بیع تعاطی

تَعاطی {تَعا + طی} (عربی) ع ا ط، عَطا، تَعاطی
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔
٭(1) بیع تعاطی جو بغیر لفظی ایجاب و قبول کے محض چیز لے لینے اور دیدینے سے ہو جاتی ہے یہ صرف معمولی اشیا ساگ ترکاری وغیرہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ بیع ہر قسم کی چیزنفیس و خسیس(2) سب میں ہوسکتی ہے اور جس طرح ایجاب و قبول سے بیع لازم ہو جاتی ہے یہاں بھی ثمن دیدینے او ر چیز لے لینے کے بعد بیع لازم ہو جائے گی کہ بغیر دوسرے کی رضا مندی کے ردکرنے کا کسی کو حق نہیں۔(3)
٭ اگر ایک جانب سے تعاطی ہو مثلاً چیز کا دام طے ہوگیا اور مشتری چیز کو بائع کی رضا مندی سے اُٹھالے گیا اور دام نہ دیا یا مشتری نے بائع کو ثمن ادا کردیا اور چیز بغیر لیے چلا گیا تو اس صورت میں بھی بیع لازم ہوتی ہے کہ اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی رد کرنا چاہے تو رد نہیں کرسکتا قاضی بیع کو لازم کردے گا۔دام طے کرنے کی وہاں ضرورت ہے کہ دام معلوم نہ ہواور اگر معلوم ہو جیسے بازار میں روٹی بکتی ہے، عام طور پر ہر شخص کو نرخ معلوم ہے یا گوشت وغیرہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا ثمن لوگوں کو معلوم ہوتا ہے، ایسی چیزوں کے ثمن طے کرنے کی ضرورت نہیں۔ (4)
٭ دوکاندار کو گیہوں (5)کے لیے روپے دیدیے اور اُس سے پوچھا روپے کے کتنے سیر اُس نے کہادس سیر مشتری (6)خاموش ہوگیا یعنی وہ نرخ منظور کرلیا پھر اُس سے گیہوں طلب کیے بائع نے کہا کل دوں گا مشتری چلاگیا دوسرے دن گیہوں لینے آیاتو نرخ تیز ہوگیابائع (7)کو اُسی پہلے نرخ سے دینا ہوگا۔ (8)
٭ بیع تعاطی میں یہ ضرور ہے کہ لین دَین کے و قت اپنی ناراضی ظاہر نہ کرتا ہواور اگر ناراضی کا اظہار کرتا ہو
توبیع منعقد نہیں ہوگی مثلاً خربزہ، تربزلے رہا ہے بائع کو پیسے دیدیے مگر بائع کہتا جاتا ہے کہ اتنے میں نہیں دونگاتو بیع نہ ہوئی اگرچہ بازار والوں کی عادت معلوم ہے کہ اُن کو دینا نہیں ہوتا تو پیسے پھینک دیتے ہیں یا چیز چھین لیتے ہیں۔اور ایسا نہ کریں تودل سے راضی ہیں خالی مونھ سے مشتری کو خوش کرنے کے لیے کہتے جاتے ہیں کہ نہیں دوں گا نہیں دوں گااس عادت معلوم ہونے کی صورت میں بھی اگر صراحۃًناراضی موجود ہو تو بیع درست نہیں۔ (9)
٭ ایک بوجھ ایک روپیہ کو خریدا پھر بائع سے یہ کہا کہ اسی دام کا ایک بوجھ یہاں اور لاکر ڈالدو اُس نے لاکر ڈالدیا تو اس دوسرے کی بھی بیع ہوگئی مشتری لینے سے انکار نہیں کرسکتا۔(10)
٭ قصاب سے کہا روپیہ کے تین سیر کے حساب سے اتنے کا گوشْت تول دو یا اس جگہ کا پہلو یاران یا سینہ کا گوشت دو اُس نے تول دیا تو اب لینے سے انکار نہیں کرسکتا۔ (11)
٭ خربزوں کا ٹوکرا لایا جس میں بڑے چھوٹے ہرقسم کے پھل ہیں مالک سے مشتری نے پوچھا کہ یہ خربزے کس حساب سے ہیں اُس نے روپیہ کے دس بتائے مشتری نے دس پھل چھانٹ کر بائع کے سامنے نکال لیے یا بائع نے مشتری کے لیے نکال دیے اور مشتری نے لے لیے، بیع ہوگئی۔(12)
٭ دوکاندار وں کے یہاں سے خرچ کے لیے چیزیں منگالی جاتی ہیں اور خرچ کر ڈالنے کے بعد ثمن کا حساب ہوتا ہے ایسا کرنا استحسا ناً جائز ہے۔(13)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ ماخوذ بہارشریعت حصہ گیارہ ،جلد دوم، ص: 623 – 625 مکتبۃ المدینہ
2۔۔۔۔۔۔عمدہ اورگھٹیا ،اچھی اور خراب۔
3۔۔۔۔۔۔''الھدایۃ''،کتاب البیوع،ج۲،ص۲۳،وغیرھ.
4۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''،کتاب البیوع،مطلب:البیع بالتعاطی،ج۷،ص۲۶.
5۔۔۔۔۔۔گندم۔ 6۔۔۔۔۔۔خریدنے والا۔ 7۔۔۔۔۔۔ بیچنے والے۔
8۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''،کتاب البیوع،مطلب:البیع بالتعاطی،ج۷،ص۲۶.
9۔۔۔۔۔۔''ردالمحتار''،کتاب البیوع،مطلب:البیع بالتعاطی،ج۷،ص۲۶.
10۔۔۔۔۔۔''الفتاوی الھندیۃ''،کتاب البیوع،الباب الثانی فیما یرجع الی انعقاد...إلخ،الفصل الأول،ج۳،ص۹.
11۔۔۔۔۔۔''فتح القدیر''،کتاب البیوع،ج۵،ص۴۶۰.
12۔۔۔۔۔۔المرجع السابق.
13۔۔۔۔۔۔''الدرالمختار''،کتاب البیوع ،ج۷،ص۲۶.
 

syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 320768 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.