زرعی صوبے کے نااہل حکمرانوں کی غیر زرعی پالیسی

سب سے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ ایکسپو سنٹر کیلئے زمین رسالپور کے علاقے میں دی گئی تھی لیکن نہ جانے کیوں رسالپور کے بجائے ترناب فارم میں یہ منصوبہ شروع کیا جارہا ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ زرعی ملک کے نااہل حکمرانوں کو اس شعبے سے کیوں دشمنی ہے- سب سے حیران بات تو یہ ہے کہ تبدیلی کے دعویدار صوبائی حکومت وفاق اور پنجاب میں براجمان حکمرانوں کے پیچھے تو ہاتھ دھو کر پیچھے پڑے رہتے ہیں مگر اس معاملے میں دونوں اتحادی ہیں- جبکہ صوبائی اسمبلی میں موجود دیگر اپوزیشن پارٹیاں اسے شائد اہم نہیں سمجھ رہی اس لئے اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہا-

ترناب فارم کے علاقے میں واقع زرعی تحقیقاتی سنٹر

اسے بدقسمتی کہئیے یا اس صوبے کے عوام کیساتھ تبدیلی کے نام پر آنے والوں کا مذاق ، کہ زراعت کے شعبے میں تحقیق کرنے والے ایک صدی سے زائد عرصہ گزارنے والے ادارے کو ایکسپو سنٹر کے لئے ختم کیا جارہا ہے اور اسے ختم کرنے والے بھی تبدیلی کے نام پر بڑے بڑے ڈکار اور نام بنانے والے اسی صوبے کے نام نہاد حکمران ہی ہیں- پنجاب سے گندم کیلئے منتیں کرنے والے صوبہ خیبر پختونخواہ کے حکمرانوں کو زراعت کے شعبے میں کمیشن شائد نہیں مل رہا اس لئے اب دو سو ایکڑ کی زمین پر ایکسپو بنایا جارہے جس کیلئے ترناب فارم ایگری کلچر ریسرچ سنٹر کی زمین کی قربانی دی جارہی ہیں- 1908 سے قائم اس سنٹر میں مختلف اقسام کے پودوں ، میوہ جات اور دیگر زرعی ادویات پر ریسرچ ہوتی رہی ہیں اور اسی سے نکلنے والے مختلف اقسام کے میوے ، پودے آج صوبہ بھر میں موجود ہیں -مگر...

نہ جانے کیوں پنجاب حکومت کا مذاق اڑانے والے خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کو زراعت کے شعبے سے اتنی دلچسپی ہے کہ پہلے اضاخیل میں واقع بوٹانیکل گارڈن کو ختم کرنے کی کوشش کی جس پر پشاوریونیورسٹی کے اساتذہ و اساتذہ نے اس کے خلاف عدالت عالیہ سے رجوع کیا تو اب جی ٹی روڈ پر واقع ترناب فارم کے علاقے میں واقع زرعی تحقیقاتی سنٹر کی زمین کو ختم کرکے یہاں پر ایکسپو سنٹر بنایا جارہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایکسپو سنٹر میں دوسرے صوبوں سے اشیاء لاکر رکھی جائینگی اور لوگوں کو دکھائی جائینگی - اور یہ ایکسپو سنٹر بھی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مخصوص افراد کو دی جارہی ہے-

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پنجاب کے ایک ادارے کو یہ زرعی زمین دی جارہی ہے جس میں انہوں نے ابتداء سے ہی پچیس ایکڑ زمین لے لی اور اس زمین پر شفتالو اور مختلف اقسام کے میوہ جات کی نرسریوں کو ختم کردیا اور ٹریکٹر چلادئیے- شفتالو کی یہ نرسریاں تحقیقی مقصد کیلئے بنائی گئی تھیں اور اس جگہ پر زرعی یونیورسٹی پشاور میں پڑھنے اور فارغ التحصیل ہونیوالے طلباء و طالبات ریسرچ کیلئے آتے تھے لیکن کروڑوں روپے عیاشی پر اڑانے والے صوبائی حکمرانوں کو صوبے کے واحد ریسرچ سنٹر سے کوئی غرض نہیں وفاقی حکومت پر تنقید کرنے والے اور پنجاب حکومت سے گندم کیلئے ترلے کرنے والے حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے اس فیصلے سے نہ صرف تحقیقی عمل رک جائیگا بلکہ زرعی پیداوار میں بھی کمی آئیگی لیکن انہیں اس سے کوئی غرض نہیں-

سب سے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ ایکسپو سنٹر کیلئے زمین رسالپور کے علاقے میں دی گئی تھی لیکن نہ جانے کیوں رسالپور کے بجائے ترناب فارم میں یہ منصوبہ شروع کیا جارہا ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ زرعی ملک کے نااہل حکمرانوں کو اس شعبے سے کیوں دشمنی ہے- سب سے حیران بات تو یہ ہے کہ تبدیلی کے دعویدار صوبائی حکومت وفاق اور پنجاب میں براجمان حکمرانوں کے پیچھے تو ہاتھ دھو کر پیچھے پڑے رہتے ہیں مگر اس معاملے میں دونوں اتحادی ہیں- جبکہ صوبائی اسمبلی میں موجود دیگر اپوزیشن پارٹیاں اسے شائد اہم نہیں سمجھ رہی اس لئے اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہا-

ا س شعبے سے وابستہ سینکڑوں ریسرچ سکالرز اپنی ملازمتوں کی وجہ سے کچھ کہنے سے گریزاں ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اگر انہوں نے کوئی بات کردی تو حکمران انہیں ڈیرہ اسماعیل خان یا کوہستان تبادلہ کروا دیں گے جس کی وجہ سے وہ صوبائی حکومت کی اس فیصلے پر خاموش ہیں جبکہ بعض دبے دبے الفاظ میں تنقید کررہے ہیں مگر سرکاری ملازمت ، تبادلے کا ڈر اور" اے سی آر " خراب ہونے کی وجہ سے وہ بھی کچھ کہنے سے گریزاں ہیں-

تقریبا تین عشروں سے اس علاقے میں واقع سڑک کنارے تقریبا ڈیڑھ سو کے قریب نرسریوں کو بھی این ایچ اے نے تجاوزات کے نوٹس جاری کردئیے ہیں اور انہیں کہاگیا ہے کہ انہوں نے تجاوزات کی ہیں اسی باعث اب انہیں یہاں سے جانا چاہئیے- سوال یہ ہے کہ گذشتہ تین عشروں سے پچاس ہزار روپے سالانہ فی کنال لینے والے این ایچ اے کے حکام کس کھاتے میں یہ رقم لیتے رہتے ہیں اور یہ رقم کہاں پر جاتی رہی ہیں کیا افسران کے جیب میں ، اب کیوں ان نرسریوں کو ختم کیا جارہا ہے ویسے تو ہر معاملے میں وفاقی او ر صوبائی حکومت آپس میں سوتن کا رویہ رکھتی ہیں مگراس معاملے میں سوتن نہیں بلکہ ایک دوسرے کو سپورٹ کررہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ صوبائی حکومت کیساتھ وفاقی حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ اس صوبے میں زرعی تحقیق کا عمل نہ ہو اور پیداوار بھی کم ہو تاکہ ہر سال دوسرے صوبے ان کے آگے گداگر بن کرکھڑے ہو گندم سے لیکر ہر شعبے میں امداد لیتی رہے- کیا یہی وہ تبدیلی ہے جس کیلئے صوبے کے عوام نے ڈانس کیا تھا یا پھر صوبائی حکومت اپنے آخری سال میں اس منصوبے کی آڑ میں نہ صرف زرعی شعبے کیساتھ اپنی دشمنی نکال رہی ہیں بلکہ صوبے کے عوام کو بھی خوار کرنے میں دلچسپی لے رہی ہیں-
ویسے اگر ایکسپو سنٹر کا قیام اتنا ہی ضروری ہے تو کیا یہ کسی اور جگہ پر نہیں بن سکتا اضا خیل سے لیکر رسالپور تک ایسی زمین سینکڑوں ایکڑ بیکار پڑی ہیں جہاں کی زمین زرخیز نہیں اور اسے زرخیز بنانے میں حکومت کو کافی مشکلات پیش آتی ہیں اس لئے اگر وہاں پر بلڈنگ بنائی جائے تو پھر بھی کوئی تک بنتی ہیں لیکن زرعی تحقیق کیلئے مختص کئے جانیوالے اس زمین کو جسے مقامی لوگوں نے صرف تحقیقی مقصد کیلئے دیا تھا اور بعد میں حکمرانوں نے لیز لیکر اسے مستقل کردیا تھا اس کی زرخیز زمین پورے صوبے میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہیں اسے ختم کرنانہ صرف صوبے کے غریب عوام کیساتھ زیادی ہوگی بلکہ زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد کو بھی تباہ کرنے کی سازش ہے جس میں "تبدیلی کے نام پر آنیوالے حکمران" ملوث ہیں اور وہ تبدیلی کے نام پر اس صوبے کے عوام خوار کرنے پر تلی ہوئی ہیں-
 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420818 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More