خاتم الانبیاء کے خاتم الخلفاء سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ

جنگ خیبر کا موقع ہے، لشکر اسلام نے قلعے کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے، مرحب کا پایہ تخت خیبر کا قلعہ فتح کرنا آسان کام نہ تھا،اس قلعہ کو سر کرنے کے لیے پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن حضرت ابو بکر صدیق ر ضی اللہ تعالی عنہ کو جھنڈا عنایت فرمایا اور دوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو، لیکن فاتح خیبر ہونا تو کسی اور کے لیے مقدر ہو چکا تھا اس لیے قلعہ فتح نہ ہوا، جب اس مہم میں بہت زیادہ دیر ہوئی تو ایک دن پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل میں جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا کہ جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائیگا وہ شخص اللہ و رسول کو دوست رکھتا ہے اور اللہ و رسول اس کو دوست رکھتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوشخبری کو سن کر صحابہ کرام نے وہ رات بڑی بیقراری میں کاٹی،ہر صحابی کی یہ تمنا تھی کہ اے کاش!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل صبح اسے جھنڈا عنایت فرمائیں تو اس بات کی سند ہو جائے کہ ہم اللہ و رسول کو محبوب رکھتے ہیں اور اللہ و رسول ہمیں چاہتے ہیں اور اس نعمت عظمیٰ و سعادت کبریٰ سے بھی سرفراز ہو جاتے کہ فاتح خیبر جاتے۔

دراصل وہ صحابی تھے ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ کے محبوب دانائے خفایا وغیوب جناب احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے وہ کل ہو کر رہے گا، اس میں ذرہ برابر فرق نہیں ہو سکتا، جب صبح ہوئی تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین امیدیں لئے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور ادب کے ساتھ دیکھنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آج کس کو سرفراز فرماتے ہیں، سب کی ارمان بھری نگاہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لب مبارک کی جنبش پر قربان ہو رہی تھیں کہ پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،این علی بن ابی طالب، یعنی علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ آشوب چشم میں مبتلا ہیں ان کی آنکھیں دکھتی ہیں آپ نے فرمایا کوئی جاکر ان کو بلا لائے، جب حضرت علی رضی اللہ عنہ لائے گئے تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں پر لعاب دہن لگایا جس سے وہ بالکل ٹھیک ہو گئیں، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جھنڈا عنایت فرمایا،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں ان لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان کو اسلام کی طرف بلاؤ اور پھر بتلاؤ کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان پر کیا حقوق ہیں، خدا قسم اگر تمہاری کوشش سے ایک شخص کو بھی ہدایت مل گئی تو وہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہوگا،(بخاری، مسلم)

لیکن اسلام قبول کرنے یا صلح کرنے کی بجائے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مقابلہ کرنے کےلئے مرحب رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر نکلا،وہ بڑے گھمنڈ سے آیا تھا لیکن شیر خدا علی المرتضیٰ رضی اللہ عہ نے اس زور سے تلوار ماری کہ اس کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک پہنچ گئی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا، اس کے بعد آپ نے فتح کا اعلان فرما دیا،حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس روز آپ نے خیبر کا دروازہ اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا تھا اور اس پر مسلمانوں نے چڑھ کر قلعہ کو فتح کر لیا، اس کے بعد آپ نے وہ دروزہ پھینک دیا، جب لوگوں نے اسے گھسیٹ کر دوسری جگہ ڈالنا چاہا تو چالیس آدمیوں سے کم اسے اٹھا نہ سکے،(تاریخ الخلفاءصفحہ 114)

ابن عساکر نے ابو رافع سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ خیبر میں قلعہ کا پھاٹک ہاتھ میں لے کر اس کو ڈھال بنالیا وہ پھاٹک ان کے ہاتھ میں برابر رہا اور وہ لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں خیبر کو فتح فرمایا، اسکے بعد پھاٹک کو آپ نے پھینک دیا،لڑائی سے فارغ ہونے کے بعد ہمارے ساتھ کئی آدمیوں نے مل کر اسے پلٹنا چاہا مگر وہ نہیں پلٹا،(تاریخ الخلفاءصفحہ 114)

دوستو یہ ہیں پرورہ رسول،اقلیم ولایت کے شہنشاہ،عبادت و ریاضت میں مسلمانوں کے پیشوا،میدان کارزار کے تاجدار،معرکہ خیبر کے شہسوار،رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم خوار،خلفاءثلاثہ کے خیر خواہ،تمام صحابہ کے محبوب،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محب صادق جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کا مژدہ سنایا،جن سے بغض رکھنا کفر،جن سے محبت رکھنا ایمان،خاتون جنت کے شوہر،جنت کے جوانوں کے سردار ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ عم زاد،جن کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نازبرادری کریں،جن کو تہجد پڑھوانے کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو جگانے آئیں،جو اگر روٹھ جائیں تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم منانے آئیں،اور اسی عالم میں بوتراب کا لقب پائیں،جس سے وہ ناراض ہوجائیں ،وہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا معتوب،اور جس سے وہ راضی ہوجائیں وہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب ہو،یہ وہ ہیں جن کی محبت میں جینا عبادت اور مرنا شہادت ہے یہ ہیں خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الخلفاءسیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ۔

حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی ذات وہ ذات گرامی ہے جو بہت سے کمال و خوبیوں کی جامع ہے کہ آپ شیر خدا بھی ہیں اور داماد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی، حیدر کرار بھی ہیں اور صاحب ذوالفقار بھی، حضرت فاطمہ زاہرہ کے شوہر نامدار بھی اور حسنین کریمین کے والد بزرگوار بھی، صاحب سخاوت بھی اور صاحب شجاعت بھی، عبادت و ریاضت والے بھی اور فصاحت و بلاغت والے بھی، علم والے بھی اور حلم والے بھی، فاتح خیبر بھی اور میدان خطابت کے شہسوار بھی، غرضیکہ آپ بہت سے کمال و خوبیوں کے جامع ہیں اور ہر ایک میں ممتاز ویگانہ روزگار ہیں اسی لئے دنیا آپ کو مظہر العجائب والغرائب سے یاد کرتی ہے اور قیامت تک اسطرح یاد کرتی رہے گی۔

سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مناقب وفضائل بے شمار ہیں جتنی زیادہ حدیثیں آپ کی تعریف وتوصیف اور فضیلت میں منقول ہیں اتنی صحابہ میں سے کسی کے حق میں منقول نہیں ہیں، حضرت علی کی مناقب میں سے جو صحیح احادیث منقول ہیں اُن کے بارے میں امام احمد اور امام نسائی وغیرہ نے کہا ہے کہ ان کی تعداد ان احادیث سے کہیں زیادہ ہے جو دوسرے صحابہ کے حق میں منقول ہیں، علامہ جلال الدین سیوطی نے اس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ متاخر ہیں اور ان کے زمانہ میں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ونزاع کی خراب صورت حال پیدا ہوگئی تھی بلکہ خود سیدنا علی کی مخالفت کرنے والوں کا ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہوگیا تھا جنہوں نے ان کے خلاف جنگیں بھی لڑیں اور ان کی خلافت سے انحراف بھی کیا، لہٰذا علما ءاور محدیثین نے مقام علی کی حفاظتی اور مخالفین علی کی تردیدوتغلیط کی خاطر منقبت علی سے متعلق احادیث کو چن چن کر جمع بھی کیا، اور ان احادیث کو پھیلانے میں بہت سرگرم جدوجہد بھی کی، ورنہ جہاں تک خلفاءثلاثہ کے مناقب کا تعلق ہے تو وہ حقیقت میں حضرت علی کے مناقب سے بھی زیادہ ہیں۔

آپ کا نام نامی ”علی بن ابی طالب ،بن عبد المطلب، بن ہاشم بن عبد مناف ہے “ اور کنیت ”ابوالحسنین و ابو تراب ہے،طالب کے صاحبزادے ہیں یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ہیں،آپ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی فاطمہ بنت اسد ہاشمی ہے اور وہ پہلی ہاشمی خاتون ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ہجرت فرمائی۔(تاریخ الخلفاءص113)

لوگ آپ کو حیدر بھی کہتے ہیں،حیدر دراصل حضرت علی کے نانا اسد کا نام تھا ،جب آپ پیدا ہوئے تو اس وقت آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے آپ کا نام اپنے باپ کے نام پر ''حیدر '' رکھا پھر بعد میں ابو طالب نے اپنی طرف سے بیٹے کا نام ''علی '' رکھا اور جیسا کہ ایک روایت میں آیا ہے حضرت علی فرمایا کرتے تھے ، خود میرے نزدیک ”ابو تراب“ سے زیادہ پسندیدہ کوئی نام نہیں ہے،آپ 30 عام الفیل میں پیدا ہوئے اور اعلان نبوت سے پہلے ہی مولائے کل سید الرسل جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں آئے کہ جب قریش قحط میں مبتلا ہوئے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب پر عیال کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو لے لیا تھا،اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سائے میں آپ نے پرورش پائی اور انہی کی گود میں ہوش سنبھالا،آنکھ کھولتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جمال جہاں آرا دیکھا ،انہی کی باتیں سنیں اور انہی کی عادتیں سیکھیں،اس لئے بتوں کی نجاست سے آپکا دامن کبھی آلودہ نہ ہوا اور آپ نے کبھی بت پرستی نہ کی ، اسی لئے کرم اللہ وجہہ الکریم آپ کا لقب ہوا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نو عمر لوگوں میں سب سے پہلے اسلام سے مشرف ہوئے،تاریخ الخلفاء میں ہے کہ جب آپ ایمان لائے اس وقت آپ کی عمر مبارک دس سال تھی بلکہ بعض لوگوں کے قول کے مطابق نو سال اور بعض کہتے ہیں کہ آٹھ سال اور کچھ لوگ اس سے بھی کم بتاتے ہیں،امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت احمد رضا محدث بریلوی رحمة اللہ علیہ تنزیہ المکانتہ الحیدریہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ بوقت اسلام آپ کی عمر آٹھ دس سال تھی،آپ کے اسلام قبول کرنے کی تفصیل محمد بن اسحاق نے اس طرح بیان کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو رات میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ لوگ یہ کیا کر رہے تھے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا دین ہے جس کو اس نے اپنے لئے منتخب کیا ہے اور اسی کی تبلیغ و اشاعت کے لئے اپنے رسول کو بھیجا ہے،لہٰذا میں تم کو بھی ایسے معبود کی طرف بلاتا ہوں جو اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں تم کو اسی کی عبادت کا حکم دیتا ہوں،حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا کہ جب تک میں اپنے باپ ابو طالب سے دریافت نہ کر لوں اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا،چونکہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو راز کا فاش ہونا منظور نہ تھا اس لئے آپ نے فرمایا اے علی! اگر تم اسلام نہیں لاتے ہو تو ابھی اس معاملہ کو پوشیدہ رکھو کسی پر ظاہر نہ کرو،حضرت علی رضی اللہ عنہ اگرچہ اس وقت رات میں ایمان نہیں لائے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ایمان کو راسخ کر دیا تھا دوسرے روز صبح ہوتے ہی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی پیش کی ہوئی ساری باتوں کو قبول کر لیا اسلام لے آئے۔

پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مکہ معظمہ سے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو بلا کر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم ہو چکا ہے لہٰذا میں آج مدینہ روانہ ہو جاوں گا تم میرے بستر پر میری سبز رنگ کی چادر اوڑھ کر سو رہو تمہیں کوئی تکلیف نہ ہوگی قریش کی ساری امانتیں جو میرے پاس رکھی ہوئی ہیں انکے مالکوں کو دے کر تم بھی مدینہ چلے آنا،یہ موقع بڑا ہی خوفناک اور نہایت خطرہ کا تھا،حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ کفار قریش سونے کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر سونے سے منع فرما دیا ہے،آج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر قتل گاہ ہے،لیکن اللہ کے محبوب دانائے خفایا وغیوب جناب احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے کہ ”تمہیں کوئی تکلیف نہ ہوگی قریش کی امانتیں دے کر تم بھی مدینہ چلے آنا،“

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو پورا یقین تھا کہ دشمن مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچاسکیں گے میں زندہ رہوں گا اور مدینہ ضرور پہنچوں گا،لہٰذا پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر جو آج بظاہر کانٹوں کا بچھونا تھا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے پھولوں کی سیج بن گیا، اس لئے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکل سکتا ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف نہیں ہو سکتا،حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رات بھر آرام سے سویا صبح اٹھکر لوگوں کی امانتیں ان کے مالکوں کو سونپنا شروع کیں اور کسی سے نہیں چھپا اسی طرح مکہ میں تین دن رہا پھر امانتوں کے ادا کرنے کے بعد میں بھی مدینہ کی طرف چل پڑا،راستہ میں بھی کسی نے مجھ سے کوئی تعارض نہ کیا یہاں تک کہ میں قبا میں پہنچا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی بہت سی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور چچا زاد بھائی ہونے کے ساتھ”عقد مواخاة “ میں بھی آپ کے بھائی ہیں جیسا کہ ترمذی شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ طیبہ میں اخوت یعنی بھائی چارہ قائم کیا دو دو صحابہ کو بھائی بھائی بنایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ نے سارے صحابہ کے درمیان اخوت قائم کی،ایک صحابی کو دوسرے صحابی کا بھائی بنایا مگر مجھ کو کسی کا بھائی نہ بنایا میں یوں ہی رہ گیا، تو پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انت اخی فی الدنیا والاٰخرة“یعنی تم دنیا اور آخرت دونوں میں میرے بھائی ہو۔(مشکوٰة شریف564)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور بہادری شہرہ آفاق ہے ،عرب و عجم میں آپ کی قوت بازو کے سکے بیٹھے ہوئے ہیں آپ کے رعب و دبدبہ سے آج بھی بڑے بڑے پہلوانوں کے دل کانپ جاتے ہیں،جنگ تبوک کے موقع پر سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مدینہ طیبہ پر اپنا نائب مقرر فرمادیا تھا اس لئے اس میں حاضر نہ ہو سکے باقی تمام غزوات و جہاد میں شریک ہوکر بڑی جانبازی کے ساتھ کفار کا مقابلہ کیا اور بڑے بڑے بہادروں کو اپنی تلوار سے موت کے گھاٹ اتاردیا۔

جنگ بدر میں جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسود بن عبد الاسد مخزومی کو کاٹ کر جہنم میں پہنچایا تو اس کے بعد کافروں کے لشکر کا سردار عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کو ساتھ لے کر میدان میں نکلا اور چلاّ کر کہا کہ اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم) ، اشراف قریش میں سے ہمار ے جوڑ کے آدمی بھیجئے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا،اے بنی ہاشم !اٹھو اور حق کی حمایت میں لڑو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کو بھیجا ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو سن کر حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہم دشمن کی طرف بڑھے، لشکر کے سردار عتبہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے مقابل ہوا اور ذلت کے ساتھ مارا گیا،ولید جسے اپنی بہادری پر بہت بڑا ناز تھا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ کے لئے مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا آگے بڑھا اور ڈینگیں مارتا ہوا آپ پر حملہ کیا مگر شیر خدا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے تھوڑی ہی دیر میں اسے مار گرایا اور ذوالفقار حیدری نے اس کے گھمنڈ کو خاک و خون میں ملا دیا،اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ عتبہ کے بھائی شیبہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو زخمی کر دیا ہے تو آپ نے چھوٹ کر اس پر حملہ کیا اور اسے بھی جہنم پہنچا دیا۔

جنگ احد میں جب کہ مسلمان آگے اور پیچھے سے کفار کے بیچ میں آگئے جس کے سبب بہت سے لوگ شہید ہوئے تو اس وقت پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم بھی کافروں کے گھیرے میں آگئے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ اے مسلمانوں! تمہارے نبی قتل کر دیئے اس اعلان کو سن کر مسلمان بہت پریشان ہو گئے یہاں تک کہ اِدھر ادھر ہو گئے بلکہ ان میں سے بہت لوگ بھاگ بھی گئے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ جب کافروں نے مسلمانوں کو آگے پیچھے سے گھیر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری نگاہ سے اوجھل ہوگئے تو پہلے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو زندوں میں تلاش کیا مگر نہیں پایا پھر شہیدوں میں تلاش کیا وہاں بھی نہیں پایا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ سے بھاگ جائیں لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر اٹھالیا،اس لئے اب بہتر یہی ہے کہ میں بھی تلوار لیکر کافروں میں گھس جاؤں یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شہید ہو جاؤں۔

فرماتے ہیں کہ میں نے تلوار لیکر ایسا سخت حملہ کیا کہ کفار بیچ میں سے ہٹتے گئے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا تو مجھے بے انتہا خوشی ہوئی اور میں نے یقین کیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی،میں دوڑ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کھڑا ہوا کفار گروہ در گروہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کے لئے آنے لگے،آپ نے فرمایا علی ان کو روکو ،تو میں نے تنہا سب کا مقابلہ کیا اور ان کے منہ پھیر دیئے اور کئی ایک کو قتل بھی کیا،اس کے بعد پھر ایک گروہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی نیت سے بڑھا آپ نے پھر میری طرف اشارہ فرمایا تو میں نے پھر اس گروہ کا اکیلے مقابلہ کیا،اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے میری بہادری اور مدد کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا انہ منی وانا منہ،یعنی” بیشک علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں،“مطلب یہ ہے کہ علی کو مجھ سے کمال قرب حاصل ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو سن کر حضرت جبرائیل نے عرض کیا وانا منکما، یعنی”میں تم دونوں سے ہوں،“سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شہید ہوجانے کی نیت سے کافروں کے جتھے میں تنہا گھس جانا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے والے گروہ درگروہ سے اکیلے مقابلہ کرنا آپ کی بے مثال بہادری اور انتہائی دلیری کی خبر دیتا ہے ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے عشق اور سچی محبت کا بھی پتہ دیتا ہے۔

حضرت کعب بن مالک انصاری سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں کہ جنگ خندق کے روز عَمر و بن عبدِ ود (جو ایک ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا)ایک جھنڈا لئے ہوئے نکلا تاکہ وہ میدان جنگ کو دیکھے،جب وہ اور اس کے ساتھ سوار ایک مقام پر کھڑے ہوئے تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے عَمرو !تو قریش سے اللہ کی قسم دے کر کہا کرتا تھا کہ جب کبھی مجھ کو کوئی شخص دو اچھے کاموں کی طرف بلاتا ہے تو میں اس میں سے ایک کو ضرور اختیار کرتا ہوں،اس نے کہا ہاں میں نے ایسا کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں،آپ نے فرمایا کہ میں تجھے اللہ و رسول (جل جلالہ ، صلی اللہ علیہ واٰلہ واصحابہ وسلم )اور اسلام کی طرف بلاتا ہوں،عَمرو نے کہا مجھے ان میں سے کسی کی حاجت نہیں،حضرت علی نے فرمایا تو اب میں تجھ کو مقابلہ کی دعوت دیتا ہوں اور اسلام کی طرف بلاتا ہوں،عَمرو نے کہاا ے میرے بھائی کے بیٹے کس لئے مقابلہ کی دعوت دیتا ہے خدا کی قسم میں تجھ کو قتل کرنا پسند نہیں کرتا،حضرت علی نے فرمایا یہ میدان میں پتہ چلے گا دونوں میدان میں آگئے اور تھوڑی دیر مقابلہ ہونے کے بعد شیر خدا نے اسے موت کے گھاٹ اتار کر جہنم میں پہنچا دیا،شیر خدا کی اس بہادری اور شجاعت کو دیکھ کر میدان جنگ کا ایک ایک ذرہ زبان حال سے پکار اٹھا۔
شاہ مرداں شیر یزداں قوتِ پروردگار
لا فتیٰ الا علی لا سیف الا ذوالفقار

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی فضیلت میں اتنی حدیثیں وارد ہیں بلکہ امام احمد رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جتنی حدیثیں آپ کی فضیلت میں ہیں کسی اور صحابی کی فضیلت میں اتنی حدیثیں نہیں ہیں، بخاری اور مسلم میں حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ طیبہ میں رہنے کا حکم فرمایا اور اپنے ساتھ نہ لیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ مجھے یہاں عورتوں اور بچوں پر اپنا خلیفہ بنا کر چھوڑے جاتے ہیں،تو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میں تمہیں اس طرح چھوڑے جاتا ہوں کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کو چھوڑ گئے،البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا،مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر جانے کے وقت چالیس دن کے لئے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ بنایا تھا اسی طرح جنگ تبوک کی روانگی کے وقت میں تم کو اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر جا رہا ہوں، لہٰذا جو مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک حضرت ہارون علیہ السلام کا تھا وہی مرتبہ ہماری بارگاہ میں تمہارا ہے،اس لئے اے علی !تمہیں خوش ہونا چاہےے،تو ایسا ہی ہوا کہ اس خوشخبری سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تسلی ہو گئی،

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی سے منافق محبت نہیں کرتا اور مومن علی سے بغض و عداوت نہیں رکھتا،(ترمذی)

سبحان اللہ ! حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کیا ہی بلند و بالا شان ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے محبت نہ کرنے کو منافق ہونے کی علامت ٹھہرایا اور آپ سے بعض و عداوت رکھنے کو مومن نہ ہونے کا معیار قرار دیا،یعنی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہ کرے وہ منافق ہے اور جو ان سے بغض و عداوت رکھے وہ مومن نہیں،

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے علی کو برا بھلا کہا تو تحقیق اس نے مجھ کو برا بھلا کہا،“(مشکوٰة)

طبرانی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اور ترمذی و حاکم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: انا مدینة العلم و علی بابھا،یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں،علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ اس حدیث کو حدیث حسن قرار دیتے ہیں(تاریخ الخلفاءصفحہ116)

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے علی سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی،جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی،(تاریخ الخلفاءبحوالہ طبرانی)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے،انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ تمہاری حالت حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہے کہ یہودیوں نے ان سے یہاں تک دشمنی کی کہ ان کی والدہ حضرت مریم (رضی اللہ عنہا) پر تہمت لگائی اور نصاریٰ نے ان سے محبت کی تو اس قدر حد سے بڑھ گئے کہ ان کو اللہ یا اللہ کا بیٹا کہہ دیا،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو کان کھول کر سن لو،میرے بارے میں بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے،ایک میری محبت میں حد سے تجاوز کرے گا اور میری ذات سے ایسی باتوں کو منسوب کرے گا جو مجھ میں نہیں ہیں اور دوسرا اگر وہ اس قدر بغض و عداوت رکھے گا کہ مجھ پر بہتان لگائے گا،(تاریخ الخلفاء)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم علم کے اعتبار سے بھی علمائے صحابہ میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں، پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سے حدیث آپ سے مروی ہیں،آپ کے فتوے اور فیصلے اسلامی علوم کے انمول جواہر پارے ہیں،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نے جب بھی آپ سے کسی مسئلہ کو دریافت کیا تو ہمیشہ درست ہی جواب پایا،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ علی سے زیادہ مسائل شرعیہ کا جاننے والا کوئی نہیں ہے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں علم فرائض اور مقدمات کے فیصلہ کرنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی دوسرا نہیں تھا اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ لو،(تاریخ الخلفاء)

حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے 17رمضان المبارک 40 ھ کو علی الصبح بیدار ہو کر اپنے بڑے صاحبزادے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا آج رات خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی امت نے میرے ساتھ کجروی اختیار کی ہے اور سخت نزاع برپا کر دیا ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ظالموں کے لئے دعا کرو،تو میں نے اس طرح دعا کی کہ یا الٰہ العالمین ! تو مجھے ان لوگوں سے بہتر لوگوں میں پہنچا دے اور میری جگہ ان لوگوں پر ایسا شخص مسلط کر دے جو برا ہو،ابھی آپ یہ بیان ہی فرمارہے تھے کہ مؤذن نے آواز دی الصلاة الصلاة،حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے کے لئے گھر سے چلے،راستے میں لوگوں کو نماز کے لئے آواز دے دے کر آپ جگاتے جاتے تھے کہ اتنے میں ابن ملجم آپ کے سامنے آگیا اور اس نے اچانک آپ پر تلوار کا بھرپو روار کیا وار اتنا سخت تھا کہ آپ کی پیشانی کنپٹی تک کٹ گئی اور تلوار دماغ پر جا کر ٹھہری، شمشیر لگتے ہی آپ نے فرمایا :فزت برب الکعبة، یعنی رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا،آپ کے زخمی ہوتے ہی چاروں طرف سے لوگ دوڑ پڑے اور قاتل کو پکڑ لیا،(تاریخ الخلفاء)

حضرت عقبہ بن ابی صہبا کہتے ہیں کہ جب بد بخت ابن ملجم نے آپ پر تلوار کا وار کیا یعنی آپ زخمی ہو گئے تو امام حسن رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آپ کی خدمت میں آئے،آپ نے ان کو تسلی دی اور فرمایا بیٹے!میری چار باتوں کے ساتھ چار باتیں یاد رکھنا،حضرت امام حسن نے عرض کیا وہ کیا ہیں فرمایئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا،اول سب سے بڑی تو نگری عقل کی توانائی ہے ،دوسرے بیوقوفی سے زیادہ کوئی مفلسی اور تنگدستی نہیں، تیسرے غرور و گھمنڈ سب سے سخت و حشت ہے،چوتھے سب سے عظیم خلق کرم ہے،حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ دوسری چار باتیں بھی بیان فرمائیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ( اول) احمق کی محبت سے بچو،اس لئے کہ نفع پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے لیکن نقصان پہنچ جاتا ہے، (دوسرے) جھوٹے سے پرہیز کرو،اس لئے کہ وہ دور کو نزدیک اور نزدیک کو دور کر دیتا ہے،(تیسرے) بخیل سے دور رہو،اس لئے کہ وہ تم سے ان چیزوں کو پھرا دے گا جنکی تم کو حاجت ہے،(چوتھے) فاجر سے کنارہ کش رہو،اس لئے کہ وہ تمہیں تھوڑی سی چیز کے بدلے میں فروخت کر ڈالے گا،(تاریخ الخلفاء)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سخت زخمی ہونے کے باوجود جمعہ و ہفتہ تک بقید حیات رہے لیکن اتوار کی رات میں آپ کی روح بارگاہ قدس میں پرواز کر گئی اور یہ بھی روایت ہے کہ 19رمضان المبارک جمعہ کی شب میں آپ زخمی ہوئے اور 21رمضان المبارک شب اتوار 40 ہجری میں آپ کی وفات ہوئی،انا للّٰہ وانا الیہ راجعون،

چار برس آٹھ ماہ نو دن آپ نے امور خلافت کو انجام دیا اور ترسٹھ سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا،حضرت امام حسن، حضرت امام حسین اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم نے آپ کو غسل دیا اور آپ کی نماز جنازہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے پڑھائی،

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بہت سے اقوال ہیں جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ان میں سے چند نظرقارئین،

علم مال سے بہتر ہے، علم تیری حفاظت کرتا ہے اور تو مال کی، علم حاکم ہے اور مال محکوم، مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے، عالم وہی شخص ہے جو علم پر عمل بھی کرے اور اپنے عمل کو علم کے مطابق بنائے، حلال کی خواہش اسی شخص میں پیدا ہوتی ہے جو حرام کمائی چھوڑنے کی مکمل کوشش کرتا ہے، تقدیر بہت گہرا سمند ر ہے اس میں غوطہ نہ لگا، خوش اخلاقی بہترین دوست ہے اور ادب بہترین میراث ہے، جاہلوں کی دوستی سے بچو کہ بہت سے عقلمندوں کو انہوں نے تباہ کر دیا ہے،
اپنا راز کسی پر ظاہر نہ کرو کہ ہر خیر خواہ کے لئے کوئی خیر خواہ ہوتا ہے، انصاف کرنے والے کو چاہئے کہ جو اپنے لئے پسند کرے وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کرے،

اس مضمون کی تیاری میں تاریخ الخلفاء، مقالات سعیدی، خطبات صحابہ کرام اور نیٹ پر موجود مواد سے مدد لی گئی ہے
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 316692 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More