اب کی بار مردان نہیں آنا یہاں موت رقص کرتی ہے

 یہاں درس گاہوں میں نجی عدالتیں لگتی ہیں ۔ سوچ بچار پر پہرہ بیٹھتا ہے۔ اوٹ پٹانگ سوچنے یا بولنے والے کو اہل دانش مار دیتے ہیں۔ اگر کوئی سوچنےسمجھنے سے قاصر ہو تو ایسے معذور کو قانون کے محافظ مار دیتے ہیں ۔ ہاں بیٹا یہاں موت رقص کرتی ہے ، یہاں مت آنا ،یہاں مت آنا۔

اس شہر کے منہ کو خون لگ چکا ہے ۔ اگر کوئی جان سے مار دینے پر قادر نہ ہو تو ، وہ اجل کے ان فرشتوں کا پشتی بان بن کر سڑکوں پر نکل آتا ہے۔ ہاں بیٹا یہاں موت کے سوداگر راج کرتے ہیں ۔ یہاں مت آنا ، یہاں مت آنا۔

یہاں مظلومیت کی بھی تقسیم کار ہو چکی۔ ہر کسی کا مظلوم بھی اپنا اپنا ہے۔ کوئی آزاد خیال مارا جائے تو اہل مذہب اور اگر کوئی دین دار مارا جائے تو آزاد خیال سکوت کرتے ہیں ۔ ہاں بیٹا یہاں ظلم کے خلاف موت کی سی خاموشی ہے ۔ یہاں مت آنا ،یہاں مت آنا۔

تیرے معاذ کو بھی سوچنے اور سوال اٹھانے کا عارضہ لاحق ہے۔ تیرے حماد کی بھی سماعت متاثر ہے، وہ بھی سننے سے قاصر ہے۔ ایسا کرنا ، اپنی بوڑھی ماں کی باتوں میں مت آنا، ان بچوں کو اب کی بار یہاں مت لانا۔ اب یہ تیرا پہلے والا مردان نہیں۔ یہاں "تبدیلی " رونما ہو چکی۔ دیکھنا تُو بھی بیمار رہتا ہے۔ اور یہاں اب انوکھا ایک رواج رہتا ہے۔

اگر کسی کی زندگی ہو دشوار،جینا ہو محال ، تو یہاں عوام کے رکھوالے اسے درد سے نجات دیتے ہیں ، ایسے بیمار کو وہ مار دیتے ہیں ۔ ہاں بیٹا اب تیرے اس بوڑھے باپ میں اتنی ہمت نہیں ، لاشے اٹھانے کی سکت نہیں۔ یہاں "تبدیلی " رونما ہو چکی ۔ ایسا کرنا ،اب کی بار یہاں مت آنا ، یہاں مت آنا۔
 

Muhammad Hussain Kharal
About the Author: Muhammad Hussain Kharal Read More Articles by Muhammad Hussain Kharal: 19 Articles with 14913 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.