نفسِ ذکیہ - قسط نمبر ۔ ۵

مزار میں بہت گہما گہمی تھی۔ دل تو چاہ رہا تھا جھٹ سے گھر پہنچ جائیں پر بھوک کے مارے وہیں مزار کے ارد گرد بنی دکانوں سے کھانے پینے کے لئے کچھ لیا اور مزار کے اندر ہی ایک طرف کو احاطے میں بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔ سب کو بھوک لگی ہوئی تھی۔ جلدی جلدی ہاتھ چلنے لگے۔ منہ میں نوالے گئے تو سب کی جان میں جان آئی۔

’’کیا ہوا تھا ذولقر؟ تم بھاگ کیوں رہے تھے؟؟؟‘‘ دلاور نے تشویش ناک نظروں سے مجھے دیکھا۔
’’بس یار…… میں ایک مقبرے میں گھس گیا تھا ……‘‘ میں تھوڑا رکا پھر بولا۔ ’’…… اور وہاں ایک ملنگ کو دیکھ کر میں ڈر گیا……‘‘ میں نے شرمندگی سے جواب دیا۔
’’ملنگ کو؟؟؟‘‘
’’ وہ مقبرے کے اندر بیٹھا تھا؟؟؟‘‘ مجدی نے پوچھا۔
’’ہاں یار…… مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ وہ اندر بیٹھا ہے……میں واپس پلٹا تو مجھے نظر آیا……‘‘
’’ …… اور بس میں گھبرا گیا……‘‘ میں اپنا سر دائیں سے بائیں جانب ہلا ہلا کر بات کر رہا تھا۔

مجدی اور دلاور دونوں خاموش ہو گئے۔ میں بھی چپ چاپ نظریں جھکائیں کھانا کھاتا رہا۔

کھا پی کر کچھ سستی سی چھانے لگی۔ سارا دن عجیب و غریب ہی گزرا تھا۔ تفریح کے نام پر ایک مذاق ہی ہو گیا تھا ہمارے ساتھ……
دلاور ہمیں دیکھ کر مسکرانے لگا…… وہ بھی یہی سوچ رہا تھا کہ کیا انوکھی پکنک ہوئی ہے۔

ہم بھی مسکرانے لگے اور اپنا سر دائیں سے بائیں گھمانے لگے ……

’’چلو بابا جی کے مزار پہ فاتحہ تو کر لیں……‘‘ دلاور کہنے لگا۔
’’چھوڑو یار بیٹھو ابھی……‘‘ میں نے منع کر دیا ۔ دل ہی نہیں چاہ رہا تھا اٹھنے کا۔ دلاور اور مجدی بھانپ گئے کہ میں دلبرداشتہ ہو گیا ہوں۔ وہ میری حساس طبیعت سے واقف ہی تھے۔
’’ٹیک اٹ ایزی مین!!!‘‘ دلاور نے مجھے حوصلہ دیا اور اٹھ کر ادھر ادھر پھرنے لگا۔

ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ آ جا رہے تھے۔ رونق لگی ہوئی تھی۔ جیسی عام طور پر مزاروں پر ہوتی ہے۔ کچھ فقیر قسم کے لوگ بھی آس پاس بیٹھے تھے۔ ان میں سے کسی کسی فقیر کی حالت تو بالکل اس شخص سے ملتی جلتی ہوتی جیسی میں نے وہاں مقبرے پر دیکھی تھی۔

دلاور کو چین نہیں تھا۔ وہ کبھی کسی ریڑھی والے کے پاس کھڑا ہو کر سیپیوں کے بنے ہاربندے دیکھنے لگتا…… کبھی گلاب کے پھولوں والے کے پاس سے پھول اٹھا لاتا، کبھی کسی کونے میں گھس جاتا ،کبھی کہیں تانک جھانک کرنے لگتا……

ہم بھی ہمت کر کے اٹھے اوردلاور کے ساتھ چہل قدمی کرنے لگے۔ ایک کونے میں ایک چبوترے پر ایک فقیر اپنی آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا۔ دلاور اس کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اور اس کے حال حلیے کا گھور گھور کر مشاہدہ کرنے لگا۔ ہم بھی دلاور کے پیجھے ہی کھڑے تھے۔

’’با با جی ! دنیا وِچ واپس آ جاؤ……‘‘ دلاور کو شیطانی سوجی ۔ اس نے اس فقیر کے چہرے کے آگے ہاتھ اوپر نیچے ہلا کر کہا۔
ہم بھی مسکرانے لگے۔ دلاور ہمیں دیکھ کر ہلکا سا ہنسا کہ جانے کون سی بھنگ چڑھا کر بابا جی مست ہوئے ہوئے ہیں۔

’’بابا جی…… کتھے ہو……ہی ہی ہی……‘ ‘
’’دنیا وچ واپس آ جاؤ……‘‘ دلاور اپنی طرف سے پنجابی زبان کے ایک دو لفظ لگا کر پھر بولا۔
’’بابا جی……!!!‘‘
دلاور اس فقیر کے چہرے کے آگے ہاتھ ہلا رہا تھا۔ ’’ہی ہی ہی……‘‘ ۔ دلاور پھر ہنسا۔
’’کیوں آ جاؤ میں واپس؟؟؟‘‘ فقیر نے یک دم آنکھیں کھول دیں اور چیخ کر کہا۔ جیسے اس کو حال آ گیا ہو۔ ہماری تو سٹی گم ہو گئی۔
’’کس لئے آ جاؤ ں تیری دنیا میں واپس؟؟؟‘‘ وہ فقیر زور زور سے چلانے لگا۔ جیسے غصے میں بندہ بد حواس ہو جاتا ہے۔
’’ کیا رکھا ہے تیری دنیا میں……؟؟؟‘‘
’’ خون خرابہ …… شور شرابہ……‘‘
’’ قتل و غارت…… فتنہ و فساد……جنگ و جدل‘‘
’’کیوں آ جاؤ ایسی دنیا میں جہاں انسان انسان کا دشمن ہے!!! اس کے خون کا پیاسا ہے…… بھائی بھائی کا دشمن ہے……اولاد نافرمان ہے……دنیا فتنہ و فساد کا گڑھ بن گئی ہے……‘‘
ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ …… دم دبا کر بھاگے۔
’’اے پاگلوں! کہاں بھاگتے ہو!!! سن لو اپنی دنیا کا حال…… ‘‘
’’بھوک…… افلاس ہے…… بے حیائی……جنگ……جھوٹ……‘‘ ہمیں اپنے پیجھے سے ایسے ہی الفاظ سنائی دے رہے تھے۔
’’یہ دنیا رہنے کے لائق نہیں ہے……‘‘
جسے ہم دیوانہ سمجھ رہے تھے، اس کی نظر میں ہم پاگل تھے۔

آخرکار ہم بھاگتے بھاگتے اپنی گاڑی تک پہنچ گئے۔اس پکنک کا آخری سبق بھی ہمیں مل گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

’’فہد بھائی نیچے آئیں…… سلیم آیا ہے باہر……‘‘ فہد کے کزن نے اسے آواز دی۔وہ گھر کے اوپر والے کمرے میں بیٹھا تھا۔ آج اس کی میری دکان سے چھٹی تھی۔ نیچے رضیہ آنٹی اور انکی بیٹی ریحانہ آئے ہوتے تھے۔ ان کے آتے ہی فہد گھر میں اوپر چلا جاتا تھاتا کہ بے پردگی نہ ہو۔

فہد اپنے دوست سے ملنے نیچے آنے لگا۔ سیڑھیاں عین اس کمرے کے سامنے ہی تھیں جہاں ریحانہ بیٹھی تھی۔ سیڑھیاں اترتے اترتے فہد نے دو بار اپنے دائیں جانب کھڑکی سے ریحانہ کو دیکھا۔ وہ بھی اسے سیڑھیاں اترتے دیکھنے لگی۔ بس اتنا ہی کافی تھا…… کِس لڑکے کو یہ اچھا نہیں لگے گا کہ کوئی لڑکی اس سے نظریں ملائے…… اور کِس لڑکی کو یہ پسند نہ ہو گا کہ کوئی لڑکا اسے توجہ دے!!!

فہد سیدھا سیدھا گھر کے چھوٹے سے دروازے سے باہر نکلا جس پر خالہ نے ایک دری کا پردہ لٹکایا ہوا تھا۔ باہر اس کا دوست کھڑا تھا۔ وہ وہیں قریب گلی میں بنی ایک تھلی پہ بیٹھ گئے اور گپ شپ کرنے لگے۔

رضیہ آنٹی اور ریحانہ اب تک گھر کے اندر ہی تھے۔ کچھ دیر میں فہد اپنے دوست سے مل کر فارغ ہوا اور واپس گھر آیا۔ نیچے مہمان بیٹھے تھے لہذا وہ سیدھا اوپر چلا گیا۔ اسے نیچے کمرے میں کوئی بیٹھا نظر نہ آیا مگر ہلکی ہلکی باتوں کی آواز آ رہی تھی۔ فہد نے سوچا کہ شاید سب زمین پر بیٹھ گئے ہوں گے اس لئے کھڑکی سے کوئی نظر نہیں آ رہا۔

اوپر پہنچتے ہی فہد نے ریحانہ کو بچوں کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے پایا۔ وہ کچھ ٹھٹھک کر رہ گیا۔ اگر فوراََ ہی ریحانہ نیچے نہ چلی جاتی یا فہد گھر کے باہر نہ چلا جاتا تو رضیہ آنٹی کو ضرور برا لگتا۔

’’السلام علیکم!‘‘ ریحانہ نے کہا اور وہیں اوپر والے کمرے کے سامنے بنے صحن میں بچوں سے باتیں کرتی رہی۔ فہد سلام کا جواب دے کرکمرے کے اندر چلا گیا۔ وہ کمرے میں چارپائی پر بیٹھ کر کچھ سوچنے لگا۔ ریحانہ باہر ہی تھی۔ کچھ دیر میں وہ نیچے چلی جاتی…… اسے یقین تھا کہ وہ اس کے لئے ہی اوپر آئی ہے……
’’چلو…… نیچے چلیں‘‘۔ ریحانہ نے بچوں سے کہا اور سیڑھیاں اترنے لگی۔ فہد کا چہرہ اتر گیا۔ مگر ایسے ماحول میں وہ کیا بات کرتا کیا کہتا۔ خالہ برا مناتیں اور رضیہ آنٹی کو بھی اچھا نہ لگتا…… بلکہ جیسے ماحول میں وہ لوگ رہتے تھے، مرد و زن کا محض چند جملے آپس میں بات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا اور اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔

فہد بس ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔


چار پیرئیڈز ختم ہو چکے تھے۔ چوتھے پیرئیڈ کے بعد بریک ہوتی تھی۔ َمس نے بریک سے پہلے ایک ڈرائنگ بنوائی تھی۔ سب بچے اس ڈرائنگ میں رنگ بھرنے میں لگے ہوئے تھے۔ میں بھی ڑرائنگ میں رنگ بھر رہا تھا۔

’’ذولقرنین! یار! لال کلر دینا……‘‘ ۔ میرے ساتھ والی ڈیسک پر بیٹھے ایک بچے نے مجھ سے لال رنگ مانگا۔
’’نہیں یار! وہ بہت کم رہ گیا ہے میں نہیں دے رہا……‘‘ میں نے منع کر دیا۔ امی نے ویسے ہی کہہ رکھا تھا کہ سارا سال یہی کلرز چلانے ہیں۔
’’دے دو یار!‘‘ وہ پھر مجھ سے رنگ مانگنے لگا۔
’’نہیں بھئی …… میرے پاس نہیں ہے‘‘ میں نے فٹ سے جواب دے دیا۔

’’یار تم تو اپنی چھٹی انگلی سے بھی لال رنگ کر سکتے ہو……‘‘
’’اسے کاٹ کے لال رنگ کر دینا…… ہاہاہا……‘‘ ۔ وہ میرا مذاق اڑانے لگا۔ کیونکہ میرے ایک ہاتھ میں پانچ انگلیاں نہیں بلکہ چھ تھیں۔ دوسرے بچے بھی اس کے ساتھ مل کر مجھ پر ہنسنے لگے۔ مجھے بہت برا لگا۔ میں نے ایک نظر اپنی چھٹی انگلی کو دیکھا جو عجیب طریقے سے انگوٹھے کے ساتھ سے نکلی ہوئی تھی اور پھر منہ نیچے کر کے رنگ بھرنے لگا۔

’’او! چھ انگلیوں والے چھکے!!!‘‘۔ اس نے زور سے کہا۔
’’ہاہاہاہا……‘‘ ۔ سب مجھ پر ہنسنے لگے۔ میں غصے میں بے قابو ہو گیا۔میں نے اپنی پانی کی بوتل اٹھا کر اسے زور سے مار دی۔ وہ بھی اٹھا اور میری ہی بوتل مجھے اٹھا ماری۔ مجھے بہت غصہ چڑھا ہوا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں کلاس کے دوسرے بچے ہمیں پکڑ کر ایک دوسرے سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگے۔ میں نے اسے خوب مارا اور اس نے بھی مجھے……

آخر کار ہم دونوں نے ایک دوسرے کو چھوڑ دیا۔ وہ بھی مجھے برا بھلا کہتا رہا اور میں بھی اسے برا بھلا کہتا ہوا کلاس سے نکل گیا……

۔۔۔۔۔۔۔

مجدی میرے ساتھ ہی اسکول گراؤنڈ میں تھا۔ وہ ہمیشہ بریک میں میرے ساتھ ہی ہوتا تھا۔ میں اس کے ساتھ بیٹھا اس لڑکے کو برا بھلا کہتا رہا۔وہ بھی میری ہاں میں ہاں ملاتاجاتا۔

’’اوئے…… تمہاراپھڈا ہوا ہے آج؟؟؟‘‘ دلاور پکڑم پکڑائی کھیل رہا تھا۔ وہ بھاگتے بھاگتے میرے پاس آیا اور مجھ سے آج کی لڑائی کے بارے میں پوچھنے لگا۔
’’ہاں…… اور ہم نے سوچا ہے اب ہم اس سے بات نہیں کریں گے۔ تم بھی اس سے دوستی توڑ دو……‘‘ میں نے اور مجدی نے طے کر لیا تھا کہ ہم اس سے دوستی ختم کر دیں گے۔
’’اچھا…… پھڈا تمہارا ہوا ہے…… میں کیوں دوستی توڑوں؟؟؟ ‘‘
’’ میرا تو وہ بہت اچھا دوست ہے‘‘۔ دلاور نے صاف صاف جواب دے دیا اور آگے بھاگ گیا۔
میرا منہ بن گیا۔ میں نے سوچ لیا کہ ٹھیک ہے ، پھر میں دلاور سے بھی بات نہیں کروں گا۔ مجدی بھی مجھے افسوس سے دیکھنے لگا۔

وہ دن میرا اسکول میں بہت برا گزرا۔ مجھے اس لڑکے پر تو غصہ آ ہی رہا تھا۔ اب ساتھ ساتھ دلاور پر بھی غصہ آنے لگا۔

’’…… اگر دلاور میرا پکا دوست ہوتا تو ضرور اس سے دوستی توڑ دیتا۔ اس سے میری لڑائی ہوئی ہے مگر دلاور پھر بھی اس سے دوستی رکھنا چاہتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دلاور اس کا پکادوست ہے اور میرا نہیں ہے۔ میں اب دلاور سے بھی بات نہیں کروں گااور اس کی دی ہوئی ربر بھی اس کو واپس کر دوں گا‘‘۔

میں نے اپنے پچھلے سال کی ایک کاپی کو سنبھال کر رکھا ہوا تھااور اسے اپنی ڈائری بنایا ہوا تھا۔ میں نے اس ڈائری میں اپنے دل کی بات لکھ دی۔
۔۔۔۔۔۔۔

اس دن میں اپنے اسٹور پر آیا ہوا تھا۔ کچھ کام تھا۔ پچھلے ماہ پرافٹ لوسٹ چیک کرنا تھا۔ میں اسٹور میں ہی کونے پر بنے اپنے چھوٹے سے آفس میں بیٹھا تھا۔ آفس کی شیشے کی دیواروں سے باہر اسٹور میں آنے جانے والے گاہکوں پراور سیلز پرسنز پر بھی نظر رہتی تھی۔

ہمارے اسٹور پر لیڈیز جینٹس دونوں کے لئے شوز دستیاب ہوتے تھے۔ کئی کسٹمرز دوکان میں گھوم رہے تھے ۔دو خواتین فہد سے کسی بات پر بحث کر رہیں تھیں۔ ذیادہ تر ایسے بحث مباحثوں میں آخر میں سیلز مین یا تو کسٹمر کو مینجر کے پاس لے جاتا یا اگر میں ہوتا تو میرے پاس لے آتا۔

اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔
’’ایکسکیوز می سر!‘‘ فہد نے میرے آفس میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’یہ شوز چینج کروانا چاہ رہی ہیں……مگر انہوں نے یوز کر لئے ہیں شوز……‘‘ ۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کسٹمر کوئی چیز واپس کروانے آتا مگر اسے پہلے سے استعمال کر لیا ہوتا۔

’’السلام علیکم !‘‘ میں نے ان دونوں لڑکیوں کو سلام کیا۔ وہ کوئی پچیس چھبیس سال کی ہوں گی……
’’و علیکم السلام!…… دیکھیں، میں نے یہ کچھ دن پہنے تھے۔ مگر اس کی جو یہ لڑیاں ہیں ،یہ پہلے دن ہی گر گئیں تھی…… اب بازار روز تو نہیں آنا ہوتا نا اس لئے اب آئیں ہوں……‘‘ انہوں نے سلام کر کے فوراََ شکایت کرنی شروع کردی۔

’’اچھا! دکھائیں‘‘۔ میں انہیں پہچان گیا۔ انہوں نے بھی ایک نظر میرے چہرے کو دیکھا اور کچھ ٹھٹھک سی گئیں۔
’’آپ…… ا م م م…… ذولقر نین……!‘‘ وہ بھی پہچان گئیں۔ میرے چہرے پر ایک بڑی سی خوشگوار مسکراہٹ آ گئی۔
’’جی…… میں ذولقرنین ہی ہوں…… آپ فوزیہ ہیں نا؟؟؟‘‘ وہ بھی مسکرا اٹھیں۔ ’’ جی میں فوزیہ ہی ہوں‘‘ ۔

’’بیٹھیں! ‘‘ میں نے فوراََ دونوں کو بیٹھنے کا کہا۔
’’یار! یہ چینج کر دیں آپ؟؟؟‘‘ میں نے اور کچھ کہے سنے بغیر اپنے سیلز مین فہدکو کہہ دیا۔ وہ بھی سمجھ گیا کہ کوئی جان پہچان نکل آئی ہے اور آفس سے نکل گیا۔

فوزیہ اور میں کالج میں ساتھ پڑھتے تھے۔ میں اسے بہت پسند کرتا تھا مگر کبھی اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ البتہ میں ہمیشہ اس کی آنکھوں میں بھی اپنے لئے کچھ جزبات ضرور پڑھتا تھا …… پر ڈرتا تھا کہ کہیں یہ میری خوش فہمی ہی نہ ہو۔کالج کے دو سال بہت جلدی گزر گئے۔ میں وہ فوزیہ اپنے اپنے رستے چل پڑے۔ میں نے ایک یونیورسٹی میں ایم بی اے کرنا شروع کر دیا اور فوزیہ نے بھی کسی دوسرییونیورسٹی سے ایم بی اے کر لیا۔ میں اپنا کاروبار کرنے لگا اور فوزیہ بھی کسی آفس میں جاب کرنے لگی۔ نئی جگہ نئے لوگ ملے…… ہم ایک دوسرے کو بھول ہی گئے۔ پھر اب کہیں سات آٹھ سال بعد فوزیہ سے ملاقات ہو رہی تھی۔

میں نے فوزیہ اور اس کی دوست کے لئے چائے کا آڑر دے دیا اور ساتھ کچھ سنیکس وغیرہ بھی منگوا لئے۔انہوں نے پہلے تو انکار کیا پھر میرے تھوڑے سے اصرار پر راضی ہو گئیں۔

’’تو …… کچھ بتائیں …… کالج کے بعد آپ کہاں رہیں؟؟؟ کہاں ایڈمیشن لیا؟؟؟‘‘ میں نے گپ شپ شروع کردی۔ اپنے حالات کے بارے میں بتایا اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا۔ وہ بھی بے تکلفی سے میری باتوں کا جواب دیتی رہی۔
کچھ دیر کی نشست کے بعد چائے ختم ہو چکی تھی۔ فوزیہ اوراس کی دوست شکریہ کہہ کر اٹھے۔ میں بھی اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا۔ فوزیہ مجھ سے مل کر بہت خوش نظر آ رہی تھی۔ میں بھی اسے دیکھ کر بہت خوش تھا۔

’’فوزیہ! یہ میرا کارڈ رکھ لیں…… اور آتی جاتیں رہیئے گا!!!‘‘
’’اوہ……! تھینک یو…… ضرور……‘‘ فوزیہ نے خوش دلی سے میرا کارڈ رکھ لیا۔
’’……اور شوز تو آپ کو اب یہیں سے لینے پڑیں گے ‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔
’’ ہی ہی ہی …… ‘‘ فوزیہ بھی ہنس دی۔

۔۔۔۔۔۔۔

ہفتے میں تین چار بار مجدی میری طرف چکر لگا ہی لیتا تھا۔ کبھی آفس ، کبھی اسٹور میں یا پھر ہم کہیں باہر کسی ہوٹل وغیرہ میں کھانا وانا کھا لیتے تھے۔ اس دن بھی مجدی نے فون کر کے آنے کا کہا تھا۔ میں اپنے آفس میں ہی بیٹھا تھا۔ شام کے ساڑھے پانچ بج چکے تھے۔ آفس کے تمام لوگ ہی گھر جا چکے تھے صرف ایک آفس بوائے موجود تھا۔

میں مجدی کے انتظار میں بیٹھا ٹیلی پیتھی سے متعلق ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔

’’ٹیلی پیتھی ، یعنی بغیر کسی عام فہم زریعے کے اپنے خیالات یا کوئی معلومات کسی اور تک پہنچانا۔ سب سے پہلے میں یہ بتاتا چلوں کے ٹیلی پیتھی ایک رحمانی عمل ہے شیطانی نہیں۔ اس کے زریعے کوئی غلط کام نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا معکل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اسے سیکھنے کے لئے مختلف اقسام کے مشقیں کرنی پڑتی ہیں۔ خاص طور پر اپنے ذہن کو مکمل پر سکون حالت میں لانا پڑتا ہے۔ مراقبہ کرنے سے ذہن تمام خیالات سے پاک ہو کر پر سکون کیا جاتا ہے اور پھر ٹیلی پیتھی کی جاتی ہے……‘‘

تھوڑی ہی دیر میں کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی۔ میں سمجھ گیا کہ مجدی آ گیا ہے۔ میں نے کتاب بند کر کے ایک طرف رکھ دی۔

’’السلام علیکم!‘‘ مجدی نے دروازے کھولا اور اندر آ گیا۔
’’و علیکم السلام ! کیا حال ہے بھئی؟؟؟‘‘
’’ٹھیک ہو یار……‘‘ مجدی نے عجیب انداز میں کہا۔ جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ ٹھیک نہیں ہے مگر رسماََ کہہ دیا ہے۔
’’کیوں ؟ خیریت ہے کیا ہو؟؟؟‘‘ میں مسکرا دیا۔ مجھے بھی پتا چل گیا کہ شاید کوئی پریشانی ہے۔ مجدی بیچارے کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسئلہ لگا ہی رہتا تھا۔
’’بس یار……‘‘ مجدی نے منہ بنا لیااور مجھے اور ہنسی آ گئی۔
’’کیا ہو گیا بھئی؟؟؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔
’’بس یار…… تمھیں بتایا تھا نا کہ آفس میں حالات ٹھیک نہیں چل رہے……‘‘
’’بس یار …… سننے میں آ رہا ہے کہ مجھے بھی نکالنے والے ہیں……‘‘ مجدی کے چہرے پر مایوسی چھائی ہوئی تھی۔
’’او ہو…… یہ تو بہت بری بات ہے ‘‘ ۔ مجھے بھی فکر ہونے لگی۔ ظاہر ہے، مجدی کی جاب چلی جاتی تومعاشی طور پر اسے پرابلم ہو جاتی۔ویسے بھی وہ دلاور کی طرح کسی امیر کبیر فیملی سے تو تھا نہیں۔ نہ ہی اس کا میری طرح کوئی کاروبار تھا۔ وہ تو تنخواہ لینے والا ایک عام سا بندہ تھا۔ لائف اسٹائل بھی عام مڈل کلاس فیملیز کی طرح تھا۔ جاب کے بغیر اسے بہت مسئلہ ہو جاتا۔

’’کہیں اور سے جاب آفر نہیں آئی؟؟؟‘‘ مجدی نے بتایا تھا کہ وہ کہیں اور بھی اپلائے کر رہا ہے۔
’’نہیں یار …… کہیں سے نہیں……‘‘ ۔ مجدی کا چہرہ اترا ہوا تھا۔
’’ہم م م …… ‘‘ ۔ میں بھی سوچنے لگا کہ اسے کیا کہوں کیا دلاسہ دوں۔
’’اچھا اتنے پریشان نہ ہو…… انشاء اﷲ دوسری جاب مل جائے گی……‘‘
’’ ویسے بھی ابھی تک تم نے سنا ہی ہے…… ہو سکتا ہے کسی نے ایسے ہی اڑائی ہو بات……‘‘ میں نے مجدی کو کچھ خوش کرنا چاہا۔
’’نہیں یار…… کمپنی بند ہونے والی ہے…… باس نے کہیں اور بھی بزنس شروع کیا تھا جو بہت اچھا چل رہا ہے۔ وہ اس کمپنی کی انویسٹمنٹ بھی وہیں لگانا چاہ رہے ہیں۔‘‘ مجدی نے کچھ تفصیل بنائی۔
’’اچھا! ……تو تم باس سے بات کر کے اس کمپنی میں ٹرانسفر لے لو نا……‘‘ میں نے پھر ایک مشورہ دیا تا کہ مجدی کو کچھ امید ہو۔ جبکہ مجھے معلوم تھا کہ مجدی نے اس بارے میں بات کی ہی ہو گی۔
’’ہاں یار…… میں نے یہ بات تو کی تھی مگر کوئی خاص جواب نہیں آیا‘‘۔
ہم دونوں تھوڑی دیر کے لئے چپ ہو گئے۔ میں سوچنے لگا کہ اپنے آفس میں ہی کہیں مجدی کو رکھ لوں ۔ مگر میں اسے اتنی سیلری نہیں دے سکتا تھا۔ اگر اسٹور مینیجر کی جگہ اسے رکھ لیتا تو کچھ بات بن جاتی مگر اس طرح تو مینیجر کے ساتھ نا انصافی ہو جاتی اور بلا وجہ اس کی جاب چلی جاتی۔

’’خیر …… اگلے ہفتے میری منگنی بھی ہے……‘‘ ۔ مجدی نے اتنی خوشی کی خبر ایسی اداس سی شکل بنا کر سنائی کہ مجھے ہنسی آ گئی۔
’’ہی ہی ہی …… ارے گدھے! اتنی خوشی کی خبر اتنا گھٹیا سا منہ بنا کر دے رہے ہو……‘‘ میں ہنس پڑا۔ مجدی کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آ گئی۔
’’ظاہر ہے کیا کروں……‘‘ ۔ اس نے مسکراتے ہوئے منہ ٹیڑھا کیا۔

اس کی منگنی اس کی ایک دور کی رشتہ دار سے ہی ہو رہی تھی۔ کافی عرصے سے سن رہے تھے اس کے اس رشتے کے بارے میں …… آخر کار بات آگے بڑھ ہی گئی۔ دراصل وہ ایک کھاتی پیتی فیملی تھی اور مجدی کی ایک معممولی نوکری تھی۔ لہذا رشتہ ہونے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ مگر اب کسی طرح دال گل ہی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78752 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More