فیصلہ

" تمہارے گھر میں پوتا پیدا ہوا اور تمہیں ایک گھنٹے تک اس کی شکل نہ دکھائی گئی تو تمہاری حالت خراب ہوگئی،

فیصلہ

شادی کے 3 سال بعد آج انتظار کی گھڑی ختم ہونے کو تھی جس کیلئے اس کی پوری فیملی نے دن رات دعائیں مانگی تھی۔ اس کی بیوی اس وقت لیبر روم میں تھی اور وہ باہر بے چینی سے چکر کاٹ رہا تھا۔ بار بار اسے کبھی کسی عزیز رشتے دار کی کال آتی اور وہ آگے سے یہی جواب دے دیتا کہ اللہ سے دعا کریں، زچہ بچہ دونوں محفوظ رہیں۔

پورے 45 منٹ کے جان لیوا انتظار کے بعد بالآخر نرس لیبرروم سے نکلی، وہ بھاگ کر اس کے پاس گیا لیکن جذبات کی شدت سے منہ سے کچھ نہ کہہ سکا، صرف سوالیہ نظروں سے اس کا چہرہ تکنے لگا۔
نرس نے مسکرا کر اسے کہا کہ مبارک ہو، لڑکا ہوا ہے اور بچہ اور اس کی ماں دونوں خیریت سے ہیں۔
یہ سنتے ہی بے ساختہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ وہیں سجدے میں گر کر خدا کا شکر ادا کرنے لگ گیا۔ پھر اس نے سب سے پہلے اپنی والدہ کو کال ملائی اور انہیں یہ خوشخبری سنائی۔ اکلوتے بیٹے کی اولاد کی خبر سن کر اس کی بوڑھی ماں کو ایسے لگا جیسے وہ پھر سے جوان ہوگئی ہو۔ ڈھیروں دعائیں دینے کے بعد وہ ننھے مہمان کے استقبال کی تیاریاں کرنے میں مصروف ہوگئی۔

اب وہ بے چینی سے ڈاکٹر کے باہر آنے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ وہ ایک نظر اپنے بچے کو دیکھ سکے۔ خدا خدا کر کے ڈاکٹر باہر آیا اور اسے اشارے سے اندر جانے کا کہا۔ وہ بھاگا بھاگا اندر گیا جہاں اس کی بیوی زچگی کے تکلیف دہ مرحلے سے گزرنے کے بعد شاید سو رہی تھی۔ اس نے ایک نظر پالنے پر دوڑائی لیکن اسے بچہ نظر نہ آیا، بستر پر دیکھا تو وہ وہاں بھی نہیں تھا۔ وہ پریشانی کی عالم میں باہر گیا جہاں ڈاکٹر پہلے سے موجود تھا۔ اس نے بے تابی کے عالم میں ڈاکٹر سے پوچھا کہ اس کا بچہ کہاں ہے؟

ڈاکٹر نے جواب دیا کہ ہاسپٹل کے رولز کے مطابق بچے کو ابتدائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کردیا گیا ہے اور اگلے چند دنوں تک وہ بچہ وہیں رہے گا۔
" لیکن ڈاکٹر صاحب، مجھے ایک نظر بچے کو دیکھ تو لینے دیں۔۔ " باپ نے بے چینی سے کہا۔
" سوری، ہمارے قواعد کے مطابق وہ بچہ ابتدائی نگہداشت یونٹ میں رکھ دیا گیا ہے اور وہ ابھی کسی سے نہیں مل سکتا"

بچے کا باپ رونے والا ہوگیا۔ اس نے ڈاکٹر کے آگے ہاتھ جوڑے اور کہا کہ اسے کم از کم باہر شیشے سے ہی دیکھنے دیا جائے۔ ڈاکٹر نے ایک دفعہ پھر سرد مہری سے انکار کردیا۔

باپ اب سخت طیش میں آچکا تھا، اس نے ڈاکٹر کو دھمکی کے انداز میں کہا کہ شاید وہ جانتا نہیں کہ وہ کس سے بات کررہا ہے، وہ ابھی 5 منٹ کے اندر اندر تمام رولز اپنے پاؤں تلے روند کر دکھا دے گا۔ یہ کہہ کر اس نے کسی کو موبائل پر کال ملائی اور چھوٹتے ہی کہا:
" ڈیڈی، کیا آپ ابھی اور اسی وقت یہاں ہاسپٹل میں آسکتے ہیں؟ مجھے آپ کے پوتے سے نہیں ملنے دیا جارہا۔۔۔"

اس کے ڈیڈی نے اسے کال منقطع کر کے اس کا انتظار کرنے کا کہا۔ تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ یاسپٹل کے اطراف میں پروٹوکول کی گاڑیوں کے ہوٹرز بچنے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ چند منٹ کے بعد ہاسپٹل کے کاریڈور میں سیکیورٹی اہلکاروں کے حصار میں ایک 55 یا 60 سالہ شخص تیز قدموں سے چلتا ہوا وہاں آگیا۔ اس نے آتے ہی اونچی آواز میں کہا کہ اس ڈاکٹر کو بلایا جائے جو ہمیں ہمارے پوتے سے نہیں ملنے دے رہا۔ وہاں ہاسپٹل کا ایم ایس بھی آن پہنچا تھا اور اس کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔

تھوڑی دیر بعد وہ ڈاکٹر وہاں آگیا۔ دادا نے اسے دیکھ کر غصے سے کہا کہ ہاؤ ڈئیر یو، تمہیں کس نے حق دیا کہ ہمارے بیٹے کو ہم سے ملنے نہ دو؟

اس ڈاکٹر نے ایک نظر اس بوڑھے لیکن رعب دار شخص پر ڈالی اور پوچھا کہ آپ کون ہیں؟

بچے کے دادا نے جواب دیا کہ وہ سپریم کورٹ کا ایک سینئر جج ہے۔

یہ سنتے ہی اس ڈاکٹر نے اپنا جوتا اتارا اور اس جج کے سر پر گن کر 11 مرتبہ زور زور سے رسید کردیا۔ جوتے کھا کر جج صاحب کی حالت قابل دید تھی۔ انہوں نے غصے کے عالم میں چیختے ہوئے پوچھا کہ تمہاری اتنی جرات؟ تم نے مجھے جوتے کیوں مارے؟

اس ڈاکٹر نے اطمینان سے جواب دیا:
" تمہارے گھر میں پوتا پیدا ہوا اور تمہیں ایک گھنٹے تک اس کی شکل نہ دکھائی گئی تو تمہاری حالت خراب ہوگئی، لیکن پانامہ کیس کی سماعت مکمل ہوئے کئی ہفتے ہوگئے اور تم اس کیس کا فیصلہ محفوظ کر کے بیٹھے ہو اور تمہیں کوئی پرواہ نہیں کہ قوم پر کیا بیت رہی ہوگی"

Rao Anil Ur Rehman
About the Author: Rao Anil Ur Rehman Read More Articles by Rao Anil Ur Rehman: 88 Articles with 211220 views Learn-Earn-Return.. View More