تعمیری صحافت کے معمار سید مہدی شاہ بھی چل بسے

دوہزار نو کی بات ہے ۔ ایک دوست کو ملنے سکستھ روڈ پر روزنامہ کے ٹو کے دفتر میں جانا ہوا۔ رسمی بات چیت جاری تھی کہ دوست نے اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ سید مہدی شاہ ہیں ۔ سید مہدی شاہ کا نام راقم نے روزنامہ جناح میں بہت سن رکھا تھا ۔ سب ایڈیٹرز ، کمپوزرز ، پیج میکرز اور دیگر سٹاف سید مہدی شاہ کے دور ملازمت کا اکثر ذکر کرتے تھے ۔ یوں راقم کی سید مہدی شاہ سے غائبانہ ملاقات تھی۔ تعارف کے بعد سید مہدی شاہ نے پوچھا کہ کیا اداریہ لکھ سکتے ہو۔ راقم کے ہاں کہنے پر انہوں نے اخبار دیتے ہوئے کہا اس خبر پر اداریہ لکھوں ۔ اداریہ لکھ کر دیا تو مسکرائے اور کہا کے ٹو کیلئے آج ہی سے آپ اداریہ لکھوں گے۔یوں راقم کو بھی سید مہدی شاہ کی سرپرستی میسر آئی اور صحافتی امور سیکھنے کے مواقع ملے۔ دفتر میں تشریف لاتے تو داخلی دروازے سے بولتے کہ آج اداریہ بہت اچھا لکھا ہے اور کوئی غلطی ہوتی تو اس کا بھی برملا نوٹس لیتے ۔ سید مہدی شاہ صاحب کا یہ رویہ بہت اچھا لگتا کہ وہ اچھے کام کی تعریف بھی کھل کر کرتے اور غلطی پر سرزنش کی بجائے شفیق استاد کی طرح سمجھاتے تھے۔ سٹاف کے ساتھ بہت دوستانہ رویہ رکھتے تھے۔ حصول تعلیم پر بہت زور دیتے ۔ سید مہدی شاہ صاحب کے ساتھ اکثر ایک دس سال تک کا بچہ دفتر آ یا کرتا تھا اور مہدی صاحب اس کو خود پڑھاتے ، گزشتہ دن کا سبق سنتے ۔ دفتر سے باہر جانا ہوتا تو بچے کو کچھ صفحات یاد کرنے کو دیکر جاتے کہ واپسی پر سنوں گا۔ راقم کا خیال تھا کہ بچہ مہدی صاحب کا پوتا ہے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک محلے کے غریب خاندان کا چشم و چراغ ہے جس کی تعلیم کی ذمہ داری مہدی صاحب نے لے رکھی ہے۔ چھوٹے بھائی مرحوم کا تکیہ کلام تھا۔ سٹاف کا ہر ممبر ان کا چھوٹا بھائی تھا۔ ہر کسی سے کمال محبت اور شفقت سے پیش آتے ۔ غریب پروری ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ نیکی کر دریا میں ڈال والا محاورہ شاید مہدی صاحب کیلئے ہی تحلیق ہوا تھا۔ جس کی کسی بھی مد د کرتے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی اور خود بھی بھول جاتے کہ کسی کے ساتھ بھلا کیا ہے۔

راولپنڈی اور اسلام آباد کے زیادہ تر نوجوان صحافی کارکنوں نے مرحوم سے کسب کمال سیکھا اور عملی زندگی میں کامیاب صحافی کے طور مختلف اداروں میں امور انجام دے رہے ہیں۔ نیوز روم میں بیٹھتے لیکن خبر کا تعاقب کرتے تھے ۔ جب تک خبر کی صحت پر تسلی نہ کر لیتے شائع ہونے کیلئے نہیں دیتے تھے۔ مرحوم کو کارکن صحافی صحافت کی اکیڈیمی کہتے ہیں۔ فارن پالیسی میگزین اور بین الاقوامی ٹریڈ کی خبریں اکثر ان کے زیر مطالعہ رہتی تھیں۔ سادہ مزاجی ان کا طرہ امتیاز تھا ۔ کارکن صفت تھے۔ کھانا پینا اور لباس انتہائی سادہ ہوتا ۔ ساتھی کارکنوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے۔ دفتری ماحول بہت خوش گوار رکھا ہوا تھا ۔ روزنامہ کے ٹو ایک جھٹکا پہلے بھی سہہ چکا ہے۔ راجہ حسین خان مقپون شہید جو عین شباب میں داغ مفارقت دے گے۔ بے وقت شہادت سے روز نامہ کے ٹو سمیت دوسرے اخبارات ، وادی اور نقارہ کا بوجھ سید مہدی شاہ پر آن پڑا ۔ سید مہدی شاہ بھی شاید تھک گئے اور عدم کی راہ لی۔ اﷲ تعالی مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ مرحوم تعمیری اور مثبت صحافت کا عملی نمونہ تھے اور صحافت کو مشن سمجھ کر کام کرتے تھے۔ سید مہدی شاہ کی وفات سے صحافت بطور مشن ایک باب بند ہوگیا ہے۔
 

Arshad Sulahri
About the Author: Arshad Sulahri Read More Articles by Arshad Sulahri: 139 Articles with 92252 views I am Human Rights Activist ,writer,Journalist , columnist ,unionist ,Songwriter .Author .. View More