قوموں کی زندگی اور اللہ کی سنت

آج ہم بحیثیت قوم کے انتہائي مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ اور اس معاملے میں لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ آئيے ہم قرآن سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے بچاؤ کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ اور کائنات کا اکیلا حکمران قوموں کی زندگی کے فیصلے کس طرح فرماتا ہے اس معاملے میں اللہ کی سنت اور طریقہ کار کیا ہے۔ وہ کب قوموں پر تباہی لاتا ہے اور کس طرح ان کو زندگی دیتا ہے۔
آئيے ہم قرآن سے یہ جانتے ہیں کہ ہم اپنی قوم کو زندگی کیونکر دے سکتے ہیں۔
‍قرآن حکیم کی ان آیا ت پر ‏‏غور کیجیے:
سورة القصص ( 28 )
۔۔۔وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَى إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ {59}
اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہو جاتے۔

•پہلی بات یہ کہ ظلم چھوڑ دیجیے ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ غور کرے کہ کہیں اس کے ہاتھوں ظلم تو نہیں ہو رہا اور اگر ایسا ہے تو جو بھی ظلم وہ کر رہا ہے یا جس ظلم میں بھی حصہ دار ہے اسے چھوڑ دے ورنہ قوم کو تباہی کے دھانے پر لانے میں وہ اپنے اختیار کے مطابق برابر کا حصہ دار ہے۔ بے شک اقتدار کا صالح ہاتھوں میں ہونا ضروری ہے لیکن بدکاروں اور فاسق لوگوں کے سربراہ نیک لوگ تو نہیں ہو سکتے اور نیکوکاروں کے معاملات بھی اللہ لٹیروں کے ہاتھ میں نہیں دیا کرتا۔ حکمرانوں پر تنقید بجا مگر اپنے اپنے گریبان میں کون جھانکے گا؟ ہم یہ تو دیکھیں کہ ہماری جیبوں میں جو مال آرہا ہے اس میں کتنا باطل ہے اور اسے میں کس کس کا نچوڑا ہوا خون شامل ہے۔حضرت شعیب علیہ السلام کی اپنی قوم کو کی گئی یہ نصیحت بھی یاد رکھیے۔ اور اس آئينے میں اپنی صورت بھی دیکھ لیجیے۔
الاعراف-86 "ولا تقعدوا بکل صراط"
اور زندگی کے ہر راستے پر رہزن بن کر نہ بیٹھ جاؤ۔

اور یہ بھی یاد رہے کہ قرآن شرک کو ظلم عظیم قرار دیتا ہے۔

•دوسری بات یہ کہ اصلاح یعنی دعوت الی اللہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام شروع کر دیجیے۔ معاشرے کے صالح افراد کو چاہیے کہ وہ معذرت خواہانہ رویہ چھوڑ کر میدان میں آئيں اور جو لوگ اصلاح کا کام کرنے کے دعویدار ہیں وہ بھی اپنے کام اور اس کے معیار پر غور کریں اور اپنی اصلاح کریں۔ کہیں ہم اپنے مسلک اور چند طریقوں کی پرستش اور دعوت کو اللہ کی بندگی اور دعوت دین تو نہیں سمجھ رہے؟ کہیں ہم نے ‍ قرآن کی دعوت کو پس پشت ڈال کر اپنے علماء کی کتابوں، بے سند باتوں اور قصے کہانیوں کی دعوت تو نہیں شرو‏ع کردی؟ یا کہیں ہم نےاقامت دین کی تحریکوں کو فلاحی کام کرنے والی این جی اوز میں تو نہیں بدل دیا؟۔ کیونکہ:
سورة هود ( 11 )
وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ {117}
تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں۔

یقیناً رب کی بات سچی ہے اصلاح کرنے والے ہی کسی قوم کی زندگی کی ضمانت ہوا کرتے ہیں تو پھر ہم پر یہ عذاب کیوں آرہے ہیں۔ غور کیجیے۔ کہاں ہیں اصلاح کرنے والے؟ خدا اگر نوح علیہ السلام کی قوم کو ان کی اور ان کے اسی یا تراسی ساتھیوں کی وجہ سے ساڑھے نو سو سال مہلت دے سکتا ہے تو ہماری چند سالہ مہلت کیوں گھٹتی جا رہی ہے۔ اصلاح کرنا آج ہی سے شرو‏ع کر دیجیے۔

•تیسری بات یہ کہ استغفار کیجیے اپنی خطاؤں کی معافی مانگیے۔ اس کو اپنی عادت بنا لیجیے کیونکہ ہمارے رسول دن میں ستر اور سو سے زیادہ مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے
کہہ دیجیے
استغفراللہ العظیم
اور یاد رکھیے کہ
سورة الأنفال ( 8 )
۔۔۔ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ {33}
اور اللہ کا یہ قاعدہ نہیں ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دیدے۔
اور یہ وہ نعمتیں ہیں جو استغفار سے ہم کو مل سکتی ہیں۔
سورة نوح (71 )
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا {10} يُرْسِلِ السَّمَاء عَلَيْكُم مِّدْرَارًا {11} وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا {12}
میں(نوحؑ) نے (اپنی قوم سے)کہا اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لئے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کر دے گا۔
سورة هود ( 11 )
وَأَنِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنِّيَ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ {3}
اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدتِ خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا ۔ لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ تم سب کو اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔

ورنہ یاد رکھیے ہم تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ ہمیں خدا نےاسلام کے نام پر آزادی کی نعمت عطا کی تھی ہم نے اپنے ٹی وی پروگراموں میں شعائر اسلام کا مذاق اڑایا۔ ہم اپنا طرز عمل بدل چکے ہیں۔ اور
سورة الأنفال ( 8 )
ذَلِكَ بِأَنَّ اللهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمْ وَأَنَّ اللهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ {53} كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَذَّبُواْ بآيَاتِ رَبِّهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَونَ وَكُلٌّ كَانُواْ ظَالِمِينَ {54}
یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل دیتی۔ اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ آلِ فرعون اور ان سے پہلے کے قوموں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اِسی ضابطہ کے مطابق تھا۔ انہوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلایا تب ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کیا اور آل فرعون کو غرق کر دیا۔ یہ سب ظالم لوگ تھے۔
اور یہ بھی یاد رہے کہ
سورة الرعد ( 13 )
۔۔۔إِنَّ اللهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلاَ مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ {11}
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مدددگار ہو سکتا ہے۔
Aurangzeb Yousaf
About the Author: Aurangzeb Yousaf Read More Articles by Aurangzeb Yousaf: 23 Articles with 45821 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.