جذبے کسی کے بس میں نہیں(چوتھی قسط)

سمن :ہاں تو اور کیا، جو ابھی سے شرطیں رکھ رہیں ہیں بعد میں پتہ نہیں کیا کیا کہیں گئے۔
نایاب :ٹھیک کہہ رہی ہو جذبات میں بہہ کر فیصلے نہیں کرنے چاہیے ،اپنا آپ چھوڑنا اچھا نہیں ہوتا،بعد میں انسان پچھتاتا رہتاہے۔
سمن :ہاں میں نے بھی یہی سوچا،چھ سال سے جاب کر رہی ہوں میں ،مجھے عادت ہو چکی ہے ۔اب سب چھوڑ کے بیٹھنا آسان نہیں تمہاری طرح اگر بی اے کا امتحان دینے کے بعد امی ابو شادی کروا دیتے تو شاہد بات اور تھی اب ایسا ممکن نہیں کہ کسی کے اشاروں پر چلوں۔
نایاب:ہاں،وہ اتنا ہی کہہ پائی ۔نایاب کو عجیب سی چھبن محسوس ہوئی ،اس کی بات تمہاری طرح،اور پھر اشاروں پر چلوں اس کے دماغ میں گھوم رہی تھی۔سچ ہی تو کہہ رہی ہے سمن وہ خود سے بات کررہی تھی،واقعی شادی کے بعد کی زندگی ان خوابوں سے بلکل مختلف ہوتی ہے جو لڑکیاں شادی سے پہلے دیکھا کرتی ہیں۔شادی محبت کرنے ،سیر کرنے ،ایک دوسرے کی نظر سے دنیا دیکھنے کا نام نہیں بلکہ لڑکی کے لیے شادی کامطلب اپنی ذات کی قربانی ہے ،اپنی سوچوں کو نظر انداز کر کے اس آدمی کی نظر سے دنیا کو دیکھنا ہے جو اچانک سے آپ کے لیے حاکم بن جاتا ہے،کیسا عجیب مذاق کرتے ہیں لوگ،کہ شادی ہو رہی ہے لڑکی اپنے گھر کی ہو جائے گی۔وہ اپنا گھر کبھی بھی اس کا نہیں ہوتا ایک تلوار اس کے سر پر لٹکی رہتی ہے،کب اس آدمی کو جسے لڑکی کو سونپا جاتا ہے کوئی اور لڑکی پسند آ جائے یا پھر کوئی بات ایسی بری لگ جائے کہ وہ تلوار چلا کر صرف تین لفظوں سے شادی کے رشتے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔اس کی انکھوں میں نمی آگئی تھی پھر ایک ننھا سا قطرہ انکھ کے کونے سے نیچے گرا تو اس نے انکھوں کی جلن کم کرنے کے لیے اپنی انکھیں بند کر دیں۔
سمن:ارےکیا ہوانایاب،بہت درد ہو رہی ہےکیا؟ڈاکڑ کو بلاوں؟
نایاب:نہیں،نہیں یار بس سر میں درد ہو رہی ہے۔اس لیے،دل کے درد جسم کے درد سے ذیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں مگر زخم نہ نظر آنے کی وجہ سے انسان اپنے اندر ان کوجمع کرتا رہتا ہے اور ایک انبار اس کے دل و دماغ کا حصہ بنا رہتا ہے ،میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہے ۔دل ہی دل میں نایاب نے سوچا۔کاش کہ ہم اپنا ہر درد ہی بیان کر پاتے ،اگر ہر بات ہی بیان کر دی جاتی تو دل کیسا ہلکا پھلکا ہوتا۔انسان کتنا پرسکون ہو کر رہتا۔ہم ہرگزرتے دن کی خوشی تو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، لیکن غم وہ اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتے ہیں،ایسا ہم کیوں کرتے ہیں ،وہ اکثر خود سے باتیں کرتی تھی۔ شادی کے کچھ ماہ بعد ہی اس کا یہ معمول بن گیا تھا ،آفتاب کو چونکہ ذیادہ تر خاموش رہنے کی عادت تھی وہ اکثر فلمیں دیکھنے یا ویڈیو گیم گھیلنے میں وقت گزارتایا پھر اکیلے گھومنے نکل جاتا۔
جب تک آفتاب کی امی زندہ تھی وہ ہمشہ نایاب کے لیے بولتی،وہ خود بھی کسی حد تک اپنی بات منوانے کی کوشش کرتی تھی لیکن آفتاب کی امی کے گزر جانے کے بعد ان کے درمیان خاموشی نے گھر کر لیا تھا۔رشتوں کے درمیان جب خاموشی گھر کر لیتی ہے تو جذبے سمٹ جاتے ہیں،ایک ہی راستے پر چلنے والوں کو اپنے ساتھ چلتا ہوا مسافر دیکھائی ہی نہیں دیتا،خواہ وہ کیسا ہی قریب ہو۔آفتاب اور نایاب کے درمیان بھی خاموشی اسی طرح رہتی تھی،وہ ہاں نہیں ٹھیک ہے ،پتہ نہیں ،اس طرح کے الفاظ ہی استعمال کرتے تھے ۔پہلے پہلے نایاب ہر بات آفتاب کو بتانے کی کوشش کرتی لیکن وہ اکثر اپنی ویڈیو گیم کھول کے کھیلنے لگتا ساتھ ہی ہوں ہاں ،اچھا کہہ لیتا ،نایاب کویہ احساس دیتا کہ اسے اس کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ،دھیرے دھیرے نایاب کی باتیں بھی اس کی ذات کی طرح اس میں سمٹ گئی۔
سمن:یہ ہوسپٹل کا ماحول بھی کیسا ہوتا ہے نا۔وقت گزرنے کا نام نہیں لیتا۔
نایاب :سچ کہہ رہی ہو،پتہ نہیں کب جان چھوٹے گی یہاں سے۔ہادی اور حریم کیا کر رہے ہوں گئے۔
سمن:تم ان کی فکر نہ کرو ،آفتاب بھائی ہیں نا ۔ان کے پاس،تم جب سو رہی تھی تو آفتاب بھائی آئے تھے ،جوس وغیرہ دے کر گئے ہیں ،کافی دیر بیٹھ کر تمہیں دیکھتے رہیں ہیں۔اب ایسا چاہنے والا شوہر مل جائے تو کیا چاہیے؟قسمت والی ہو تم۔اور وہ بھی۔
نایاب :کب آئےتھے؟تم جگا دیتی نا مجھے ؟
سمن :کیوں ،جگا دیتی۔تکلیف میں سونا ہی سب سے بہتر ہوتا ہے۔آفتاب بھائی نے بھی منع کیا تھا۔
نایاب:فون ملاتے ہوئے،پتہ نہیں میرے بچے کیا کر رہے ہوں گئے ؟
سمن:اگر میری بات مانو تو فون نہ کرو۔آفتاب بھائی کہہ رہے تھے کہ ہادی نے بہت پریشان کر کے رکھا ہے کہ میں مماکے پاس جاوں گا۔تم سے بات کر کے مذید تنگ کرئے گا دو دن کی تو بات ہے ،ڈاکٹر کہہ رہی تھی کہ ڈسچارج کر دیں گئے تمہیں ،صرف ڈریسنگ کے لیے ہی آنا ہو گا۔
نایاب:نایاب نے لکھے ہوئے ڈیجیٹ صاف کر دیے،رات کے گیارہ ہو رہے تھے ٹرے میں کھانا رکھا تھا۔سمن تم نے کھانا نہیں کھایا۔
سمن: یار کیفیٹیریا میں گئی تھی میں ،وہاں کھا لیا ،آفتاب بھائی نے کہا میں جاوں وہ تمہارے پاس رکیں گئے۔تم کھاو نا۔میں تمہارے لیے سوپ گرم کر کے لاتی ہوں
نایاب:اچھا
احمر:آپ آفس گئے تھے آفتاب بھائی؟
آفتاب :ہاں یار وہ کچھ ہوسپیٹل کے لیے پیپر ورق کرنا تھا،تم تو جانتے ہو کیسے بل ہوتے ہیں آغا خان ہوسپیٹل کے۔حریم کو گود میں لیے آفتاب ٹی وی دیکھ رہاتھا۔
احمر:رات بہت ہو رہی ہے ،حریم کو دیں اور سو جائیں آپ کی انکھیں بہت سرخ ہو رہی ہیں۔
آفتاب: ابھی سو جائے گی۔
احمر: ارے بھائی ،یہ بچے سنبھالنا،ہم مردوں کے بس کی بات نہیں،جس کا کام اسی کو ساجھے ،احمر نے مسکراتے ہوئے حریم کو لینے کے لیے بازو پھیلا دیے۔
آفتاب:اچھا پھر میں گھر جا رہا ہوں،صبح آفس جاوں گا کچھ دیر کے لیے کچھ کام باقی ہے۔یہ کہہ کر آفتاب نے گھر کا رُخ لیا۔گھر پہنچ کر وہ بستر پر لیٹا مگر نیند آنے کا نام نہیں لے رہی تھی ،گھر میں بلکل سناٹا تھا،نہ ہادی کی شرارتیں نہ نایاب کی آوازیں ،نہ حریم کا رونااور ہنسنا کچھ بھی نہیں۔وہ اُٹھا اور پورے گھر میں گھوما،پھر واپس آکر بستر پر لیٹ گیا۔سونے کی کوشش کرنے لگا۔باربار نایاب کا اس کے اگے آجانا اسے دماغ میں گھوم رہا تھا۔اس نے مجھے کبھی نہیں کہا،مگر میں نے بھی اس سے کب کہا ہے کہ،شاہد محبت محسوس کرنے کا نام ہے کہنے کا نام نہیں لیکن اگر آج اسے کچھ ہو جاتا تو؟رات کے تین بج رہے تھے اس نے موبائل دیکھا،پھر انکھیں بند کر لیں اور کچھ نہ سوچنے کی ٹھانی۔
ڈاکٹر:اسلام علیکم ،کیا حال ہے ؟رات کیسی گزری؟
نایاب :جی اچھی،ڈاکٹر ڈسچارج کب کریں گئے مجھے؟
ڈاکٹر :آج تو نہیں ،آپ کو کل دیکھیں گئے کیا حالت ہے۔زخم بہت گہرا ہے ۔ویسے کافی ایمپروو کیا ہے ،گڈ۔ڈاکڑز راورنڈ کے بعد چلیں گئی۔
سمن:اب کیسا محسوس کر رہی ہوِ؟نایاب کی طرف دیکھتے ہوئے۔
نایاب:بہت درد ہو رہا ہے۔پتہ نہیں کب ٹھیک ہو گا؟
سمن:اللہ بہتر کرئے گا۔
فروا۔فروا تم کمرے میں داخل ہوتی فروا کو دیکھ کر سمن نے کہا
فروا۔جی ہاں میں مجھے آج بتہ چلا ،امی ماہم سے باتیں کر رہی تھی تومجھے اندازہ ہوا حریم اور ہادی وہاں ہیں،امی نے تو مجھے بتایا ہی نہیں تھا ،آپ کیسی ہیں نایاب آپی ،وہ باقاعدہ رونے لگی ۔
نایاب:فروا اب میں بلکل ٹھیک ہوں ،تمہاری امی کو پتہ تھا نا کہ تم پڑھ نہیں پاو گی اسی لیے نہیں بتایا ہو گا تمہارے امتحان ختم ہو گئے ہیں یا ابھی باقی ہیں۔نایاب نے موضوع بدلنے کے لیے سوال کیا۔
فروا۔کل آخری پیپر ہے۔
سمن۔اس کے بعد فروا ،ہماری اردو ٹھیک کیا کرئے گی ،خاندان کی واحد لڑکی ہے جسے شاعری پسند ہے۔
فروا۔نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑی،اب ایسا بھی نہیں ،شاعری کسے پسند نہیں ہوتی ،سمن آپی۔آپ کی طرح ہر کوئی بدذوق تھوڑا ہی ہوتا ہے۔نایاب آپی سے پوچھیں۔اِن کے لیب ٹاپ میں بہت سی کولیکشن ہے شاعری کی ۔ہے ناں نایاب آپی؟
سمن:اچھا یار میں اپنے الفاظ واپس لیتی ہوں۔شکر ہے تم آئی ہو۔ورنہ یہ ہوشپٹل کا ماحول تو اچھے خاصے انسان کو بیمار کر دیتا ہے۔
فروا۔آپی آپ ڈسچارج کب ہو رہی ہیں
نورجہاں۔فروا کی امی داخل ہوئی ان کے ہاتھ میں جوس کے ڈبے اور کچھ فروٹ تھا۔اسلام علیکم بیٹا کسی ہو،سمن تم کیسی ہو ۔یہ پاگل لڑکی بھاگ کر آئی ہے اور مجھے وہیں چھوڑ دیا۔اب ہم تو اس عمر میں بھاگ نہیں سکتے نا۔
نایاب۔خالہ کو کیوں چھوڑ کر آگئی تم فروا ۔یہ اچھا نہیں کیا،خالہ آپ نے کیوں تکلف کیا۔اس سب کی کیا ضرورت تھی۔
ماہم۔نایاب آپی ،آپ کی آفتاب بھائی سے بات ہوئی ہے؟ماہم کا فون آیا۔
نایاب نہیں کیا ہوا؟حریم اورہادی تھیک ہیں ،میری ہادی سے بات کرا دو۔آج اگر اللہ نے چاہ تو میں ڈسچارج ہو جاوں گی۔تم پر بہت زمہ داری آگئی نا میرے بچوں کی ۔
ماہم ۔نہیں نایاب باجی ایسا تو نہ بولیں،ہمارے اپنے بچے ہیں ،بس ہادی بہت ضد کرتا ہے ،بہت غصہ بھی ۔حریم کھیلتی رہتی ہے ،اسے تو پتہ بھی نہیں اس کی ماما کا لیکن ہادی تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آپ کا اور بھائی کا پوچھتا ہے ،گیمزمیں بھی اس کا دل نہیں لگتااور اپنے گھر جانے کی ضد کرتا ہے۔
نایاب۔مجھ سے بات کرا دو اس کی۔
ماہم ۔نہیں،نہیں ابھی نہیں۔
نایاب۔کیوں ؟جاگا نہیں ہے ابھی۔
ماہم۔جاگا ہے،نہیں نہیں جاگا۔
نایاب۔جاگ رہا ہے تو بات کیوں نہیں کروا رہی۔
ماہم ۔وہ ،وہ کہہ کر خاموش ہو گی۔اور فون رکھ دیا۔
نایاب ۔نایاب نے پھر فون ملایا لیکن کسی نے فون نہیں اُٹھایا۔نایاب پریشانی سے رونے لگی۔پتہ نہیں کیا ہوا۔پتہ نہیں ہادی کیسا ہے؟
 

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 265009 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More