خصوصی تحریر برائے فروغ حیا وحجاب ’حیا اور مسلمان مرد ‘

’’ہر دین کا ایک خا ص خلق ہوتاہے اور اسلام کا خلق حیا ہے ۔‘‘فرمان نبویؐ (موطا امام ما لک )
حیا ایک خاص فطری وصف ہے ۔جو انسان کے اندر بہت سی خو بیو ں کو پروان چڑھا تا ہے ۔مثلاً عفت و پا کبا زی ،گنا ہوں سے بچنا ،اللہ کی نا فر ما نیوں پر غیرت کھا نا ۔

کسی کے سا منے دست سوال دراز نہ کرنا اور سوال کر نے وا لے کو خا لی ہا تھ نہ لو ٹا نا ۔احسان مندی کرنا ،حق تلفی نہ کر نا ۔دوسروں کی غلطیوں پر چشم پو شی کر نا ۔۔سب اسی وصف کے مختلف مظا ہر ہیں ۔

حیا کے با رے میں ایک عام تصور ہے کہ یہ عورتوں کا وصف ہے ۔اور اس کو بدرجہ اتم عورتوں کے اندر ہو نا چا ہیے ۔یہ با ت اس حد تک تو درست ہے کہ عورت کے اندر اللہ نے فطری طور پر شرم و حیا کا مادہ مرد سے زیا دہ رکھا ہے اور بہترین عورت یقیناً وہی ہے جو حیا کے زیورسے آ راستہ ہے ۔

لیکن مردوں کے لیے حیا اتنی اہم ہے کہ معا شرتی اصلا ح اور تطہیر کے لیے مردوں کا با حیا ہو نا کبھی کبھی عورتوں سے بھی زیا دہ اہم بن جا تا ہے ۔

حیا ایسا وصف ہے جسے خود ما لک و خا لق کا ئنات نے بھی اختیا ر فر ما یا ہے ۔قرآن میں جا بجا اس کا تذکرہ ہے اور احا دیث میں بھی اللہ کے اس وصف کو بیا ن کیا گیا ہے ۔آپ ؐنے فر ما یا ’’ عزت اور جلال وا لے خدا کے آگے جب کو ئی بندہ ہا تھ پھیلا کر کچھ بھلا ئی ما نگتا ہے تو وہ اس کو نا مراد لو ٹا تے ہو ئے شر ما تا ہے ۔‘‘(بیہقی)

اللہ کے لیے حیا کے معنی :۔سید سلما ن ندوی ؒ، سیرت النبیؐ جلد ششم میں رقمطراز ہیں کہ’’ اللہ کے لیے حیا کے معنی وہی ہو ں گے جو اس کی ذات اقدس کے لا ئق ہیں مثلاً یہ کہ وہ اپنے بد کا ر بندوں کو برا ئی کرتے دیکھتا ہے لیکن ان کو پکڑتا نہیں ۔اور اس کے آ گے جو ہا تھ پھیلا تا ہے اس کو نا مراد لو ٹا تا نہیں ۔‘‘(صفحہ 383)
٭اللہ کی حیا مثبت حیا ہے ۔اور اللہ حق با ت کہنے سے نہیں شر ما تا
ان اللہ لا یستحیی ان یضرب مثلا ما بعوضۃ (البقرہ 26)
٭اللہ حق کے اظہا ر سے نہیں شرما تا ۔فر ما ن نبوی ہے ان اللہ لا یستحیی من الحق (بخا ری )
٭حدیث ہے کہ ۔’’اللہ سب سے زیا دہ غیرت مند ہے اور ااسی لیے اس نے بد کا ریوں کو حرام کیا ہی‘‘(صحیح مسلم)

غور کیا جا ئے تو حیا کی یہی صفا ت مسلما نوں مردوںمیں بدرجہ اتم مو جود ہو نا ضروری ہیں مثلاًاعلیٰ ظرفی ،حق کے لیے جری و بے با ک ہونا،بدکا ریوں اور برائیوں کے سد باب کے لیے کمر بستہ ہو نے والی۔۔وغیرہ۔

حیا اور نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم
احا دیث سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ ؐ کنواری پردہ نشین لڑ کیوں سے زیا دہ حیا دار تھی۔(بخا ری : باب الحیا)

صحاح میں ہے کہ شرم و حیا کا اثر آپ ؐ کی ایک ایک ادا سے ظا ہر ہو تا تھا ۔کبھی کسی کے سا تھ بد زبا نی نہیں کی ،با زا روں میں جا تے تو چپ چاپ گزر جا تے ۔تبسم کے سوا کبھی لب مبا رک خندہ و قہقہ سے آشنا نہ ہو ئی۔

٭بھری محفل میں کوئی با ت نا گوار ہو تی تو لحا ظ کی وجہ سے زبا ن سے کچھ نہ فر ما تے ۔چہرہ کے اثر سے ظا ہر ہو تا اور صحا بہ متنبہ ہو جا تے ۔
٭آپؐ کو کعبہ کے گرد بر ہنہ طواف سخت نا پسند تھا ،حمام میں برہنہ نہا نے سے سختی سے منع فر ما یا،عورتوں کے حمام میں جا نے پر پا بندی لگا ئی۔

معمول تھا کہ رفع حا جت کے لیے اس قدر دورنکل جا تے کہ آنکھو ں سے اوجھل ہو جا تے ۔مکہ معظمہ میں جب تک قیا م تھاحدود حرم سے با ہر نکل جا تے جس کا فا صلہ مکہ معظمہ سے کم از کم تین میل تھا ۔(سیرت النبیؐجلد دوم سید سلمان ندوی صفحہ15 )

٭آپؐ بچپن میں ہی بہت حیا دار تھے ۔مشہور وا قعہ ہے کہ تعمیر کعبہ کے وقت اینٹیں اٹھا اٹھا کر لا رہے تھی۔اپنے چچا عبا س ؓکے کہنے پر تہبند اتا ر کر کندھے پر رکھنا چا ہا تو حیا کی وجہ سے بے ہو ش ہو گئے ۔ہو ش آیا تو زبان پر تھا میرا تہبند،میرا تہبند۔(بخاری)
٭بعض موا قع پر آپ ؐ کو صحا بہ کرام کے کسی عمل سے تکلیف ہو تی تھی لیکن آپ ؐ حیا کی وجہ سے خا موش رہتے ۔جیسے حضرت زینب ؓکے ولیمہ کے روز صحابہ دیر تک بیٹھے رہی۔آپ ؐ کو نا گوار محسوس ہو تا رہا لیکن منع نہ فرما یا ۔یہا ں تک کہ اللہ تعا لیٰ نے خصوصی حکم نا زل فرما کر ان امور سے منع فرما یا۔

حیا اور صحا بہ کرام ؓ
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ جلیل القدر بزرگ تھے جن کی تر بیت وحی الٰہی کی روشنی میں خود نبی کریم ؐ نے کی ۔ان کے فطری اوصا ف کو پروان چڑھا یا ان کی موروثی صفات کو صحیح رخ دیا اور تا ریخ کے بہترین انسان بنا کر اٹھا کھڑا کیا ۔

٭خلفا ئے راشدین میں حضرت عثمانؓسب سے زیا دہ حیا دار تھے ۔اور نبی کریم ؐ بھی ان کی اس صفت کا لحا ظ رکھتے تھی۔با قی صحا بہ کرام کے سامنے اگر کبھی پنڈلیاں کھول کر بیٹھ جا تے تھے تو حضرت عثمان کی آمد پر ڈھا نپ لیتے تھے کہ ان کی حیا پسند طبیعت پر یہ نا گوار نہ گز ری۔
٭حضرت عمرؓ کی حیا غیرت ِمردانہ کا روپ رکھتی تھی ۔اللہ کے دین کے با رے میں وہ بہت با غیرت تھے اور بے شما ر تا ریخی واقعات ہیں کہ جب انہوں نے چا ہا کہ کسی دشمن خدا کی گردن تن سے جدا کر دیں اور رسول ؐ کے حلم نے اس سے روکا ۔
٭پر دہ کے احکا م آ نے سے قبل حضرت عمر کئی مر تبہ نبی کریم ؐ سے اس با ت کا اظہا ر کر چکے تھے کہ آپ ؐ کے گھر میں ہر طرح کے لو گ آتے ہیں بہتر ہے کہ امہا ت المومنین پردہ کیا کر یں ۔
٭پردے کے بغیر کو ئی عورت پہچان لی جا تی تو ان کو نا گوار ہو تا ۔
٭سورہ نو ر میں جب زنا اور قذف کے احکام نا زل ہو ئے اور چار گواہوں کی پا بندی عائد کی گئی تو حضرت سعد بن عبادہ ؓنے اس پر قدر ے گرمجوشی کااظہا ر کیا کہ مرد اگر اپنی بیوی کو غلط کا ری کرتے دیکھے تو چا ر گواہ لا نے تک تو کام تما م ہو جا ئے گا ۔۔یہ کیسا قا نون ہے ۔نبی کریمؐ نے اس تبصرے پر نا گواری کا اظہا ر فر ما یا تو صحا بہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐسعد بن عبا دہ ؓکے با رے میں جلدی نہ فر مائیے یہ بہت غیرت مند ہیں ۔

صحا بہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے حیا اور غیرت کا صحیح مفہوم سمجھا ۔

٭ان کی حیا نے انہیں ہر طرح کی بے حیا ئی ،فحا شی اور عر یا نی سے روکے رکھا ۔معا شرے کو پا کیزہ رکھا ۔
٭حیا نے ان کو ایک دوسرے پر ہر طرح کی دست درازی سے روکے رکھا ۔وہ احسان کی قدر کرنے وا لے ۔سا ئلین کو نہ لو ٹا نے وا لے تھے ۔
٭وہ اتنے غیرت مند تھے کہ معا شرے میں کسی کو کھلے عا م گناہ کر نے کی جر ات نہ ہو تی تھی ۔
٭لیکن ان کی حیا اسلامی حیا تھی اس میں کمزوری اور بزدلی کا عنصر شامل نہ تھا کہ وہ حق با ت کر نے سے شر ما جا ئیں ۔
٭کا فروں کے سا منے کلمہ حق نہ کہ سکیں ۔
٭جا بر و ظا لم حکمرا نوں کے سا منے اللہ کی کبریا ئی نہ بیا ن کر سکیں ۔ظا لموں کو ظلم سے روکنے میں کو ئی چیز ما نع نہ ہو تی تھی ۔اللہ کے دین کے دفا ع میں وہ بہت غیرت مند تھے ۔

صحابہ کرام ؓ کو حیا نے ان مواقع پربھی دلیر بے جھجک اور آزاد بنا دیا دیا تھا جہا ں دین سیکھنے کی ضرورت ہو تی تھی ۔حتی کہ صحا بیا ت بھی سوال کر نے سے نہ شر ما تیں۔اور احسن طریقے سے سوال کرتیں۔

حضرت عا ئشہؓ فر ما تی ہیں’’ انصار کی عورتیں کس قدر اچھی عورتیںتھیں کہ دین کا علم حا صل کر نے سے ان کو حیا نہیں رو کتی تھی۔‘‘ (مسلم کتاب الطہا رہ)

٭اس دور کی مسلمان عورتیں بھی حیا میں مثالی تھیں ۔اور مسلمان مرد بھی بدرجہ اتم اس صفت سے متصف تھی۔سب اللہ سے بھی حیا کرتے تھے اور ہر طرح کی نا فر مانی اور فحا شی سے اجتنا ب کرتے تھے اور آپس میں بھی حیا کر تے تھے ۔

مردوںمیں غیرت بدرجہ اتم تھی جو حیا کا مظہر ہے ۔جس کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلم معا شرے میں کو ئی بہن ،بیٹی ،بیوی اور کو ئی عورت بے حیا ئی کے سا تھ با ہر نکلنے کی جر ا ت نہ کر سکتی تھی اور حضرت عمرؓ اور سعد بن عبا دہ ؓجیسے جری اور غیرت مند انسان معا شرے میں حیا کی ترویج کے لیے مو جود ہوتے تھے ۔

’روایتی مسلم معا شرے اور حیا ‘
آج سے چند سا ل پیشتر تک ہما رے دیہا ت اور چھوٹے شہر ا گر چہ مکمل دیندار معا شرے کی تصویر نہ تھے لیکن رو ایتی مسلم معا شرے ضرور تھے ۔مردانہ حیا اور غیر ت زندہ تھی ۔گھروں کے اندر بھی عورتیں دو پٹے اتار نے کا تصور نہ کر سکتی تھیں ۔

٭مرد کھا نس کر یا آواز دے کر اندر دا خل ہو تے اور گھر کی تما م خواتین اپنی چادریں اور دوپٹے درست کر لیتیں ۔
٭بھا ئی غیرت مند تھے ۔بہنوں کو بے پردہ سا تھ با ہر لے جا نے پر معترض ہو تے تھی۔شو ہر بیوی کو دوستوں کے سامنے لا نے میں جھجھک رکھتے تھی۔گھروں میں زنا ن خانے اور مردان خا نے الگ تھے ۔عمو ماً مردانہ بیٹھکیں با ہر ہو تی تھیں ۔

خا ندان میں ایک نہ ایک ایسابا کردار اور رعب دار مرد ضرور ہو تا تھا جس سے سب حیا کر تے تھے اور اس کے سا منے عورتیں تو کیا لڑکے بھی غلط کا م کر نے سے جھجکتے تھے

بڑوں کے سا منے حیا کی جا تی تھی ،نگا ہیں نیچی رہتی تھیں ،اونچا نہیں بو لا جا تا تھا ۔کھلے عام نا فر ما نی نہیں کی جا تی تھی ۔نا گوار باتوں کو بھی برداشت کیا جاتا تھا ۔

شادی بیا ہ میں مرد اور عورتیں الگ الگ ہو تے تھے ۔’دلہن اور حیا ‘ لا زم و ملزوم تھے ۔دلہن کو رخصت کرتے وقت با پ اور بھا ئی ملتے تھے تو حیا کی وجہ سے اس اس کو پورا ڈھک دیا جا تا تھا وہ با غیرت با پ اور بھا ئی دلہن کے ننگے سر پر ہا تھ نہ پھیرتے تھے ۔

بسوں میں سفر کرتے ہو ئے مرد کسی عورت کو کھڑا دیکھتے تو اسے جگہ دے دیتے اور خود کھڑے ہو جا تے ۔گھر کی عورتوں کے لباس پر بھی مردوں کی نظر رہتی تھی اور غلطی پر ٹو کا جا تا تھا ۔ہمیں یا د ہے کبھی بچپن میں بھی سر سے دوپٹہ اترا تو والداور چچا کی آنکھوں میں نا گواری کی جھلک نظر آئی ۔گو یا مسلما ن مرد کی حیا و غیرت ،گھروں میں شرم و حیا کی قوت نا فذہ تھی۔ایسے لڑکوں اور مردوں کو سخت نا پسند کیا جا تا تھا جو عورتوں میں گھسے رہتے تھے ۔جو بیویوں کو بے پردہ با ہر لے جا نے میں کوئی باک نہ رکھتے تھے ۔بلکہ صاف کہا جا تا تھا کہ فلا ں بہت بے غیرت ہے ۔اس کی بیوی اور بہن ایسے با زا روں میں گھو متی ہے ۔

آج کیا ہو گیا ہےاے مسلمان مردو ۔اے بھا ئیو ! آج کیا ہو گیا ہے ۔کہا ں گئی آج مسلمان مردوں کی حیا اورغیرت ۔۔۔؟

آج دنیا بھر میں اسلام مظلوم اور اجنبی ہے ۔مسلمان ہو نا ایک جرم بن گیا ہے ۔ہر ائیر پورٹ ،ہر پبلک مقام پر مسلمان کی عزت نفس پا مال کی جا رہی ہے ۔جہاں خون بہہ رہا ہے مسلمان کا بہہ رہا ہے ۔عرب سے لے کر ایشیا،افریقہ اور یو رپ تک ۔۔۔کوئی جان ارزاں ہے تو مسلمان کی ۔وائٹ ہا ئوس میں ایک مکھی کے مر نے پر این جی اوزحر کت میں آ جا تی ہیں ۔لیکن افغا نستا ن ،کشمیر ،عراق ،پا کستان میں ڈرون حملوں اور بم دھما کوں اور میزائل حملوں میں ما رے جا نے وا لے انسا ن شا ید کیڑے مکو ڑوں سے بھی کم اہم ہیں ۔کیوں ؟

فیس بک اور انٹر نیٹ پر آ ئے دن رسول اللہ ؐ اور قرآ ن پا ک کی بے حر متی کی جا تی ہے ۔لیکن ایک وقتی جوش کے بعد سب ٹھنڈے ہو جا تے ہیں ۔کیوں ؟

اس لیے کہ مسلما نوں کے اندر وہ ایما نی غیرت اور حیا نہیں رہی جو کفر کو چیلنج کر سکے ۔جو ظا لموں کے بڑھتے ہو ئے ہا تھو ں کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچا سکے ۔

آج امت کے سپو توں کی آنکھوں پر ما دیت کی پٹی بندھ گئی ہے ۔حکمران ڈا لروں کے عوض یہود و نصا ری کے با جگزار بن چکے ہیں ۔بے دین سیا ست دان اقتدار کی ہوس میں ایمان و حیا فروخت کر چکے ہیں اور وہی اس وقت سیا ست کے میدا نوں پر قا بض ہیں ۔

تا جر ما لی منفعت کے عوض ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اسیر ہو چکے ہیں ۔انہیں اس سے غرض ہے کہ لا محدود منا فع ملے ۔بھلے قوم کا اخلا ق و کردار تبا ہ ہو تا ہے یا ایمان غا رت ہو تا ہے ۔

تعلیم بے حیا کا رپردازوں کی وجہ سے تجا رت بن چکی ہے اور اپنے معنی کھو چکی ہے ۔اب تعلیم صرف روٹی کما نے کے گر سیکھنے کا نا م ہے اور استاد اور طبیب جو معا شرے کے معزز ترین منصب تھے ،آج اپنا مقا م کھو چکے ہیں ۔اس لیے کہ ٹیو شن اور فیس نے علم اور ہمدردی کی جگہ لے لی ہے ۔

عدلیہ اور مقننہ میں ،معدود ے چند کے سوا،رشوت کے بندے اور غلا م ہیں ۔سچ بتا ئیں اللہ سے حیا کر نے وا لے آج کدھر گئے ہیں ؟بندوں سے تو بندے بہت ڈرتے ہیں ۔ہر ہر کا م کر نے سے قبل یہ ضرورسوچا جا تا ہے کہ ’’لو گ کیاکہیں گے ؟‘‘ یہ کتنے لو گ سو چتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے ،فر شتے دیکھ رہے ہیں ۔۔ان سے حیا کر یں ۔ان سے ڈر کر اپنے رویے اور اعما ل بدلیں ۔اور اپنے ارد گرد کے معا شرے اور ما حول کو بدلنے کی کوشش کریں ۔

٭اے بھا ئیو!اسلامی جمہوریہ پا کستان کی سڑکیں ،چوک اور چوراہوں پر لگے شیطا ن کی فحا شی کو ما ت دیتے ہو ئے سا ئن بورڈ آج کسی عمرؓ کو آواز دیتے ہیں ۔

سکو لوں کا لجوں میں بے پردہ نو جوان لڑکیوں کے جم غفیر کسی سعد بن عبادہ ؓ کی غیرت کے منتظر ہیں ۔

مال روڈ اور ڈیفنس کی دکا نوں پر لگے بورڈ بے حیائی کی حدود پھلانگ رہے ہیں۔

اشتہا رات کی بے باک اور فحش دنیا ہی۔مسلمان قحبہ گر ۔مسلمان طوا ئفیں ۔مسلمان ہم جنس پرست ہیں
اور غیرت مند وں کی غیرتیں نہ جا نے کہا ں چلی گئی ہیں ۔

٭سکوّں کے عوض حا فظہ عافیہ صدیقی جیسی قوم کی بیٹیوں کو فروخت کر دینے والے بے غیرت حکمران ہیں ۔کہنے کو بہا در ،غیور قوم ہے اور روزانہ ڈرون طیا رے درجنوں بے گنا ہوں پر بم برسا کر چلے جا تے ہیں اور قوم کے مردوں کی اجتما عی حیا اور بے حسی نہ جا نے کس پا تا ل تک جا پہنچی ہی۔
٭اکبر الہ آبادی مرحوم چند بے پردہ عورتوں کو دیکھ کر غیرت قومی سے زمین میں گڑ گئے تھے ۔آج بے اختیار ان کے شعر یا د آتے ہیں جو مردانہ غیرت کی صحیح تصویر کشی کرتے ہیں ۔
بے پردہ نظر آئیں مجھ کو چند بیبیاں
اکبر وہیں غیرت قو می سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ کیا ہوا
کہنے لگیں عقل پر مردوں کی پڑ گیا

شادی ہالوں میں عورتوں کا حد سے نکلنا، دلہن کا نیم برہنہ لباس، نامحرم مردوں کا عورتوں کو مختلف زاویوں سے فوکس کر کر کے فلمیں بنانا اور باپوں ،بھائیوں کی غیرت کے کان پر جوں تک نہ رینگنا، ہاں اکثر دیندار گھرانوں میں اس موقع پر حیا کا جنازہ اٹھتا نظر آتا ہے تو دل خوف سے کانپ جاتا ہے کہ اے بہت حیا اور غیرت والے اﷲ! تیری یہ چشم پوشی ہمارے لیے عذاب بن کر نہ نازل ہو جائے ( اور شاید ہو بھی رہی ہی)۔

بے پردگی تو ایک طرف ۔۔ آج ساتر اور با حیا لباس ہی معاشرے سے عنقا ہو گیا ہے ۔(الا ما شاء اللہ)نہ کپڑا بنانے وا لے مرد یہ دیکھتے ہیں کہ کتنا باریک کپڑا بنا رہے ہیں نہ بیچنے والے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ کتنا گنا ہ کما رہے ہیں ۔بلکہ جب با پر دہ و با حیا عورت کپڑا خریدنے جا تی ہے اور باریک کپڑے لینے سے انکا ر کرتی ہے تو بہت سے با ریش دکا ندار بھی کہتے ہیں با جی لے جا ئیں یہ دھونے سے گف (موٹا ) ہو جا ئے گا ۔ایسے ہی ایک مو قع پر ہما ری ایک بہن نے تنگ آکر دکاندار کو ڈانٹ دیا کہ یہ کپڑا بنانے والے ، بیچنے والے اور پہننے والے سب گنہگار ہیں ۔آپ داڑھی رکھ کر ایسا کپڑا بیچنے پر اصرار نہ کریں جو ہمیں بھی اور آپ کو بھی دوزخ میں لے جا ئے ۔(اس ضمن میں بہت سے دیندار مرد کو تا ہی کا شکار ہوتے ہیں اور بعض نا مور دکا نوں پر بکنے وا لے brandedسوٹ اور کپڑے بھی حیا کے بنیا دی تقا ضے ہی پورے نہیں کرتی۔یہ بہت تشویشناک بات ہے ۔)

چند سا ل قبل خوا تین نے ایسے وفود تشکیل دیے جنہوں نے چند فیکٹریوں میں جا کر ما لکا ن سے ملا قا ت کر کے اس طرف متوجہ کر نے کی کو شش کی ۔لیکن سچ بتا ئیں کیا یہ با حیا مردوں کے کر نے کا کام نہیں کہ وہ مل ما لکان اور کپڑا بنا نے وا لوں کو ان کا ایمانی فریضہ یا د دلا ئیں اور ملی غیرت کے تقا ضے سمجھا ئیں ؟

حیا کی ترویج
ایمانی زوال کے اس دور میں ہمیں قر آن و سنت رسول ؐ کی طرف رجو ع کرنا ہے ۔اور اپنے مردوں اور عورتوں میں حیا کے وہ بیج بونے کی کوشش کرنا ہے جو معاشرے کو وا پس پا کیزگی کے اس معیار کے قریب لے آئیں جو صحابہ کرام کے دور کے خا صہ تھا ۔

آئیے مختصراً دیکھیں قرآن و سنت میں اس با رے میں کیا احکا مات ہیں ۔

اللہ نور السموات والارض
اللہ زمین وآسمان کا نورہے ۔ تمام علم اس رب کا ئنات کے نور اور جلوئوں کا پرتو ہیں ۔اللہ کے نور کا مظہر قرآن کریم ہے ۔اور اس کی تعلیم دینے والے رسول ؐ

فرمان با ری تعالیٰ ہے کہ
فا منوا با للہ و رسولہ ونور الذی انزلنا واللہ بما تعملون خبیر
’’پس ایمان لا ئو اللہ اور اس کے رسولؐاوراس نور پر جو ہم نے نا زل کیا ہے اور اﷲ تمہارے اعمال سے باخبر ہی‘‘۔(تغا بن:)

گو یا ایمان کی آبیا ری ہو ،اسلام کی نشاہ ثا نیہ یا حیا کی تر ویج ۔اس کا ما خذ قرآن کریم اور سنت رسول ؐ ہیں ۔لہذا ہمیں آکسفورڈ اور ہا رورڈ کی بجا ئے قرآن و سنت کو تعلیم کا مر کز و محور بنانا ہو گا ۔خا ندان کے گہوارے سے لے کر کا لج اور یو نیورسٹی تک جب تک تعلیم و تدریس کی یہ بنیا دیں درست نہیں ہو تیں انسانوں کا سدھا ر بھی مشکل ہے ۔

گھر کے اندر مردنگران ہے ،راعی ہے اس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اور گھر والوں کے لیے صحیح تعلیم کا بندوبست کرے ۔

حقیقت یہ ہے کہ تقدیس نسواں کا محا فظ دراصل مرد ہی ہے ۔اگر مرد اپنی ذمہ داری سے آگا ہ ہو جا ئیں تو معا شرے سے ان برا ئیوں کا خا تمہ ہو جا ئے جو عورتوں کی بے مہا ری کی وجہ سے پیدا ہو تی ہے ۔
اے مسلمان مردو ! اپنی ذمہ داریوں کو پہچا نو ۔’’ آپ پر باپ بھا ئی یا خا وند ہو نے کے اعتبا ر سے فرض عا ئد ہو تا ہے کہ اپنی عورتوں پر پا بندی عا ئد کریں اور انہیں بے راہ روی سے روکیں ۔بخا ری و مسلم میں آنحضرتؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ تم میں سے ہر آدمی حا کم ہے اور اس سے اس کی رعا یا کے متعلق با ز پرس ہو گی ۔‘‘ مرد اس با ت کے لیے بھی ما مور ہیں کہ وہ عورتوں کو تہذیب ،اخلا ق ،دین ،دنیا اور آخرت کی با تیں سکھلا ئیں ۔

مرد اگر قوا میت کی اس ذمہ داری کو سمجھ لیں اور اپنے اندر تما م مطلو بہ صفا ت پیدا کر یں تو ان شا ء اللہ اس کے نتیجے میں گھر کا نظا م درست ہو گا ۔اور بہت سا ری معاشرتی برائیاں جس میں بے حجا بی اور بے حیا ئی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں از خود کم ہو جا ئیں گی ۔

معا شرے کو نورانی ،پا کیزہ اور حیا دار بنا نے کے لیے مردوں کو دیے گئے مزید احکام
سورہ بقرہ ،سورہ نسا ء ،سورہ نوراورسورہ احزاب وہ سورتیں جن میں زیا دہ ترمعاشرتی احکا مات دیے گئے ہیں ۔خصوصاً سورہ نور میں جو بقول سید قطب شہیدؒ ’یہ سورۃ ہے جس میں اللہ نور السموٰت والارض کا ذکر ہو ا ہے ۔اس سورۃ کے مضامین قلب ونظر اور ضمیر و اخلا ق کے لیے نور ہیں اور اس کے نتیجے میں انسانوں میں نورانی آداب پیدا ہو تے ہیں ۔اس سورۃ میں جو نفسیا تی ،اخلا قی ،عا ئلی ضوابط اور اجتما عی قوانین وضع کیے گئے ہیں وہ معا شرے کے لیے نور ہی نور ہیں ۔اور یہ نور پھر کا ئنا تی نور ہی سے مر بوط ہے ۔اور وہ نور روح کا نور ہے ۔دلوں کے لیے روشنی ہے اور ضمیر کے لیے صیقل ہے ۔اور یہ سب اللہ کے نور کا پرتو ہے ۔‘ ( فی ظلا ل القرآن تفسیر سورہ نور ،جلد چہا رم )

٭اس سورہ میں نبی کریم ؐ کے ذریعے اللہ تعا لیٰ عورتوں سے قبل مردوں کو حکم دیتے ہیں کہ
قل للمومنین یغضوا من ابصارہم و یحفظوا فروجھم ذلک ازکی لھم ان اللہ خببر بما یصنعون (سورہ النور0)
اے نبی ؐ مومن مردوںسے کہ دو کہ اپنی نظر یں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگا ہوں کی حفا ظت کریں ،یہ ظریقہ ان کے لیے زیا دہ پا کیزہ ہے ۔بے شک اللہ جا نتا ہے جو وہ کر رہے ہیں ۔

یہ حکم اگر چہ عورتو ں کے لیے بھی ویسے ہی اہم ہیں جیسے مردوں کے لیے لیکن اللہ تعا لیٰ اس با ت سے بخو بی وا قف ہے کہ مردوں کے اندر یہ جذبہ حیا بدرجہ اولی کتنا ضروری ہے جو دل کے چور بھی پکڑ لیتا ہے ۔اور نگاہ کو بھی بھٹکنے سے بچا تا ہے ۔اس لیے کہ مرداگر اپنی نگا ہوں کی حفا ظت کر نے وا لاہے او رچونکہ وہ قوام ہے تو گھر میں اس کی بہو بیٹیا ں بھی پا کیزہ اور مکمل لبا س میں ملبوس ہو ں گی اور بیٹے بھی ۔ٹی وی اخبا رات بھی گھر میں وہ آئیں گے جو حیا میں نقب لگا نے وا لے نہ ہوں گے ۔گویا ایسے منا ظر ممنوع قرار دے گا جو شریعت نے ممنوع کیے ہیں ۔

وہ اگر حکمران ہے تو سڑکیں ،چوک ،سینیما ہا ل ،ٹی وی ،اخبا رات رسائل ۔ہر چیز کو ان تمام فحشاء سے پا ک کر ے گا جس کی طرف نگا ہ اٹھا نے سے اس کے ایمان کو خطرہ ہو گا ۔وہ اسلام کا نظام عفت و عصمت نا فذ کر نے کی کو شش کرے گا ۔

اور اگر معا شرے کے مردوں کی اکثریت نگا ہوں کو پا کیزہ رکھنا چا ہے گی تو دکا نداروں کی دکا نوں کے سا ئن بورڈ۔اشتہا رسازوں کے اشتہا ر اور بے حیا ئی کے تما م مناظرتبدیل ہو جا ئیں گے اور کسی ملٹی نیشنل اورنیشنل کمپنی کو جرات نہ ہو سکے گی کہ ہما رے ایمان کی قیمت پر اپنی مصنو عات فروخت کر سکے ۔کاش مسلمان مردوں میں اس درجے کی حیا بیدار ہو جا ئے ۔

٭دوسروں کے گھروں میں داخل ہو نے سے قبل اجازت لے کر داخل ہونے کا حکم بھی اللہ نے دیایعنی استیذان کا طریقہ بھی حیا کا ایک جزو ہے ۔اور اس کے پہلے مخا طب بھی مرد ہی ہیں حتیٰ کہ آپؐ کی تعلیما ت کے مطا بق اپنے گھر میں بھی اجا زت لے کر داخل ہو نے کی ضرورت ہی۔کیوں ؟ اس لیے کہ گھرکی خواتین پرایسی حالت میں نظر نہ پڑے جو حیا کے منا فی ہو، کتنے مرد حیا کا یہ تقاضا پورا کرتے ہیں؟اور اسی میں یہ حکم بھی شا مل ہے کہ جب اور جسے چا ہیں گھر آنے کی اجازت دیں اور جسے چا ہیں منع کر دیں ۔!

آج مسلمانوں کے گھرا نے محرم اور نا محرم سب کے لیے کھلے ہیں ۔بلکہ بہت کم شوہروں ،با پوں اور بھا ئیوں کی نظر اس بات پر ہو تی ہے کہ شریعت نے کس کس پر گھرکے اندر بلا جھجک داخل ہو نے پر پا بندی لگا ئی ہے تا کہ گھر کی فضا کوشکوک و شبہات سے پا ک رکھا جا سکے ۔ازدوا جی تعلقات کو پا ئیدار بنایاجا سکے ۔بچوں اور بچیوں کے اخلا ق و کردار کو پا کیزہ رکھا جا سکے اور چوری چھپے آشنا ئیوں سے بچا یا جا سکے ۔

مردوں کے لیے اس علم کا ہو نا کتنا ضروری ہے ۔جس کے نہ ہو نے کی وجہ سے آج شرح طلا ق مسلمان مما لک میں بھی دن بدن بڑھ رہی ہی۔گھروں کے اندر لڑائیاں جھگڑے اور شکوک و شبہا ت معمول کا حصہ بن گئے ہیں اور پا کیزگی رخصت ہو رہی ہی۔اور تو اور میڈیا کی ساری بے با کی اور بے حیا ئی سب دیواریں پھلا نگ کر بغیر اجا زت گھر تو کیا بیڈ روم میں داخل ہو کر تبا ہیاں پھیلا رہی ہے اور مسلما ن مردوں کی غیرت اور حیا نہ جا نے کہا ں سو رہی ہی۔!

٭سورہ احزاب میں آیت حجاب اتری ہی مردوں کے لیے اور حکم دیا کہ
واذا سا لتموھن متعا فسئلوھن من وراء حجاب ذلکم اطھر لقلوبکم و قلوبھن(الاحزاب3)
عورتوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو ۔یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے ۔

یعنی عورتوں کو تو پردے کا حکم ہے ہی ، لیکن مردوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ بے حجابانہ عورتوں سے میل جول نہ رکھیں۔ ان سے کوئی ضرورت پیش آئے تو پردے کی اوٹ درمیان میں ہونی چاہیے۔ دین دار اور باحیا مسلمان مرد ان اصولوں کی پابندی کرتے ہیں الحمد ﷲ۔لیکن افسوس ! وہ کتنی تعداد میں ہیں؟ اور ان میں سے بھی بعض کو دیکھا ہے کہ ان عورتوں کے بارے میں تو بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں جو پردہ دار ہیں، لیکن جو عورتیں پردہ نہیں کرتیں، ان سے بات کرنے میں یہ بھی تمام احتیاطیں بالائے طاق رکھ دیتے ہیں کہ جب وہ پردہ نہیں کرتیں تو ہم کیا کریں۔ حالانکہ یہ حکم عام ہے اور اسی جگہ اس کے نفاذ کی ضرورت زیادہ ہے جہاں عورتیں پردہ نہیں کرتیں تا کہ دل پاکیزہ رہیں ۔

اگر عمومی مسلمان مرد اس اصول کی پابندی کریں تو گھروں ہی کے نہیں بلکہ دفاتر کے ماحول بھی بدل جائیں۔ دفتروں میں خاتون سیکرٹری/ اداروں میں خاتون اسسٹنٹ کی اوّل تو گنجائش ہی نہ رہے گی اور اگر ضروری بھی ہوگاتو ماحول بالکل جدا گانہ ہو گا اور عورتوں کی مجبوری کی ملازمتیں بھی آسان ہو جائیں گی۔ تقویٰ، حیا، غضّ بصر اور حجاب کے ماحول میں پاکیزگی نشوونما پائے گی اور آج کی دنیا کے بہت سے مسائل (مثلاً جنسی تشدّد، قتلِ غیرت وغیرہ) بغیر کسی قانون سازی اور پولیس کے دباؤ کے از خود ختم ہوجائیں گی۔ کیونکہ حیا کے یہ دونوں مظہر ۔ غضّ بصر اور حجاب کے خیال رکھنے کا عمل ۔ دلوں کی پاکیزگی کو جنم دیتے ہیں۔

٭قوا انفسکم و اھلیکم ناراً ۔ کا حکم بنیادی طور پر نبی کریم ؐ کو دیا گیا اور ان کی وساطت سے تمام امتِ مسلمہ مخاطب ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آتش دوزخ سے بچاؤ۔ لیکن ظاہر ہے ابتدائی حکم مرد ہی کی ذات کو دیا گیا، کیونکہ قوّام مرد ہی۔ مردوں کو ایک درجہ فوقیت حاصل ہے ( وللرجال علیھن درجہ)۔ اور مرد اپنے گھر والوں کا راعی اور نگران ہی۔

آتش دوزخ ۔۔وہ آگ ہے ۔۔وہ سزا ہے جس سے اللہ نے خود اپنے بندوں کوڈرا یا ہے اور فرما یا ہے ’یا عبا دفا تقون‘ اے میرے بندو ڈر جا ئو ۔

لہذا مردوں اور خواتین میں تقویٰ اور حیا کا وصف بیدا ر کر نے کے لیے اس سے موثر چیز اور کو ئی نہیں ہو سکتی کہ ایک جا نب وہ اللہ تعا لیٰ کی ان صفات پر غور کریں جو اس کے سمیع ،بصیر ،رقیب ہو نے ،اس کے ہمہ وقت نگرانی کے احساس کو تا زہ کریں ۔احساس جوا بدہی انسان کے اندر پختہ کریں ۔فکر آ خرت کو بیدار کریں ۔اور دوسری جا نب آتش دوزخ سے ڈرا ئیں۔ بار با ر قرآن پا ک کے ان حصوں کا مطا لعہ کیا جا ئے اور گھر وا لوں کو کرا یا جا ئے جس میں اللہ تعا لیٰ نے بے حیا ئی ،فحا شی و عر یا نی اور دیگر گنا ہوں کا انجام بتا یا جا ئے تا کہ ان سے بچنے کی تحریک پیدا ہو ۔اللہ کے حضور حا ضری کے منا ظر جیسے قرآن و حدیث میںکھینچے گئے ہیں ان کو ویسے ہی بیان کیا جا ئے تا کہ پر تا ثیر ہوں ۔

اور اس کے ساتھ ساتھ طا غوت کی پیروی سے نکل کر اللہ کی عبا دت میں داخل ہو نے اور معاشرے کی پاکیزگی کے دور رس اثرات ،جو کہ دنیوی زندگی میںحیا ت طیبہ سے لے کر آخرت میںجنت تک جا تے ہیں ، بھی وا ضح کیے جا ئیں ۔حیا اور حجاب کی بر کا ت جو صحا بہ کرام ؓ کے زما نے میں تھیں مثا لوں سے سمجھا ئی جائیں اور مرد بھی اپنی قوا میت کی ذمہ دا ری پو ری کریں اور عورتیں بھی مثا لی ما ئیں بن کر پاکیزہ نسلیں پروان چڑھا ئیں ۔اور با لا خر حیا اور تقویٰ سے مزین اسلام کا نظام عصمت و عفت ملک میں نا فذ کر نے کی عملی جدوجہد کی جا ئے تو کو ئی وجہ نہیں کہ آج کا معا شرہ بھی پا کیزگی کا اعلیٰ نمونہ نہ پیش کر سکے اور کفار بھی کوئی ناپاک جسارت کرنے سے قبل سو مرتبہ نہ سوچیں کی ان کا واسطہ انسانیت کے پاکباز گروہ سے ہی۔ ان شا ء اﷲ
JI South Karachi
About the Author: JI South Karachi Read More Articles by JI South Karachi: 4 Articles with 4620 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.