زمین ساکن ہے
﴿﴾زمین و آسمان کے سکون و حرکت کے بارے میں مصنف امام احمدرضا خان بریلوی
رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ازراہ شفقت مستفتی حضرت مولانا حاکم علی صاحب
کومجاہد اکبر قرار دیا۔
﴿﴾شریعت اسلامیہ کے نزدیک زمین و آسمان دونوں ساکن ہیں۔
﴿﴾اجمال
﴿﴾ایک آیت کریمہ کی تفسیر
﴿﴾حضرت حذیفہ بن الیمان صاحب سرّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
﴿﴾فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ قرآن پاک چار شخصوں سے پڑھو
﴿﴾جو مسئلہ تمام مسلمانوں میں مشہور و مقبول ہے مسلمان اسی پر اعتقاد لائے۔
﴿﴾تفصیل
﴿﴾زوال کے معنی
﴿﴾قرآن عظيم نے آسمان و زمین کے متحرک ہونے کی نفی فرمائی ہے۔
﴿﴾امساک کے معنی
﴿﴾فعل قوۃ نکرہ میں ہے اور نکرہ حیزّ نفی میں عام ہوتا ہے۔
﴿﴾قرآن پاک کے مطلق کو مقید، عام کو مخصص بنانا جائز نہیں۔
﴿﴾اجلّہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے مطلق حرکت کو زوال مانا۔
﴿﴾تنبیہ
﴿﴾کعب احبار تابعین اخیار سے ہیں۔
﴿﴾نصاری پہلے سکون ارض کے قائل تھے۔
﴿﴾قرآن مجید سے ثبوت کہ زمین و آسمان دونوں ساکن ہیں۔
﴿﴾وجہ تسمیہ مطرد نہیں ہوتی
﴿﴾جرجیر کی وجہ تسمیہ کے بارے میں حکایت
﴿﴾حرکت یومیہ حرکت شمس سے ہے نہ کہ حرکت زمین سے
﴿﴾زمین کی حرکت محوری و مداری دونوں باطل ہیں۔
﴿﴾بے شک مسلمان پر فرض ہے کہ حرکت شمس و سکون زمین پر ایمان لائے۔
﴿﴾علماء نے تشبیہ مہد سے بھی زمین کا سکون ہی ثابت کیا ہے۔
﴿﴾"فوز مبین" فلسفہ جدید کے رد میں بہترین کتا ب ہے۔
﴿﴾یورپ والوں کو طریقہ استدلال ہرگز نہیں آتا۔
مسئلہ۳۱ : ازموتی بازار لاہور مسئولہ مولوی حاکم علی صاحب ، ۱۴ جمادی
الاولی ۱۳۳۹ھ
یاسیّدی اعلٰیحضرت سلمکم اﷲ تعالٰی ۔ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ،
امابعد ھٰذا من تفسیر جلالین (ان اﷲ یمسک السموات والارض ان تزولا) ای
یمنعھمامن الزوال۔۱ وایضا (اَوَلم تکونوااقسمتم) حلفتم (من قبل) فی الدنیا
(مالکم من زائدۃ (زوال) عنھا الی الاخرۃ ۔۱ وایضا(وان) ما (کان مکرھم) وان
عظم (لتزول منہ الجبال) المعنی لایعبأ بہ ولا یضرالاانفسھم والمراد بالجبال
ھنا قیل حقیقتاً وقیل شرائع الاسلام المشبھۃ بھا فی القراء والثبات وفی
قراء ۃ بفتح لام لتزول ورفع الفعل فان مخففۃ والمراد (عہ) تعظیم مکرھم وقیل
المراد بالمکرکفر ھم ویناسبہ علی الثانیۃ تکاد السمٰوٰت یتفطرن منہ وتنشق
الارض وتخرالجبال ھدا وعلی الاوّل ما قرئ وما کان۲بعد ازیں یہ تفسیر
جلالین کی عبارت ہے۔ (بے شک اﷲ تعالٰی روکے ہوئے ہے آسمانوں اور زمین کو کہ
جنبش نہ کریں) یعنی ان کو زوال سے روکے ہوئے ہے۔ یہ بھی اس میں ہے ( تو کیا
تم پہلے قسم نہ کھاچکے تھے) دنیا میں ( نہیں ہے تمہیں) من زائدہ ہے۔(ہٹ کے
کہیں جانا) دنیا سے آخرت کی طرف۔ اور یہ بھی اسی میں ہے (اور نہیں ہے ان کا
مکر) اگرچہ بہت بڑا ہے۔(کہ اس سے پہاڑ ٹل جائیں) معنٰی یہ ہے کہ اس کا کوئی
اعتبار نہیں اور اُن کا نقصان خود انہی کو ہے۔ اور یہاں پہاڑوں سے مراد ایک
قول کے مطابق حقیقتاً خود پہاڑ ہیں، اور ایک قول کے مطابق احکام شرع ہیں جن
کو قرار و ثبات میں پہاڑوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اور جس قراء ۃ میں
لتزول کا لام مفتوح اور فعل مرفوع ہے اس قراء ۃ میں "ان" مخففہ ہوگا اور
مراد ان کے مکرکی بڑائی۔اور کہا گیا کہ مکر سے مراد ان کا کفر ہے۔ اور قراء
ۃ ثانیہ کی صورت میں اس قول کی تائید قرآن مجید کی یہ آیت کریمہ کرتی ہے۔ (
قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پریں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ گر جائیں ڈھہ
کر) اور اول کی صورت میں جو پڑھا گیا ہے وما کان یعنی نہیں تھا۔ (ان کا
مکر)
عہ: والمعنی ولان کان مکرھم من الشدۃ بحیث تزول عنھا الجبال وتنقطع عن
اماکنھا ۳ ۱۲ کمالین ۔معنی یہ ہے کہ ان کامکر اس قدر شدید ہے کہ اس سے
پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں ۔ ۱۲ کمالین (ت)
( ۱ ؎ تفسیر جلالین تحت آیۃ ۳۵/ ۴۱ مطبح مجتبائی دہلی حصہ دوم ص ۳۶۵)
( ۱ ؎ تفسیر جلالین تحت آیۃ ۱۴/ ۴۴ مطبح مجتبائی دہلی حصہ اول ص ۲۰۸)
(۲؎تفسیر جلالین تحت آیۃ ۱۴/۴۶ مطبح مجتبائی دہلی حصہ اول ص ۲۰۸)
(۳؎کمالین علی ہامش جلالین تحت آیۃ ۱۴/۴۶ مطبح مجتبائی دہلی نصف اول ص ۲۰۸)
وسردارِ من دامت برکاتکم و این است از تفسیر حسینی (ان اﷲ) بدرستیکہ خدائے
تعالیٰ (یمسک السمٰوٰت والارض) نگاہ میدارد آسمانہاوزمین را (ان تزولا)
برائے آنکہ زائل نہ شوند ازاماکن خود چہ ممکن رادرحال بقاناچار است ازنگاہ
دارندہ آور دہ اندکہ چوں یہود و نصارٰی عزیر وعیسی رابفرزندی حق سبحنہ نسبت
کردند آسمان وزمین نزدیک بآں رسید کہ شگافتہ گرددحق تعالٰی فرمود کہ من
بقدرت نگاہ می دارم ایشاں را تازوال نیا بند یعنی از جائے خود نروند۱ ایضا
(اولم تکونوا) درجواب ایشاں گویند فرشتگان آیا نبودید شما کہ ازروئے مبالغہ
(اقسمتم من قبل) سوگندمے خوردید پیش ازیں دردنیا کہ شما پایندہ وخوابیدہ
بودید ( مالکم من زوال) نبا شد شماراہیچ زوالے مراد آنست کہ می گفتند کہ
مادر دنیا خواہیم بودو بسرائے دیگر نقل نخواہیم نمود۲ وایضاً (وان کان
مکرھم) وبدرستیکہ بودمکر ایشاں در سختی و ہول ساختہ پرداختہ (لتزول)
تاازجائے برود ( منہ الجبال ) زاں مکر کوہ ہا۔۳
اور میرے سردار آپ کی برکتیں ہمیشہ رہیں، یہ ہے تفسیر حسینی کی عبارت (انّ
اﷲ ) بے شک اللہ تعالٰی (یمسک السمٰوت والارض) محفوظ رکھتا ہے۔ آسمانوں اور
زمین کو ( ان تزولا)اس واسطے کہ اپنی جگہوں سے زائل نہ ہوجائیں کیونکہ ممکن
کے لیے حالت بقاء میں کسی محافظ کا ہونا ضروری ہے، منقول ہے کہ جب یہودو
نصارٰی نے حضرت عزیر او ر حضرت عیسی علیہما السلام کو اﷲ تعالٰی کا بیٹا
قرار دیا تو آسمان و زمین پھٹنے کے قریب ہوگئے۔ اﷲ تعالٰی نے فرمایا کہ میں
اپنی قدرت کے ساتھ ان کو محفوظ رکھتا ہوں تاکہ یہ زوال نہ پائیں یعنی اپنی
جگہ سے ہٹ نہ جائیں۔ اُسی میں ہے اولم تکونوا اقسمتم من قبل) ان کے جواب
میں فرشتے بطور مبالغہ کہیں گے کہ کیا تم نے اس سے پہلے دنیا میں قسمیں
نہیں کھائی تھیں کہ تم دنیا میں ہمیشہ رہو گے اور سوئے رہو گے مالکم من
زوال تمہارے لیے کوئی زوال نہیں ہوگا۔ مراد یہ کہ وہ کہتے تھے کہ ہم دنیا
میں ہمیشہ رہیں گے اور دوسرے جہاں میں منتقل نہیں ہونگے۔ اور اسی میں
ہے۔(وان کان مکرھم) یقینا ان کا مکر سختی وہولناکی میں اس حد تک بڑھا ہوا
تھا کہ (لتزول منہ الجبال)اس کی وجہ سے پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جاتے(ت)
( ۱ ؎ تفسیر حسینی قادری تحت آیۃ ۳۵/۴۱ مطبع محمدی واقع بمبئی انڈیا ص ۷۰۵)
( ۲ ؎تفسیر حسینی قادری تحت آیۃ ۱۴/۴۴ مطبع محمدی واقع بمبئی انڈیا ص ۴۱۹)
( ۳ ؎ تفسیر حسینی قادری تحت آیۃ ۱۴/۴۶ مطبع محمدی واقع بمبئی انڈیا ص ۴۱۹)
اے محبوب ومحبِ فقیر ایّدکم اﷲ تعالٰی فی کل حال (اﷲ تعالٰی ہر حال میں آپ
کی مدد فرمائے۔ت) جب کافروں کے زوال کے معنٰی ان کا اس دنیا سے دارالاخرۃ
میں جانا مسلم ہوا تو معاملہ صاف ہوگیا کیونکہ کافر زمین پر پھرتے چلتے
ہیں،اس پھرنے چلنے کا نام زوال نہ ہوا کہ یہ ان کا چلنا پھرنا اپنے اماکن
میں ہے کہ جہاں تک اﷲ تعالٰی نے اُن کو حرکت کرنے کا امکان دیا ہے وہاں تک
ان کا حرکت کرنا اُن کا زوال نہ ہوا۔یہی حال پہاڑوں کا ہوا کہ ان کا اپنے
اماکن سے زائل ہوجانا ان کا زوال ہوا۔ جب یہ حال ہے تو زمین کا بھی ، اپنے
اماکن سے زائل ہوجانا اس کا زوال ہوگا اور اپنے اماکن میں اس کا حرکت کرنا
زوال نہیں ہوسکتا۔شکر ہے اس پروردگار کا کہ کسی صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ
سے بھی مجھے گریزنہ ہوا اور میری مشکل بھی ازبارگاہ حل المشکلات حل ہوگئی
ببرکت کلام کریمومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب ۱اور
جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا۔ اور اسے وہاں سے
روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو۔(ت)
(۱القرآن الکریم ۶۵/ ۳ و۲ )
اور یہ اس طرح ہوا کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آسمان
کے سکون فی مکان کی تصریح فرمادی مگر زمین کے بارے میں ایسا نہ فرمایا،
یعنی آسمان کی تصریح کی طرح تصریح نہ فرمائی یعنی خاموشی فرمائی قربان جاؤں
احسن الخالقین تبارک و تعالٰی کے اور باعثِ خلق عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم کے اور حضرت معلم التحیات رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کہ سائنس کی سرکوبی
کے لیے زمین کے زوال اس کے اماکن سے کَے معنٰی آپ کے اس تابعدار مجاہدکبیر
پر عیاں فرمائے کہ زمین کے زوال نہ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ جن اماکن میں اﷲ
تعالٰی نے اس کو امساک کیا ہے اس سے یہ باہر نہیں سرک سکتی مگر ان اماکن
میں اس کو حرکتِ امر کردہ شدہ عطا فرمائی ہوئی ہے جیسے کہ اس پر کافر چلتے
پھرتے ہیں اوریہ اُن کا زوال نہیں ہے، اسی طرح سے اپنے مدار میں اور سورج
کی ہمراہی میں امساک کردہ شدہ ہے اور جاذبہ اور رفتار کیا ہے صرف اللہ پاک
کے امساک کا ایک ظہور ہے اور کچھ نہیں، اب چاہیں تو جاذبہ اور رفتار دونوں
کو معدوم کردیں اور ہر چیز کو اس کے حیز میں ساکن فرمادیں اس سے زائل نہیں
ہوسکتی جیسے کہ سورجوالشمس تجری لمستقرلھا۲ (اور سورج چلتا ہے اپنے ایک
ٹھہراؤ کے لیے۔ت)کی رُو سے اپنے مجرے میں امساک کیا گیا ہوا ہے اور اپنے
مجرے میں چل رہا ہے مگر اس کے اس چلنے کا نام زوال نہیں بلکہ جریان ہے تو
زمین کا بھی اپنے مدار میں اور سورج کی ہمراہی میں چلنا اس کا جریان ہے نہ
کہ زوال۔
(۲القرآن الکریم ۳۶/۳۸)
ذٰلک فضل اﷲ یؤتیہ من یشاء ۔۱یہ اللہ تعالٰی کا فضل ہے جسے چاہے دے۔
(۱القرآن الکریم ۵۷/۲۱ )
فالحمدﷲ ربّ العٰلمین والشکروالمنۃ۔اور سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو
پروردگار ہے تمام جہانوں کا اور اس کا شکر اور احسان ہے۔(ت)
غریب نواز ! کرم فرما کر میرے ساتھ متفق ہوجاؤ تو پھر اِن شاء اﷲ تعالٰی
سائنس کو اور سائنسدانوں کو مسلمان کیا ہوا ہاںالم نجعل الارض مھا دا ۔۲ (
کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہ کیا۔ت) کے بجائےالذی جعل لکم الارض مھدا۳ الخ
( وہ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا کیا۔ت)
(۲القرآن الکریم ۷۸/۶) (۳القرآن الکریم ۴۳/۱۰)
درج فرمادیں دیباچہ میں، سب کو سلام مسنون قبول ہو۔
الجواب
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الحمدﷲ الذی بامرہ قامت السماء والارض والصلوۃ والسلام علٰی شفیع یوم العرض
واٰلہ وصحبہ وابنہ و حزبہ اجمعین، امین !
تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہیں۔ اور
درود و سلام ہو روزِ قیامت شفاعت کرنے والے پر اور ان کی آل اصحاب، اولاد
اور تمام امت پر ۔ آمین ۔(ت)
مجاہدکبیر، مخلص فقیر، حق طلب حق پذیر سلمہ اللہ القدیر، وعلیکم السلام
ورحمۃ اﷲ و برکاتہ۔ دسواں دن ہے آپ کی رجسٹری آئی میری ضروری کتاب کہ طبع
ہورہی ہے اس کی اصل کے صفحہ ۱۰۸۸ تک کاتب لکھ چکے اور صفحہ ۱۰۹۰ کے بعد سے
مجھے تقریباً چالیس صفحات کے قدر مضامین بڑھانے کی ضرورت محسوس ہوئی، یہ
مباحث جلیلہ دقیقہ پر مشتمل تھی۔ میں نے ان کی تکمیل مقدم جانی کہ طبع جاری
رہے۔ ادھر طبیعت کی حالت آپ خود ملاحظہ فرماگئے ہیں وہی کیفیت اب تک ہے اب
بھی اسی طرح چار آدمی کرسی پر بٹھا کر مسجد کو لے جاتے لاتے ہیں، ان اوراق
کی تحریر اور ان مباحث جلیلہ غامضہ کی تنقیح و تقریر سے بحمدہ تعالٰی رات
فارغ ہوا اور آپ کی محبت پر اطمینان تھا کہ اس ضروری دینی کام کی تقدیم کو
ناگوار نہ رکھیں گے۔
آپ نے اپنا لقب مجاہد کبیر رکھا ہے مگر میں تو اپنے تجربے سے آپ کو مجاہد
اکبر کہہ سکتا ہوں۔ حضرت مولانا الاسد الاسد الاشد مولوی محمد وصی احمد
صاحب محدث سورتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا لہجہ جلد سے جلد حق قبول کرلینے
والا میں نے آپ کے برابر نہ دیکھا اپنے جمے ہوئے خیال سے فوراً حق کی طرف
رجوع لے آنا جس کا میں بار ہا آپ سے تجربہ کرچکا نفس سے جہاد ہے۔ اور نفس
سے جہاد جہاد اکبر ہے تو آپ اس میں مجاہد اکبر ہیں۔ بارک اللہ تعالٰی وتقبل
امین، امید ہے کہ بعو نہ تعالٰی اس مسئلہ میں بھی آپ ایسا ہی جلداز جلد
قبول حق فرمائیں گے۔ کہ باطل پر ایک آن کے لیے بھی اصرار میں نے آپ سے نہ
دیکھا وﷲ الحمد۔
اسلامی مسئلہ یہ ہے کہ زمین و آسمان دونوں ساکن ہیں کواکب چل رہے ہیں۔کل فی
فلک یسبحون ۱ہر ایک ایک فلک میں تیرتا ہے، جیسے پانی میں مچھلی، اللہ
تعالٰی عزوجل کا ارشاد آپ کے پیش نظر ہے۔ان اﷲ یمسک السموٰ ت والارض ان
تزولا o ولئن زالتا ان امسکھما من احد من بعد ہ انہ کان حلیما غفورا ۔۲بے
شک اللہ آسمان و زمین کو روکے ہوئے ہے کہ سرکنے نہ پائیں اور اگر وہ سرکیں
تو اللہ کے سوا انہیں کوئی روکے ، بے شک وہ حلم والا بخشنے والا ہے۔(ت)
(۱القرآن الکریم ۲۱/ ۳۳ ) (۲القرآن الکریم ۳۵/ ۴۱ )
میں یہاں اوّلاً اجمالاً چند حرف گزارش کروں کہ ان شاء اللہ تعالٰی آپ کی
حق پسندی کو وہی کافی ہو پھر قدرے تفصیل۔
اجمال یہ : کہ افقہُ الصَّحابۃ بعد الخلفاء الاربعہ سیدُنا عبدُاللہ ابن
مسعود و صاحبُ سِرِّ رسولِ اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضرت حذیفہ بن
الیمان رضی اللہ تعالٰی عنہم نے اس آیہ کریمہ سے مطلق حرکت کی نفی مانی،
یہاں تک کہ اپنی جگہ قائم رہ کر محور پر گھومنے کو بھی زوال بتایا ۔(دیکھئے
نمبر ۲)
حضر ت امام ابو مالک تابعی ثقہ جلیل تلمیذ حضرت عبداللہ بن عباس نے زوال کو
مطلق حرکت سے تفسیر کیا ۔ (دیکھئے آخر نمبر ۲)
ان حضرات سے زائد عربی زبان و معانیِ قرآن سمجھنے والا کون !
علامہ نظام الدین حسن نیشاپوری نے تفسیر ر غائب الفرقان میں اس آیہ کریمہ
کی یہ تفسیر فرمائی :(ان تزولا) کراھۃ زوالھما عن مقر ھما ومرکز ھما۱یعنی
اﷲ تعالٰی آسمان و زمین کو روکے ہوئے ہے۔ کہ کہیں اپنے مقرو مرکز سے ہٹ نہ
جائیں۔ مقر ہی کافی تھا کہ جائے قرارو آرام ہے، قرار سکون ہے منافی حرکت ۔
( ۱ ؎ غرائب القرآن (تفسیر نیشاپوری ) تحت آیۃ ۳۵/ ۴۱ مصطفٰی البابی مصر
۲۲/ ۸۴)
قاموس میں آتا ہے۔قر سکن ۲( ۲ ؎ القاموس المحیط باب الراء فصل القاف
مصطفٰی البابی مصر ۲/ ۱۱۹)
مگر انہوں نے اس پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس کا عطف تفسیری مرکز ھما زائد کیا
مرکز جائے رکز، رکز گاڑنا، جمانا، یعنی آسمان و زمین جہاں جمے ہوئے گڑے
ہوئے ہیں وہاں سے نہ سرکیں۔
نیز غرائب القرآن میں زیرقولہ تعالیالذی جعل لکم الارض فراشا( اور جس نے
تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا۔ ت) فرمایا:لایتم الافتراش علیہا مالم تکن
ساکنۃ ویکفی فی ذلک ما اعطا ھا خالقھا ورکزفیھا من المیل الطبیعی الی الوسط
الحقیقی بقدرتہ، واختیارہان اﷲ یمسک السموات والارض ان تزولا۔۳زمین کو
بچھونا بنانا اس وقت تک تام نہیں ہوتا جب تک وہ ساکن نہ ہو، اور اس میں
کافی ہے وہ جو اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت و اختیار کے ساتھ اس میں وسط حقیقی
کی طرف میل طبعی مرتکز فرمایا ہے اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے، بے شک اللہ
تعالٰی آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ سرکنے نہ پائیں۔(ت)
( ۳ ؎غرائب القرآن (تفسیر نیشاپوری تحت آیۃ ۲/ ۲۲ مصطفٰی البابی مصر ۱/ ۱۹۲
و۱۹۳ )
اسی آیت کے نیچے تفسیر کبیر امام فخر الدین رازی میں ہے ۔ اعلم ان کون
الارض فراشا مشروط بکونھاساکنۃ، فالارض غیر متحرکۃ لا بالاستدارۃ ولا
بالاستقامۃ ، و سکون الارض لیس الا من اﷲ تعالی بقدرتہ واختیارہ ولہذا قال
اللہ تعالٰیان اﷲ یمسک السموٰت والارض ان تزولا۔۴ا ھ ملتقطا
جان لے کہ زمین کا بچھونا ہونا اس کے ساکن ہونے کے ساتھ مشروط ہے ، لہذا
زمین نہ تو حرکت مستدیرہ کے ساتھ متحرک ہے اور نہ ہی حرکت مستقیمہ کے ساتھ۔
اور اس کا ساکن ہونا محض اﷲ تعالٰی کی قدرت و اختیار سے ہے جیسا کہ اللہ
تعالٰی نے فرمایا ، بے شک اﷲ تعالٰی آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ
سر کنے نہ پائیں۔ الخ التقاط (ت)
(۴ ؎ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) تحت آیۃ ۲/ ۲۲ المطبعۃ المصریۃ بمیدان
الازہر ۲/ ۳ و ۱۰۲)
قرآن عظیم کے وہی معنی لینے ہیں جو صحابہ و تابعین و مفسرین معتمدین نے لیے
ان سب کے خلاف وہ معنی لینا جن کا پتا نصرانی سائنس میں ملے مسلمان کو کیسے
حلال ہوسکتا ہے، قرآن کریم کی تفسیر بالرائے اشد کبیرہ ہے جس پر حکم
ہے۔فلیتبوأمقعدہ من النار ۔۱
وہ اپنا ٹھکا نا جہنم میں بنالے۔
( ۱ ؎ جامع الترمذی ابواب التفسیر باب ماجاء فی الذی یفسر القرآن برایہ
امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۱۹)
یہ تو اُس سے بھی بڑھ کر ہوگا کہ قرآن مجید کی تفسیر اپنی رائے سے بھی نہیں
بلکہ رائے نصارٰی کے موافق، والعیاذ باللہ، یہ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ
تعالٰی عنہما وہ صحابی جلیل القدر ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اسرار سکھائے ان کا لقب ہی صاحبِ سر رسول اللہ صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہے امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ ان
سے اسرارِ حضور کی باتیں پوچھتے، اور عبداللہ تو عبداللہ ہیں رسول اللہ صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ یہ جو فرمائیں اسے مضبوط تھا
مو۔تمسکوا بعھد ا بن مسعود ۔۲
ا بن مسعود کے فرمان کو مضبوطی سے تھامو۔ ت )
( ۲ ؎ جامع الترمذی باب المناقب مناقب عبداللہ بن مسعود امین کمپنی دہلی ۲/
۲۲۱)
(حلیۃ الاولیاء ذکر عبداللہ بن مسعود دارالکتاب العربی بیروت ۱/ ۱۲۸)
اور ایک حدیث میں ارشاد ہے:رضیت لامتی مارضی لھا ابن ام عبدوکرھت لامتی
ماکرہ لہا ابن ام عبد ۔۳
میں نے اپنی امت کے لیے پسند فرمایا جو اس کے لیے عبداللہ ابن مسعود پسند
کریں اور میں نے اپنی امت کے لیے ناپسند رکھا جو اس کے لیے ابن مسعود
ناپسند رکھیں۔
( ۳ ؎مجمع الزوائد کتاب المناقب مناقب عبداللہ بن مسعود دارالکتاب العربی
بیروت ۹/ ۲۹۰ )
اور خود انکے علمِ قرآن کو اس درجہ ترجیح بخشی کہ ارشاد فرمایا: استقرأو ا
القرآن من اربعۃ من عبداللہ ابن مسعود۔۴ الحدیث ۔
قرآن چار شخصوں سے پڑھو۔ سب میں پہلے عبداللہ ابن مسعود کا نام لیا۔ یہ
حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بروایت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی
عنہما حضرت اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہے۔
( ۴ ؎ صحیح البخاری کتاب المناقب مناقب عبداللہ بن مسعود قدیمی کتب خانہ
کراچی ۱/ ۵۳۱)
(صحیح مسلم کتاب الفضائل فضائل عبداللہ بن مسعود قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/
۲۹۳)
اور عجائب نعمائے الہٰیہ سے یہ کہ آیہ کریمہ ان تزولا کی یہ تفسیر اور یہ
کہ محور پر حرکت بھی موجب زوال ہے چہ جائے حرکت علی المدار، ہم نے دو صحابی
جلیل القدر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی، دونوں کی نسبت حضور انور
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ جو بات تم سے بیان کریں
اس کی تصدیق کرو۔
دونوں حدیثیں جامع ترمذی شریف کی ہیں۔ اول:ماحدثکم ابن مسعود فصد قوہ ۔۱
جو با ت تم سے ابن مسعود بیان کرے اس کی تصدیق کرو۔(ت)
( ۱ ؎ جامع الترمذی ابواب المناقب مناقب عمار بن یاسر امین کمپنی دہلی۲/
۲۲۱)
(مسند احمد بن حنبل حدیث حذیفۃ بن الیمان المکتب الاسلامی بیروت ۵/ ۳۸۵ و
۴۰۲)
دوم : ماحدثکم حذیفۃ فصدقوہ ۔۲
جو بات تم سے حذیفہ بیان کرے اس کی تصدیق کرو۔(ت)
( ۲ ؎ جامع الترمذی ابواب المناقب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
مناقب حذیفہ ابن الیمان امین کمپنی دہلی۲/ ۲۲۲)
اب یہ تفسیر ان دونوں حصرات کی نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا ارشاد ہے کہ اسے مانو اس کی تصدیق کرو والحمدﷲ تعالٰی رب العالمین،
ہمارے معنی کی تو یہ عظمتِ شان ہے کہ مفسرین سے ثابت، تابعین سے ثابت، اجلہ
صحابہ کرام سے ثابت، خود حضور سیدالانام علیہ افضل الصلوۃ والسلام سے اُس
کی تصدیق کا حکم۔
اورعنقریب ہم بفضل اﷲ تعالٰی اور بہت آیات اور صدہا احادیث اور اجماعِ اُمت
اور خود اقرار مجاہد کبیر سے اس معنی کی حقیقت اور زمین کا سکونِ مطلق ثابت
کریں گے وباﷲ التوفیق۔ آپ نے جو معنی لیے کیا کسی صحابی، کسی تابعی، کسی
امام، کسی تفسیر ، یا جانے دیجئے چھوٹی سے چھوٹی کسی اسلامی عام کتاب میں
دکھا سکتے ہیں کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ زمین گردِ آفتاب دورہ کرتی ہے،
اللہ تعالٰی اسے صرف اتنا روکے ہوئے ہے کہ اس مدار سے باہر نہ جائے لیکن اس
پر اسے حرکت کرنے کا امر فرمایا ہے۔ حاش ﷲ ! ہرگز کسی اسلامی رسالہ، پرچے ،
رقعہ سے اس کا پتا نہیں دے سکتے سوا سائنس نصارٰی کے۔ آگے آپ انصاف کرلیں
گے کہ معنی قرآن وہ لیے جائیں یا یہ ، محبامخلصا! وہ کون سا نص ہے جس میں
کوئی تاویل نہیں گھڑ سکتے یہاں تک کہ قادیانی کافر نے وخاتم النبیین ۱ میں
تاویل گھڑدی کہ رسالت کی افضلیت اُن پر ختم ہوگئی اُن جیسا کوئی رسول
نہیں۔۲ نانوتوی نے گھڑدی کہ وہ نبی بالذات ہیں اور نبی بالعرض، اور موصوف
بالعرض کا قصہ موصوف بالذات پر ختم ہوجاتا ہے ان کے بعد بھی اگر کوئی نبی
ہو تو ختم نبوت کے خلاف نہیں ۔۳؎ کہ یوں ہی کوئی مشرک لا الٰہ الا اﷲ میں
تاویل کرسکتا ہے کہ اعلٰی میں حصر ہے یعنی اﷲ کے برابر کوئی خدا نہیں اگرچہ
اس سے چھوٹے بہت سے ہوں جیسے حدیث شریف میں ہے:لافتٰی الّا علی لاسیف الا
ذوالفقار ۔۴نہیں ہے کوئی جو ان مگر علی ( کرم اﷲ وجہہ الکریم اور نہیں ہے
کوئی تلوار مگر ذوالفقار ۔ت)
(۱ القرآن الکریم ۳۳/۴۰ )
( ۲ ؎ تحذیرالناس کتب خانہ رحیمیہ سہارن پور انڈیا ص ۴)
( ۳ ؎ تحذیر الناس کتب خانہ رحیمیہ سہارن پور انڈیا ص ۲۵)
( ۴ ؎ الاسرارالمرفوعۃحدیث ۱۰۶۰ دارالکتب العلمیہ بیروت ص ۲۶۵)
دوسری حدیث :لاوجع الاوجع العین ولا ھم الا ھم الدّین ۵درد نہیں مگر آنکھ
کا درد اور پریشانی نہیں مگر قرض کی پریشانی۔
( ۵ ؎الدررالمنتشرۃ فی الاحادیث المشتہرہ حرف لا حدیث۴۴۹ المکتب الاسلامی
بیروت ص ۱۸۷ )
ایسی تاویلوں پر خوش نہ ہونا چاہئے بلکہ جو تفسیر ماثور ہے اس کے حضور سر
رکھ دیا جائے اور جو مسئلہ تمام مسلمانوں میں مشہور ومقبول ہے مسلمان اسی
پر اعتقاد لائے ۔
محبی مخلصی! اﷲ عزوجل نے آپ کو پکا مستقل سُنّی کیا ہے آپ جانتے ہیں کہ اب
سے پہلے رافضی جو مرتد نہ تھے کاہے سے رافضی ہوئے، کیا اﷲ یا قرآن یارسول
یاقیامت وغیرہا ضروریاتِ دین سے کسی کے منکر تھے؟ ہر گز نہیں، انہیں اسی نے
رافضی کیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی عظمت نہ کی۔ محبا ! دل کو
صحابہ کی عظمت سے مملوکرلینا فرض ہے انہوں نے قرآن کریم صاحبِ قرآن صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے پڑھا حضور سے اس کے معانی سیکھے اُن کے ارشاد کے
آگے اپنی فہم ناقص کی وہ نسبت سمجھنی بھی ظلم ہے جو ایک علامہ متبحر کے
حضور کسی جاہل گنوار بے تمیز کو۔ محبا! صحابہ اور خصوصاً حذیفہ وعبداﷲ ابن
مسعود جیسے صحابہ کی یہ کیا عظمت ہوئی اگر ہم خیال کریں کہ جو معنی قرآن
عظیم انہوں نے سمجھے غلط ہیں ہم جو سمجھے وہ صحیح ہیں۔ میں آپ کو اﷲ عزوجل
کی پناہ میں دیتا ہوں اس سے کہ آپ کے دل میں ایسا خطرہ بھی گزرے۔فاﷲ خیر
حافظا وھوارحم الراحمین ۔۱ ( تو اﷲ تعالٰی سب سے بہتر نگہبان اور وہ ہر
مہربان سے بڑھ کر مہربان ہے۔ت)
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳۳/ ۴۰)
میں امیدواثق رکھتا ہوں کہ اسی قدر اجمالِ جمیل آپ کے انصافِ جزیل کو بس۔
اب قدرے تفصیل بھی عرض کروں۔
(۱) زوال کے اصلی معنٰی سرکنا، ہٹنا، جانا، حرکت کرنا، بدلنا ہیں۔
قاموس میں ہے:الزوال الذھاب والاستحالۃ ۔۲
زوال کا معنٰی ہے جانا اور ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونا ۔ت)
( ۲ ؎ القاموس المحیط فصل الزاء باب اللام تحت لفظ الزوال مصطفٰی البابی
مصر ۳/ ۴۰۲)
اُسی میں ہے۔کل ماتحول فقد حال واستحال ۔۳
ہر وہ جس نے جگہ بدلی تو بے شک اس نے حال بدلا اور ایک حال سے دوسرے حال
کیطرف منتقل ہوا۔(ت)
( ۳؎ القاموس المحیط فصل الحاء من باب اللام تحت لفظ الحول مصطفٰی البابی
مصر ۳/ ۳۷۴)
ایک نسخہ میں ہے۔ کل ماتحرک اوتغیر ۔۴
(ہر وہ جس نے حرکت کی یا تبدیل ہوا۔ت)
( ۴ ؎تاج العروس فصل الحاء من باب اللام تحت لفظ الحول داراحیاء الثرات
العربی بیروت ۷/ ۲۹۴ )
یوں ہی عُباب میں ہے:تحول اوتحرک۔۵
(بدلا یا حرکت کی۔ت)
( ۵ ؎تاج العروس بحوالہ العباب فصل الحاء من باب اللام تحت لفظ الحول
داراحیاء الثرات العربی بیروت ۷/ ۲۹۴)
تاج العروس میں ہے:ازال اﷲ تعالٰی زوالہ ای اذھب اﷲ حرکتہ وزال زوالہ ای
ذھبت حرکتہ ۔۱
(ازال اﷲ) اﷲ تعالٰی نے اس کے زوال کا ازالہ فرمایا یعنی اس کی حرکت کو ختم
فرمادیا۔ اور اس کا زوال زائل ہوا، یعنی اس کی حرکت ختم ہوگئی۔(ت)
( ۱ ؎ تاج العروس فصل الزاء من باب اللام داراحیاء التراث العربی بیروت ۷/
۳۶۲)
نہایہ ابن اثیر میں ہے:فی حدیث جندب الجھنی "واﷲ لقد خالطہ سھمی ولوکان
زائلۃ لتحرک" الزائلۃ کل شیئ من الحیوان یزول عن مکانہ ولا یستقر، وکان ھذا
المرمی قد سکن نفسہ لایتحرک لئلا یحس بہ فیجھز علیہ ۔۲
جُندب جُہنی کی حدیث میں ہے بخدا میرا تیر ا اس میں پیوست ہوگیا، اگر اس
میں حرکت کی طاقت ہوتی تو وہ حرکت کرتا زائلہ اس حیوان کو کہتے ہیں جو اپنی
جگہ سے ہٹ جائے اور قرار نہ پکڑے۔ جس کو تیرلگا تھا اس نے اپنے آپ کو حرکت
سے روک لیا تاکہ اس کے بارے میں پتا نہ چل سکے اور اس کو ہلاک نہ کردیا
جائے۔ت)
( ۲ ؎ النہایہ فی غریب الحدیث والاثر باب الزاء مع الواو تحت لفظ زوال
مکتبۃ الاسلامیہ بیروت ۲/ ۳۱۹)
(ا) دیکھو زوال بمعنی حرکت ہے اور قرآن عظیم نے آسمان و زمین سے اس کی نفی
فرمائی تو حرکتِ زمین و حرکتِ آسمان دونوں باطل ہوئیں۔
(ب) "زوال" جانا اور بدلنا ہے، حرکت محوری میں بدلنا ہے۔ اور مدار پر حرکت
میں جانا بھی ، تو دونوں کی نفی ہوئی۔
(ج) نیز نہایہ و درنثیر امام جلال الدین سیوطی میں ہے:الزویل الانزعاج بحیث
لایستقرعلی المکان وھو والزوال بمعنی۳۔
زویل کا معنی بے قرار ی ہے اس طور پر کہ کسی ایک جگہ قرار نہ پکڑے۔ زویل
اور زوال کا معنٰی ایک ہی ہے۔ت)
( ۳ ؎ النہایہ فی غریب الحدیث والاثر باب الزاء مع الواو تحت لفظ زوال
مکتبہ الاسلامیہ بیروت ۲/ ۳۲۰)
قاموس میں ہے:زعجہ واقلقہ وقلعہ من مکانہ کازعجہ فانزعج ۔۴
اس کو بے قرار و مضطرب کیا اور اس کو اپنی جگہ سے ہٹایا ، جیسے اس کو بے
قرار کیا ، تو وہ بے قرار ہوگیا۔(ت)
( ۴ ؎ القاموس المحیط فصل الراء والزاء باب الجیم تحت لفظ زعجہ مصطفٰی
البابی مصر ۱/ ۱۹۸)
لسان میں ہے:الازعاج نقیض الاقرار ۔۱
ازعاج ( بے قرار کرنا) اقرار ( ایک جگہ ٹھہرانے کی ضد ہے۔(ت)
( ۱ ؎لسان العرب تحت لفظ زعج دارصادر بیروت ۲/ ۲۸۸ )
تاج میں ہے:قلق الشیئ قلقاوھوان لایستقر فی مکان واحد ۔۲
قلق الشیئ قلقاً کا معنی یہ ہے کہ شے ایک جگہ میں قرار نہ پکڑے۔ت)
( ۲ ؎ تاج العروس فصل القاف تحت لفظ القلق داراحیاء التراث العربی بیروت ۷/
۵۸)
مفردات امام راغب میں ہے:قرنی مکانہ یقرقراراً ثبت ثبوتا جامدا واصلہ من
القروھو البرد وھو یقتضی السکون والحریقتضی الحرکۃ ۳۔قرنی مکانہ یقرقرارًا
کا معنی یہ ہے کہ شیئ اپنی جگہ ثابت ہو کر ٹھہر گئی۔ یہ اصل میں مشتق ہے قر
سے جس کا معنی سردی ہے اور وہ سکون کا تقاضا کرتی ہے جب کہ گرمی حرکت کی
مقتضی ہے۔(ت)
( ۳ ؎المفردات فی غرائب القرآن القاف مع الراء نور محمد کارخانہ تجارت کتب
کراچی ص ۴۰۶ )
قاموس میں ہے:قربالمکان ثبت وسکن کا ستقر ۔۴قربالمکان کا معنٰی ٹھہرنا اور
ساکن ہونا جیسا کہ استقرکا معنٰی بھی یہی ہے۔ت
( ۴ ؎القاموس المحیط فصل القاف باب الراء مصطفٰی البابی مصر ۲/ ۱۱۹ )
دیکھو زوال انزعاج ہے، اور انزعاج قلق مقابل قرار اور سکون ہو تو زوال
مقابل سکون ہے اور مقابل سکون نہیں مگر حرکت، تو ہر حرکت زوال ہے۔ قرآن
عظیم آسمان و زمین کے زوال سے انکار فرماتا ہی ، لاجرم اُن کی ہر گونہ حرکت
کی نفی فرماتا ہے۔
(د) صراح میں ہے:زائلہ جنبیدہ و روندہ وآئندہ ، ۔۵زائلہ کا معنی جنبش کرنے
والا، جانے والا اور آنے والا ہے۔(ت)
( ۵ ؎ صراح فصل الزاء باب اللام نولکشور لکھنؤ ص ۳۴۳)
زمین اگر محور پر حرکت کرتی جنبیدہ ہوتی اور مدار پر تو آئندہ دروندہ بھی
بہرحال زائلہ ہوتی اور قرآن عظیم اُس کے زوال کو باطل فرماتا ہے، لاجرم اس
سے ہر نوعِ حرکت زائل۔
(۲) کریمہوان کان مکرھم لتزول منہ الجبال ۔۱ان کا مکر اتنا نہیں جس سے
پہاڑ جگہ سے ٹل جائیں، یا اگرچہ اُن کا مکر ایسا بڑا ہو کہ جس سے پہاڑ ٹل
جائیں۔ یہ قطعاً ہماری ہی مؤید اور ہر گو نہ حرکتِ جبال کی نفی ہے۔
(۱ القرآن الکریم ۱۴ /۴۶)
(ا) ہر عاقل بلکہ غبی تک جانتا ہے کہ پہاڑ ثابت ساکن و مستقر ایک جگہ جمے
ہوئے ہیں جن کو اصلاً جنبش نہیں۔
تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے:ثبوت الجبل یعرفہ الغبی والذکی ۔۲پہاڑ کے ثبوت
و قرار کو کندذہن اور تیز ذہن والا دونوں جانتے ہیں۔(ت)
( ۲؎ عنایۃ القاضی وکفایۃ الراضی حاشیۃ الشہاب تحت آیۃ ۱۴/ ۴۶ دارصادر
بیروت ۵/۲۷۷)
قرآن عظیم میں ان کو رواسی فرمایا، راسی ایک جگہ جما ہوا پہاڑ ، اگر ایک
انگل بھی سرک جائے گا قطعاً زال الجبل صادق آئے گا نہ یہ کہ تمام دُنیا میں
لڑھکتا پھرے۔ اور زال الجبل نہ کہا جائے ثبات و قرار ثابت رہے کہ ابھی دنیا
سے آخرت کی طرف گیا ہی نہیں زوال کیسے ہوگیا۔ اپنی منقولہ عبارتِ جلالین
دیکھئے پہاڑ کے اسی ثبات واستقرار پر شرائع اسلام کو اُس سے تشبیہ دی ہے جن
کا ذرہ بھر ہلانا ممکن نہیں۔
(ب)اسی عبارتِ جلالین کا آخر دیکھئے کہ تفسیر دوم پر یہ آیت آیتو تخرالجبال
ھدًّ اکے مناسب ہے یعنی ان کی ملعون بات ایسی سخت ہے جس سے قریب تھا کہ
پہاڑ ڈھہ کر گر پڑتے ۔
یوں ہی معالم التنزیل میں ہے:وھومعنی قولہ تعالٰیوتخرالجبال ھّدا ۔۳اور
یہی معنی ہے اﷲ تعالی کے اس قول کا اور پہاڑ ڈھہ کر گر پڑتے (ت)
( ۳؎ معالم التنزیل (تفسیر بغوی) تحت آیۃ ۱۹/۹۰ دارالکتب العلمیہ بیروت
۳/۳۲)
یہ مضمون ابوعبید وابن جریر و ابن المنذرو ابن ابی حاتم نے عبداللہ ابن
عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا نیز جو یبر ضحاک سے راوی ہوئے کقولہ
تعالٰیوتخرالجبال ھدا ۔۴( جیسا کہ اللہ تعالٰی کا قول اور وہ پہاڑ گر
جائیں گے ڈھہ کر۔ ت) اسی طرح قتادہ شاگرد انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت
کیا ، ظاہر ہے کہ ڈھہ کر گرنا اُس جنگل سے بھی اُسے نہ نکال دے گا جس میں
تھا نہ کہ دنیا سے۔ ہاں جما ہوا ساکن مستقر نہ رہے گا تو اُسی کو زوال سے
تعبیر فرمایا اور اسی کی نفی زمین سے فرمائی تو وہ ضرور جمی ہوئی ساکن
مستقر ہے۔
( ۴؎ جامع البیان عن الضحاک (تفسیرابن جریر) تحت آیۃ ۱۴/۱۶ داراحیاء التراث
العربی بیروت ۱۳/۲۹۰)
(ج) رب عزوجل نے سیدنا موسٰی علی نبینا الکریم وعلیہ الصلوۃ والتسلیم سے
فرمایا: لن ترانی وٰلکن انظر الٰی الجبل فان استقرمکانہ فسوف ترانی ۔۱تم
ہر گز مجھے نہ دیکھو گے ہاں پہاڑ کی طرف دیکھو اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہے
تو عنقریب تم مجھے دیکھ لو گے۔
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۷/ ۱۴۳ )
پھر فرمایا :فلمّا تجلّٰی ربّہ للجبل جعلہ دّکا وخرّ موسٰی صعقا۔۲جب ان کے
رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی اسے ٹکڑے کردیا اور موسٰی غش کھا کر گرے۔
( ۲ ؎القرآن الکریم ۷/ ۱۴۳ )
کیا ٹکڑے ہو کر دُنیا سے نکل گیا یا ایشیا یا اُس ملک سے۔ اس معنی پر تو ہر
گز جگہ سے نہ ٹلا، ہاں وہ خاص محل جس میں جما ہوا تھا وہاں نہ جما رہا، تو
معلوم ہوا اسی قدر عدمِ استقرار کو کافی ہے۔ اور اوپر گزرا کہ عدمِ استقرار
عین زوال ہے زمین بھی جہاں جمی ہوئی ہے وہاں سے سر کے، تو بے شک زائلہ ہوگی
اگرچہ دنیا یا مدار سے باہر نہ جائے۔
(د) اس آیہ کریمہ کے نیچے تفسیر ارشاد العقل السلیم میں ہے:وان کان مکرھم
فی غایۃ المتانۃ و الشدۃ معد الازالۃ الجبال عن مقار ھا ۔۳
اگرچہ ان کا مکر مضبوطی اور سختی کی زیادتی کے سبب سے پہاڑوں کو اپنی جگہوں
سے ہٹانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔(ت)
( ۳ ؎ ارشاد العقل السلیم (تفسیرابی السعود) تحت آیت ۱۴/ ۴۶ داراحیاء
التراث العربی بیروت ۵/ ۵۸)
نیشاپوری میں ہے: ازالۃ الجبال عن اماکنھا ۔۴
(پہاڑوں کو ان کی جگہوں سے ہٹانا۔ت)
( ۴ ؎غرائب القرآن ورغائب الفرقان تحت آیۃ ۱۴/ ۴۶ مصطفٰی البابی مصر ۱۳/
۱۴۲ )
خازن میں ہے:تزول عن اماکنھا ۔۱
(پہاڑ اپنی جگہوں سے ہٹ جائیں۔ت)
( ۱ ؎لباب التاویل فی معانی التنزیل (تفسیر خازن) تحت آیۃ ۱۴/ ۴۶) مصطفٰی
البابی مصر ۴/ ۵۳)
کشاف میں ہے :تنقلع عن اماکنھا۔۲
(پہاڑ اپنی جگہوں سے اکھڑ جائیں ۔ت)
( ۲ ؎ الکشاف تحت آیۃ ۱۴/ ۴۶ مکتب الاعلام الاسلامی قم ایران ۲/ ۵۶۶)
مدارک میں ہے:تنقطع عن اماکنھا ۔۳
( پہاڑ اپنی جگہوں سے جُدا ہوجائیں ۔ت)
( ۳؎ مدارک التنزیل (تفسیر نسفی) تحت آیۃ ۱۴/ ۴۶ دارالکتاب العربی بیروت ۲/
۲۶۶)
اسی کے مثل آپ نے کمالین سے نقل کیا، یہاں بھی مکان ومقر سے قطعاً وہی قرار
ہے جو کریمہ فان استقرمکانہ ۔۴
میں تھا ارشاد کا ارشاد مقارھا جاہا ئے قرار اور کشاف کا لفظ تنقلع خاص
قابلِ لحاظ ہے کہ اُکھڑ جانے ہی کو زوال بتایا۔
( ۴ ؎ القرآن الکریم ۷/ ۱۴۳)
(ہ ) سعیدبن منصور اپنے سُنن اور ابن ابی حاتم تفسیر میں حضرت ابومالک غزو
ان غفاری کوفی اُستاذ امام سُدّی کبیر وتلمیذ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی
اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:وان کان مکرھم لتزول منہ الجبال قال تحرکت ۔۵
اگرچہ ان کا مکر اس حد تک تھا کہ اس سے پہاڑ ٹل جائیں۔ ابن عباس رضی اللہ
تعالٰی عنہما نے فرمایا اس کا معنی یہ ہے کہ حرکت کریں۔(ت)
( ۵ ؎ تفسیر القرآن العظیم ( ابن ابی حاتم) تحت آیۃ ۱۴/ ۴۶ مکتبہ نزار
مصطفٰی الباز ۷/ ۲۲۵۲ )
اُنہوں نے صاف تصریح کردی کہ زوالِ جبال اُن کا حرکت کرنا جنبش کھانا ہے۔
اسی کی زمین سے نفی ہے۔ وﷲ الحمد۔
(۳) اُوپر گزرا کہ زوال مقابل قرار و ثبات ہے اور قرار و ثبات حقیقی سکون
مطلق ہے دربارہ قرار عبارت، امام راغب گزری، اور قاموس میں ہے:المثبت کمکرم
من لاحراک بہ من المرض وبکسرالباء الذی ثقل فلم یبرح الفراش وداء ثبات
بالضم معجزعن الحرکۃ ۔۶مثبت بروزن مکرم وہ شخص ہے جس میں بیماری کی وجہ سے
حرکت نہ ہو، اور اگر مثبت یعنی باء کے کسرہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہوگا
وہ شخص جس کی بیماری بڑھ گئی اور وہ صاحبِ فراش ہوگیا۔اور داء کامعنی ثُبات
ہوا، ثاء پر ضمہ کے ساتھ، یعنی حرکت سے عاجز کردینے والا مرض (ت)
( ۶ ؎القاموس المحیط فصل التاء والثاء باب التاء مصطفٰی البابی مصر ۱/ ۱۵۰
)
مگر تو سُّعًا قرار و ثبات ایک حالت پر بقاء کو کہتے ہیں اگرچہ اس میں سکون
مطلق نہ ہو تو اس کا مقابل زوال اُسی حالت سے انفصال ہوگا۔ یونہی مقرو
مستقرو مکان ہر جسم کے لیے حقیقہ وہ سطح یا بعد مجرد یا موہوم ہے جو جمیع
جوانب سے اس جسم کو حاوی اور اس سے ملاصق ہے۔ یعنی علمائے اسلام کے نزدیک
وہ فضائے متصل جسے یہ جسم بھرے ہوئے ہے ظاہر ہے کہ وہ دبنے سرکنے سے بدل
گئی، لہذا اس حرکت کو حرکت اینیہ کہتے ہیں یعنی جس سے دمبدم این کہ مکان
وجائے کا نام ہے بدلتا ہے یہی جسم کا مکان خاص ہے اور اسی میں قرار و ثبات
حقیقی ہے اس کے لیے یہ بھی ضرور کہ وضع بھی نہ بدلے، کرہ کہ اپنی جگہ قائم
رہ کر اپنے محور پر گھومے مکان نہیں بدلتا مگر اُسے قار وثابت وساکن نہ
کہیں گے بلکہ زائل و حائل و متحرک ، پھر اسی توسُّع کے طور پر بیت بلکہ دار
بلکہ محلے بلکہ شہر بلکہ کثیر ملکوں کے حاوی حصہ زمین مثل ایشیا بلکہ ساری
زمین بلکہ تمام دنیا کو مقرو مستقرو مکان کہتے ہیں۔قال تعالٰی:ولکم فیھا
مستقرومتاع الٰی حین ۱اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے
۔ت)
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۳۶ )
اور اس سے جب تک جُدائی نہ ہو اُسے قرار و قیام بلکہ سکون سے تعبیر کرتے
ہیں اگرچہ ہزاروں حرکات پر مشتمل ہو ولہذا کہیں گے کہ موتی بازار بلکہ
لاہور بلکہ پنجاب بلکہ ہندوستان بلکہ ایشیا بلکہ زمین ہمارے مجاہد کبیر کا
مسکن ہے وہ ان میں سکونت رکھتے ہیں وہ ان کے ساکن ہیں حالانکہ ہر عاقل
جانتا ہے کہ سکون و حرکت متبائن مگر یہ معنٰی مجازی ہیں، لہذا جائے اعتراض
نہیں۔ لاجرم محلِ نفی میں ان کا مقابل زوال بھی انہیں کی طرح مجازی وتوسُّع
ہے اور وہ نہ ہوگا جب تک اُن سے انتقال نہ ہو، کفار کی وہ قسم کہ مالنا من
زوال اسی معنٰی پر تھی یہ قسم نہ کھاتے تھے کہ ہم ساکن مطلق ہیں چلتے پھرتے
نہیں، نہ یہ کہ ہم ایک شہر یا ملک کے پابند ہیں اس سے منتقل نہیں ہوسکتے
بلکہ دنیا کی نسبت قسم کھاتے تھے کہ ہمیں یہاں سے آخرت میں جا نا نہیںان ھی
الاحیاتنا الدنیا نموت و نحیاوما نحن بمبعوثین ۲ ؎ ۔ (وہ تو نہیں مگر ہماری
دنیا کی زندگی کہ ہم مرتے جیتے ہیں اور ہمیں اٹھنا نہیں۔ت)
( ۲ ؎القرآن الکریم ۲۳/ ۳۷)
مولٰی تعالٰی فرماتا ہے:واقسمواباﷲ جھدایمانھم لایبعث اﷲ من یموت ۔۳اور
انہوں نے اﷲ کی قسم کھائی اپنے حلف میں حد کی کوشش کی کہ اﷲ تعالٰی مردے نہ
اٹھائے گا۔ (ت)
( ۳ ؎القرآن الکریم ۱۶/ ۳۸ )
لاجرم تیسری آیہ کریمہ میں زوال سے مراد دنیا سے آخرت میں جانا ہے، نہ یہ
کہ دُنیا میں اُن کا چلنا پھرنا زوال نہیں قطعاً حقیقی زوال ہے جس کی سندیں
اوپر سُن چکے اور عظیم شافی بیان آگے آتا ہے، مگر یہاں اُس کا ذکر ہے جس کی
وہ قسم کھاتے تھے اور وہ نہ تھا مگر دنیا سے انتقال معنی مجازی کے لیے
قرینہ درکار ہوتا ہے۔ یہاں قرینہ اُن کے یہی اقوال بعینہ ہیں بلکہ خود اسی
آیت صدر میں قرینہ صریحہ مقالیہ موجود کہ روزِ قیامت ہی کے سوال وجواب
کاذکر ہے فرماتا ہے: وانذر الناس یوم یأتیھم العذاب فیقول الذین ظلموا
ربّنا اخرنا الٰی اجل قریب نجب دعوتک ونتبع الرسل اولم تکونوا اقسمتم من
قبل مالکم من زوال ۔۱اور لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جب اُن پر عذاب آئے گا،
تو ظالم کہیں گے اے ہمارے رب تھوڑی دیر ہمیں مہلت دے کہ ہم تیرا بلانا
مانیں اور رسولوں کی غلامی کریں۔ تو کیا تم پہلے قسم نہ کھا چکے تھے کہ
ہمیں دنیا سے ہٹ کر کہیں جانا نہیں۔(ت)
( ۱ ؎القرآن الکریم ۱۴/ ۴۴)
لیکن کریمہان اﷲ یمسک السٰموٰت والارض ان تزولا ۔۲ (بے شک اﷲ تعالٰی
آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ کہیں جنبش نہ کریں۔ت) میں کوئی قرینہ
نہیں تو معنی مجازی لینا کسی طرح جائز نہیں ہوسکتا بلکہ قطعاً زوال اپنے
معنی حقیقی پر رہے گا۔ یعنی قرار وثبات و سکون حقیقی کا چھوڑنا، اُس کی نفی
ہے تو ضرور سکون کا اثبات ہے ایک جگہ معنی مجازی میں استعمال دیکھ کر دوسری
جگہ بلاقرینہ مجاز مراد لینا ہر گز حلال نہیں۔
( ۲ ؎القرآن الکریم ۳۵/ ۴۱)
(۴) نہیں نہیں بلاقرینہ نہیں بلکہ خلافِ قرینہ، یہ اور سخت تر ہے کہ کلام
اﷲ میں پوری تحریفِ معنوی کا پہلو دے گا رب عزوجل نے یمسک فرمایا ہے اور
امساک روکنا، تھامنا، بند کرنا ہے ۔ ولہذا جو زمین کے پانی کو بہنے نہ دے
روک رکھے اسے مسک اور مساک کہتے ہیں انہارو ابحار کو نہیں کہتے حالانکہ اُن
میں بھی پانی کی حرکت وہیں تک ہوگی جہاں تک احسن الخالقین جل و علا نے اُس
کا امکان دیا ہے۔
قاموس میں ہے:امسکہ حبسہ المسک محرکۃ الموضع یمسک الماء کالمساک کسحاب
۔۳امسکہ کا معنٰی ہے اس کو روکا ۔ المسک (س پر حرکت کے ساتھ) اُس جگہ کو
کہتے ہیں جو پانی کو روکے، جیسے مساک بروزن سحاب (ت)( ۳ ؎ القاموس المحیط
فصل المیم باب الکاف مصطفی البابی مصر ۳/ ۳۲۹ )
یوں تو دنیا بھر میں کوئی حرکت کبھی بھی زوال نہ ہو کہ جہاں تک احسن
الخالقین تعالٰی نے امکان دیا ہے اُس سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ (۵) اگر ان
معنی کو مجازی نہ لیجئے بلکہ کہیے کہ زوال عام ہے مکان و مستقرحقیقی خاص سے
سرکنا اور موقع عام اور موطن اعم اور اعم از اعم سے جُدا ہونا سب اس کے فرد
ہیں تو ہر ایک پر اس کا اطلاق حقیقت ہے جیسے زید و عمرو وبکر وغیرہم کسی
فرد کو انسان کہنا تو اب بھی قرآن کریم کا مفاد زمین کا وہی سکون مطلق ہوگا
نہ کہ اپنے مدار سے باہر نہ جانا۔
تزولا فعل ہے اور محل نفی میں وارد ہے اور علمِ اصول میں مصرح ہے کہ فعل
قوۃ نکرہ میں ہے اور نکرہ حیزنفی میں عام ہوتا ہے، تو معنی آیت یہ ہوئے کہ
آسمان و زمین کو کسی قسم کا زوال نہیں نہ موقع عام سے نہ مستقر حقیقی خاص
سے، اور یہی سکون حقیقی ہے وﷲ الحمد۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے مجاہد کبیر کو اپنی عبارت میں ہر جگہ قید بڑھانی پڑی
زمین کا اپنے اماکن سے زائل ہوجانا اس کا زوال ہوگا۔ زائل ہوجانا قطعاً
مطلقاً زوال ہے۔ زائل ہوجانا زوال کا ترجمہ ہی تو ہے۔ مکانِ خاص سے ہو خواہ
اماکن سے، مگر اوّل کے اخراج کو اس قید کی حاجت ہوتی تو یونہی فرمایا ،
زمین کا زوال اس کے اماکن سے۔ پھر فرمایا جن اماکن میں اﷲ تعالٰی نے اُس کو
امساک کیا ہے۔ اس سے باہر سِرک نہیں سکتی۔ پھر فرمایا اپنے مدار میں امساک
کردہ شدہ ہے اس سے زائل نہیں ہوسکتی۔ اور نفی کی جگہ فرمایا : حضرت عبداللہ
بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آسمان کے سکون فی مکانہ کی تصریح فرمادی
مگر زمین کے بارے میں ایسا نہیں فرمایا۔ یہاں جمع اماکن کا ظاہر کردیا مگر
رب عزوجل نے تو اُن میں سے کوئی قید نہ لگائی۔ مطلق یمسک فرمایا ہے اور
مطلق ان تزولا ۔ اﷲ آسمان و زمین ہر ایک کو روکے ہوئے کہ سرکنے نہ پائے یہ
نہ فرمایا کہ اس کے مدار میں روکے ہوئے ہے۔ یہ نہ فرمایا کہ ہر ایک کے لیے
اماکن عدیدہ ہیں اُن اماکن سے باہر نہ جانے پائے۔ تواُس کا بڑھانا کلام
الہی میں اپنی طرف سے پیوند لگانا ہوگا از پیش خویش قرآن عظیم کے مطلق کو
مقید، عام کو مخصصّ بنانا ہوگا۔ اور یہ ہر گز روا نہیں۔ اہل سنت کا عقیدہ
ہے جو ان کی کتبِ عقائد میں مصرح ہے۔کہ النصوص تحمل علٰی ظواھر ھا ۱ ؎ (
نصوص اپنے ظاہر پر محمول ہوتی ہیں۔ت) بلکہ تمام ضلاتوں کا بڑا پھاٹک یہی ہے
کہ بطورِ خود نصوص کو ظاہر سے پھیریں۔ مطلق کو مقید عام کو مخصص کریں۔مالکم
من زوال ۔۲ ( تمہارے لیے زوال نہیں ت) کی تخصیص واضح سے ان تزولا کو بھی
مخصص کرلینا اس کی نظیر یہی ہے کہان اﷲ علی کل شیئ قدیر ۔۱ ( بے شک اﷲ
تعالٰی ہر چیز پر قادر ہے۔ت) کی تخصیص دیکھ کران اﷲ بکل شیئ علیم ۲ ؎ (بے
شک اﷲ تعالی ہرچیز کو جاننے والا ہے۔ت) کو بھی مخصص مان لیں کہ جس طرح وہاں
ذات و صفات و محالات زیر قدرت نہیں یوں ہی معاملہ صاف ہوگیا کہ ذات و صفات
و محالات کا معاذ اﷲ علم بھی نہیں۔ زیادہ تشفی بحمدہ تعالٰی نمبر ۸ میں آتی
ہے جس سے واضح ہوجائے گا کہ اللہ و رسول وصحابہ و مسلمین کے کلام میں یہاں
یعنی خاص محل نزاع میں زوال سے مطلقاً ایک جگہ سے سرکنا مراد ہوا ہے اگرچہ
اماکن معینہ سے باہر نہ جائے یا زوال کفار کی طرح دنیا خواہ مدار چھوڑ کر
الگ بھاگ جانا، فانتظر ( چنانچہ انتظار کر۔ت)
( ۱ ؎ شرح عقائد نسفیہ دارالاشاعۃ العربیۃ قندھار افغانستان ص ۱۱۹)
( ۲ ؎ القرآن الکریم ۱۴/ ۴۴) ( ۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۰)( ۲ ؎ القرآن الکریم
۸/ ۷۵)
(۶) لاجرم وہ جنہوں نے خود صاحبِ قرآن صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے قرآن
کریم پڑھا۔ خود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اس کے معانی سیکھے
انہوں نے آیہ کریمہ کو ہر گو نہ زوال کی نافی اور سکون مطلق حقیقی کی مثبت
بتایا۔ سعید بن منصور و عبد بن حمید و ابن جریروابن المنذر نے حضرت شقیق
ابن سلمہ سے کہ زمانہ رسالت پائے ہوئے تھے روایت کی اور حدیث ابن جریر بسند
صحیح برجال صحیحین بخاری ومسلم ہے:حدثنا ابن بشار ثنا عبدالرحمن ثنا سفٰین
عن الاعمش عن ابی وائل قال جاء رجل الی عبداﷲ رضی اللہ تعالٰی عنہ فقال من
این جئت ؟ قال من الشام، فقال من لقیت؟ قال لقیت کعباً ۔ فقال ما حدثک کعب؟
قال حدثنی ان السٰموٰت تدور علٰی منکب ملک قال فصدقتہ اوکذبتہ ؟ قال ما
صدقتہ ولا کذبتہ ، قال لوددت انک افتدیت من رحلتک الیہ براحلتک ورحلھا وکذب
کعب ان اﷲ یقولان اﷲ یمسک السمٰوٰت والارض ان تزولا o و لئن زالتا ان
امسکھما من احد من بعد ہ ۱،زادغیر ابن جریر وکفٰی بہا زوالاً ان تدورا
۔۲ہمیں ابن بشار نے حدیث بیان کی کہ ہم کو عبدالرحمن نے حدیث بیان کی کہ
ہم کو اعمش نے بحوالہ ابووائل حدیث بیان کی ، ابو وائل نے کہا کہ ایک صاحب
حضرت سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حضور حاضر ہوئے
فرمایا : کہاں سے آئے؟ عرض کی: شام سے۔ فرمایا وہاں کس سے ملے؟ عرض کی :
کعب سے فرمایا کعب نے تم سے کیا بات کی ؟ عرض کی ، یہ کہا کہ آسمان ایک
فرشتے کے شانے پر گھومتے ہیں، فرمایا : تم نے اس میں کعب کی تصدیق کی یا
تکذیب ؟ عرض کی، کچھ نہیں( یعنی جس طرح حکم ہے کہ جب تک اپنی کتاب کریم کا
حکم نہ معلوم ہو اہل کتاب کی باتوں کو نہ سچ جانو نہ جھوٹ) حضرت عبداللہ
ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : کاش تم اپنا اُونٹ اور اس کا
کجاوہ سب اپنے اس سفر سے چھٹکارے کو دے دیتے کعب نے جھوٹ کہا اللہ تعالٰی
فرماتا ہے۔ بے شک اللہ تعالٰی آسمانوں اور زمینوں کو روکے ہوئے ہے کہ سرکنے
نہ پائیں اور اگر وہ ہٹیں تو اللہ کے سوا انہیں کون تھامے ، ابن جریر کے
غیر نے یہ اضافہ کیا کہ گھومنا اُن کے سرک جانے کو بہت ہے۔
( ۱ ؎ جامع البیان ( تفسیر ابن جریر) تحت آیۃ ۳۵/ ۴۱ داراحیاء التراث
العربی بیروت ۲۲/ ۱۷۰)
( ۲ ؎ الدرالمنثور (تفسیر ابن جریر) تحت آیۃ ۳۵ /۴۱ داراحیاء التراث العربی
بیروت ۷/ ۳۲ )
نیز محمد طبری نے بسند صحیح بر اصولِ حنفیہ برجال بخاری و مسلم حضرت سیدنا
امام ابوحنیفہ کے استاذ الاستاذ امام اجل ابراہیم نخعی سے روایت کی:حدثنا
جریر عن مغیرۃ عن ابراہیم قال ذھب جُندب البجلی الٰی کعب الاحبار فقدم علیہ
ثمّ رجع، فقال لہ عبداللہ حدثنا ما حدثک، فقال حدثنی ان السماء فی قطب کقطب
الرحا و القطب عمود علٰی منکب ملک، قال عبداﷲ لوددت انّک افتدیت رحلتک بمثل
راحلتک ، ثم قال ماتنتکت الیھودیۃ فی قلب عبدفکادت تفارقہ ثم قالانّ اﷲ
یمسک السمٰوٰت و الارض ان تزولا ۔ کفٰی بہازوالا ان تدورا ۔۱ہمیں جریر نے
بحوالہ مغیرہ ابراہیم سے حدیث بیان کی کہ ابراہیم نے کہا کہ جُندب بُجلی
کعب احبار کے پاس جا کر واپس آئے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے
فرمایا : کہو کعب نے تم سے کیا کہا ؟ عرض کیا: یہ کہا کہ آسمان چکی کی طرح
ایک کیلی میں ہے اور کیلی ایک فرشتے کے کاندھے پر ہے۔ حضرت عبداللہ نے
فرمایا : مجھے تمنا ہوئی کہ تم اپنے ناقہ کے برابر مال دے کر ا س سفر سے
چھٹ گئے ہوتے، یہودیت کی خراش جس دل میں لگتی ہے پھر مشکل ہی سے چھوٹتی ہے۔
اللہ تو فرما رہا ہے بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ نہ
سِرکیں ، ان کے سرکنے کو گھومنا ہی کافی ہے۔
( ۱ ؎ جامع البیان ( تفسیر ابن جریر) تحت آیۃ ۳۵/ ۴۱ داراحیاء التراث
العربی بیروت ۲۲/ ۱۷۱ و ۱۷۰)
عبدبن حمید نے قتادہ شاگردِ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی: ان
کعباً کان یقول ان السماء تدور علٰی نصب مثل نصب الرحا فقال حذیفۃ بن
الیمان رضی اللہ تعالٰی عنہما کذب کعبان اﷲ یمسک السمٰوٰت والارض ان تزولا
۔۲کعب کہا کرتے کہ آسمان ایک کیلی پر دورہ کرتا ہے جیسے چکی کی کیلی۔ اس
پر حذیفہ الیمان رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کعب نے جھوٹ کہا۔ بے شک
اﷲ آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ جنبش نہ کریں۔
( ۲ ؎ الدرالمنثور (تفسیر ابن جریر) تحت آیۃ ۳۵ /۴۱ داراحیاء التراث العربی
بیروت ۷/ ۳۲ )
دیکھو ان اجلہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے مطلق حرکت کو زوال مانا
اور اس پر انکار فرمایا اور قائل کی تکذیب کی اور اسے بقایائے خیالات
یہودیت سے بتایا، کیا وہ اتنا نہ سمجھ سکتے تھے کہ ہم کعب کی ناحق تکذیب
کیوں فرمائیں آیت میں تو زوال کی نفی فرمائی ہے اور اُن کا یہ پھرنا چلنا
اپنے اماکن میں ہے جہاں تک احسن الخالقین تعالٰی نے ان کو حرکت کا امکان
دیا ہے وہاں تک اُن کا حرکت کرنا ان کا زوال نہ ہوگا۔ مگر ان کا ذہن مبارک
اس معنی باطل کی طرف نہ گیا نہ جاسکتا تھا بلکہ اس کے ابطال ہی کی طرف گیا
اور جانا ضرور تھا کہ اللہ تعالٰی نے مطلقاً زوال کی نفی فرمائی ہے نہ کہ
خاص زوال عن المدار کی تو انہوں نے روانہ رکھا کہ کلامِ ا لہی میں اپنی طرف
سے یہ پیوند لگالیں لاجرم اس پر رَد فرمایا اور اس قدر شدید واشد فرمایا وﷲ
الحمد۔
تنبیہ :کعب احبار تابعین اخیار سے ہیں خلافتِ فاروقی میں یہودی سے مسلمان
ہوئے کُتب سابقہ کے عالم تھے۔ اہلِ کتاب کی احادیث اکثر بیان کرتے انہیں
میں سے یہ خیال تھا جس کی تغلیط ان اکابر صحابہ نے قرآن عظیم سے فرمادی تو
کَذَ ب کعب کے یہ معنی ہیں کہ کعب نے غلط کہا نہ کہ معاذ اﷲ قصداً جھوٹ
کہا۔ کذب بمعنی اخطا محاورہ حجاز ہے اور خراش یہودیت بمشکل چھوٹنے سے یہ
مراد کہ اُن کے دل میں علمِ یہود بھرا ہوا تھا وہ تین قسم ہے باطل صریح و
حق صحیح اور مشکوک کہ جب تک اپنی شریعت سے اس کا حال نہ معلوم ہو حکم ہے کہ
اس کی تصدیق نہ کرو ممکن کہ ان کی تحریفات یا خرافات سے ہو، نہ تکذیب کرو
ممکن کہ توریت یا تعلیمات سے ہواسلام لا کر قسم اول کا حرف حرف قطعاً اُن
کے دل سے نکل گیا۔ قسم دوم کا علم اور مسجّل ہوگیا، یہ مسئلہ قسم سوم
بقایائے علم یہود سے تھا جس کے بطلان پر آگاہ نہ ہو کر انہوں نے بیان کیا
اورصحابہ کرام نے قرآن عظیم سے اس کا بطلان ظاہر فرمادیا یعنی یہ نہ توریت
سے ہے نہ تعلیمات سے بلکہ ان خبیثوں کی خرافات سے تابعین صحابہ کرام کے
تابع و خادم ہیں، مخدوم اپنے خدام کو ایسے الفاظ سے تعبیر کرسکتے ہیں اور
مطلب یہ ہے جو ہم نے واضح کیا وﷲ الحمد۔
(۷)اس ساری تحریر میں مجھے آپ سے اس فقرے کا زیادہ تعجب ہوا کہ حضرت عبداﷲ
بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آسمان کے سکون فی مکانہ کی تصریح فرمادی
مگر زمین کے بارے میں ایسا نہ فرمایا، خاموشی فرمائی، اسے آپ نے اپنی مشکل
کا حل تصور کیا۔ کعب احبا رنے آسمان ہی کا گھومنا بیان کیا تھا اور یہود
اسی قدر کے قائل تھے زمین کو وہ بھی ساکن مانتے تھے بلکہ ۱۵۳۰ء سے پہلے (جس
میں کوپرنیکس نے حرکت زمین کی بدعت ضالہ کو کہ دو ہزار برس سے مردہ پڑی تھی
جِلایا) نصارٰی بھی سکون ارض ہی کے قائل تھے، اسی قدر یعنی صرف دورہ آسمان
کا ان حضرات عالیات کے حضور تذکرہ ہوا اس کی تکذیب فرمادی۔ دورہ زمین کہا
کس نے تھا کہ اس کا ردّ فرماتے، اگر کوئی صرف زمین کا دورہ کہتا صحابہ اسی
آیتہ کریمہ سے اُس کی تکذیب کرتے اور اگر کوئی آسمان و زمین دونوں کا دورہ
بتاتا، صحابہ اسی آیت سے دونوں کا ابطال فرماتے جواب بقدر سوال دیکھ لیا یہ
نہ دیکھا کہ جس آیت سے وہ سند لائے اس میں آسمان وزمین دونوں کا ذکر ہے ،
یا صرف آسمان کا ، آیت پڑھیے صراحتاً دونوں ایک حالت پر مذکور ہیں دونوں پر
ایک ہی حکم ہے۔ جب حسب ارشادِ صحابہ آیہ کریمہ مطلق حرکت کا انکار فرماتی
ہے اور وہ انکار آسمان و زمین دونوں کے لیے ایک نسق ایک لفظ ان تزولا میں
ہے جس کی ضمیر دونوں کی طرف ہے تو قطعاً آیت نے زمین کی بھی ہر گو نہ حرکت
کو باطل فرمایا جس طرح آسمان کی، ایک شخص کہے حضرت سیدنا یوسف علیہ الصلوۃ
والسلام نے آفتاب کو اپنے لیے سجدہ کرتے نہ دیکھا تھا اس پر عالم فرمائے وہ
جھوٹا ہے۔
آیہ کریمہ میں ہے:انی رأیت احد عشر کو کباً والشمس والقمر راٰیتھم لی
ساجدین ۱۔میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو اپنے لیے سجدہ کرتے
دیکھا۔
( ۱ ؎القرآن الکریم ۱۲/ ۴ )
اس کے بعد ایک دوسرا اُٹھے اور چاند کو ساجد دیکھنے سے منکر ہو اور کہے
قربان جائیے عالم نے سورج کے سجدہ کی تصریح فرمائی مگر چاند کے بارے میں
ایسا نہ فرمایا : خاموشی فرمائی اسے کیا کہا جائے گا، اب تو آپ نے خیال
فرمالیا ہوگا کہ قائل حرکت ارض کو اجلہ صحابہ کرام بلکہ خود صاف ظاہر نصِ
قرآن عظیم سے گریز کے سوا کوئی چارہ نہیں، اور یہ معاذ اﷲ خُسر انِ مبین ہے
جس سے اللہ تعالٰی ہمیں اور آپ اور سب اہلسنت کو بچائے۔ آمین۔
(۸) عجب کہ آپ نے آفتاب کا زوال نہ سُنا، اسے تو میں نے آپ سے بالمشافہ کہہ
دیا تھا ۔
(ا) حدیثوں میں کتنی جگہزالت الشمس ( سورج ڈھل گیا۔ت) ہے بلکہ قرآن عظیم
میں ہے:اقم الصلٰوۃ لدلوک الشمس ۔۱نماز قائم کرو سورج ڈھلتے وقت ۔(ت)
( ۱ ؎القرآن الکریم ۱۷/ ۷۸ )
تفسیر ابن مردویہ میں امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے نبی
کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے لدلوک الشمس کی تفسیر میں فرمایا :لزوال
الشمس ۔۲( ۲ ؎الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور (بحوالہ ابن مردویہ ) تحت
آیۃ ۱۷/ ۷۸ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۸۰ )
ابن جریر نے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی رسول اللہ
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:اتانی جبرئیل لدلوک الشمس حین زالت
فصلی بی الظھر ۔۳میرے پاس جبرائیل آئے جب سورج ڈھل گیا توآپ نے میرے ساتھ
نماز ظہرپڑھی ۔
( ۳ ؎ جامع البیان (تفسیر ابن جریر) تحت آیۃ ۱۷/ ۷۸ داراحیاء التراث العربی
بیروت ۱۵/ ۱۵۸)
نیز ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے:کان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم یصلی الظھر اذازالت الشمس، ثم تلااقم الصلوۃ لدلوک الشمس۴ ۔رسول
اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظہر کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل
جاتا۔ پھر ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ آیتِ کریمہ پڑھی کہ سورج
ڈھلتے وقت نماز قائم کرو۔(ت)
(۴ ؎ جامع البیان (تفسیر ابن جریر) تحت آیۃ ۱۷/ ۷۸ داراحیاء التراث العربی
بیروت ۱۵/ ۱۵۸)
نیز مثل سعید ابن منصور عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے:دلوکہا
زوالہا۵ ( سورج کے دلوک کا معنی اس کا زوال ہے۔ت)
( ۵؎ الدرالمنثور بحوالہ سعید بن منصور وابن جریر تحت آیۃ ۱۷/ ۷۸ داراحیاء
التراث العربی بیروت ۵/ ۲۸۱)
بزار و ابو الشیخ و ابن مردویہ نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما
سے ۔ دلوک الشمس زوالھا ۔۱(سورج کے دلوک کا معنی اس کا زوال ہے۔ت)
( ۱ ؎ الدرالمنثور بحوالہ البزار وابی الشیخ وابن مردویہ تحت آیت ۱۷/ ۷۸
داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۸۰)
عبدالرزاق نے مصنف میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے :دلوک الشمس اذا
زالت عن بطن السماء ۔۲سورج کا دلوک یہ ہے کہ جب وہ آسمان کے بطن سے ڈھل
جائے (ت)
( ۲ ؎ المنصف لعبدالرزاق حدیث ۲۰۴۰ المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۵۳۸)
مجمع بحارالانوار میں ہے:زاغت الشمس مالت وزالت علی اعلٰی درجات ارتفاعھا
۔۳زاغت الشمس کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنی بلندی کے اعلٰی درجے سے ڈھل گیا(ت)
( ۳ ؎ مجمع بحار الانوار باب الزاء مع الیاء مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ
۲/ ۴۵۶)
فقہ میں وقتِ زوال ہر کتاب میں مذکور اور عوام تک کی زبانوں پر مشہور ۔ کیا
اس وقت آفتاب اپنے مدار سے باہر نکل جاتا ہے اور احسن الخالقین جل و علا نے
جہاں تک کی حرکت کا اسے امکان دیا ہے اس سے آگے پاؤں پھیلاتا ہے؟ حاشا !
مدار ہی میں رہتا ہے اور پھر زوال ہوگیا۔ یونہی زمین اگر دورہ کرتی ضرور
اسے زوال ہوتا اگرچہ مدار سے نہ نکلتی، اس پر اگر یہ خیال جائے کہ ایک جگہ
سے دوسری جگہ سِرکنا تو آفتاب کو ہر وقت ہے پھر ہر وقت کو زوال کیوں نہیں
کہتے، تو یہ محض جاہلانہ سوال ہوگا۔ وجہ تسمیہ مطرد نہیں ہوتی۔ کتب میں یہ
مشہور حکایت ہے کہ مطر د ماننے والے سے پوچھا جرجیر یعنی چینے کو کہ ایک
قسم کا اناج ہے جرجیر کیوں کہتے ہیں۔ کہا لانہ یتجرجر علی الارض اس لیے کہ
وہ زمین پر جنبش کرتا ہے کہا تمہاری داڑھی کو جرجیر کیوں نہیں کہتے یہ بھی
تو جنبش کرتی ہے۔ قارورے کو قارورہ کیوں کہتے ہیں، کہا لان الماء یقرفیھا
اس لیے کہ اس میں پانی ٹھہرتا ہے کہا تمہارے پیٹ کو قارورہ کیوں نہیں کہتے
اس میں بھی تو پانی ٹھہرتا ہے۔ یہاں تین ہی موضع ممتاز تھے افق شرقی و غربی
و دائرہ نصف النہار، ان سے سرکنے کا نام طلوع و غروب رکھا کہ یہی انسب
ووجہِ تمایز تھا اور اس سے تجاوز کو زوال کہا اگرچہ جگہ سے زوال آفتاب کو
بلاشبہ ہر وقت ہے کریمہ والشمس تجری لمستقر لھا میں عبداﷲ ابن مسعود رضی
اللہ تعالٰی عنہ کی قراء ت ہے لا مستقرلھا یعنی سورج چلتا ہے کسی وقت اسے
قرار نہیں۔ اوپر گزرا کہ قرار کا مقابل زوال ہے، جب کسی وقت قرار نہیں تو
ہر وقت زوال ہے اگرچہ تسمیہ میں ایک زوال معین کا نام زوال رکھا، غرض کلام
اس میں ہے کہ احادیث مرفوعہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و آثار
صحابہ کرام و اجماع اہل اسلام نے آفتاب کا اپنے مدار میں رہ کر ایک جگہ سے
سرکنے کو زوال کہا اگر زمین متحرک ہوتی تو یقیناً ایک جگہ سے اس کا سرکنا
ہی زوال ہوتا اگر چہ مدار سے باہر نہ جاتی لیکن قرآن عظیم نے صاف ارشاد میں
اُس کے زوال کا انکار فرمایا ہے تو قطعاً واجب کہ زمین اصلاً متحرک نہ ہو۔
(ب) بلکہ خود یہی زوال کہ قرآن و حدیث و فقہ و زبان جملہ مسلمین سب میں
مذکور قائلانِ دورہ زمین اسے زمین ہی کا زوال کہیں گے کہ وہ حرکتِ یومیہ
اُسی کی جانب منسوب کرتے ہیں۔یعنی آفتاب یہ حرکت نہیں کرتا بلکہ زمین اپنے
محور پر گھومتی ہے جب وہ حصّہ جس پر ہم ہیں گھوم کر آفتاب سے آڑ میں ہوگیا
رات ہوئی۔ جب گھوم کر آفتاب کے سامنے آیا کہتے ہیں آفتاب نے طلوع کیا۔
حالانکہ زمین یعنی اُس حصہ ارض نے جانبِ شمس رُخ کیا جب اتنا گھوما کہ
آفتاب ہمارے سروں کے محاذی ہوا یعنی ہمارا دائرہ نصف النہار مرکز شمس کے
مقابل آیا دوپہر ہوگیا جب زمین یہاں سے آگے بڑھی دوپہر ڈھل گیا کہتے ہیں
آفتاب کو زوال ہوا حالانکہ زمین کو ہوا ، یہ اُن کا مذہب ہے اور صراحۃً
قرآن عظیم کا مکذب و مکذب ہے۔ مسلمین تو مسلمین، بیروت وغیرہ کے سفہائے
قائلان حرکت ارض بھی جن کی زبان عربی ہے اس وقت کو وقت زوال اور دھوپ گھڑی
کو مزولہ کہتے ہیں یعنی زوال پہچاننے کا آلہ۔ اور اگر اُن سے کہے کیا شمس
زوال کرتا ہے؟ کہیں گے: نہیں بلکہ زمین ، حالانکہ وہ مدار سے باہر نہ گئی۔
تو آپ کی تاویل موافقین و مخالفین کسی کو بھی مقبول نہیں۔
(ج) اوروں سے کیا کام ، آپ تو بفضلہ تعالٰی مسلمان ہیں، ابتدائے وقت ظہر
زوال سے جانتے ہیں، کیا ہزار بار نہ کہا ہوگا کہ زوالِ کا وقت ہے، زوال
ہونے کو ہے، زوال ہوگیا۔ کاہے سے زوال ہوا، دائرہ نصف النہار سے۔ کس کا
زوال ہوا آپ کے نزدیک زمین کا کہ اُسی کی حرکت محوری سے ہوا۔ حالانکہ اﷲ
تعالٰی عزوجل فرماتا ہے کہ زمین کو زوال نہیں، اب خود مان کر کہ زمین متحرک
ہو تو روزانہ اپنے مدار کے اندر ہی رہ کر اسے زوال ہوتا ہے دنیا سے ، زوال
کفار پیش کرنے کا کیا موقع رہا، انصاف شرط ہے اور قرآن عظیم کے ارشاد پر
ایمان لازم وباﷲ التوفیق۔
(د) یہاں سے بحمدہ تعالٰی حضرت معلّم التحیات رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اُس
ارشاد کی خوب توضیح ہوگئی کہ صرف حرکتِ محوری زوال کو بس ہے۔
(۹) بحمدﷲ تین آیتیں یہ گزریں:
آیت ۱:ان اﷲ یمسک۱(۱ القرآن الکریم ۳۵/ ۴۱)
آیت ۲:ولئن زالتا۲(۲ القرآن الکریم ۳۵/ ۴۱)
آیت ۳:لدلوک الشمس۳ (۳ القرآن الکریم ۱۷/ ۷۸)
آیت ۴:فلما افلت ۔۴ ( پھر جب وہ ڈوب گیا۔ت)
(۴ القرآن الکریم ۶/ ۷۸)
آیت ۵:وسبّح بحمدربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب۵ (۵ القرآن الکریم ۵۰/
۳۹)
اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو۔ سورج چمکنے سے پہلے
اورڈوبنے سے پہلے (ت)
آیت ۶:وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا۶ ۔اور اپنے رب کو سراہتے
ہوئے اس کی پاکی بولو۔ سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے(ت)
(۶ القرآن الکریم ۲۰/ ۱۳۰)
آیت۷:حتّٰی اذا بلغ مطلع الشمس وجدھا تطلع علی قوم لم نجعل لھم من دونھا
سترا ۷۔یہاں تک کہ سور ج نکلنے کی جگہ پہنچا اُسے ایسی قوم پر نکلتا پایا
جن کے لیے ہم نے سورج سے کوئی آڑ نہیں رکھی (ت)
(۷ القرآن الکریم ۱۸/ ۹۰)
آیت ۸: وتری الشمس اذا طلعت تزٰ ور عن کھفھم ذات الیمین واذا غربت تقرضھم
ذات الشمال وھم فی فجوۃ منہ ذٰ لک من اٰیتِ اﷲ۸تو آفتاب کو دیکھے گا جب
طلوع کرتا ہے ان کے غار سے دہنی طرف مائل ہوتا ہے اور جب ڈوبتا ہے ان سے
بائیں طرف کترا جاتا ہے حالانکہ وہ غار کے کھلے میدان میں ہیں، یہ قدرتِ
الہی کی نشانیوں سے ہیں۔(ت)
(۸ القرآن الکریم ۱۸/ ۱۷ )
یونہی صدہا احادیث ارشاد سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خصوصاً حدیث
صحیح بخاری ابو ذر رضی اللہ تعالٰی عنہ :قال النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ
لابی ذرحین غربت الشمس اتدری این تذھب قلت اﷲ ورسولہ اعلم قال فانھا تذھب
حتی تسجد تحت العرش فتستأذن فیؤذن لھا ویو شک ان تسجدفلایقبل منھا وتستأذن
فلا یؤذن لھا یقال لھا ارجعی من حیث جئت فتطلع من مغربھا فذلک قولہ
تعالٰیوالشمس تجری لمستقرلھا ذٰلک تقدیر العزیز العلیم۔۱نبی کریم صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کو فرمایا جب کہ
سورج غروب ہوچکا تھا کیا تم جانتے ہو کہ سورج کہاں جاتا ہے؟ حضرت ابوذر
کہتے ہیں میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں تو آپ نے
فرمایا : وہ جاتا ہے تاکہ عرش کے نیچے سجدہ کرے۔ چنانچہ وہ اجازت طلب کرتا
ہے تو اس کو اجازت دے دی جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے ، وہ سجدہ اس کی
طرف سے قبول نہ کیا جائے اور وہ اجازت طلب کرے تو اس کو سجدہ کرنے کی اجازت
نہ دی جائے اور اسے کہا جائے کہ تو لوٹ جہاں سے آیا ہے۔ پھر وہ مغرب سے
طلوع ہوگا۔ یہی معنی ہے اللہ تعالٰی کے ارشاد کا اور سورج چلتا ہے اپنے ایک
ٹھہراؤ کے لیے ،یہ حکم ہے زبردست علم والے کا۔(ت)
(۱صحیح البخاری کتاب بدء الخلق باب صفۃ الشمس والقمر بحسبان الخ قدیمی کتب
خانہ کراچی ۱/ ۴۵۴)
یونہی ہزار ہا آثارِ صحابہ عظام و تابعین کرام و اجماعِ امت جن سب میں ذکر
ہے کہ آفتاب طلوع و غروب کرتا ہے آفتاب کو وسطِ سماء سے زوال ہوتا ہے آفتاب
کی طرح روشن دلائل ہیں کہ زمین ساکن محض ہے بدیہی ہے اور خود مخالفین کو
تسلیم کہ طلوع و غروب و زوال نہیں مگر حرکت یومیہ سے تو جس کے یہ احوال ہیں
حرکت یومیہ اسی کی حرکت ہے تو قرآن عظیم و احادیث متواترہ و اجماعِ امت سے
ثابت کہ حرکت یومیہ حرکت شمس ہے نہ کہ حرکتِ زمین ، لیکن اگر زمین حرکتِ
محور کرتی تو حرکت یومیہ اسی کی حرکت ہوتی جیسا کہ مزعوم مخالفین ہے تو
روشن ہوا کہ زعم سائنس باطل و مردود ہے۔ پھر شمس کی حرکت یومیہ جس سے طلوع
وغروب وزوال ہے ۔ نہ ہوگی مگر یوں کہ وہ گرد زمین دورہ کرتا ہے تو قرآن و
حدیث و اجماع سے ثابت ہوا کہ آفتاب حولِ ارض دائرہ ہے، لاجرم زمین مدارشمس
کے جوف میں ہے ،تو ناممکن ہے کہ زمین گردِ شمس دورہ کرے اور آفتاب مدارِ
زمین کے جوف میں ہو تو بحمداﷲ تعالٰی آیاتِ متکاثرہ و احادیث متواترہ و
اجماع امت طاہرہ سے واضح ہوا کہ زمین کی حرکت محوری و مداری دونوں باطل ہیں
وﷲ الحمد، زیادہ سے زیادہ مخالف یہاں یہ کہہ سکتا ہے کہ غروب تو حقیقہً شمس
کے لیے ہے کہ وہ غیبت ہے اور آفتاب ہی اس حرکت زمین کے باعث نگاہ سے غائب
ہوتا ہے اور زوال حقیقتہً زمین کے لیے ہے کہ یہ ہٹتی ہے نہ کہ آفتاب اور
طلوع حقیقۃً کسی کے لیے نہیں کہ طلوع صعود اور اوپر چڑھنا ہے۔
حدیث میں ہے:لکل حد مطلع ۔۱ ( ہر حد کے لیے چڑھنے کی جگہ ہے۔ت)
(۱ اتحاف السادۃ المتقین کتاب آداب تلاوۃ القرآن الباب الرابع
دارالفکربیروت ۴/ ۵۲۷)
نہایہ و درنثیر و مجمع البحارو قاموس میں ہے:ای مصعد یصعد الیہ من عرفۃ
علمیہ ۔۲
یعنی چڑھنے کی جگہ جس کی طرف وہ اپنی علمی معرفت کے ساتھ چڑھتا ہے۔(ت)
( ۲ ؎ القاموس المحیط باب العین فصل الطاء مصطفٰی البابی مصر ۳/ ۶۱)
نیز ثلاثۃ اصول تاج العروس میں ہے :مطلع الجبل مصعدہ۳(پہاڑ کا مطلع اس پر
چڑھنے کی بلند جگہ ہے ۔ت)
(۳ ؎تاج العروس شرح القاموس باب العین فصل الطاء داراحیاء الثرات العربی
بیروت ۵/ ۴۴۲)
حدیث میں ہے :طلع المنبر ۔۴ ( منبر پر چڑھا۔ ت)
(۴ ؎ مجمع بحار الانوار باب الطاء مع اللام مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ
۳/ ۴۵۹)
مجمع البحار میں ہے:ای علاہ ۵(یعنی اس کے اوپر چڑھا ت)
(۵ ؎ مجمع بحار الانوار باب الطاء مع اللام مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ
۳/ ۴۵۹)
ظاہر ہے کہ زمین آفتاب پر نہیں چڑھتی، اور مخالف کے نزدیک آفتاب بھی اس وقت
زمین پر نہ چڑھا کہ طلوع اس کی حرکت سے نہیں لاجرم طلوع سرے سے باطل محض ہے
مگر مکان زمین کو حرکت میں محسوس نہیں ہوتی۔ انہیں وہم گزرتا ہے کہ آفتاب
چلتا، ڈھلتا ہے لہذا طلوع و زوال الشمس کہتے ہیں۔ یہ کوئی کافر کہہ سکے ۔
مسلمان کیونکر وہ روا رکھ سکے کہ جاہلانہ وہم جو لوگوں کو گزرتا ہے قرآن
عظیم بھی معاذ اﷲ اسی وہم پر چلا ہے اور واقع کے خلاف طلوع و زوال کو آفتاب
کی طرف نسبت فرمادیا ہے۔
والعیاذ باﷲ تعالٰی ، لاجرم مسلمان پر فرض ہے کہ حرکت شمس و سکونِ زمین پر
ایمان لائے واﷲ الہادی۔
(۱۰) سورہ طٰہ وسورہ زخرف دو جگہ ارشاد ہوا ہے: الذی جعل لکم الارض مھدا
۔۱وہ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا کیا۔(ت)
(۱ ؎ القرآن الکریم ۲۰/۵۳ و ۴۳/۱۰ )
دونوں جگہ صرف کوفیوں مثل امام عاصم نے جن کی قراء ت ہند میں رائج ہے مھداً
پڑھا، باقی تمام ائمہ قراء ت نے مھٰدًا بزیادتِ الف۔ دونوں کے معنی ہیں
بچھونا۔ جیسے فرش و فراش یونہی مھدومھاد ۔
(۱) پس قراء ت عام ائمہ نے قراء ت کو فی تفسیر فرمادی کہ مھد سے مراد فرش
ہے مدارک شریف سورہ طہ میں ہے:(مھدا)کوفی وغیر ھم مھادا وھما لغتان لما
یبسط ویفرش ۔۲
(مھداً ) یہ کوفیوں کی قراء ۃ ہے ان کے غیر مھاداً پڑھتے ہیں، یہ دونوں
لغتیں ہیں، اس کا معنی ہے وہ شے جس کو بچھایا جاتاہے اور بچھونا بنایا جاتا
ہے ۔(ت)
(۲ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر نسفی ) تحت آیۃ ۲۰/ ۵۳ دارالکتاب العربی بیروت
۳/ ۵۵)
اُسی کی سورہ زخرف میں ہے:(مھداً)کوفی وغیرہ مھاداً ای موضوع قرار ۔۳
( مھداً ) کو فی قراء ۃ ہے اور ان کے غیر کی قراء ۃ مِھاداً ہے یعنی قرار
کی جگہ (ت)
(۳؎ مدارک التنزیل (تفسیر نسفی) تحت آیۃ ۲۰/ ۵۳ دارالکتاب العربی بیروت
۴/۱۱۴)
معالم شریف میں ہے :قرأ اھل الکوفۃ مھداً ھٰھنا وفی الزخرف فیکون مصدرًا ای
فرشاً و قرا الاخرون مھادا کقولہ تعالٰیالم نجعل الارض مھاداای فراشاوھو
اسم مایفرش کالبساط ۔۴اہل کوفہ نے یہاں سورہ زخرف میں مھداپڑھا ہے اور
دوسروں نے مھاداپڑھا ہے جیسے اللہ تعالی کاقول "کیاہم نے زمین کو مھاد نہیں
بنایا یعنی فراش ،وہ اس چیز کانام ہے جسے بچھایا جاتاہے جیسے بچھونا(ت)
(۴؎ معالم التنزیل (تفسیر بغوی ) تحت آیۃ ۲۰/ ۵۳ دارالکتاب العلمیہ بیروت
۳/ ۱۸۶)
تفسیر ابن عباس میں دونوں جگہ ہے : (مھدا) فراشا۱(یعنی بچھونا ۔ت)
(۱ ؎ تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس تحت آیۃ ۲۰/ ۵۳ و ۴۳/ ۱۰ مکتبہ سرحد
مردان ص ۱۹۵ و ۳۰۴ )
نیز یہی مضمون قرآن عظیم کی بہت آیات میں ارشاد ہے،فرماتاہے:الم نجعل الارض
مھادا ۲کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہ کیا ،(ت)
(۲ ؎ القرآن الکریم ۷۸/۶ )
فرماتاہے :والارض فرشنھا فنعم الماھدون ۳اور زمین کوہم نے فرش کیا تو ہم
کیا ہی اچھا بچھانے والے ہیں (ت)
فرماتا ہے :واللہ جعل لکم الارض بساطا۔۴اور اﷲ تعالٰی نے تمہارےلیے زمین
کو بچھونا بنایا۔(ت)
فرماتا ہے: الذی جعل لکم الارض فراشا ۔۵جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا
بنایا۔(ت)
اور قرآن کی بہتر تفسیر وہ ہے کہ خود قرآن کریم فرمائے۔
(۳ ؎ القرآن الکریم ۵۱/۴۸ ) (۴ ؎ القرآن الکریم ۷۱/۱۹ ) (۵ ؎ القرآن الکریم
۲/۲۲)
(ب) بچے ہی کا مہد ہو تو وہ کیا اس کے بچھونے کو نہیں کہتے ، جلالین سورہ
زخرف میں ہے:مھاداً فراشاً کا لمھد للصبی ۔۶ (مھاداً) بچھونا جیسے بچوں کے
لیے گہوارہ (ت)
(۶؎تفسیر جلالین تحت آیۃ ۴۳/ ۱۰ مطبع مجتبائی دہلی نصف دوم ص ۴۰۴)
لاجرم حضرت شیخ سعدی و شاہ ولی اﷲ نے مھداً کا ترجمہ طٰہ میں فرش اور زخرف
میں بساط ہی کیا اور شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر نے دونوں جگہ
بچھونا۔
(ج) گہوارہ ہی لو تو اس سے تشبیہ آرام میں ہوگی نہ کہ حرکت میں، ظاہر کہ
زمین اگر بفرض باطل جنبش بھی کرتی تو اس سے نہ ساکنوں کو نیند آتی ہے نہ
گرمی کے وقت ہوا لاتی تو گہوارہ سے اسے بحیثیت جنبش مشابہت نہیں تو بحیثیت
آرام و راحت ہے۔ خود گہوارہ سے اصل مقصد یہی ہے، نہ کہ ہلانا، تووجہِ شبہ
وہی ہے نہ یہ۔ لاجرم اسی کو مفسرین نے اختیار کیا۔
(د) لطف یہ کہ علماء نے اس تشبیہ مہد سے بھی زمین کا سکون ہی ثابت کیا
بالکل نقیض اس کا جو آپ چاہتے ہیں، تفسیر کبیر میں ہے:کون الارض مھداانما
حصل لاجل کونھا واقفۃ ساکنۃ ولما کان المہد موضع الراحۃ للصبی جعل الارض
مھدا لکثرۃ ما فیھامن الراحات۱؎زمین کاگہوارہ ہونا اس کے ٹھہرنےاور ساکن
ہونے کی وجہ سے حاصل ہو ا، اورجب گہوارہ بچے کے لیے راحت کی جگہ ہے تو زمین
کواس لیے گہوارہ قرار دیا گیا کہ اس میں کئی طرح متعدد راحتیں موجود
ہیں۔(ت)
(۱؎ مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر) تحت آیۃ ۴۳/۱۰ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر
۲/ ۱۹۶)
خازن میں ہے:(جعل لکم الارض مھدا )معناہ واقفۃ ساکنۃ یمکن الانتفاع بھا
ولما کان المہد موضع الراحۃ للصبی فلذلک سمی الارض مھادا لکثرۃ ما فیھامن
الراحۃ للخلق ،۲ ؎
( تمہارے لیے زمین کوگہوارہ بنایا) اس کا معنی ہے کہ وہ ٹھہری ہوئی پرسکون
ہے جس سے نفع اٹھانا ممکن ہے۔ جب کہ گہوارہ بچے کے لیے راحت کی جگہ ہے تو
اسی لیے زمین کا نام گہوارہ رکھا گیاہے کیونکہ اس میں مخلوق کے لیے کثیر
راحتیں موجود ہیں۔(ت)
( ۲؎لباب التاویل فی معانی التنزیل (تفسیر خازن) تحت آیۃ ۴۳/۱۰ دارالکتب
العلمیہ بیروت ۴/ ۱۰۶)
خطیب شربنیی پھر فتوحاتِ الہٰیہ میں زیرِ کریمہ زخرف ہے:ای لوشاء لجعلھا
متحرکۃ فلا یمکن الا نتفاع بھا فالانتفاع بہا انما حصل لکونھا مسطحۃ قارۃ
ساکنۃ ۳
یعنی اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو زمین کو متحرک بناتا جس سے نفع حاصل کرنا
ممکن نہ ہوتا۔نفع تو اس سے اس صورت میں حاصل ہوا کہ وہ ہموار، قرار پکڑنے
والی اور ساکن ہے۔(ت)
( ۳ ؎الفتوحات الالہیہ (جمل ) تحت آیۃ ۴۳/۱۰ مصطفٰی البابی مصر ۴/۷۷)
اس ارشادِ علماء پر کہ زمین محترک ہوتی تو اس سے انتفاع ہوتا۔ کاسہ لیسان
فلسفہ جدیدہ کو اگر یہ شُبہ لگے کہ اس کی حرکت محسوس نہیں۔ تو اُن سے کہیے
یہ تمہاری ہوس خام ہے۔ فوزمبین دیکھئے ہم نے خود فلسفہ جدیدہ کے مسلمّاتِ
عدیدہ سے ثابت کیا ہے کہ اگر زمین متحرک ہوتی جیسا وہ مانتے ہیں تو یقینا
اس کی حرکت ہر وقت سخت زلزلہ اور شدید آندھیاں لاتی، انسان حیوان کوئی اس
پر نہ بس سکتا۔ زبان سے ایک بات ہانک دینا آسان ہے مگر اس پر جو قاہر رَد
ہوں اُن کا اٹھانا ہزار ہا بانس پیراتا ہے۔
(۱۱) دیباچہ میں جو آپ نے دلائل حرکت زمین کتب انگریزی سے نقل فرمائے
الحمدﷲ ان میں کوئی نام کو تام نہیں سب پا در ہوا ہیں۔ زندگی بالخیر ہے تو
آپ اِن شاء اﷲ تعالٰی ان سب کا ر َدِّ بلیغ فقیر کی کتاب فوزمبین کی فصل
چہارم میں دیکھیں گے بلکہ وہ آٹھ سطریں جو میں نے اول میں لکھ دی ہیں کہ
یورپ والوں کو طرز استدلال اصلاً نہیں آتا انہیں اثباتِ دعوٰی کی تمیز
نہیں، ان کے اوہام جن کو بنامِ دلیل پیش کرتے ہیں یہ یہ علتیں رکھتے ہیں۔
منصف ذی فہم مناظرہ داں کے لیے وہی ان کے رد میں بس ہیں کہ دلائل بھی انہیں
علتوں کے پابند ہوس ہیں اور بفضلہ تعالٰی آپ جیسے دیندار و سنی مسلمان کو
تو اتنا ہی سمجھ لینا کافی ہے کہ ارشاد قرآن عظیم و نبی کریم علیہ افضل
الصلوۃ والتسلیم و مسئلہ اسلامی واجماعِ امتِ گرامی کے خلاف کیونکر کوئی
دلیل قائم ہوسکتی، اگر بالفرض اس وقت ہماری سمجھ میں اس کا رَد نہ آئے جب
بھی یقیناً وہ مردود اور قرآن و حدیث و اجماع سچے۔ یہ ہے بحمداﷲ شانِ
اسلام۔
محب فقیر ! سائنس یوں مسلمان نہ ہوگی کہ اسلامی مسائل کو آیات و نصوص میں
تاویلات ودرازکار کرکے سائنس کے مطابق کرلیا جائے۔ یوں تو معاذ اللہ اسلام
نے سائنس قبول کی نہ کہ سائنس نے اسلام، وہ مسلمان ہوگی تو یوں کہ جتنے
اسلامی مسائل سے اُسے خلاف ہے سب میں مسئلہ اسلامی کو روشن کیا جائے دلائلِ
سائنس کو مردود و پامال کردیا جائے جا بجا سائنس ہی کے اقوال سے اسلامی
مسئلہ کا اثبات ہو، سائنس کا ابطال و اسکات ہو، یوں قابو میں آئے گی۔ اور
یہ آپ جیسے فہیم سائنس داں کو باذنہ تعالٰی دشوار نہیں آپ اُسے بچشم پسند
دیکھتے ہیں۔وعین الرضاء عن کل عیب کلیلۃ ۔۱
(رضا مندی کی آنکھ ہر عیب کو دیکھنے سے عاجز ہوتی ہے۔ ت)
( ۱ ؎ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/
۴۸۸)
اُس کے معائب مخفی رہتے ہیں مولٰی عزوجل کی عنایت اور حضور سیدعالم صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اعانت پر بھروسہ کرکے اس کے دعاوی باطلہ مخالفہ
اسلام کو بنظرِ تحقیر و مخالفت دیکھئے، اس وقتان شاء اللہ العزیز القدیراس
کی ملمع کاریاں آپ پر کھلتی جائیں گی اور آپ جس طرح اب دیوبندیہ مخذولین پر
مجاہد ہیں یونہی سائنس کے مقابل آپ نصرتِ اسلام کے لیے تیار ہوجائیں گے
کہ۔ولٰکن عین السخط تبدی المساویا۔۱
(لیکن ناراضگی کی آنکھ عیبوں کو عیاں کرتی ہے ۔ت)
( ۱ ؎ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث ۳۶۶۳ دارالکتب العلمیۃ
بیروت ۳/ ۴۸۸)
مولوی قدس سرہ المعنوی فرماتے ہیں:۔دشمن راہِ خدا را خوار دار دُزد رامنبر
منہ بردار دار ۲؎
(اللہ تعالٰی کے راستے کے دشمن کو ذلیل رکھ، چور کے لیے منبر مت بچھا بلکہ
اس کو سُولی پر رکھ۔ت)
(۲ ؎ مثنوی معنوی رجوع بحکایت زاہد باغلام امیردفتر پنجم موسسۃ انتشارات
اسلام لاہور ص ۳۵۱ )
ربِ کریم بجاہ نبی رؤف رحیم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم ہمیں اور آپ اور
ہمارے بھائیوں اہلِ سنت خادمانِ ملت کو نصرتِ دین حق کی توفیق بخشے اور
قبول فرمائے۔آمین
الٰہ الحق اٰمینواعف عنّا واغفرلنا وارحمنا انت مولٰینا فانصرنا علی القوم
الکفرینوالحمد للہ رب العلمین oوصلی اللہ تعالٰی علی سیدنا و مولٰینا محمد
واٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ اجمعینoاٰمین واﷲ تعالٰی اعلم
اے معبودِ برحق ! ہماری دُعا قبول فرما، اور ہمیں معاف فرمادے اور بخش دے
اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہمارا مولٰی ہے۔ تُو کافروں پر ہمیں مدد دے۔ اور
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔ اللہ تعالٰی درود نازل فرمائے
ہمارے آقا محمد مصطفٰی اور آپ کی آل ، اصحاب ، اولاد اور تمام اُمّت پر۔
آمین اور اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے۔(ت) |