افغانستان پر تجزیاتی رپورٹ ۔۔۔ حقیقت یہ ہے

عراق میں امریکہ نے مفروضوں کی بنیاد پر جنگ شروع کی تھی اور بعد میں اس کے با صلاحیت اور عظیم خفیہ ادارے سی آئی اے کی اطلاعات غلط ثابت ہوئیں۔ پوری دنیا کے سامنے شرمندگی اس کے حصے میں آئی اور وہ وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوا۔ ہاں اس نے یہ کارنامہ ضرور سر انجام دیا کہ عراق کی صنعت و حرفت، تجارت اور ہر قسم کی ترقی اور خوشحالی کو بد حالی میں بدل دیا۔ عراق کی حکومت کو تو اس نے فتح کر لیا وہاں کے عوام کے دلوں میں اپنے لیے نفرت کے سوا کوئی جذبہ نہ پیدا کر سکا۔ لہٰذا اس محاذ پر اسے زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ عراق میں اپنے غلبے اور بربریت کے زعم میں اس نے 9/11کے ڈرامے کی آڑ لے کر افغانستان پر حملہ کر دیا اس نے اس ملک کو بھی اپنی دنیاوی طاقت سے تاخت و تاراج کیا۔ سویت یونین کی حیوانیت سے بچے ہوئے اور اپنی سانسوں کی بحالی کی کوشش میں مصروف افغانستان کو بارود اور آگ کے ساتھ دوبارہ خاک اور خون میں نہلا دیا ۔ حالانکہ امریکہ جانتا تھا کہ یہ ملک ہی پتھریلا نہیں اس کے لوگوں کا حوصلہ بھی ان پتھروں سے زیادہ سخت ہے۔ امریکہ پچھلے دس سالوں سے مصروفِ جنگ ہے لیکن کابل اور اس کے مضافات سے اپنے زیرِ سایہ کابل حکومت کی عمل داری آگے نہ بڑھا سکا۔ اس نے بے شمار افغانوں کا خون تو اپنے سر لیا ہی ہے اپنے بے شمار فوجی بھی اس جنگ کی بھینٹ چڑھا چکا ہے لیکن وہ افغانوں کو زیر نہ کر سکا ہے۔ جس کا اقرار وہ خود بھی کرتا رہتا ہے نہ ہی وہ ان سایوں کو تلاش کر سکا ہے جن کو ڈھونڈتا ہوا وہ یہاں آیا تھا۔ ہاں اس نے ایک اسامہ بن لادن کے بدلے میں ہر افغان کو اسامہ سمجھ کر اس کا خون بہانا روا سمجھ لیا اوراس کا دل اپنے لیے نفرت سے بھر لیا۔

افغانستان میں امریکہ کی موجودگی سے افغانستان کو جو نقصانات اٹھانا پڑے وہ تو اپنی جگہ ، پاکستان اس جنگ سے شدید ترین طور پر متاثر ہوا ۔ سویت افغان جنگ کے مقابلے میں کہیں زیادہ نقصان ہمیں اٹھانا پڑا۔ دہشت گردی کے خلاف ان نام نہاد اور ڈھکوسلا جنگ نے ہمارے انفراسٹرکچرکو تباہ کر کے رکھ دیا۔ ہماری فوج کو تو افغان اور امریکی افواج سے بھی زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے باوجود امریکہ کا ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ جاری ہے۔ اگرچہ وہ جانتا ہے کہ نہ تو ابھی تک اس نے طالبان کے خلاف کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل کی ہے اور نہ آئندہ اس کی کوئی امید ہے۔ افغان جنگ کے بارے میں حالیہ تجزیاتی رپورٹ میں بھی امریکہ نے اعتراف کیا کہ طالبان کے خلاف اس کی کامیابیاں دیر پا نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے سر سوائے خون خرابے کے کسی کامیابی کا سہرا ہی نہیں وہ افغان جنگ مجبوراً جاری رکھے ہوئے ہے اور ایک ہاری ہوئی جنگ سے واپسی کا باعزت راستہ تلاش کرنے میں یقیناً اسے وقت درکار ہے لیکن بوکھلاہٹ میں اسے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ انخلائ کی منصوبہ بندی کیسے کرے ۔ایک طرف تو وہ کہتا ہے کہ وہ جولائی 2011میں اپنی افواج میں کمی کرے گا دوسری طرف وہ القاعدہ سے آخری وقت تک لڑنے کا اعلان کر رہا ہے۔ کیا وہ ان سات ماہ میں پچھلے دس سال سے زیادہ کامیابی حاصل کرے گا؟

صدر اوبامہ حسبِ معمول پاکستان کے اوپر تمام ذمہ داری ڈال کر یقیناً اپنے ’’ انتہائی کامیاب‘‘ خفیہ ادارے سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ کے ٹھکانے پاکستان میں قرار دیئے اور تجویز پیش کہ کہ القاعدہ کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں ان کو محفوظ ٹھکانے نہ دیئے جائیں۔ پاکستان اور افغانستان دو ملکوں میں دس سال سے امریکہ القاعدہ کے ٹھکانے تلاش کرتے کرتے تھک چکا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی زندگی عذاب بنا دی گئی لیکن یہ ٹھکانے اور یہ لیڈر ان کے ہاتھ نہ لگ سکے تو کیوں نہ امریکہ اپنی تلاش کا رخ اپنے جاسوس ادارے اور اپنے ملک کی طرف پھیر دے اگر امریکی حکومت سی آئی اے کے اس جرم میں شریک نہیں تو شاید اسے اس تلاش میں کچھ کامیابی حاصل ہو جائے لیکن اس کیلئے اسے اپنی دوست ایجنسیوں یعنی ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ سے مدد ضرور لے لینی چاہیئے اور انہیں بھی ان کا روائیوں سے باز رکھنے کا حکم دے جو وہ اس کی محبت اور اطاعت میں پاکستان اور افغانستان میں جاری رکھے ہوئے ہے۔ خاص کر پاکستان میں ’’را‘‘ کی مدد کرنا یا لینا چھوڑ دے۔ اس نے جس طرح بھارت کو افغانستان میں مکمل طور داخل کر لیا ہے وہ اپنے بعد افغانستان کی حکومت کو بھارت کے حوالے کرنا چاہتا ہے تاکہ ’’را‘‘ اور بھارت پاکستان پر دو طرف سے حملہ آور ہو سکے اور بھارت اپنی ایک ارب ننگی بھوکی اور بے گھر آبادی کیلئے توانائی کے بیش بہا ذخائر پر قبضہ کر سکے چاہے اس کیلئے اسے آخری افغان کی آخری سانس بھی لینا پڑ جائے کیونکہ یہی اس کی فطرت ہے۔

امریکہ کی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا کہ کابل اور اسلام آباد کو فاصلے ختم کرنا ہونگے۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ کابل اور اسلام آباد میں فاصلے حائل کیے گئے ہیں ۔ ورنہ یہاں نہ مذہبی نہ معاشرتی نہ ثقافتی اور نہ زمینی کسی طرح کا بھی فاصلہ نہیں ۔ یہاں تو چبھے کانٹا جو کابل میں تو پاکستان کا ہر پیروجواں بے تاب ہو جائے۔ کرنا صرف یہ ہے کہ ہیلری افغانستان سے اپنی فوجیں ، سی آئی اے، را اور موساد سب کو واپس بلا لے اور افغانستان اور پاکستان کو اپنے باہمی معاملات خود حل کرنے دے۔ پاکستان او ر افغانستان میں جو سب سے مضبوط رشتہ ہے وہ مذہب کا ہے۔ جو انہیں ایک دوسرے سے دور نہیں ہونے دیتا ۔ یہاں حکمران تو بِک کر ایک دوسرے کے خلاف ہو سکتے ہیں عوام نہیں۔ جس کا ثبوت آج بھی وہ لاکھوں افغان باشندے ہیں جو اَسّی کی دہائی میں پاکستان آئے تھے اور آج تک پاکستانیوں نے ان کو رہنے کی جگہ دی ہوئی ہے ۔

اس تجزیاتی رپورٹ میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اہم جزو ہونے کا تمغہ تو دیا گیا جو اس قوم کو ہر گز منظور نہیں لیکن پاکستان کے اوپر اعتماد کی کمی کا رونا امریکہ مسلسل رو رہا ہے ۔ جبکہ امریکہ جانتا ہے کہ پاکستان کے بغیر اسے یہ جنگ کئی گنا مہنگی بھی لڑنا پڑی تو ممکن نہیں ۔ اس وقت امریکہ پاکستان کی نہیں پاکستان امریکہ کی مجبوری ہے لیکن اس نکتے کو تسلیم کرنے کی ہمیں بھی ضرورت ہے کہ ہماری حکومتوں نے اس کا فائدہ نہیں اٹھا یا ۔ اگرچہ ہمیں امریکہ سے اس جنگ کے مکمل معاوضے کا مطالبہ کرنا چاہیئے۔ لیکن امریکہ ہمیں امداد بھی ترسا ترسا کر بوند بوند کر کے دے رہا ہے۔ اعتماد سازی میں پاکستان سے مذید اقدامات کا مطالبہ صرف ناجائز ہی نہیں انتہائی بودا ہے اور کسی بھی ہوش مند شخص اور حکومت کو اس طرح کا مطالبہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا چا ہیئے اور پھر کوئی بھی بات کہنی چاہیئے ۔ کیونکہ حکومتوں کی باتیں پوری قوم کی ترجمانی بن جایا کرتی ہیں اور اسی لیے امریکی حکومت کو انتہائی احتیاط کرنی چاہیئے اور تجزیاتی رپورٹس پیش کرتے ہوئے حقیقی تجزیہ کرنا چاہیئے۔ یہ رپورٹ بھی پچھلی رپورٹس کا تسلسل تھا چند الفاظ تبدیل کر کے اسے نئی رپورٹ کا نام دیا گیا ہے۔ جبکہ امریکہ کو چاہیئے کہ ایسے تجزیے پیش کرنے کی بجائے کچھ ایسے اقدامات کرے جو اس کے حق میں بھی بہتر ہو اور دنیا کے حق میں بھی۔

چند بوری آٹا ، چینی یا کچھ ڈالر تقسیم کرنے سے امریکہ اپنے خلاف دنیا کے خیالات نہیں بدل سکتا ورنہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسا کر چکا ہوتا جہاں وہ آٹا بھی تقسیم کر چکا ہے اور گھی چینی بھی۔ لیکن باڑہ کے بچے اب بھی امریکہ کا نام اتنی ہی نفرت سے لیتے ہیں جتنا پہلے۔ امریکہ اپنا تاثر تب ہی بہتر کر سکتا ہے جب وہ قومی سطح پر پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کرے ۔ اسے اپنا اتحادی کہتا ہے تو کہے اپنا غلام نہ سمجھے۔ بھارت کیلئے الگ اور پاکستان کیلئے الگ معیار نہ رکھے ۔ وہ معاہدے بھارت سے کرے اور مطالبات پاکستان سے۔ یہ کسی بھی طرح پاکستانیوں کے دلوں سے امریکہ کی نفرت نہ نکا ل سکے گا ۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تو وہ کھل کر مخالفت کرتا ہے کبھی اسے طالبان کبھی القائدہ کے خطرے میں قرار دیتا ہے۔ جبکہ بھارت کے ساتھ سول نیو کلیئر معاہدے بھی کرتا ہے اور اس کے غیر معیاری اور غیر محفوظ ایٹمی اثاثوں پر اسے کوئی اعتراض نہیں۔ بھارت کا ایٹمی سائنس دان لاپتہ ہو جائے اور اس کی لاش ملے تو کچھ نہ ہو اور خدانخوستہ اگر پاکستان میں ایسا واقعہ پیش آ جائے تو امریکہ کا پہلا الزام یہ ہو گا کہ اس سائنس دان سے طالبان نے معلومات حاصل کر کے مار ڈالا ۔ جی ہاں امریکہ سے کوئی بعید نہیں۔

امریکہ اگر درست تجزیاتی رپورٹ پیش کرے تو یقیناً دنیا کے امن کی تباہی کا واحد ذمہ دار امریکہ اور اس کے معاونین بھارت ، اسرائیل اور ان کی خفیہ ایجنسیاں ہی ہونگی ۔ اسے یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیئے ورنہ اس کو مشکلات اور شکست سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 508541 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.