مشکل راستے قسط 44

نہ کوئی رستہ نہ کوئی منزل دور تلک نیلگو پانی پر چھائی رات کی سیاہی کے پہرے ۔۔۔۔ اور تیزی سے تیرتا میرا وجود ۔۔۔۔۔ مجروع جذبات اور عجیب سے احساسات دل میں سموئے صرف بلا سوچے سمجھے تیرتے چلے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔ رات کی سیاہی بڑھنے لگی تھی ۔۔۔۔ گہری تاریک رات ۔۔۔۔ مگر خوف نہ ڈر کسی چیز کا ۔۔۔ اچانک ہی مجھے ککو اور سنئیہ کا خیال آگیا اور میں ایک دم فکر مند ہوگئی تھی ۔۔۔ اتنی دیر میں باہر کبھی نہیں رہی تھی ۔۔۔ اور جانتی تھی یہ بات انہیں پریشان کر رہی ہوگی ۔۔۔۔ مجھے وقت کا بھی اندازہ نہیں تھا ۔۔۔ پتا نہیں کتنا وقت بیت چکا تھا ۔۔ میں تیرتے تیرتے رک گئی تھی ۔۔۔۔ اور پریشانی سے اپنے چاروں اور اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔ حدِ نگاہ ٹھاٹے مارتا پانی ہی تھا ۔۔۔۔ پتا نہیں ساحل کتنی دور پیچھے چھوڑ آئی تھی ۔۔۔۔ اچانک ہی کچھ عجیب سے احساس نے مجھے آ گھیرا ۔۔۔۔ میری چھٹی حس مجھے اپنے چاروں اور خطرے کا احساس دلارہی تھی ۔۔۔۔ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میرے چاروں اور کچھ پانی میں تیرتے سائے مجھے گھیر رہے ہیں ۔۔۔۔ ابھی میں آنکھیں پھاڑے گھپ تاریک سمندر میں انہیں دیکھنے کی ناکام کوشش ہی کر رہی تھی کہ اچانک پانی میں ہلچل ہوئی تھی اور ایک کالی عجیب سی مخلوق سمندری پانی پر نمودار ہوئی تھی ۔۔۔ جس کی عجیب سی بڑی بڑی پھیلی چمکدار آنکھیں مجھ پر گڑی ہوئی تھیں ۔۔۔ اچانک وہ پانی میں سے اچھلی تھی اور سیدھا مجھ پر حملہ آور ہوئی تھی ۔۔۔ مگر نا جانے کہاں سے ایک سفید ہیولہ نمودار ہوا تھا اور فضاء میں ہی اس پر ٹوٹ پڑا تھا ۔۔۔۔ پھر ایک زور دار بھیانک چیخ نے ہولناک سکوت کو توڑا تھا ۔۔۔ اور وہ کالی عجیب سی مخلوق کالے بدبودار دھوئے میں تبدیل ہوکر فضاء میں تحلیل ہوگئی ۔۔۔۔ پھر وہ سفید روشن ہیولے نے پانی میں میرے قریب ہی چھلانگ لگائی تھی ۔۔۔ ایک جھپاکے کی آواز آئی تھی ۔۔۔۔ پھر سورہ بقرا کی تلاوت اس سفید ہیولے نے شروع کردی تھی ۔۔۔ یہ ایک زنانہ آواز تھی جس کی قرت سے چاروں طرف مجھے ہلچل سی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔ اور پھر تھوڑی سی ہلچل کے بعد سمندر پرسکون ہوگیا تھا ۔۔۔۔ اس سفید ہیولے نے میرا ہاتھ تھاما تھا اور اور تیزی سے ایک سمت تیرنے لگی تھی ۔۔۔۔ زبان پر سورہ بقرا کی تلاوت بدستور جاری تھی ۔۔۔۔ میں بھی بغیر مزاہمت کئے خاموشی سے اس کے ساتھ تیرنے لگی تھی ۔۔۔۔ سارا راستہ وہ سورہ بقرا کی تلاوت کرتے رہی ۔۔۔۔ اس کی رفتار بہت تیز تھی ۔۔۔ شاید آدھا گھنٹہ ہی گزرا ہوگا کہ مجھے ساحل نظر آنے لگا ۔۔۔۔ پھر تقریباً دس منٹ بعد ہی پانی کی سطح کم ہونے لگی اور قدموں کے نیچے سمندری ریت محسوس ہونے لگی ۔۔۔۔ اب وہ سمندر سے ساحل پر میرا ہاتھ تھامے چل رہی تھی ۔۔۔ وہ وہی تھیں جنہوں نے میرے والدہ ہونے کا دعواہ کیا تھا ۔۔ انہوں نے میرا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا ۔۔۔ مجھے لیکر سیدھا میری گاڑی کی طرف آگئی تھیں ۔۔۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ میں ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں ان کے ساتھ چل رہی تھی ۔۔۔۔۔ ان کے اس طرح ہاتھ چھوڑنے پر چونک کر انہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔

اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔۔۔۔ جاؤ عائیشہ اللہ تمہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین ۔۔۔۔ مگر جب تمہیں کبھی میری یاد بھولے سے آئے تو میرے پاس چلی آنا ۔۔۔۔ تمہاری بدنصیب ماں تمہارا انتظار آخری سانس تک کرے گی ۔۔۔۔ جاؤ بیٹی سنئیہ اور ککو بہت پریشان ہورہی ہونگی اس وقت ۔۔۔۔

وہ یہ کہہ کر ایک دم میری نظروں کے سامنے سے غائب ہوگئی تھیں ۔۔۔۔ اور میں عجیب سے احساسات دل میں لئے اپنی گاڑی میں بیٹھی تھی ۔۔۔ اور تھوڑی ہی دیر بعد گاڑی گھر کی جانب رواں دواں تھی ۔۔۔۔ مگر سارا راستہ وہ مہربان روشن چہرا میری نظروں کے سامنے رہا ۔۔۔۔ اور ایک انوکھا احساس دل میں جڑ پکڑ رہا تھا ۔۔۔۔

×××××××××××××××××

کتنی دیر ہوگئی پتا نہیں عائیشہ بی بی کہاں رہگئیں ۔۔۔۔

ککو پریشانی سے سنئیہ سے بولی تھیں ۔۔۔۔ نظریں لاؤنج میں لگی وال کلاک پر ٹکی ہوئی تھیں ۔۔۔ رات کے دس بج چکے تھے اور عائیشہ کا کچھ پتہ نہ تھا ۔۔۔اتنی دیر تو کبھی بھی نہیں ہوئی تھی اسے ۔۔۔ عموماً وہ رات کے ساڑھے سات بجے تک گھر پہنچ جاتی تھی ۔۔۔۔ کبھی کبھی ہی اسے دیر ہوجاتی تھی لیکن وہ فون کرکے اس کی پہلے سے خبر دے دیتی تھی تاکے ککو اور سنئیہ پرشان نہ ہوں ۔۔۔ مگر آج نہ صرف وہ ابھی تک گھر نہیں پہنچی تھی اور نہ ہی اس کا کوئی فون آیا تھا ۔۔۔ اور اسی وجہ سے دونو ہی خواتین اپنی اپنی جگہ پریشان تھیں ۔۔۔۔۔ آج عبدل بھائی کے بغیر ہی وہ اپنے آفس چلے گئی تھی ۔۔۔۔

آپ پریشان نہ ہوں ککو وہ آجائے گی ۔۔۔۔۔

بی بی فون تو کرکے دیکھیں ۔۔۔۔

کیا تھا ککو اوف جا رہا ہے ۔۔۔۔

کیا ہو گیا ہے عائیشہ بی بی کو آج کل کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے ۔۔۔۔ بہت بدل گئی ہیں ۔۔۔ بی بی جی کی جب حیات تھیں تو سب کچھ کتنا اچھا تھا ۔۔۔۔ مگر اب سب کچھ بدل سا گیا ہے ۔۔۔

ابھی ککو سنئیہ سے بول ہی رہی تھیں کہ گاڑی کا مخصوص ہارن بجا تھا اور چوکیدار نے گیٹ کھول کر گاڑی کو اندر آنے کا راستہ دیا تھا ۔۔۔ سنئیہ اور ککو کی بیتاب نظریں مین ڈور کی طرف اُٹھی تھیں ۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں مین ڈور کھلا تھا اور وہ سر سے پیر تک پانی میں بھیگی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی ۔۔۔۔ اس کا جلباب اس کے جسم سے چپکا ہوا تھا ۔۔۔

آنکھوں میں تیرتی نمی ان دونوں نے ہی دیکھی تھی ۔۔۔ چہرے پر چھائی اداسی اور ایک عجیب سا دکھ ۔۔۔۔

سنئیہ جو اس سے باز پرس کرنے اور آج لڑائی کا پکا ارادہ کئیے بیٹھی تھی اس کی یہ حالت دیکھ کر سب کچھ بھول کر اس قریب تیزی سے آئی تھی ۔۔۔ اور دونوں ہاتھ تھام لئے تھے ۔۔۔

کیا ہوا ہے تمہیں ۔۔ پلیز عائیشہ مجھے بتاؤ نا ۔۔۔

وہ تقریباً رو دی تھی ۔۔۔۔ ککو بھی قریب آگئی تھیں انہیں عائیشہ اور سنئیہ سے بڑی محبت تھی ۔۔۔ اور اسے اس حال میں دیکھ کر وہ بھی پریشان ہوگئی تھیں ۔۔۔

عائیشہ جس کی آنکھیں چھلکنے کو تیار تھیں نے اپنا جھکا سر اٹھا کر خالی خالی نظروں سے اپنی جان سے عزیز بہن کو دیکھا تھا ۔۔ اور پھر بہت محبت سے اس کی پیشانی چومی تھی ۔۔۔۔

کچھ نہیں گڑیا ۔۔۔ بس تھوڑی دیر کے لئے کلفٹن چلے گئی تھی اور تیز لہروں نے مجھے بھگو دیا اور پھر اوپر سے گاڑی بھی خراب ہوگئی تھی ۔۔۔۔ شاید اتنی دیر گھر سے باہر رہنے کی عادت نہیں ہے اس لئے میں گھبرا گئی تھی ۔۔۔

اس نے بہانہ بنایا تھا ککو نے تو شاید اس کی بات پر یقین کرلیا تھا مگر سنئیہ چپ اس کے چہرے کو بغور دیکھنے لگی اور وہ اس سے نظریں چراتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی ۔۔۔

××××××××××××××

باقی آئیندہ ۔۔۔۔۔۔
farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 215553 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More