دینی عبادات ہو یا دنیاوی معاملات ہرجگہ ریاکاری کا عنصر غالب :آخر کیوں؟

ریا کے لغوی معنی تظاہر اور خود نمائی کے ہیں اور اصطلاح میں ایسے کام کو کہتے ہیں جسے انسان خدا کے لیے نہیں بلکہ تظاہر ،خود نمائی اور لوگوں کو دکھانے کے قصد سے انجام دیتا ہے یہ کام چاہے عبادی ہوں یا غیر عبادی۔یا یہ کہ کوئی نیک کام اس نیت سے کرناکہ دیکھنے اور سننے والا خوش ہوگا اور اس کی نگاہوں میں قدرومنزلت حاصل ہوگی۔ریاکار شخص دوسروں کی تعریف سے خوش ہوتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے اس کے کام کو دیکھیں اور اس کی تعریف کریں حالانکہ خلوت اور تنہائی میں وہ اس کام کو انجام دینا نہیں چاہتا بلکہ اسے چھوڑ دیتا ہے۔درحقیقت ریاکار دوسروں کو دکھانے کی غرض سے کام انجام دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ لوگ اس کی تعریف اور تمجید کریں اگر اس کی تعریف نہ کی جائے تو وہ دوبارہ اس عمل کو انجام نہیں دیتا۔ریاکاری کا عمل نفاق سے بھی ملتا جلتا ہے،جو اسلام کے نزدیک انتہائی گھناؤنااورناقابلِ معافی جرم ہے،کیوں کہ جس طرح منافق انسان کہتاکچھ اور کرتا کچھ ہے،اسی طرح ایک ریاکارآدمی بھی بظاہرتویہ ثابت کرتا ہے کہ وہ جوکچھ بھی کررہاہے،اﷲ کے لیے کر رہاہے،مگر فی الحقیقت وہ بندوں کی خوشنودی کے لیے کرتا ہے اور قرآن میں توباقاعدہ منافقین کی ایک صفت ’’ریاکاری ‘‘بھی بتائی گئی ہے۔

ریاکاری کی بنیادی وجہ انسان کے اندر پایا جانے والا خود ستائی کا جذبہ ہے،جب تک یہ جذبہ رہے گا،اس وقت آدمی ریاکاری کے سرطان سے بچ نہیں سکتا،آج ہمارے معاشرے میں بیشتر لوگوں میں ریاکاری و خودستائی کی بیماری پائی جاتی ہے،افرادسے لے کر جماعت تک اس بیماری سے محفوظ نہیں،عالم سے لے کر جاہل تک اس وبال میں مبتلاہیں،عوام سے لے کرخواص تک میں یہ مرض عام ہوتا جارہاہے۔اول توہماری اکثریت اچھے کام کرتی نہیں اور جوکرتی بھی ہیں تواس کی پبلسٹی کا بھرپورانتظام کرتی ہیں،تاکہ لوگوں میں واہ واہی ہو،شہرت ملے اور دولت حاصل کرنے کے نت نئے مواقع ملیں۔جوشخص جس درجے کاہے،اس میں اسی درجے کی ریاکاری کی بیماری پائی جاتی ہے،طالبِ علم ہے تو استاذ کے لیے ریاکاری کرتا ہے،استاذ ہے تومدرسہ اور اسکول کے ذمے دار کو دکھانے کے لیے اچھاکام کرتاہے،عالم ہے توعوام اورمعاشرے کے بارسوخ لوگوں کواپنی جانب راغب کرنے کے لیے۔اسلام کی نظرمیں شہیدوں،علمااورانفاق فی سبیل اﷲ یعنی اﷲ کے راستے میں خرچ کرنے والے لوگوں کا مقام و مرتبہ کتنا عظیم ہے،ہم سوچ بھی نہیں سکتے،مگر اس کے باوجودان کے عمل میں ریاکاری آجانے کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ ان سبھوں کے بڑے سے بڑے عمل کوکالعدم کردے گا۔(اﷲ اکبر) حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جُبُّ الْحُزْن‘‘ کے گڑھے سے خدا کی پناہ مانگو۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ’’جُبُّ الْحُزْن‘‘کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ جہنم کا ایک غار ہے جو رِیا کار عالموں کیلئے بنایا گیا ہے۔ (کیمیائے سعادت،۶۱۹)ایسا نہیں ہے کہ سارے لوگوں میں یہ بیماری پائی جاتی ہے،مگر کیایہ بھی حقیقت نہیں کہ ہم میں سے دوتہائی لوگ ریاکاری کے اس مشرکانہ مرض کے شکار ہیں۔موجودہ دور میں تقریباًہر شخص اپنی ظاہری حالت بہتر بنانے میں مگن ہے اور کسی کو باطن کی فکر ہی نہیں ہے۔ آج معاشرے کا ہر شخص ظاہر بینی میں دوسروں پر سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عبادات جو کہ خالصتاً اﷲ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں، ان میں بھی ریاکاری اور دکھاوے کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ کئی لوگ عبادتیں اس لیے کرتے ہیں کہ لوگ انہیں نمازی ، حاجی اور پرہیز گار کہیں۔

حضرت عیسیٰ روح اﷲ علیہ ا لصلوٰۃوالسلام ارشاد فرماتے ہیں کہ جب کوئی روزہ رکھے تو سر اور داڑھی میں تیل ڈالے اور ہونٹوں پر بھی ہاتھ پھیر دے تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ روزہ دار ہے اور جب کوئی داہنے ہاتھ سے کسی کو کچھ دے تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو اور جب نماز پڑھے تو اپنے دروازے پر پردہ لٹکادے کیوں کہ اﷲ تعالیٰ ثواب بھی اسی طرح تقسیم کرتا ہے جس طرح روزی بانٹتا ہے۔ (احیاء العلوم، ۴۹۹)اسی مضمون کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ جس دن اﷲ تبارک و تعالیٰ کے عرش کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا، عرش کے سایہ میں ایک ایسا شخص ہوگا جس نے کسی کو داہنے ہاتھ سے دیا اور اپنے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہونے دی یعنی خیرات چُھپا چُھپا کر دی۔(احیاء العلوم،۵۰۰)حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ریاکاری مکمل شرک ہے۔جو لوگوں کے لیے کام کرتا ہے اس کی اُجرت لوگوں پر ہے اور جو خدا کے لیے کام کرتاہے اس کا اجر اور ثواب خدا کے ذمہ ہے۔ عبادات میں سب سے اہم مسئلہ نیت کا ہے۔ نیت ہر عبادت کی روح شمار ہوتی ہے اور عبادت کی اہمیت اور قبولیت کا تعلق بھی نیت سے ہے۔ اگر نیت میں اشکال ہو اور خدا کے لئے نہ ہو اگر چہ وہ عبادت کتنی ہی اہم اور بڑی کیوں نہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

ہمیں اپنے اپنے اعمال اور دل کے احوال کا جائزہ لینا چاہیے اور اس بات کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی بھی نیک عمل کرتے وقت ریاکاری کا جذبہ پیدا نہ ہونے پائے،ریاکاری کے بغیراگرآپ کے اچھے کام کی یا آپ کے حسنِ اخلاق و عبادت وغیرہ کی تعریف کی جاتی ہے توشریعت میں یہ ریاکاری میں داخل نہیں بلکہ آپ کے لیے آپ کے عمل کے مقبول ہونے کی دلیل ہے اوربڑے اجرکی خوش خبری۔اس لیے بڑااَجرپانے کا جذبہ رکھیں،نہ یہ کہ دنیاکی معمولی شہرت ودولت پر آخرت کے اعمال کو ضائع کردیں۔
 

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 674757 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More