چندر بھان خیالؔ کی غزلیہ شاعری میں تخلیقی بصیرت افروزی

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اس ما بعد جدید سے نئے عہد کی تخلیقیت تک کے تناظر میں چندر بھان خیال ؔایک اہم غزلیہ اور نظمیہ شاعر ہیں۔ خیالؔ نے اپنی شعری تخلیقیت کی بنا پر اپنے ہم عصر شعرا سے الگ ہٹ کر اپنی راہیں استوار کی ہیں۔انھوں نے نظمیہ شاعری کے علاوہ غزلیہ شاعری میں بھی اپنے ذہنی فکر و فن کا جوہر دکھایا ہے اور اپنے منفرد لب و لہجہ کی بنا پر اردو غزلیہ شاعری میں بھی اپنا مقام بنایا ہے۔حالانکہ چندر بھان خیالؔ نے غزلیں کم کہی ہیں لیکن اچھی کہی ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے نظمیہ شاعری کے ذریعہ بھی اردو ادب میں اپنی جگہ مستحکم کی ہیں اور ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’شعلوں کا شجر‘‘ 1979 میں شائع ہوا۔جس میں صرف نظمیں ہی نظمیں ہیں۔ دوسرا شعری مجموعہ’’گمشدہ آدمی کا انتظار‘‘ 1997میں ’ شائع ہوا۔ اس مجموعہ کلام میں نظموں کے علاوہ بہت ہی معنی خیز،معنی پرور اور فکر انگیز غزلیں بھی شامل ہے۔تیسرا شعری مجموعہ’’لولاک‘‘ 2002 میں منظرِعام پر آیا اور جس کی پذیرائی ادبی حلقوں میں خوب ہوئی۔ اس مجموعہ کلام میں چندربھان خیالؔ نے حضرت محمدؑ مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے اہم سوانحی ، تواریخی،اخلاقی اور روحانی حقائق کا بیان نہایت والہانہ محسوسات و تصوّرات کے ساتھ نئے اور انوکھے نظمیہ پیرائے میں بڑے ہی فنّی لطافتوں کے ساتھ ادا کیا ہے۔ چوتھا شعری مجموعہ ’’صبح مشرق کی اذاں‘‘ 2008 میں اور پانچواں شعری مجموعہ ’’ احساس کی آنچ ‘‘ 2015میں شائع ہو کر منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔چندر بھان خیالؔ کے غزلیہ اشعار میں نئے عہد کی نِت نئی اضافی تخلیقیت، نت نئی اضافی عصریت ،نِت نئی اضافی معنویت اور نِت نئی اضافی فنّیت خاص طور سے نظر آتی ہے۔ چندر بھان خیالؔ کی غزلیہ شاعری پر گفتگو کرنے سے قبل پروفیسرگوپی چند نارنگ صاحب کی بصیرت افروزعالمانہ، پُر مغز،معنی خیز اور فکر انگیز رائے ملاحظہ فرمائیں:
’’چندر بھان خیالؔ جب بھی میرے ذہن کے اُفق پر آتے ہیں ایک پرچھائیں اور بھی آتی ہے شنکر دت کمار پاشی کی۔ ہم میں سے ہر شخص میں دراصل کئی شخص آن لگے ہیں،پورے ہم پھر بھی نہیں،لیکن آوازوں سے آوازیں اور چراغوں سے چراغ کی لوئیں جلتی ہیں۔ چندر بھان خیالؔ نے بطور ایک طائر خوش خیال دو دہائیاں پہلے پرواز شروع کی تھی۔ وادئی شعر میں پرواز کے ہنر ان کو آتے تھے لیکن نیچے شجر شعلوں کے تھے۔ پھر یہ صحافت کے پھیر میں پڑ گئے تو چکّی کی مشقت کے ساتھ مشق سخن جاری تو رہی لیکن زیر نظر مجموعہ برسوں کا ثمر ہے اب یہ منظر عام پر آ رہا ہے تو معلوم ہوگا کہ اندر کی آگ نے کیا پھول کھلائے ہیں، اور خوش نوائی نے کیا منزلیں طے کی ہیں۔ مجھے ان کی خاطر بہت عزیز ہے،اردو پر فی زمانہ جو پیغمبری وقت پڑا ہے اور اقدار شکنی اور نفسا نفسی کا جو دور دورہ ہے ایسے میں اگر کچھ دیے ایسے بھی جلتے رہیں تو راہ کا اندھیرا اگر کم نہ ہوگا تو کم از کم بڑھے گا تو نہیں۔‘‘
(گمشدہ آدمی کا انتظار : فلیپ)
چندر بھان خیالؔکی غزلیہ شاعری میں ما بعد جدیدیت کافنّی اسلوب ملتا ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری میں عالمی، قومی اور مقامی تہذیبی منظر نامہ، وفور تخلیقیت ، کثیرالمعنویت ، تکثیریت ، رنگا رنگی، بے مرکزیت اور آزادئی فکر و نظر ملتی ہے۔ خیالؔ نے اکیسویں صدی کے اس ما بعد جدید دور میں ہو رہی
نِت نئی تبدیلی کی آہٹ کو محسوس کیا ہے اور اس کو نہایت ہی فنی بصیرت ،خوش اسلوبی اور ہنر مندی کے ساتھ غزلیہ شاعری میں برتا ہے۔ ان کے غزلیہ آئینہ خانے میں استعاراتی اور علامتی رنگ جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ چندر بھان خیالؔ کی غزلیہ شاعری کے ضمن پروفیسر شافع قدوائی اپنے بصیرت افروز اور معنی خیز خیلات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’خیالؔ کی غزلیں جو زیادہ نہیں ہیں،شاعر کی تازہ کاری اور ایک نئے شعری محاورہ کی جستجو کی غماز ہیں۔ خیال نے اپنے اکثر اشعار مخلوط کیے ہیں او ر ایک مخصوص حس کو دوسری میں منقلب کیا ہے۔۔۔ چندر بھان خیال کو ز
ندگی کرنے کے مانوس ڈھب قبول نہیں ہیں اور وہ ایسے زمانے کے حاوی ڈسکورس یعنی متجانس معاشرہ(Homogenous society) کے قیام پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہیں اور اجتماعی جبر(Regimentation) کو انسان کی آزادی کے لیے سن سے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔ جب انسان یکسانیت کی سمت گامزن ہوتا ہے اور قربت کے حصول کی کوشش کرتا ہے تو اک عمل میں اس کا انفرادی تشخص ختم ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ دوسروں سے دوری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔‘‘
(احساس کی آنچ، ص: 36-35)
خیالؔنے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا کر نہایت ہی خوش اسلوبی، فنی بصیرت ، فنی لطافت ، فنی ذہانت اور ہنر مندی کے ساتھ غزلیہ شعری پیکر میں ڈھالاہے۔ان غزلیہ اشعار میں وہ دہشت گردی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا وصف و کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے مشاہدات اور تجربات کو غزلیہ اشعار کے پیکر میں ڈھال کر انھوں نے بڑی فنکاری ، چابک دستی اور ہنر مندی کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ جس کو پڑھ کر قاری کا ذہن سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے اوروہ اس ما بعد جدید دور میں تبدیلی کا احساس کرنے لگتاہے ۔ اُن کے غزلیہ آئینہ خانے میں اپنوں سے بچھڑنے کا رنج وغم ،گھر چھوٹنے کا درد و کرب،اپنوں سے بے پناہ محبّت، انسانیت کا پیغام ،وطن دوستی ،دہشت گردی کے خلاف ذہنی جنگ اور وطن کی سلامتی کا تصور جا بجا نظر آتا ہے۔ انھوں نے بڑی بیباکی کے ساتھ اپنے دل کے درد و کرب اور رنج و غم کا اظہاربڑے ہی فنّی لطافت اور ہنر مندی کے ساتھ کیا ہے۔اس ضمن میں چندر بھان خیالؔکے چند غزلیہ اشعار خاطر نشیں ہو:
موم کی مانند یہ پگھلی زمیں پہلے نہ تھی
اس طرح جلتی ہوئی دنیا کہیں پہلے نہ تھی

برگد کے تلے بیٹھ کے آتی ہے کسے موت
مرنے کے لیے جینے کی رفتار ذرا تیز

جس طرح اک برف کے ٹیلے پہ جلتی ہو چتا
یہ پگھلتا موم سا گھر اور تنہا آدمی

موسموں کے زرد چہروں پر عیاں ہے احتجاج
اس گپھا میں کس طرح سے دن بتائے گی حیات

سانپ کے بل میں نہ کر امرت تلاش
یوں تو خود کو بھی گنوائے گا تو

شہر چھوڑوں گا تو روئیں گی ملوں کی چمنیاں
دیکھنا اک روز میں سارا دھواں لے جاؤں گا

آج ایک دشت ،دشت میں تنہا شجر بھی میں
حیرت سے تاکتے ہیں سبھی کارواں مجھے

پگھل نہ جائیں، بچا لو یہ جسم جاں دیکھو
کبھی ہے آگ یہ دنیا،کبھی دھواں دیکھو
چندر بھان خیالؔاپنے شعری تخلیقیت کے آئینہ خانے میں زندگی کی تلخ سچّائی اور حقیقت سے آنکھیں نہیں چراتے ہیں بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی غزلیہ شاعری کا سب سے بڑا وصف و کمال یہ ہے کہ بڑی سے بڑی بات کو سیدھے سادے الفاظ میں برتنے کاہنروہ خوب جانتے ہیں۔اُن کے یہاں پیچیدگی نہیں ہے۔عام فہم الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ چندر بھان خیالؔ کونِت نئی زمینوں میں غزل کہنے کا سلیقہ خوب آتا ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری کا لب ولہجہ طنزیہ ہے اور اظہار میں بے ساختگی کا پہلو نظر آتا ہے۔انھوں نے روحانی،مُلکی ،سیاسی اور سماجی تصویرکو اپنی غزلیہ شاعری کا موضوع بنایاہے۔ا س سلسلے میں خیالؔ کی شاعری کے مختلف رنگ خاطر نشان ہو:
پھر میرے شہر میں لوٹ آئی ہے دہشت گردی
پھر اک جسم کے سائے میں پلے سنّاٹا

لاکھ چھانو خاک نا معلوم صدیوں کی خیالؔ
ایک لمحے کی خوشی پھر بھی نہ پائے گی حیات

آتی ہے مرے شہر کے کانوں میں دبے پاؤں
صحراؤں کے سینوں سے سمندر کی صدا تیز

نیم کے پتوّں سے کڑوی ہر خوشی
دیکھئے مجھ کو یہ نذرانہ ملا

تیری پرچھائیں سمٹتی جائے گی
جیسے جیسے پھیلتا جائے گا تو

گھڑی بھر خلوتوں کو آنچ دے کر بجھ گیا سورج
کسی کے درد کی لے پر کہاں تک ناچتا سورج

اس نے مٹّھی بھر مجھے اونچا کیا جب
اور بھی اک ہاتھ گھٹ کر رہ گیا ہوں

چلو چلتے ہیں پھر جنگل کی جانب لوٹ چلتے ہیں
یہاں تو بھیڑ ہے، دم گھٹنے والا ہے
ماحولیاتی عنصر ان کی شاعری کی جان ہے ۔چندر بھان خیالؔعالمی ،قومی اور مقامی دہشت پسندی ، خونریزی اور فرقہ پرستی کے خلاف ہیں، فسادات کے خلاف وہ کھڑے نظر آتے ہیں اور وہ عالمی، قومی اور مقامی تہذیبی منظر نامہ پر دوستی، بھائی چارگی، اخوت، امن پسندی اور سلامتی کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ اپنی تہذیب اور روایت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ہیں اور وہ زندگی میں بدلتے ہوئے حالات اور زندگی کی تلخ اور بے رحم سچّائیوں سے آنکھیں نہیں چراتے ہیں بلکہ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتے ہیں اور حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہی چندر بھان خیال ؔکی غزلیہ شاعری کا جوہرِ اصل ہے۔ اس ضمن میں چندر بھان خیالؔ کے غزلیہ اشعار ملاحظہ ہیں ؂
اب زبان حال کٹ بھی جائے تو پروا نہیں
خود سمجھ لے گا زمانہ حق بیانی ایک دن

کیوں نظر آتا نہیں اس راہ میں جنگل کوئی
اب طبیعت زرد رو شہروں سے اکتانے لگی

وہ لوگ بن گئے ہیں محافظ معاش کے
اپنے حقوق جن سے نہیں چھین پائے ہم

آئینہ سورج کا کب اس درجہ گرد آلود تھا
چاند کی محفل کبھی اتنی حزیں پہلے نہ تھی

ہر سانس ہے جیسے کوئی خنجر سرِ مقتل
ہر آنکھ میں جلتی ہے مناظر کی چتا تیز

چاند کی باغی چعاعیں صلیبوں کی طرح
چاندنی راتوں میں کب تک تلملائے گی حیات

اک دلت میں شامل محفل کروں تو میں کیا کروں
ہے محافظ ہی مرا قاتل کروں تو کیا کروں

وہ مسلمان ہے اس لیے شہر میں
اس پہ بجلی گری، روز آرے چلے

زندگانی رنج و غم کے سوا کچھ بھی نہیں
اُف ! کہ ہر دم سوگ و ماتم کے سوا کچھ بھی نہیں

ہو گیا ہوں قتل بے رحمی سے ان کے سامنے
حیف !جن لوگوں کو اپنا پاسباں سمجھا تھا میں
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اس ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک کے تناظر میں چندربھان خیالؔ نے اپنے ان غزلیہ اشعار میں زندگی کے نت نئے نئے تجربات اور مشاہدات کے ذریعہ اپنی شعری تخلیقیت کی دنیا آباد کی ہے۔جس میں زندگی ہے، حسن ہے، توانائی ہے اور اسعت ہے۔ جو ہمیں سلاتی نہیں ہیں بلکہ جھکجھورتی ہیں ، بیدار کرتی ہیں اور ہمیں بہت کچھ سوچنے ،سمجھنے اور غور و فکر کرنے کے لیے مجبور کرتی ہیں۔ یہ غزلیہ اشعار نئی اضافی معنویت، نئی اضافی عصریت اور نئی اضافی فنیت سے مملو، روشن و منور ہے۔

Ajai Malviya
About the Author: Ajai Malviya Read More Articles by Ajai Malviya: 34 Articles with 72058 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.