محبت اک سلسلہ تشنگی(قسط ٣)

تکمیل کی خواہش انسان کو محبت کے جال میں پھنسا دیتی ہے۔

شارب دیر تک کمرے میں لیٹا رہا ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھاکہ وہ کیا کرئے۔ اس کی زندگی جیسے رُک گئی تھی۔ اس کے جینے کا مقصد جیسے فوت ہو چکا تھا۔ محبت دل پر ایسے غالب آ جاتی ہے جیسے کوئی جابر حکمران پوری کی پوری سلطنت پر قابو پا لیتا ہے۔ غزالہ بہت پریشان تھی ، اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اپنے جوان بیٹے کو محبت کی بے اثباتی کا کیسے یقین دلائے ۔ اسے کیسے بتائے کہ محبت جذبات کے الجھاو کے سوا کچھ نہیں ۔ یہ کرنے والے کو تکلیف کے سوا کچھ نہیں دیتی ۔ اس میں پانا بھی پانا نہیں ہوتا۔انسان اپنی ذات میں تنہا تھا تنہاہے اور تنہاہی رہے گا ۔ محبت اسے مکمل نہیں کرتی۔ یہ تکمیل کی خواہش انسان کو محبت کے جال میں پھنسا دیتی ہے۔ اسے الجھا دیتی ہے کہ کسی کا وجود اسے مکمل کر سکتا ہے۔ کسی کی انکھیں اس کی انکھوں کا سہارا بنا سکتی ہیں ۔ یہ ایسا فریب ہے ،کہ انسان اس دلدل میں اُترتا ہی چلا جاتا ہے۔
غزالہ نے اپنی ڈائری اٹھائی اور بہتے ہوئے اشکوں میں لکھا۔
تجھے کیسے سمجھاوں میرے بیٹے کہ محبت کیا کہ تو جس کی خاطر ہلکان ہوا جا رہا ہے۔ اگر وہ تجھے مل جائے تو تیری یہ بے چینی کسی نئی بے چینی کا پیش خیمہ ہو گی۔ انسان کبھی بھی کسی دوسرے انسان سے کچھ نہیں پا سکتا۔ محبت تو دونوں ہاتھوں سے لٹانے کا نام ہے۔ اپنا آپ دے دینے کا نام ہے۔ ہم جسے لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ محبوب پہلو میں آ جائے۔ جبکہ محبوب کی باہوں میں بھی محبت کی تشنگی نہیں جاتی۔ جیون کے سراب میں محبت ایک حسین سراب ہے۔ یہ سراب کوئی ہمیں نہیں دیتا بلکہ ہم خود ہی خود کو دیتے ہیں تاکہ وقتی لطف محسوس کر سکیں ۔ یہ وقتی لطف ہمارے جیون کو ابدی چبھن سے روشناس کراتا ہے۔ ایسے جیسے کوئی پیاسا پانی پیتا جائے اور اس کی پیاس بڑھتی جائے۔ کاش کہ میرے بیٹے تم اس درد سے دور ہی رہتے۔ مگر کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے حق میں کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔ سارے انسان مل کر بھی ایک انسان کی خواہش پوری نہیں کر سکتے۔ ایک ماں کیا کر سکتی ہے۔ ایک ماں کر ہی کیا سکتی ہے۔
غزالہ کا چہرہ آنسووں سے تر بتر تھا۔ اس نے اپنی ڈائری بند کی اور سوچنے لگی کہ وہ شارب کو کیا کہے۔ایک ناکام عاشق کو محبت کی بے اثباتی سمجھانا ناممکن ہے۔اسے یہ سمجھانا ناممکن ہے کہ عاشق ہونے کے بعد کامیاب ہونے کا امکان باقی ہی نہیں رہتا ۔وہ آج وہاں ہی کھڑی تھی جہاں چوبیس سال پہلے اس کی ماں تھی۔ اس کی ماں نے اسے کتنا سمجھایا تھا۔
غزالہ یہ محبت کچھ نہیں ہوتی ۔ بس چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش ہے میری بچی ۔ تم اپنے ابو کو تو جانتی ہی ہو۔ وہ کسی صورت ایک مہاجر کو تمہارا رشتہ نہیں دیں گئے۔ میں تمہیں یہ نہیں کہتی کہ تم حسن سے پیار نہ کرو۔ میں صرف اتنا کہہ رہی ہوں کہ تم کوئی ایسا قدم نہ اُٹھانا جس پر تمہیں تمام عمر ندامت رہے۔غزالہ حسن کو اپنی انکھوں میں شدید جلن محسوس ہو رہی تھی۔ وہ انکھوں کو بند کئے ماضی کے اس منظر کو دیکھ رہی تھی ، جب اس کی ماں اس سے اپنی مامتا کی بھیک مانگ رہی تھی۔
غزالہ تم سن رہی ہو نا۔ غزالہ نے اپنی امی کا بڑھتا ہوا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے بڑے یقین سے کہا تھا۔ ندامت کا احساس کیوں ہو گا امی۔ تمام انسان برابر ہیں، حسن مہاجر ہےاور میں راجپوت کیا فرق پڑتا ہے۔ ابو کو فرق پڑتا ہے ،مجھے نہیں ۔ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ کوئی راجپوت مجھے خوش رکھے گاجبکہ میں حسن کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔
غزالہ کی امی رونے لگیں ۔ غزالہ تمہارے لیے حسن سب کچھ ہے اور ہم کچھ نہیں ۔تمہارے ابوکس قدر محبت کرتے ہیں تم سے اور میں۔ ہم کچھ نہیں ۔ ہماری محبت، تمہارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ بس حسن ہی سب کچھ ہے۔
غزالہ نے چیخ کر کہا۔ آپ مجھ سے اپنی محبت کی قیمت مانگ رہی ہیں امی۔میں حسن کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ آپ کو کیا میری خوشی کا احساس نہیں۔ غزالہ کی امی اُٹھ کر کھڑی ہو گئی اور افسردگی سے کہا۔ یہ محبت نہیں ہے غزالہ یہ جوانی کا ذور ہے،جوانی میں انسان کی عقل پردوں میں لپٹی ہوئی ہوتی ہے۔یہ پردے دھیرے دھیرے شعور کے آنے سے ہٹنے لگتے ہیں ۔تم یہ باتیں نہیں سمجھو گی ۔ابھی نہیں سمجھو گی لیکن جب سمجھو گی میری بچی تو بہت دیر ہو چکی ہو گی۔
غزالہ نے اپنی ماں کی ناراضگی کو نظر انداز کر دیا۔ اس کی جنت مایوس و محروم ہو کر اس کے وجود کو چھوڑ گئی تھی۔ غزالہ کو کچھ گِرنے کی آواز آئی ۔ اس نے اپنی انکھیں کھول دیں۔ اس نے افسوس سے اپنے آنسو صاف کیے۔ محبت کیسے طوفان کی صورت اس کے تمام رشتوں کو اس سے دور کر گئی تھی۔ اپنے ماں ،باپ بہن بھائی اسے پرائے محسوس ہونے لگے تھے ۔ بس ایک حسن ہی اس کو اپنی دنیا لگتا تھا۔ اس نے افسردگی سے حسن کی کچھ باتوں کو یاد کیا جو اس کے کانوں میں سر گوشی کر رہی تھیں۔
تم جانتی ہو غزالہ سب سے پہلا رشتہ جو رب نے بنایا وہ ایک آدمی اور عورت کا تھا۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے بغیر کہیں چین نہیں تھا۔ماں، باپ بہن بھائی سب اہم ہوتے ہیں لیکن کوئی ایک انسان دنیا میں ایسا ہوتا ہے ۔جو آپ کو مکمل کر دیتا ہے۔ جو آپ کے لیے سکون کا سامان ہوتا ہے اور آپ اس کے لیے۔ اس کے ساتھ اپنا سب کچھ بانٹے ہو۔سب کچھ۔ غزالہ نے اپنی آواز کو ماضی کے جھرکوں سے اپنے کانوں میں اترتا محسوس کیا۔اسے اپنے کان توے کی طرح تپتے ہوئے محسوس ہوئے۔
کس قدر دھوکا دیتے ہیں یہ میٹھے میٹھے الفاظ ۔انسان کو لگتا ہے کہ وہ دنیا میں جنت بنانے جا رہا ہے جہاں وہ چین سے رہے گا۔ وہ بھول جاتا ہے کہ دنیا جنت نہیں آزمائش کی جگہ ہے ۔ نفس کو پرکھنے کے لیے رب نے دنیا میں بھیجا تھا۔ ہم انسانوں نے دنیا سے اور پھر انسانوں سے دل لگا لیا۔ غزالہ نے خود سے کہا۔اس نے اپنے دل میں اُٹھتا ہوا درد کم کرنے کے لیے منہ دھو کر کچھ کام کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ ہمیشہ یوں ہی کرتی تھی۔ اس کے پاس درد بانٹنے کے لیے ماں کا کندھا ،باپ کا شفقت بھرا ہاتھ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توقیر بھائی آپ تو نازیہ سے پیار کرتے ہیں نا۔ آپ نےماما کو کہا کیوں نہیں ۔ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔ توقیر نے فوزیہ کو سنجیدگی سے دیکھا ۔ پھر آرام سے بولا ۔ پیار اور شادی کا آپس میں کیا واسطہ۔ شادی کا مطلب تم نہیں سمجھ سکتی۔ ابھی تم بچی ہو۔ تم جانتی ہو کہ نازیہ سنی ہے اور ہم شیعہ ۔ شادی کہاں ممکن ہے۔ کوئی بھی نہیں مانے گا۔ فوزیہ نے افسردگی سے کہا۔ بھائی آپ کو پھر نازیہ سے محبت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ توقیر نے ہنس کر اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔ دیکھو فوزی ذیادہ ایموشنل ہونے اور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ محبت وبت کچھ نہیں ہوتی ۔وہ ٹائم پاس کرتی ہے ۔ میں ٹائم پاس کرتا ہوں ۔ اس عمر میں کوئی ٹائم پاس تو چاہیے نا۔
فوزی منہ لٹکائے بیٹھی تھی ۔ اسے نازیہ بہت پسند تھی وہ سمجھتی تھی کہ توقیر اسی سے شادی کرئے گا۔ اس کا خیال تھاکہ تو قیر دل و جان سے نازیہ کو چاہتا ہے۔ ارم کے رشتہ کو توقیر نے بنا سوچے اپنی ماں کے کہنے پر فوراً سے ہاں کہہ دی تھی ۔ ارم یو ۔ کے میں اس کے ماموں ضیا کی اکلوتی بیٹی تھی۔ وہ نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ توقیر کی ہم عمر اور بہت امیر لڑکی تھی۔ اس کی نازیہ کے ساتھ محبت بر ف کی طرح پگھل گئی جب اس امی نے ارم اور ماموں ضیا کے آنے کا تذکرہ کیا۔ توقیر کو بتا یا کہ اس کے ماموں شادی کے سلسلے میں یہاں پاکستان آ رہے ہیں ۔ا رم اور تمہاری شادی ۔ تمہا را کیا خیال ہے۔ توقیر نے جھٹ سے کہہ دیا ۔ امی خیال کیسا۔ ارم سے اچھی لڑکی تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔
فوزیہ جب دوسرے دن کالج گئی تو اس کا جی چاہا کہ وہ نازیہ کو اپنے بھائی کے ارادوں سے باخبر کر دے ۔ اسے شدت سے افسوس ہو رہا تھا ۔ نازیہ توقیر کے معاملے میں کس قدر حساس تھی وہ جانتی تھی۔اچانک سے ایس ایم ایس آیا ۔ان کا فری پیریڈ تھا۔ نازیہ کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھ کر فوزیہ کو حیرت ہوئی ۔ اس نے پوچھا ۔کیا توقیر کا ایس ایم ایس ہے۔ نازیہ نے مسکرا کر کہا تو اور کس کا ہو سکتا ہے؟ تمہارا بھائی بھی نا۔
فوزیہ نے منہ بناتے ہوئے پوچھا۔ کیا لکھا ہے۔
نازیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ لکھا ہے۔
زندگی کی خوبصورتی سمٹ جاتی ہے انکھوں میں میری۔
جب بھی تیرے وجود کو اپنے تخیل میں مکمل دیکھوں۔
تصور کرہی نہیں سکتا میں کہ تو جدا ہے مجھ سےنازی ۔
اپنی ذات میں تجھے اس طرح سے شامل دیکھوں۔
فوزیہ کو غصہ آیا اور اس نے نازیہ کو افسردگی سے کہا۔ تم اس محبت کا کیا انجام سوچتی ہو جو تم میں اور میرے بھائی میں ہے۔ نازیہ ہنسنے لگی ۔ فوزیہ نے اپنی بات دہرائی او رغصے سے کہا۔ اپنے دل سے توقیر کو نکال دو نازیہ۔ جتنی جلدی تم ایسا کرو گی تمہارے لیے اچھا ہو گا۔ نازیہ نے فوزیہ کے لہجے کو محسوس کیا وہ کوئی مذاق نہیں کررہی تھی۔ نازیہ نے فوزیہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا کیابات ہے ، تمہیں کیا ہوا۔ فوزیہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ اس نے ارم کے رشتے اور توقیر سے اس کے ساتھ ہونے والی ساری بات جیت دہرا دی۔ نازیہ رونے لگی ۔ ایسا نہیں ہو سکتا ۔ میں توقیر کے لیے صرف ٹائم پاس تھی۔ ٹائم پاس ۔ مطلب ۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ وہ تو اسے اپنا سب کچھ سونپ چکی تھی۔ اس کے لیے توقیر سب کچھ تھا۔ اس نے فوراً توقیر کو فون کیا۔ فوزیہ نے فوراً کال کاٹ دی۔ اس نے نازیہ کو اپنی دوستی کا واسطہ دیا۔ نازیہ نے پھر فون کیا۔
محبت کسی بھی دوسرے رشتے کو ایسے ہی مٹا دیتی ہے جیسے آگ لکڑی کو ۔ انسان اندھا ہو جاتا ہے پھر اسے محبوب کے سوا کچھ دیکھائی نہیں دیتا نازیہ نے چیختے ہوئے فوزیہ سے کہا۔
فوزیہ کو اس سے اسی رویے کی امید تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کاش وہ اپنے بھائی سے متعلق کوئی بات کبھی بھی نازیہ سے نہ کرتی۔توقیر نے فون رسیو کر لیا تھا۔ اس نے نازیہ کی آواز سنتے ہی پیار سے کہا۔۔ بولو جان ۔ آج تو کالج کی بھی پروا نہیں کی تم نے لگتا ہے۔ مجھ سے ملنے کا بہت دل کر رہا ہے۔ کہاں ملیں۔
نازیہ نے اپنے آنسو صاف کیے اور دھیرے سے کہا۔ تمہارے گھر۔ توقیر نے حیرت زدہ ہوتے ہوئے کہا۔ تمہارے گھر۔ تمہارے گھر والے کہیں گئے ہوئے ہیں۔ نازیہ کے لہجے میں تلخی آ گئی ۔ اس نے غصے سے کہا۔ میں نے میرے گھر نہیں کہا۔ میں نے کہا ہے تمہارے گھر۔ مجھے اپنی امی سے متعارف کرواو ۔میرا خیال ہے اب ہمارے گھر والوں کو پتہ چل جانا چاہیے کہ ہم ایک دوسرے سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔
توقیر نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد نازیہ سے کہا۔ شادی تو میں نہیں کر سکتا ۔ نازیہ نے غصے سے کہا تو پھر یہ سب کیا ہے جو تم اتنے عرصے سے میرے ساتھ کر رہے ہو۔ توقیر نے سنجیدگی سے کہا۔ میں نے کبھی کچھ بھی تمہاری مرضی کے بغیر نہیں کیا۔ میں نے کبھی تم سے نہیں کہا کہ میں تم سے شادی کروں گا ۔ پھر بھی تم مجھے الزام دو تو میں کچھ نہیں کر سکتا ۔
نازیہ کو اپنا وجود ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا ۔وہ جس کی خاطر اس نے اپنا وجود تک لٹا دیا تھا ۔اس کو اپنانے سے انکار کر رہا تھا۔ وہ دن رات جس کے خواب دیکھتی تھی۔اس نے ایک جھٹکے میں اس کے خواب ریزہ ریزہ کر دیئے۔
توقیر تم ایسا کیسے کر سکتے ہو۔ اس کی آواز بھی اس کے دل کی طرح بیٹھ چکی تھی۔اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا، مجھے یقین نہیں آ رہا۔ وہ روتی جاتی اور کہتی جاتی۔
۔۔۔۔۔
 

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 264756 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More