مغربی تہذیب کے پیدا کردہ انسانی مسائل اور ان کا حل-ایک جھلک

آج کی 'مہذب'دنيا اور 'ترقی يافتہ مغربی تہذيب' کے زيراثر انتہائی طاقتور مغربی ميڈيا کی خباثتیں گھر گھر پہنچ رہی ہیں اور اس نے دنيا کے انسانوں کو جھوٹ کے کچھ ايسے گورکھ دھندے ميں ڈال ديا ہے کہ جہاں انسانی مسائل الجھتے ہی چلے جاتے ہيں اور انسانیت کے لیے نافع کوئی چيز برآمد نہیں ہوتی، ايک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دلوں سے خدا کا خوف نکال کر باطل کا خوف بٹھايا جا رہا ہے اور وحی الہی کے نور سے دور اندھيروں ميں بھٹکتی يہ تہذيب سفاک سے سفاک تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ چشم فلک نے ايسی "تہذيب يافتہ" انسانيت کم ہی ديکھی ہوگی کہ جس کے سربراہان ملينز کی تعداد ميں انسانوں کے قاتل ہيں، جہاں چند سرمایہ دار سٹے باز اور عالمی معاشی غنڈے کچھ دنوں ميں کروڑوں انسانوں کے منہ سے نوالہ چھين کر انہيں غربت کی لکير سے نيچے پہنچا ديتے ہيں، جہاں چند افراد ملکوں سے زيادہ امير ہيں، جہاں انسانيت بھوک سے سسکتی ہے اور کھربوں ڈالر جنگوں ميں جھونک ديے جاتے ہيں اور جہاں دوسروں پر ظلم کے جواز کے ليے اصطلاحيں گھڑی جاتی ہيں اور اسی ميڈيا کے زير اثر ساری دنيا وہی راگ الاپنے لگتی ہے، جہاں عورت سے چادر اور چارديواری کی عزت چھين کر، اس پر غیر فطری ذمہ داریاں ڈال کر، اسے آلہ اشتہار بنا کر "مساوات" اور رو‏شن خيالی کے نعرے لگائے جاتے ہيں یہ وہی تہذيب ہے جو اپنی ماچس کی تيلی بنانے کے ليے تو ايک فيکٹری لگاتی ہے اور کائنات و کہکشاؤں کے اس عظيم الشان و بے مثال نظام کا مشاہدہ کرنے کے بعد اسے اتفاقی حادثہ قرار دیے جانے کو بھی معقول بات سمجھتی ہے اور ستم بالائے ستم يہ کہ "اسفل سافلين" کی تفسير يہ خدا نا آشنا وحشی تہذيب اپنے آپ کو دنيا کی امامت کا جائز حقدار سمجھتی ہے اور ميڈيا کا ايک بڑا اور غالب حصہ اس کی غلامی ميں انسانيت کے زخموں کے مرہم اور انسانیت کے تمام مسائل کے حل نظام زندگی اسلام کو فرسودہ اور ناقابل عمل ٹھہراتا ہے۔ امن و محبت کے اس دين کو کہ جو ايک انسان کا ناحق قتل ساری انسانيت کا قتل قرار ديتا ہے:

مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا {32} سورة المائدة (5)
"جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین ميں فساد پھيلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔"

عالمی جنگوں میں کروڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے والے وحشی جو آج بھی خون کی ہولی کھیل رہے ہیں اس اسلام کو تلوار کے زور پر پھیلا ہوا قرار دیتے ہیں جو ایک ہزار سے بھی کم جانی نقصان میں سارے عرب پر چھا گیا تھا۔ اور جس کی پوری تاريخ میں کسی ايک مسلم حکمران پر ايک لاکھ افراد کے قتل کا الزام بھی نہيں لگايا جا سکتا۔ سودی نظام کے علمبردار، ناجائز ہتھکنڈوں سے دنیا کی دولت چند ہاتھوں میں سمیٹنے والے، لاکھوں غریبوں کا خون نچوڑ کر اپنے بینک بیلنس بڑھانے والے عالمی معاشی غنڈے اور ان کے چیلے اس اسلامی نظام کو ناقابل عمل قرار دیتے ہیں جس نے زکواۃ، صدقات، وراثت کی تقسیم، فطرانے، قربانیاں، یتامی، مساکین، غرباء، مسافر، مہمان، پڑوسی، رشتہ دار سے حسن سلوک کی صورت میں مال کی تقسیم کو یقینی بنایا اور جس کے نظام معيشت کی بنياد ہی اس پر ہے کہ:

لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاء مِنكُمْ {7} سورة الحشر (59)
"وہ (مال) تمھارے مالداروں ہی کے درميان گردش نہ کرتا رہے"۔

جو اسلام غريبوں کا خون چوسنے اور ارتکاز دولت کے بجائے اپنے نظام میں دولت کی تقسیم کو یقینی بناتا ہے۔ ادائے زکواة کو فرض قرار ديتا ہے، صدقات کی ترغيب ديتا ہے اور آپ کے مال میں یتیموں، مساکین، رشتہ داروں اور مسافروں تک کے حقوق کی نشاندہی کرتا ہے۔ جو عورت کو رشتوں کے بندھن ميں عزت ديتا ہے اور اسے وراثت ميں حصہ دارٹھہراتا ہے اور جو دشمنی میں بھی اپنے پیروکاروں کو عدل و انصاف، حق و صداقت اور اصولوں کی تعليم ديتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ {8} سورة المائدة (5)
"اے ایمان والو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔"

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاء لِلّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقَيرًا فَاللّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْهَوَى أَن تَعْدِلُواْ وَإِن تَلْوُواْ أَوْ تُعْرِضُواْ فَإِنَّ اللّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا {135} سورة النسآء (4)
"اے ایمان والوں، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدين پر اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔"

یہ ان اصولوں میں سے چند اصول ہیں جو اسلام نے صدیوں پہلے ديے۔ کیا یہ آج ناقابل عمل ہیں؟ کیا آج کی اندھی تہذیب بھی انسانیت کو ایسے ہی مبنی بر انصاف اصولوں کی تعلیم دے رہی ہے۔ آج کے عالمی منظر نامے ميں اس کا چہرہ بھی دیکھ لیجیے۔ اور يقیناً یہ ان لوگوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے جو خدا سے غافل اس تہذيب پر فریفتہ ہو ئے جاتے ہیں۔

اور پھر اسلام اپنی تعليمات پر کھلے دل و دماغ سے ساری انسانيت کو غوروفکر کی دعوت ديتا ہے اور انسانوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ذی عقل مخلوق ہو نے کی حیثیت میں اس کی پیش کردہ دعوت پر عقل سے کام لے کر غور کريں:

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابَّ عِندَ اللّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ {22} سورة الأنفال
"یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے"

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ {100} سورة يونس (10)
"کوئی متنفس اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال ديتا ہے۔"

ہم تو محو حيرت ہيں کہ کيا اس مغربی ميڈيا نے انسانوں کی صحيح و غلط اور اچھائی و برائی کے درميان فرق کرنے والی خدا کی وديعت کردہ وہ فطری صلاحيت بھی سلب کر لی کہ جو انسان کے اشرف المخلوقات ہو نے کی ايک نشانی ہے يقيناً آج اقبال ہوتے تو کہتے کہ " ان تازہ خداؤں ميں ميڈيا سب سے بڑا ہے" بلاشبہ آج معلومات(information) کا ايک سمندر موجزن ہے ليکن اس ميں سچائی کے علم (knowledge) کے قطرے بھی ڈھو نڈے سے نہيں ملتے اور قرب قيامت کی نشانياں پوری ہو تی دکھائی ديتی ہيں۔ ناقدين اور تجزيہ نگاروں کا ايک ہجوم ہے ليکن سچائی کے علم کے ساتھ انسانيت کے زخموں پر مرحم رکھنے والے، انسانيت کے دکھو ں کے مسيحا اور انسانيت کی روح کی پياس حق کے ساتھ بجھانے والے مصلحين کی تعداد آٹے ميں نمک کے برابر بھی نہيں۔ آج ہم يہ تو نہيں کہہ سکتے کہ انسانوں کے معاشروں ميں اصلاح کی گنجائش نہيں رہی اور اصلاح قبول کرنے والے نہيں رہے البتہ اصلاح کرنے والوں کا معقول تعداد ميں نہ ہونا اور اہل علم کا اس طرف توجہ نہ دينا کسی بڑی تباہی اور ہلاکت کا باعث ضرور بن سکتا ہے۔

آج امت مسلمہ کی اکثريت ميڈيا کے پيش کردہ اسی جھوٹ کی گواہ بنی ہوئی ہے، اسی ميں اپنی صلاحيتيں و وقت برباد کر رہی ہے اور اسی کی دی ہوئی عينک لگا کر حالات، واقعات اور معاملات کو ہم ديکھتے، جانچتے، پرکھتے اور رائے قائم کرتے ہيں۔ حالانکہ قرآن اہل ايمان کی ايک خوبی یہ بيان فرماتا ہے کہ وہ جھوٹ کے گواہ نہيں بنتے:

وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ{72} سورة الفرقان (25)
" اور وہ جھوٹ کے گواہ نہيں بنتے"

نتيجتاً فطری حق شناسی رفتہ رفتہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوئی جاتی ہے اور ہميں وقت ہی نہيں ملتا کہ ان مسائل سے بہت زيادہ اہميت کے حامل وہ حقائق جانيں کہ جن کا جاننا ہماری اولين ذمہ داری ہے اور جن کے جاننے نہ جاننے، ماننے نہ ماننے، اور جن پر عمل کرنے نہ کرنے پر ہماری دائمی کاميابی يا ناکامی کا انحصار ہے۔

آج کا انسان اپنے عقل و فکر کی صحت کو اپنے پیدا کرنے والے کے ديے نظام پر پرکھنے کے بجائے اس کے نظام کو جھوٹ کی عینک لگا کر اپنے عقل پر پرکھتا ہے اور بات خود سمجھ نہ آئے تو اسلام کے نظام کو ناقابل عمل قرار دیتا ہے۔ ہم تو يہ کہيں گے کہ جسے اپنی ذہنی و فکری صحت کی درستگی کے بارے ميں جاننا ہو وہ اسے اسلام پر پرکھے۔ اگر اسلام کے ہر عقيدے، ہر تعليم اور ہر حکم و فيصلے پر دل و دماغ آمنا و صدقنا کہيں تو شرح صدر کی اس نعمت پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کيجیے کہ آپ کی فطرت مسخ نہيں ہوئی اور دعا کیجیے:

رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا{8} سورة آل عمران (3)
"پروردگار جب تو ہمیں سیدھے راستے پر لگا چکا ہے تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو۔"

بصورت ديگر رو رو کر اپنی ہدايت کی دعا مانگئے اور اس کے ليے صدق دل سے اللہ کی طرف رجوع کیجیے۔

کتنی بدگمانی ہے اللہ سے اور کيسی ناقدری ہے اس کی دی ہوئی نعمت یعنی نظام اسلام کی کہ ہم عملاً يہ بات کہتے ہيں کہ ہم معاملات زندگی ميں اس کی بھيجی ہدايت و قوانين کے محتاج نہيں، وہ تو فرسودہ ہو چکے ہيں۔ ہم اپنے قوانین خود بنائيں گے کيا يہ پروردگار کی قدر ہے؟ کيا ہم یہ ناقدری کر کے زبان حال سے کہ نہيں رہے کہ اللہ کی طرف سے کوئی ہدايت نہيں آئی:

وَمَا قَدَرُواْ اللّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُواْ مَا أَنزَلَ اللّهُ عَلَى بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ {91} سورة الأنعام (6)
"ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے، جب کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ہے۔"

اور اس موقع پر ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ قانون الہی محض سفارشات نہیں ہیں بلکہ:

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ {44} سورة المائدة (5)
"اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔"
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ {45} سورة المائدة (5)
"اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔"
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ {47} سورة المائدة (5)
"اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔"

حقیقت یہ ہے کہ ہم بہت بڑی آزمائش میں ہيں۔ ہماری عقل و فہم کا، ہماری دانشمندی و سمجھ، ہمارے ظرف، ہمارے فيصلوں اور ہمارے اختيار کا بہت بڑا اور سخت امتحان ہو رہا ہے۔ آئيے اپنے رب کو پہچان کر اس پر ايمان لائيں اور اس کی اطاعت و بندگی کا راستہ اختيار کريں۔ دوسروں کے ڈر اور دوسروں سے امیدیں دلوں سے نکال کر اسی کی محبت و خشيت کو دل ميں بٹھائيں اور اس سے ايسا تقوی اختیار کريں جيسا اس کا حق ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ {102} سورة آل عمران (3)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اور تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو ۔"

شاخ نازک پر بنے آشیانے۔۔۔ بے خدا، ملحدانہ اور خلاف فطرت سفاک تہذیب سے مرعوب اور متاثر ہو کر، اور اس خوشنما دھوکے پر فریفتہ ہو کر اپنی فطرت مسخ کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ کیونکہ فطرت سے لڑنے میں ہمیشہ شکست ہی ہوتی ہے۔ آج وقت ہے کہ ہم اپنے رب کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط استوار کریں اور جس فطرت پر اللہ نے ہمیں پیدا فرمايا ہے اس پر جم جائیں:

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ {30} سورة الروم (30)
" پس یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہيں۔"

آج وقت ہے کہ اسلام کی نعمت کو پہلے سے بہت بڑھ کر سمجھیں اور اپنائیں اور اس کا زیادہ سے زیادہ ابلاغ کریں تاکہ لوگ اس نعمت سے آشنا ہو سکيں اور جھوٹ کے چنگل سے نکل سکیں۔ آج ہمیں انسانیت کو بتلانا ہوگا کہ انسانی زندگی کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف اسلام ہی میں ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک موقع ہے کہ ہم رب کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کریں اور جو عھد ہم نے بحیثیت مسلمان اللہ سے باندھا ہے اسے سچ کر دکھائیں:

إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ {162} لاَ شَرِيكَ لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔{163} سورة الأنعام (6)
"بے شک میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔"

اور سچ تو یہ ہے کہ ہماری یہ زندگی تو بھلائیاں کمانے اور اپنے آپ کو اللہ کا نائب ثابت کرنے کا ايک موقع ہے۔ اور اپنے لیے جو بھلائی بھی ہم کما کر بھیجیں گے اللہ کے ہاں اسے موجود پائیں گے:

سورة البقرة ( 2 )
وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ وَمَا تُقَدِّمُواْ لأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللّهِ إِنَّ اللّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ{110}
نماز قائم کرو اور زکوۃ دو۔ تم اپنی عاقبت کے لیے جو بھلائی کما کر آگے بھیجو گے، اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے۔ جو کچھ تم کرتے ہو، وہ سب اللہ کی نظر میں ہے۔

اسلام ہی انسانیت کے دکھوں کا مرہم، اور تمام انسانی مسائل بالخصوص آج کی مغربی تہذیب کے پیدا کردہ معاشی، سماجی اور معاشرتی مسائل کا حل ہے۔ آج حق و باطل کی اس کشمکش میں اپنے کوششوں، صلاحیتوں اور وقت کا کچھ حصہ سچائی کے پلڑے میں ڈال دیں تو ہمارے ہی حق میں بہتر ہے کیونکہ آخری فیصلہ تو قیامت ہی کے دن ہونا ہے۔ جہاں کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا:

سورة الأنبياء ( 21 )
وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ {47}
قیامت کے دن ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لئے ہم کافی ہیں۔
Aurangzeb Yousaf
About the Author: Aurangzeb Yousaf Read More Articles by Aurangzeb Yousaf: 23 Articles with 45822 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.