تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حق و
باطل کے معرکے میں آخری جیت سچ کا مقدر بنتی ہے ۔ سچ کو شکست دینا،دبا دینا
یا روک دینا کسی بھی قوت کے لئے ممکن نہیں ہو تا۔ سچ د ھرتی کا سینہ چیر کر
نمو دار ہو جاتا ہے اور اپنے ہونے کی خود ہی گواہی بن جاتا ہے۔ہر حکمران کی
پہلی اور آخری خواہش یہی ہو تی ہے کہ اس کے دور کا ظلم و ستم اور جبر لوگوں
تک اس انداز میں پہنچے کہ تاریخ کے اوراق میں اسے ایک سفاک اور بے رحم
حکمران کی بجائے ایک عادل اور اصول پسند حکمران کی حیثیت سے یاد رکھا جائے
لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ حکمرانوں کی انتہائی کوشش کے باوجود سچ عوام کی
دہلیز پر پہنچ بھی جاتا تھا اور تاریخ کے سینے میں محفوظ بھی ہو جا تا تھا۔
سلطانوں ، بادشاہوں اور آمروں نے اپنے اپنے ادوار میں اپنی من پسند تاریخیں
لکھوانے کے بڑے حربے آزمائے لیکن وہ اصلی،سچی اور حقیقی تاریخ کو منظرِ عام
پر آنے سے نہ روک سکے۔سچائی کی تاریخ منظرِ عام پر کیسے آتی ہے اسے سمجھنا
بڑا کٹھن ہے کیو نکہ حاکمِ وقت کی منشاءاور مرضی کے خلاف لکھنا موت کو دعوت
دینے کے مترا دف ہوتا تھا لہذا کون سورما ہو گا جو اپنی موت کو صدائیں دے
کر خود اپنے پاس بلائے گا۔ فرض کر لیں کہ کسی نے اتنی جرات پیدا کر لی اور
اس بات کا عہد کر لیا کہ وہ سچ ہی لکھے گا اور سچ کے علاوہ کچھ نہیں لکھے
گا لیکن حاکمِ وقت اسے یہ سچ لکھنے کےلئے زندہ چھوڑے گا تو تبھی وہ سچ کی
داستان رقم کرے گا لہذا کسی کا یہ دعویٰ کرنا کہ وہ سچ کی تاریخ رقم کرے گا
حقیقت کا جامہ نہیں پہن سکتا تھا کیونکہ حاکمِ وقت اسے ایسا کرنے کےلئے
زندہ رہنے نہیں دیا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ
ہر دور کی سچی تاریخ ہمارے درمیان موجود ہے۔ ادباء،شعرا ، فلاسفرز ،دانشور
اور حکماءاپنے اپنے انداز میں سب کچھ رقم کرتے رہے اور سچ مختلف حوالوں،
طریقوں اور اندازوں سے انسانوں کی اگلی نسلوں کو منتقل ہو تا رہا اور جو آج
ایک انمول خزانے کی شکل میں ہمارے درمیان ہماری راہنمائی کے لئے موجود
ہے۔ہزاروں سالہ قدیم تاریخ نویسی پر عائد پابندیوں،قدغنوں اور رموز کو کو
آج کے آزادانہ معاشرے میں سمجھنا انتہائی مشکل ہے۔ایک طرف مذہب اور سا ئنس
کی باہمی کشمکش میں انسانوں نے آزادی اظہار کی خاطر جو قربانیاں دیں وہ
بیان سے باہر ہیں تو دوسری طرف ظلِ سبحانی کے تصور نے انسانیت کی تذلیل میں
کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ چکی کے ان دو پاٹوں کے درمیان انسان کےلئے نہ
جائے ماندن نہ پائے رفتن والی کیفیت تھی لیکن انسان نے پھر بھی آزادیوں اور
حق و صداقت کے اظہار کے سفر کو جاری و ساری رکھا جس کا عملی اظہار آج کی
دنیا میں آزاد میڈیا کی صورت میں جلوہ گر ہے اور جس سے آج کا انسان کافی حد
تک مستفید ہو رہا ہے۔۔
پاکستان میں بھی مارشل لائی ادوار میں ظلم و جبر کی ایسی ہی درد ناک ا
ورسفاک فضا کو جنم دیاہوا تھا جس میں سچ کے اظہار پر کڑے پہرے تھے اور مخا
لفین کو زندہ در گور کرنے کی روائت قائم کی گئی تھی۔ہر وہ شخص جس نے گردن
اٹھا کر چلنے کی کوشش کی یا آمریت کو للکارنے کی جسارت کی اسے تہہِ تیغ کر
کے رکھ دیا گیا تھا ۔عدلیہ، انتظامیہ اور فوجی جنتا اس کارِ خیر میں یک جان
تھی اور کسی بھی قسم کی رعائت دینے کے موڈ میں نہیں تھی لیکن پھر بھی کچھ
سر پھرے ایسے تھے جو وقفے وقفے سے حریت کے نعرے بلند کر کے جبر کی اس زہر
آلود فضا میں زندگی کی رمق پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے لیکن ان کا جو
حشر ہوتا تھا وہ بیان سے باہر ہے لیکن نجانے وہ کس مٹی سے بنے ہو ئے تھے کہ
اپنی سر فروشی سے باز نہیں آتے تھے اور آمریت کو للکارنے سے باز نہیں آتے
تھے۔ ان کی مثال ماہِ رمضان میں سحری کو جگانے والی ٹولیوں سے دی جا سکتی
ہے جو ماہِ صیام میں لوگوں کو جگانے کےلئے نغمہ سرا رہتی ہیں ۔ پاکستانی
عوام کی اکثریت ایسی آوازوں سے مانوس ہے جو وقفوں وقفوں سے گاتی ہوئی گزرتی
رہتی ہیں اور ہر گلی محلے میں سونے والوں کو جگانے کا فرض ادا کرتی رہتی
ہیں ایک کے بعد ایک ٹولی روزہ داروں کو جگانے کے فرض کا بیڑہ اٹھا ئے گزرتی
رہتی ہے اور روزہ داروں کو نیند سے بیدار کرنے کا فریضہ سر انجام دیتی رہتی
ہے ۔کچھ لوگ تو ان آوازوں سے اٹھ جاتے ہیں اور کچھ پر ان آوازوں کا کوئی
اثر نہیں ہوتا کیونکہ ان کی سوچ کا د ائرہ کسی اور سمت میں بہہ رہا ہوتا ہے
یا پھر انھوں نے اپنے آپ کو ایسے رنگ میں رنگ لیا ہو تا ہے جو ان آوازوں سے
اترتا نہیں ہے۔سر فروشوں کی قلبی کیفیت کو اردو ادب کے مست شاعر ساغر صدیقی
کی شعرہ آفاق غزل کا ایک مصرعہ بڑتے واشگاف الفاظ میں بیان کرتا ہے لہذا
اسے یہاں پر درج کر رہا ہوں تاکہ اس کیفیت کی وہ سچائی جو حق کے علمبرداروں
کے دلوں میں موجزن رہتی ہے اس کے اظہار کا کماحقہ حق ادا ہو سکے۔سوچتا ہوں
کہ اگر یہ سر پھرے محدودے چند لوگ معاشرے میں نہ ہو تے تو جبر کی سیاہ رات
کتنی لمبی ہوتی اور پھر پاکستان میں شخصی آزادیوں کی کیا درگت بنتی ۔ کہتے
ہیں کہ سب سے بڑا جہاد جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے اور پھر اگر
یہ سر پھرے لوگ نہ ہوتے تو عوام الناس اس حکم کی تعبیر کہاں سے پاتے ۔یہی
ہیں وہ لوگ جو ہر معاشرے کا حقیقی حسن ہو تے ہیں اور جن پر قومیں فخرو ناز
کیا کرتی ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ آمریت کے دور میں یہ لوگ معتوب ہوتے ہیں
اور اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتے رہتے ہیں لیکن آمریت کے سامنے سر نگوں
نہیں ہوتے۔سچائی سے ان کا رومانس اتنا شدید ہو تا ہے کہ ظاہری اذیتیں بھی
ان کی سچائی کی قوت کو پسپا نہیں کر سکتیں ۔ وہ اپنے لہو سے حریتوں کی
داستان رقم کرتے جاتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو وہ پھول تحفے میں دیتے چلے
جاتے ہیں جو خزاں نا آشنا ہو تے ہیں۔ ساغر صدیقی کے شعر کی جانب واپس آتے
ہیں کہ وہ اس سارے منظر نامے کو انتہائی خوبصورت اور دل آویز انداز میں
بیان کر رہا ہے۔
آﺅ پھر اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد
نہیں
تاریخ ہمیں بتا تی ہے کہ ظالم ٹولے کے اندر بھی شکست و ریخت کا عمل جاری و
ساری رہتا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اس گروہ کے چند افراد اپنے
ظلم و جبر کی داستانیں خود اپنی زبان سے عوام کو سناتے ہیں ۔ سوال پیدا
ہوتا ہے کہ کیا ان کے ضمیر میں کو ئی میکا نکی عمل سچ کے اظہار کے رویوں کو
ہوا دیتا ہے یا مکافاتِ عمل کا خوف ان سے ا یسے اعمال کو ظہور پذیر کرواتا
ہے کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ ممکن ہے کہ انسان جب بوڑھا ہو جاتا
ہے، اس پر موت کا خوف پوری شدت سے اپنا غلبہ قائم کر لیتا ہے اور اسے اپنی
زندگی کا چراغ بجھتا ہوا محسوس ہوتا ہے تو پھر اس گروہ کے چند افراد سچ کا
اظہار کر کے ،مخلوق سے معافی کے طلب گار بن کر توبہ کی راہ پر نکل جانے کا
فیصلہ کر لیتے ہوں ۔ نامہ اعمال جب نیکیوں سے بالکل خالی ہو، برائیوں کا
پلڑا بھاری ہواورموت کا فرشتہ جان قبض کر لینے کےلئے سامنے کھڑا ہو تو پھر
ایسا ہونا بعیدا ز وہم و گمان بھی نہیں ہو ناچائیے۔ مذہب کے معاملے میں تو
انسان بنیادی طور پر ہمیشہ کمزور واقع ہوا ہے لہذا وہ جوابدہی کے تصور سے
لرزاں اور خوف زدہ بھی رہتا ہے لہذا ایسے گروہ کے کچھ افراد کے سیاہ
کارناموں اور کرتوتوں کے اقرار کو توبہ کے ایک ایسے ہی اندازمیں لیا جا نا
چاہیے جو ان کے آخرت کے سفر کو آسان بنا سکے۔اسلام میں اپنے گناہوں کو قبول
کرنا، اس پر پچھتاوے کا اظہار کرنا اوراپنے سارے برے افعال کے نتائج کو
بھگتنے کےلئے آمادہ ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں ہو تی لہذا ظالم ٹولے میں
سے چند افراد کا اپنے گناہوں کا اقرار نا مہ اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے
۔اقرار نامے کی یہ راہ ہ بڑی مشکل اور خاردار ہوتی ہے کیونکہ اس راہ میں
جان جانے اور ساری آسائشات کو ترک کر دینے کے خطرات پو شیدہ ہوتے ہیں لیکن
حق کی آبیاری کی خاطر اگر کوئی پھر بھی اس مشکل راہ پر چلنے کا قصد کرتا ہے
تو سمجھ لیجئے کہ اس کے اندر ایک بہت بڑے انسان نے جنم لے لیا ہے۔تاریخ
ایسے باہمت انسانوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہے جنھوں نے اپنی لغزشوں سے توبہ
کر کے خود کو قانون و انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور ا پنے برے اعمال
سے توبہ کر کے نیکی اور حق پرستی کی راہ کا انتخاب کیا ۔علامہ اقبال کی
ابتدائی دور کی شاعری میں اس کیفیت کا مکمل ا ظہار پایا جاتا ہے ان کا ایک
شعر نقل کر رہا ہوں تا کہ بات بالکل صاف اور واضح ہو جائے۔
مو تی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لئے۔۔قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
انسان کے بارے میں تو حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کس لمحے کن
افعال کا اظہار کرے گا کیونکہ کبھی کبھی انتہائی پارساﺅں ،شرفاءاور نیک
انسانوں میں بے رحم غنڈوں اور کبھی کبھی انتہائی بد قماشوں،بے راہ رووں میں
انتہائی پارساﺅں کو جنم لیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ انسان ہی تو ایک ایسی
مخلوق ہے جسے اپنے فیصلے کرنے کا مکمل ا ختیار و ارادہ دیا گیا ہے، وہ چاہے
تو اپنے لئے جنت کی راہ کا انتخاب کر لے اور چاہے تو خود کو دوزخ کے سپرد
کر دے ۔ فیصلہ اسی کو کرنا ہے کہ اسے کس راہ پر چلنا ہے۔لہذا سچ کے اظہار
کو ہمیشہ اسی پیرا ئے میں لیا جانا چاہیے۔ یہ انسانوں کی ذ ہنی سوچ اور فکر
پر منحصر ہو تا ہے کہ انھیں کس وقت کس راز سے پردہ اٹھانا ہے ۔پردہ اٹھنے
کا منظر بھی بڑا عجیب و غریب ہو تا ہے اور جب یہ پردہ خود ظالم کی زبان سے
اٹھتاہے تو انسان ششدر رہ جاتا ہے ۔سچائی کے اس انوکھے اظہار سے مجرم،گناہ
گار، معتوب اور رائندہ درگاہ لوگ پلک جھپکنے میں ہیرو کی مسند پر جلوہ
افروز ہو جاتے ہیں اور فرشتہ خصلت انسانوں کی خود ساختہ عظمت خاک میں مل
جاتی ہے ۔پردہ اٹھتاہے تو پھر جھوٹ معدوم ہو جاتا ہے اور سچ اپنی پورہی تا
بانیوں سے ماحول کو روشن کر دیتا ہے ۔سچ کا ایک لمحہ صدیوں کے جھوٹ پر
بھاری ہوتا ہے۔ پاکستان میں سچ کے اظہارکی موجودہ روش مبنی بر حقیقت ہے یا
اس میں بھی در پردہ ہاتھوں کی کارستانیاں پوشیدہ ہیں ؟ |