے۔ میں اس خیال کو بالکل درست تسلیم نہیں کرتی کیونکہ لوگ مدد کر رہے ہیں لیکن زیادہ تر انفرادی طور پر اور اس کی وجہ حکومت پر عدم اعتماد ہے اور اس عدم اعتماد نے یقیناً حکومت پر کرپشن کے بے تحاشا اور بجا الزامات کی وجہ سے جنم لیا ہے اور نہ صرف حکومت بلکہ لوگ اپنی امداد سیاسی جماعتوں کے حوالے کرنے سے بھی کترا رہے ہیں لیکن وہ ذاتی طور پر جتنا بھی کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔ یاد رکھیئے میں عوام کی بات کر رہی ہوں خواص کی نہیں کیونکہ ابھی تک کسی بھی سرمایہ دار یا بڑے آدمی کی طرف سے کسی مدد کی خبر سننے میں نہیں آئی ہاں یہ لوگ عوام سے مسلسل مدد کی اپیل ضرور کر رہے ہیں۔ ملکی سطح پر امدادی کاروائیوں میں کمی کی دوسری اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے آنے والے قیامت خیز لمحے ملک کے کچھ حصوں پر آئے جبکہ باقی ملک محفوظ ہونے کی وجہ سے اس پوزیشن میں رہا کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کر سکے لیکن اب کے تباہ کن سیلاب نے پورے ملک کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے شمال سے شروع ہو کر بے شمار دیہات، قصبوں اور شہروں کو روندتا ہوا یہ سیلاب چلا جا رہا ہے ہر علاقے کے لوگ اپنے علاقے کے لوگوں کی مدد تک محدود رہنے پر مجبور ہیں۔

اب ذرا بین الاقوامی امداد کا جائزہ لیتے ہیں تا حال کسی قابل ذکر مدد کا کسی ملک نے اعلان نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ملک نقد امداد دینے پر آمادہ نظر آرہا ہے اور وجہ وہی نظر آرہی ہے جس کی وجہ سے خود اپنے لوگ اپنی مدد حکومت کے حوالے کرنے سے کترا رہے ہیں۔2005 کے زلزلہ زدگان کے لیے ملنے والی امداد کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ اتنی ضرور تھی کہ تیس بتیس لاکھ متاثرین کو کافی حد تک بحال کر سکتی تھی لیکن اس رقم کا ایک بڑا حصہ متاثرین تک نہ پہنچ سکا اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس بار بین الاقوامی برادری اُس طرح فعال نظر نہیں آرہی۔2005کے زلزلے میں ان ملکوں نے بھی ہماری مدد کی تھی جن کے ساتھ بظاہر ہمارے بہت زیادہ یا خوشگوار تعلقات نہ تھے۔ کیوبا ہی کی مثال لیجئے جس نے باوجود اس کے کہ ہم امریکی اتحادی سمجھے جاتے ہیں اپنے 2260 ڈاکٹرز بمعہ دواؤں اور تمام ضروری اشیا کے پاکستان بھیجے۔ فن لینڈ نے ایک ہزار خیمے اور سویڈن نے 242ملین ڈالر کی امداد بھیجی دوست ممالک کی مدد اس کے علاوہ تھی۔ سعودی عرب کی طرف سے حسب معمول ایک بہت بڑی مدد آئی جو کہ امداد دینے والے ممالک میں سب سے زیادہ تھی چین نے بھی اپنی دوستی کا حق پوری طرح سے ادا کیا جبکہ یورپ اور امریکہ کی طرف سے بھی کافی مدد کی گئی۔

حکومت پاکستان پر شکوک وشبہات اپنی جگہ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی کو بالعموم اور تقریباً خاموش بیٹھے اسلامی ممالک کے سامنے بالخصوص اس قدرتی آفت کی شدت کو مؤثر انداز میں پیش کیا جائے اور انہیں اس سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس سیلاب سے سونامی سے زیادہ افراد اور آبادی متاثر ہوئی ہے نہ صرف سونامی بلکہ ہیٹی اور پاکستان کے 2005 کے زلزلے کے کل متاثرین سے اس سیلاب کے متاثرین کی تعداد زیادہ ہے اس وقت پاکستان میں اس قدرتی آفت سے ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً دو ڈھائی کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کو جو شدید نقصان پہنچا ہے اس کا صحیح اندازہ پانی کے اترنے کے بعد ہی لگایا جا سکے گا، تاہم یہ بات واضح ہے کہ نقصان ہماری بساط سے بڑھ کر ہے اور اکیلے ہماری حکومت کے لیے اس آفت سے نمٹنا ممکن نہیں۔ اگر یہاں امریکہ کی مثال دی جائے تو بے جا نہ ہوگی بے تحاشا وسائل کے ساتھ وہ اس وقت دنیا کا امیر ترین ملک ہے لیکن جب وہاں بھی سمندری طوفان کترینا آیا تو نقصان پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری نے اسے 854 ملین ڈالر کی امداد دی اور اس وقت ہمیں جس نقصان کا سامنا ہے وہ کترینا کے نقصان سے کہیں بڑا ہے اس لیے یہ کہنا کہ ہم اس سے اپنے زور بازو سے نمٹ لیں گے کچھ زیادہ حقیقت پسندانہ رویہ نہیں لیکن اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ ملنے والی امداد کو انتہائی شفاف طریقے سے خرچ کیا جائے چاہے یہ باہر سے آئے یا اندر سے اس کی تقسیم کو ایک منظم طریقے سے یقینی بنایا جائے اور ہو سکے تو مستقل بنیادوں پر کچھ ذمہ داران تعینات کیے جائیں جو ہر ایسی آفت میں کام کرے اور جو براہ راست حکومت کو جوابدہ ہوں۔ اور اس کام کو قصبے یا تحصیل کی سطح سے شروع کیا جائے۔ جبکہ حاصل ہونے والی اور خرچ ہونے والی ہر رقم اور امداد کی تفصیل روزانہ کی بنیاد پر ویب سائٹ پر دی جائے تاکہ ہر آدمی اس کو دیکھ سکے جبکہ یہی تفصیل میڈیا کو بھی مسلسل دی جاتی رہے یعنی ذمہ دار اہلکار کے نام سے لے کر حاصل اور خرچ کی تفصیل تک تاکہ جن لوگوں کی پہنچ انٹرنیٹ تک نہیں ہے وہ بھی تمام تر تفصیل سے آگاہ رہے اور مطمئین رہیں کہ ان کی دی ہوئی امداد حقدار تک پہنچ رہی ہے۔ یہ تو صرف ایک تجویز ہے یقیناً اس سے بہتر تجاویز بھی سامنے آتی ہونگی کیونکہ ہر محب وطن پاکستانی اپنے ملک میں کرپشن پر شرمندگی اور پریشانی کا شکار ہے اور ہر صورت اس بدنامی سے چھٹکارا چاہتا ہے۔

ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے نقصان کے برابر بیرونی امداد حاصل کر سکیں یقیناً یہ مشکل نہیں نا ممکن ہے لیکن ایک کہنے والے نے بڑی اچھی بات کہی کہ متاثر دو کروڑ پاکستانی ہوئے ہیں پھر بھی پندرہ کروڑ پاکستانی محفوظ ہیں اور ان محفوظ پاکستانیوں میں تمام بڑے بڑے نام شامل ہیں اور اگر یہ بڑے پہل کر لیں اور آگے بڑھ کر اپنی حیثیت کے مطابق سیلاب زدگان کی امداد کا اعلان کر لیں تو یقیناً عام آدمی بھی ان کی تقلید کرے گا۔ ہمارے یہ صنعتکار، بڑے بڑے زمیندار، سرمایہ دار، بڑے بڑے ہوٹلوں کے مالکان، سیاستدان، حکمران یہاں تک کہ کھلاڑی جن کی دولت کا شمار بھی ایک عام پاکستانی کے لیے مشکل ہے اور وہی غریب عوام سے امداد کی اپیل کر رہے ہیں اگر یہ سب خود پہلے اپنے عطیے کا اعلان کر دیں تو یہی چیز عوام کے جذبے کو دو چند کر دے گی اور پھر یہ قوم واقعی جنونی ہے صرف اس جنون کو درست سمت دینے کی ضرورت ہے۔

اس وقت ملک، قوم اور سیلاب زدگان کو اشیائے خوردو نوش کے ساتھ ساتھ ہماری نقد مدد کی ضرورت ہے جو انفرا سٹرکچر کے ساتھ ساتھ گھروں کی دوبارہ تعمیر کے لیے درکار ہے۔ ہمیں بین الاقوامی مدد کی امید میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنا کام اپنے ذرائع سے شروع کر دہنا چاہیئے اور اس تیزی، ایمانداری اور ہمت سے ان کاموں کی ابتدا کر دینی چاہیئے کہ ہم اپنے اوپر سے بہت سارے الزامات دھو سکیں۔ یہ بھی کہ پاکستان﴿خدا نخواستہ﴾ ایک ناکام ریاست ہے یا ہم ایک قوم نہیں بلکہ ایک ہجوم ہیں اور یہ بھی کہ ہم دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں شامل ہیں۔ شاید ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس آزمائش میں اس لیے ڈالا ہو کہ ہم ثابت کر سکیں کہ ہم چیلنچز کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اپنے زورِبازو سے اپنی قسمت بدل سکتے ہیں۔ بحران اور آزمائش اگر واقعی قوم کی طاقت ثابت کرنے کا ایک بہانہ ہے تو آئیے مصیبت کی اس گھڑی کو اپنی طاقت ثابت کرنے کا ایک بہانہ بنا دیں۔ ہمارے حکمران پہل کریں اپنی دولت سے اپنے عطیے سے ابتدا کریں وہ پوری قوم کو اپنے پیچھے پائیں گے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 510230 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.