اسلام میں اصلاحِ معاشرہ کا تصور

دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو اپنے پیروں کاروں کی ہر قدم پر ہدایت ورہنمائی کرتا ہے ،انہیں دینی ،سماجی اور ہر قسم کی خرابیوں ، برائیوں ،فحاشیوں اور بے حیائیوں سے بچنے کی سختی کے ساتھ تاکید وتلقین کرتا ہے۔اسلام نے اپنے ماننے والوں پرسب سے زیادہ جس چیز پر زوردیا وہ اصلاح ہے ۔خواہ اس کا تعلق دینی ،ملی،سماجی اور تہذیبی برائیوں سے ہو یا اعتقادی ونظریاتی خرابیوں سے ۔گویاں انسانی معاشرے میں ہر قسم کی ہونے والی برائیوں کا تدارک وحل اسلام نے پیش کیا ہے۔اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اسلام میں ہمیں ایک شخص یا ایک فرد کی اصلاح سے کئی زیادہ پورے معاشرے کی اصلاح کا تصور ملتا ہے ۔اس لئے کہ شخصی وانفرادی اصلاح کے مقابلے اجتماعی ومعاشرتی اصلاح زیادہ سود مند اور کارگر ثابت ہوتی ہے ۔اور اس لئے بھی کہ اسلام صرف ایک دویا پھر چند لوگوں کی اصلاح کا مطالبہ نہیں کرتاہے بلکہ وہ تمام انسانیت کی اصلاح وفلاح چاہتاہے۔ اسی لئے اسلام معاشرتی برائیوں کے انسداد وخاتمے پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ واضح ہوکہ چند افراد سے مل کر قبیلہ اور خاندان کا وجود عمل میں آتا ہے اور چند قبائل وخاندان سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔اسی لئے انسانی زندگی کی تکمیل بغیر سماج ومعاشرے کے نہیں ہوسکتی ۔گویاں انسان اور سماج کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔دونوں کا ایک دوسرے سے گہرا ربط وتعلق ہے ۔اسی طرح سماج ومعاشرے کی فلاح وتعمیر اور ارتقا وبلندی میں اس کے اقدار وروایات اور رواسم کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ۔اگر انسانی معاشرے میں اچھائی اور بھلائی کے کام انجام پاتے رہیں تو یہ معاشرتی برائیوں اور خرابیوں کوختم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے اور ایک اچھے معاشرے کی تصویر پیش کرتا ہے۔اور اگر قتل وخون ریزی،تشدد وعدم رواداری،فساد وبگاڑ،جھوٹ غیبت،بغض وحسد ،بدگمانی ،چغلخوری اور منشیات جیسی مہلک وتباہ کن برائیاں انجام پاتی رہیں تو یہ غیر انسانی اورسماجی پستی کی بدترین صورت پیش کرتا ہے۔

تاریخِ اسلام کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر دور میں انسانوں کے مابین مختلف معاشرے تشکیل پاتے رہے ہیں ،لیکن ان میں کے اکثر تباہیوں اور برائیوں کی بھینٹ چڑھ گئے ،وہیں معاشرے باقی رہیں جومعاشرتی برائیوں سے دورونفور اختیارکئے اوراچھائیوں اور بھلائیوں کو فروغ دیئیں۔

اسی طرح ہم اپنے سماج ومعاشرہ کا جائزہ لے تو معلوم ہوگا کہ ان گنت برائیاں ہمارے سماج کا ایندھن بن چکی ہیں ،کئی ایک برائیاں ایسی بھی ہیں جو ہمارے سماج کی جڑوں کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ چکی ہیں جن سے چھٹکارے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے۔حالاں کہ اصلاح معاشرہ کے لئے ہمارے یہاں بے شمار تنظیمیں ،تحریکیں اور کمیٹیاں قائم ہیں جو بہت ہی مستعدی وچابک دستی سے اپنا کام کررہی ہیں ،اسی طرح اس مقصد کے لئے ہمارے یہاں ہر آئے دن اصلاحِ معاشرہ کے عنوان پر بیانات وخطابات ہورہے ہیں ،جمعہ میں سماجی ومعاشرتی خرابیوں پر اصلاحی تقاریر ہورہی ہیں،داعیان ومبلغین محلوں ،شاہراہوں اور سڑکوں پرگشت کرکے اصلاحِ معاشرہ کی بیداری مہم چلارہے ہیں۔ لیکن ان سب کی ہمہ جہت کوششوں کے باوجود سماج میں کسی قسم کی تبدیلی آتے دیکھائی نہیں دے رہی ہے۔آخر کیا وجوہ واسباب ہیں جن کی بنیاد پر ہمارے معاشرے میں بجائے اصلاح کے فساد وبگاڑ پیدا ہورہاہے۔

اس کے لئے ہمیں قرآن واحادیث کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جن میں مسلمانوں کے تمام عائلی ،خانگی ،معاشرتی اور ملی مسائل کابہترین حل موجود ہے۔ قرآن واحادیث میں انبیائے کرام کے متعلق اصلاحِ معاشرہ کا جا بجا ذکر وتصور ملتا ہے کہ کس طرح وہ اصلاح معاشرہ کے لئے تحریک چلاتے تھے ۔وہ اصلاحِ معاشرہ کی تحریک کا آغاز سب سے پہلے اپنے افرادِ خانہ سے کرتے تھے۔چنانچہ قرآنِ کریم میں انبیائے کرام علیہ السلام کے بارے میں جگہ جگہ ذکر ہوا۔حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہا السلام علیہ السلام نے اپنی اولاد کو جو نصیحت کی اس کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا :’’اس کی وصیت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کی،کہ ہمارے بچو! اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرمالیا ،خبردار ! تم مسلمان ہی مرنا‘‘۔(سورۃ بقرہ،آیت ۱۳۲)اور ایک مقام پر ہے کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اس طرح نصیحت فرمائی :اے میرے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا ،برے کاموں سے منع کیا کرنااور جو مصیبت تم پر آئے صبر کرنا (یقین مان) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔(سورہ لقمان،آیت ۱۷)اسی طرح اﷲ کے پیارے رسول ﷺ کوبھی حکم دیا گیا کہ ’’آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے ‘‘(سورۃ ،شعراء ،آیت ۲۱۴)

اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی اہل وعیال کی اصلاح ودرستگی کا درس دیا گیا ۔چنانچہ اﷲ کے پیارے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا‘چنانچہ حکمران ذمہ دار ہوتا ہے اپنی رعایا کا اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا‘آدمی اپنے اہل وعیال کا ذمہ دارہے اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں سوال ہوگا‘اور عورت اپنے گھر کی ذمہ دار ہے اس سے گھر کے بارے میں سوال ہوگا‘تم میں سے سبھی ذمہ دار بنائے گئے ہیں اور سب سے اپنی اپنی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا۔ (کنزالعمال،ص ۱۳۶)

ان مذکورہ بالا آیات واحادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاحِ معاشرہ کے لئے کی جانے والی تمام تر کوششیں اسی وقت کارگر ثابت ہوسکتی ہے جب اس اصلاح کا تعلق سب سے پہلے ہماری ذات اور ہمارے افرادِ خاندان سے ہو۔اس لئے کہ اصلاحِ معاشرہ کے لئے کی جانے والی ہماری تمام تر کوششیں محض دوسروں کے لئے ہوتی ہیں اس سے ہمارا دورکا بھی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔حالاں کہ ہمارے دامن پر بھی برائیوں اور گناہوں کے بے شمار دھبے لگے ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں صاف کرنے کی سعی وکوشش نہیں کرتے ہیں ،بلکہ دوسروں کی اصلاح کی کوشش میں صبح وشام ایک کردیتے ہیں ۔اسی طرح ہمیں اپنے اہل وعیال کی اصلاح ودرستگی کا خیال تک نہیں ہوتا ہے جن کی تمام تر ذمہ داریاں ہمارے کندھوں پر ہوتی ہیں ۔

لہذا ہم اگر اپنے معاشرے میں ایک صالح انقلاب اور دینی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآنِ کریم کے بتائے ہوئے طرزِ عمل اور طریقۂ کار پر چلنا ہوگا تب جاکر ہم اپنے سماج ومعاشرے سے برائیوں،بے حیائیوں اور خرابیوں کو ختم کرسکتے ہیں اور سماج میں بہتر سے بہتر تبدیلی لاسکتے ہیں۔اسی طرح ہر فرد اپنی اور اپنے افرادِ خانہ کی اصلاح کے ذریعہ پورے معاشرے کی اصلاح کی کوشش کا ایک اہم فریضہ انجام دے سکتا ہے۔اسی طرزِ عمل میں ہماری اور ہمارے سماج کی اصلاح وبہتری مضمر ہے۔

Mohsin Raza Ziyai
About the Author: Mohsin Raza Ziyai Read More Articles by Mohsin Raza Ziyai: 16 Articles with 20805 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.