شہنشاہ جذبات - عظیم اداکار محمدعلی مرحوم کی یاد میں !

عظیم اداکار محمدعلی سے ایک یادگار ملاقات !

جب تک پاکستان فلم انڈسٹری اور سینما کا وجود باقی ہے عظیم اداکار محمدعلی اور وحیدمرادکا نام زندہ رہے گا کہ یہ دونوں باصلاحیت فنکار اپنے دور کے وہ کامیاب اور مقبول ترین فلمی ہیرو رہے ہیں جنہوں نے ایک طویل عرصہ تک کروڑوں فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا ہے ۔ سپر اسٹار وحیدمراد اور اداکارمحمدعلی مرحوم جن کو اس جہان فانی سے گزرے برسوں بیت گئے ہیں لیکن وہ فلم بینوں کے دلوں پر آج بھی اس طرح راج کررہے ہیں کہ گویا وہ اب بھی زندہ ہیں ۔بقول شاعر: جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتحہ زمانہ ۔۔۔

میں پاکستان کے مقبول ترین سپر اسٹار وحیدمراد کا مداح ہوں اور ایک طویل عرصہ سے ان کے حوالے سے مصروف عمل ہوں لیکن وحیدمراد کے ساتھ فلموں میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا اظہار کرنے والے اداکاروں کی بھی میں بہت عزت اور احترام کرتا ہوں اور خاص طور پر وحیدمراد کے بعد اس دور کے فنکاروں میں اگر کوئی دوسرا فنکار مجھے پسند آیا تو وہ شہنشاہ جذبات اداکار محمدعلی مرحوم تھے جنہوں نے بہت سی فلموں میں میرے پسندیدہ اداکار وحیدمراد کے ہمراہ بہت شاندار کام کیا ،محمدعلی اور وحیدمراد جس فلم میں بھی ایک ساتھ آئے فلم بینوں نے اس فلم کا شاندار استقبال کیا اور کاروباری لحاظ سے بھی مذکورہ فلمیں بہت کامیاب رہیں۔جن میں خاص طور پرفلم ’’کنیز‘‘ دشمن،حقیقت،تم سلامت رہو،صورت اور سیرت ،بہن بھائی اور فلم آواز وہ فلمیں ہیں جنہوں نے بے پناہ مقبولیت اور کامیابیاں حاصل کیں ۔

آج ایک بار پھر شہنشاہ جذبات اداکار محمدعلی مرحوم کی برسی کا دن آیا ہے تو یادوں کی دستک نے ان سے کی گئی ایک یادگار ملاقات کی یاد تازہ کردی ہے ۔ چنانچہ میں پاکستان فلم انڈسٹری کے مقبول اداکار شہنشاہ جذبات اداکار محمدعلی کے فن اور شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ان سے اپنی ملاقات کا احوال بھی نذر قارئین کررہا ہوں تاکہ محمدعلی کے مداحوں کو یہ اندازہ ہوسکے کہ محمدعلی ایک عمدہ فنکار ہونے کے ساتھ ایک بہت اچھا انسان بھی تھا۔

1984 میں راقم الحروف نے کراچی سے لاہور جانے کا ارادہ کیا تو شروع سے ہی ذہن میں یہ بات تھی کہ لاہور پہنچ کر اپنے عزیزواقارب سے ملنے کے بعد وحیدمراد مرحوم کی قبر پر حاضری کے بعد سب سے پہلے اداکار محمدعلی سے ملاقات کروں گا کہ محمدعلی کی رہائش گاہ ’’علی زیب ہاؤس‘‘ گلبرگ 3 میں واقع قبرستان سے بالکل نزدیک ہی واقع ہے اوران کے بنگلے پرکا نمبر 24/G ہے ۔واضح رہے کہ 1983 میں اداکار وحیدمراد کے انتقال کے کچھ ہی عرصہ بعد میں نے اپنی پہلی کتاب ’’کون کہتا ہے وحیدمراد مرگیا‘‘ شائع کی تھی اور میری خواہش تھی کہ جب میں لاہور جاؤں تو اپنے ساتھ اس کتاب کی بہت سی کاپیاں لے کر جاؤں تاکہ لاہور میں موجود فلم انڈسٹری کے نامور فنکاروں کو یہ کتاب پیش کرسکوں اور میں جن شخصیات کو یہ کتاب خاص طو رپر پیش کرنا چاہتا تھا ان میں محمدعلی اور زیبا کانام سرفہرست تھا۔لہذااپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے ملانے کے بعد ایک روز میں گلبرگ 3کے قبرستان پہنچ گیا جہاں سے سے پہلے میں نے اداکار وحیدمرادمرحوم اور ان کے والد نثار مراد مرحوم کی قبروں پر حاضری دے کر فاتحہ خوانی کے بعد ان کے لیئے دعائے مغفرت کی پھر قبرستان سے تھوڑی سی دور واقع وحیدمراد کے گھر پر گیا اور وہاں سے فارغ ہوکر میں ’’علی زیب ‘‘ ہاؤس پر جاپہنچا جو قبرستان سے کافی قریب ہے ،علی زیب ہاؤس کے گیٹ پر ایک چوکیدار موجود تھا جسے میں نے اپنا نام بتاکر کہا کہ میں کراچی سے آیا ہوں اور محمدعلی صاحب اور زیبا بھابی سے ملنا چاہتا ہوں ،شروع میں تو چوکیدار نے بہانے بنائے لیکن جب میں نے اس کو اپنی کتاب ’’ کون کہتا ہے وحیدمراد مرگیا ‘‘ دکھائی تو وہ اس بات پر آمادہ ہوگیا کہ وہ اندر جاکر محمدعلی صاحب سے میر ا نام بتا کر ملاقات کا بندوبست کرنے کی کوشش کرے گا جب وہ گیٹ کے اندر جانے لگا تو میں نے اس کے ہاتھ میں اپنی مذکورہ کتاب پکڑا دی اور کہاکہ تم محمدعلی صاحب کو یہ کتاب دینا امید ہے کہ وہ مجھ سے ملاقات کے لیئے وقت نکال لیں گے ۔چوکیدار اندر چلاگیا اور میں بڑی بے چینی سے وحیدمراد مرحوم کے قریبی ساتھی اور فلم انڈسٹری کے ایک بڑے سپر اسٹار محمدعلی سے ملاقات کے لیئے سراپا انتظار بنا ہوا کھڑا تھا اور میرے ذہن میں یہی تھا کہ چوکیدار آئے گا اور مجھے اندر لے جاکر کہیں بٹھادے گا اور پھر کافی انتظارکے بعدمیں محمدعلی اور زیبا سے ملاقات کرسکوں گا لیکن اس وقت میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی جب میں نے دیکھا کہ ’’علی زیب‘‘ ہاؤس کا خوبصورت گیٹ کھلا اور پاکستانی فلموں کا عظیم اداکار محمدعلی ایک ہاتھ میں میری کتاب پکڑے ہوئے بذات خود باہر آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کربولے :’’غازی آپ یہاں کیا کررہے ہیں آئیے اندر چلتے ہیں پھر باتیں ہوں گی اوریہ کہہ کر وہ مجھے اپنے ساتھ ڈرائینگ روم میں لے گئے مجھے ایک شاندار صوفے پر بٹھایا اورپھرخود بھی بالکل میرے ساتھ مل کر بیٹھ گئے اور میری کتاب کھول کر اس کی ورق گردانی کرنے لگے ۔چند لمحے کتاب کو دیکھنے کے بعد محمدعلی نے میری طرف دیکھا اور کہاکہ: ’’بہت محبت ہے آپ کو وحیدمراد سے ،بڑی محنت کی ہے آپ نے اس کتاب پر ،وحیدمراد تو میرا ساتھی اور میرے چھوٹے بھائی کی طرح تھا ،مجھے خوشی ہوئی کہ وحیدمراد کو آپ جیسا فین ملا جس نے وحیدمراد کے فن وشخصیت پر اتنی معلوماتی کتاب شائع کی ‘‘۔

فلمی دنیاکے اتنے بڑے اور عظیم اداکار کی طرف سے میرے لیئے یہ الفاظ کسی اعزاز سے کم نہیں تھے اور پھر محمدعلی صاحب کا بڑا پن دیکھئے کہ وہ میری کتاب دیکھتے ہی مجھے لینے کے لیئے خود اپنے بنگلے کے مین گیٹ پر آئے ورنہ وہ اپنے کسی ملازم سے بھی مجھے اندر بلوا کر بٹھا سکتے تھے ،محمدعلی صاحب کا رویہ یہ بات ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک نہایت نفیس اور وضع دار انسان تھے جو قلم قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کی دل سے عزت اور قدر کیا کرتے تھے ۔محمدعلی میری نگاہوں کے سامنے میرے ساتھ بیٹھے تھے اور میرے ذہن میں وہ فلمیں چل رہی تھیں جن میں میرے پسندیدہ اداکار وحیدمراد اور محمد علی نے ایک ساتھ کام کیا تھا ،یوں تو ان دونوں کی تما م ہی مشترکہ فلمیں نہایت شاندار اور قابل دید تھیں لیکن خاص طور پر فلم ،کنیز،حقیقت،آدمی ،دشمن،تم سلامت رہو،آوازاوربہن بھائی میں ان دونوں سپر اسٹار ز نے جس جاندار کردارنگاری کا مظاہر ہ کیا تھا اسے فلم بین کبھی فراموش نہیں کرسکتے ،ان دونوں فنکاروں کی فلمی جوڑی پاکستان کی اردو فلموں کی مقبول ترین فلمی جوڑی تھی جن کی تقریباً تمام مشترکہ فلموں نے مقبولیت اورکامیابی حاصل کی ۔یہ دونوں فنکار اکثرفلموں میں بھائیوں یا باپ بیٹے کے کرداروں میں نظر آتے تھے اور یہ کردار ان پر خوب جچتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ حالانکہ میں وحیدمراد کا مداح تھا لیکن مجھے محمدعلی صاحب بھی بہت اچھے لگتے تھے کہ جس فلم میں یہ دونوں ایک ساتھ آتے تھے، چھا جاتے تھے ۔

محمدعلی صاحب میرے ساتھ بیٹھے تھے اور میں ان کی بارعب اور شاندار شخصیت کے سحر میں جکڑا ہوا یہ سوچ رہا تھا کہ پاکستانی فلموں کا ایک بڑا فنکار اپنی عام گھریلو زندگی میں کتنا سادہ اور اچھا انسان ہے ۔محمدعلی صاحب میرے ساتھ عام سی پینٹ اور شرٹ میں گھر میں استعمال ہونے والی ایک سینڈل پہنے بیٹھے تھے نہ ان میں کوئی بڑائی ،غرور اور دکھاوا تھا اور نہ ہی اس بات کا کوئی اظہار ان کی کسی بھی بات سے ہوا کہ وہ خود کو کوئی بہت بڑا فنکار یا مالدار انسان سمجھتے ہیں بلکہ ان کا رویہ بہت ہی عاجزانہ اور انکسار بھراتھا جس نے مجھے بہت متاثر کیا ۔میں نے محمدعلی صاحب کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں آپ کی شریک حیات زیبا بھابی سے بھی ملنا چاہتا ہوں اور ان کو اپنی یہ کتاب بھی پیش کرنا چاہتا ہوں جبکہ آپ دونوں کے ساتھ فوٹوبنوانا اور آپ دونوں کے آٹو گراف بھی لینا میری خواہش ہے ۔میری اس بات پر محمدعلی نے مجھے انتظار کرنے کو کہااورمیری کتاب لے کر اپنے بنگلے کے رہائشی حصے کی جانب چلے گئے اس دوران ان کا ملازم میرے لیئے پانی اور چائے وغیرہ لے کر ڈرائینگ روم میں داخل ہوا ۔تھوڑی دیر کے بعد محمدعلی صاحب ایک بار پھر

ڈرایئنگ روم میں داخل ہوئے اس بار ان کے ہاتھ میں میری کتاب نہیں تھی بلکہ انہوں نے اپنے ذاتی لیٹر پیڈ کے دو صفحے پکڑے ہوئے تھے جو انہوں نے مجھے دیتے ہوئے کہا کہ :’’زیبا بیگم بھی ذرا مصروف ہیں لیکن میں نے آپ کی کتاب ان کو دے دی ہے جس کو انہوں نے بہت پسند کیا ہے جبکہ میں اپنے لیٹر پیڈ پر آپ کے لیئے زیبا بیگم کے آٹو گراف بھی لے آیا ہوں اور میں نے لیٹر پیڈ کے دوسرے صفحے پر اپنے آٹو گراف بھی دے دیے ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر محمدعلی صاحب ایک بار پھر میرے ساتھ آکر بیٹھ گئے اورمجھ سے چائے بسکٹ لینے کو کہا ،اس دوران میں ان سے وحیدمراد کے بارے میں گفتگو کرتا رہا اور ان کی آنے والی فلموں کے حوالے سے باتیں بھی کیں ۔میں نے چائے بسکٹ سے فارغ ہوکر محمد علی سے ان کے ساتھ تصاویر بنوانے کو کہا تو انہوں نے اپنے ملازم کو آواز دی اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ :’’میرے ساتھ ان کی چند تصاویر بنا دو‘‘ ،جس پر ملازم نے میرا کیمرہ اپنے ہاتھوں میں پکٹر ا اور تین چار تصاویر بنادیں اور پھر میں نے خود بھی محمدعلی صاحب کی چند کلوز تصاویر اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیں جو آج بھی میرے پاس ایک حسین اور یادگار ملاقات کی نشانی کے طور پر موجود ہیں جن میں سے ایک تصویر محمدعلی صاحب پر لکھے گئے میرے اس خصوصی کالم کے ہمراہ شائع کی جارہی ہے جبکہ محمدعلی اور زیبا کے آٹوگراف بھی میں نے اپنے پاس بہت احتیاط سے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔تصاویر بنوانے کے بعد میں نے محمدعلی صاحب سے رخصت ہونے کی اجازت چاہی تو وہ خود مجھے اپنے بنگلے کے داخلی گیٹ تک چھوڑنے کے لیئے آئے اور میرے دل ودماغ پر عظیم اداکار محمدعلی کی انسان نواز شخصیت کا عکس ایک حسین یاد کی صورت میں محفوظ ہوگیا جس میں سے چند باتیں میں نے اپنے اس مضمون میں اختصار کے ساتھ بیان کردی ہیں کہ کسی مرحوم فنکار کی ذاتی زندگی کے حوالے سے کوئی اچھی بات کسی کو پتہ ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ مرحوم کی اچھی باتوں اور عادتوں کا تذکرہ دوسروں تک بھی پہنچائے تاکہ مرنے والے کو لوگ اس کے جانے کے بعد اچھے الفاظ میں کریں ۔آخر میں میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ محمدعلی مرحوم کی مغفرت فرماتے ہوئے ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی بیوہ محترمہ زیبا بھابی کو صحت کے ساتھ طویل عمر عطافرمائے تاکہ وہ محمدعلی مرحوم کے نام سے منسوب جو فلاحی کام کرتی رہتی ہیں اس کا سلسلہ جاری رہے (آمین)
Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 127119 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More