موسم بہار کی آمداورنمائش گل کے موقع پر دہلی یونیورسٹی
کے دریچہ میں ’’انتردھونی‘‘ پروگرام کا انعقاد
اساتذہ اور طلبا برائے حصول علم ،ادب، ثقافت، تحقیق اور تربیت کیلئے خودی
کوبلند کریں ، نظم وضبط اورمحنت کی عادت ڈالیں:پروفیسر دنیش سنگھ
یورپ جب نیم وحشی تھا،مشرق میں علم ودانش کے چشمے ابل رہے تھے۔ یہ کہاوت
صدیوں پہلے مشرق کے فلسفیوں کے علمی نتیجہ فنی کمالات اوران کے بے مثال
کارناموں کا آئینہ ہے۔ لیکن مغربی استعماریت کے زیر اثرنگاہ تحقیق اور ذوق
جستجو کا محور جب مغربی علوم کی دریوزہ گری قرار پائی تو اپنوں سے بیگانگی
اور بے اعتنائی تقلیدی ذہنیت کی راہ نما بنی۔ مشرق کی تاریخ ساز شخصیتوں کے
علمی کارناموں کی داستان طویل ہے یہ کارنامے کیمیا، طبعیات مابعد الطبعیات،
حکمت وطبابت، فلسفہ ادب سیاست تاریخ شاعری علوم ریاض ہیئت ونجوم صنعت وحرفت
تہذیب اخلاق ومعاشرت مذہب تصوف اور اسرار کائنات کے مختلف پہلوؤں پر محیط
ہے۔ مشرق کے ارباب علم ودانش کو کبھی علوم وفنون کی گرہ کشائی کا اسم اعظم
یاد تھا ان کی فکر دقیقہ رس ہر میدان میں تحقیق کے گل کھلاتی تھی اور
پیچیدہ مسائل کی گتھیوں کو سلجھانے میں بے باک تھی۔ ان کی ذہنی کاوشوں کا
سرمایہ مغرب کے ارباب فکر ونظر کے لیے دلیل راہ بنا۔ دہلی یونیورسٹی دہلی
اس کا زندہ اورجاوید مثال ہے۔اس یونیورسٹی کے امیر جامعہ یعنی وائس چانسلر
پروفیسر دنیش سنگھ اپنے زمانے میں یگانہ روزگار ہیں۔ مختلف علوم وفنون میں
ان کا کوئی حریف نہیں ہے۔ وہ ایک زبردست ماہر فلکیات ہیں۔ہیئت ونجوم اور
علم ریاضی میں اس کو ید طولیٰ حاصل ہے۔ طبعیات اور مابعد الطبعیات کے مسائل
پر عبور حاصل ہے۔ یونانی فلسفہ اور مغربی علوم پر ان کی گہری نظر ہے۔ ان کی
متعدد کتابیں ہندوستان کے متعدد تعلیمی اداروں اور مختلف درسگاہوں کے نصاب
میں شامل ہیں۔ اس نے شمس تقویم کے ماہ وسال درست کیے ہیں۔ علم ہیئت ونجوم
میں اس کی مہارت کی بنا پر حکومت نے دہلی یونیورسٹی کو عصری علوم سے
سنوارنے اور رسدگاہ کی تعمیر اور سائنس اور ٹیکنا لوجی کے ضروری آلات کی
فراہمی کا کام اس کو سونپا ہے۔
عصری علوم وفنون ،سائنس اورٹکنا لوجی سے جگمگاتی ہوئی دہلی یونیورسٹی کے
دانشوروں اور طلبا سے بھری ہوئی یہ ایک یادگار ایام تھیں جس کو ’’انتردھونی‘‘
کا نام دیاگیا تھا۔ کسی علمی اور اکاڈمک تقریب کو اگر شاندار کہا جائے تو
یہ اس سے بھی دو قدم آگے ہی تھی کیونکہ اس میں دہلی یونیورسٹی کے جملہ کالج
کے ساتھ ساتھ ملک کے ہرعلمی ،ادبی اور سائنسی شعبہ کی معروف شخصیات نے شرکت
کی تھی۔ دہلی یونیورسٹی کے اسٹیڈیم میں فروری ۲۸،۲۹ اور ۳۰ بروز جمعہ ،ہفتہ
اور اتوار۲۰۱۳ کو علمی سرگرمیاں یکایک تیز ہوگئی تھیں۔اس کی کامیابی کے لیے
یونیورسٹی اور کالج کے جملہ ارباب حل وعقد کی میٹنگ کرلی گئی تھی۔ خصوصاً
یونیورسٹی کے تمام اعلیٰ پائے کے انتظامیہ اور عموماً متعدد شعبۂ کے قدآور
اساتذہ ، سائنسداں ،سوشل سائنٹسٹ اور دانشوران تقریب میں جلوہ افروز تھے
اور تقریب کو رونق بخش رہے تھے۔ اس سہ روزہ تقریب برائے فنون لطیفہ، تجارت
اور سائنسی علوم وفنون کی تقریب کو کامیاب اور پائے تکمیل تک پہنچانے کے
لیے حکومت ہند کے سینئر وزیر کپل سبل، ملک کے دیوقامت دانشوران و سائنس داں،
ماہر تعلیمات ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹی اورکالج کے اساتذہ اور لاکھوں
کی تعداد میں طلبا، عظیم المرتبت سیاسی رہنما، سرکاری افسران اورقومی اور
بین الاقوامی ماہرین تعلیمات نے دہلی یونیورسٹی اسٹیڈیم نارتھ کیمپس پہنچ
کر تقریب کی رونق میں اضافہ کیا۔ جو اساتذہ ،طلبا اور یونیورسٹی اور حکومت
ہند کے بڑے افسران نہیں پہنچ پائے ان کے اہل خانہ اس یادگار بین الاقوامی
تعلیمی تقریب میں موجود رہے۔ میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اس تقریب کی
کامیابی کی تعریف اور ستائش لوگ رہتی دنیا تک کریں گے۔ کیونکہ دہلی
یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی نگرانی میں کسی بھی اس طرح کی تعلیمی اور
سائنسی نمائش اورثقافتی تقریب میں پہلی مرتبہ اتنی کثیر تعدادمیں تعلیم
وتدریس، علم وہنر، ثقافت، کھیل، سیاست، صنعت، ادبی اور فلمی دنیا کی شخصیات
اور سماجی وثقافتی دنیا کی معروف شخصیات نے شرکت کرکے اس سائنسی علم وہنر
کے تقریب کو کامیاب بنایا اس سنہرے موقع پر دہلی یونیورسٹی کے کئی باب
بشریات، سائنسیز،سماجی سائنسیزاور رقص وسرود وغیرہ کے مختلف شعبہ کے متعدد
اساتذہ اور طلبا کے عظیم الشان علمی ،ادبی، تحقیقی،ثقافتی، کارہائے نمایاں
کو بڑے بڑے ماہرین تعلیم اور دیگر شعبہ جات کے دانشوروں کے ذریعہ سراہااور
اعزاز ، ایوارڈ اور انعام واکرام سے نوازا گیا۔ اس سہ روزہ تقریب میں کالجز
کے معروف ومشہور ڈانس گروپس نے رقص وموسیقی کا ایساسماں باندھا کہ اس کے
اثرات لوگوں کے دل ودماغ پر دیر اور دور تک مرتسم رہیں گے۔ کروڑی مل کالج
کے چند نامور طالب علم جن کا تعلق شعبۂ علم طبیعات سے ہے اور موصوف سائنس
کے عالمی ادارہ Nasaسے انعام یافتہ ہیں بطور خاص ان کا استقبال کیا او
رتمغہ سے نوازا۔
اٹھ اور زمیں پہ نیالا لہ زار پیدا کر ٭نہ آئی ہو جو کبھی وہ بہار پیدا کر
نظام کہنہ ،نیلی رواق وہم وفریب ٭نیا تصور لیل ونہار پیدا کر
انسانی سماج میں عالمی سطح پر روز اول سے تغیر وتبدل کا تصور ہر دور میں
پایا جاتا رہا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کے لیے اصطلاحات بدلتے رہے ہیں۔ عصری
تقاضے کی روشنی میں عالمی سطح پر رفتہ رفتہ ترقی کر کے آج انسانی تہذیب نے
جتنی کروٹیں بدلی ہیں ان سب کے شواہد ادب میں موجود ہوتے ہیں کیونکہ ادب
ہمیشہ اپنے لیے خام مواد معاشرے سے ہی حاصل کرتا ہے اور ہر ایک معاشرے میں
تغیر کا جو شعور ہوتا ہے اس کا اظہار زبان کے ذریعہ ہی ہو کرتا ہے۔
یہ بہت بہتر موقع ہے جب ملک گیر سطح پرتعلیمی شعور کی ترقی کے طریقۂ کار
تلاش کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ تعلیم سے کٹے ہوئے اس
پورے معاشرے میں جس طرح کی بے ضابطگی اور انتشار کا پھیلاؤ ہوا ہے اس کو
نظر میں رکھتے ہوئے اب یہ نا گزیر ہو گیا ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں موجود
تمام تہذیبی سلسلوں کو از سرِ نو موجودہ عالم کاری کی روشنی میں د ریافت
کریں اور ان کے اندر قوم کی فلاح سے متعلق نکتوں کو وضاحت کے ساتھ ادبی
میراث کا حصہ بنائیں۔
کسی یونیورسٹی کی تاریخ میں علم وادب اور تہذیب وثقافت سے ہی اس کی شناخت
ہوتی ہے۔دیکھا جاتا ہے کہ اس کی اساس کیاتھی ،کس حد تک اس میں اخذ وقبول کی
صلاحیت تھی اور کس حد تک دوسرے علمی وتہذیبی دھاروں سے خود کو ہم آہنگ کرنے
کی قوت تھی۔دہلی نیورسٹی ہندوستان کی واحد یونیورسٹی ہے جس نے مختلف علوم
وفنون کے فروغ کے دھاروں سے اپنی شناخت یا پہچان بنائی ہے اورہزاروں برس کے
علم وہنر کی تاریخ میں اگر آج دہلی یونیورسٹی عصری علوم وفنون کی سرگرمیوں
کے لحاظ سے متحرک اور فعال ہے تو اس کا سبب اس کے متعدد بصیرت فروز ارباب
حل وعقد کے علمی اوردانشمندی ہیں،جوایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود مشترکہ
عناصر بھی رکھتے ہیں۔ان تمام علما وفضلا کے مختلف سائنسی تفکرات فکر رسا
ہیں جوسب آپس میں مل کر ایک رنگ ہے، جو دہلی یونیورسٹی کے علم وہنر کا
گہوارہ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے انسانی وجود میں ہاتھ کی انگلیاں ہوتی ہیں
جو ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں مگرسب ایک ہاتھ کا حصہ ہوتی ہیں۔ سنگم پر
گنگا اور جمناکے پانی کا رنگ مختلف ہوتاہے مگر بہر حال وہ ایک ہوتاہے ۔
واضح ہوکہ حکومت ہند کے ادارے یو جی سی کے ذریعہ نافذ کردہ حکم کی روشنی
میں قومی سطح پر نئے تعلیمی پالیسی کے تحت دہلی یونیورسٹی میقاتی نظام کو
نافذکرنے کے لئے پچھلے تعلیمی سا ل ہی سے کوشاں اور سرگرداں ہیں۔
اس نصاب کی تیاری میں ہم نے دہلی یونیورسٹی کے تمام کالجز کے اردو کے
اساتذہ کو مدعو کرکے سمینار میں نصاب کی تیاری کے لیے بھر پور مذاکرہ اور
مباحثہ کروایا۔کروڑ ی مل کالج اور شعبہ آرٹس فیکلٹی کے مشترکہ طورپر قومی
کونسل کے مالی امداد سے اس سمینار اور ورکشاپ کو آراستہ کیا گیاہے ۔اس
سمینار میں دہلی یونیورسٹی کے متعدد کالج سے مدعو اردو کے ادیب اور دانشور
اساتذہ حضرات نے اپنی بصیرت افروز تجرباتی علمی مشورہ زیر موضوع بحث نصاب
کے حوالے سے پیش کیے۔جو میقاتی نظام کے تحت نصاب کی تیاری میں مددگار و
معان ثابت ہو سکا۔اس سمینار کا افتتاح اور صدارت جن عظیم شخصیتوں کی نگرانی
میں ہوا اس کا تعارف پیش کرنا سورج کو چراغ دکھانے جیسا ہے وہ اسما میرے
کالج اور یونیورسٹی کے ارباب حل وعقد کے ہیں۔
حضرات :آپ کے علم میں ہے کہ نئے تعلیمی نظام کے تحت جامعات میں میقاتی
نظام( سمسٹر سسٹم) کو اہمیت دی جارہی ہے۔دہلی یونیورسٹی بھی کامیابی کی
منازل پر گامزن ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ چند سالوں سے ہی پیش رفت ہوگئی
تھی۔اس قبیل میں سائنس کے سبھی شعبوں میں اس پر مکمل طورپر عمل درآمد ہو
چکا ہے۔ آئندہ تعلیمی سال سے ہومیونیٹیز اور سوشل سائسنسز کے جملہ شعبہ میں
میقاتی نظام کے تحت درس و تدریس کے سلسلہ کا آغاز انجام کو پہنچ جائے گا
اور اس کے فوراً ہی بعد بیکلوریٹ کا پروگرام پورے طورپر نافذ ہوجائے گا۔ اس
حوالے سے آئے دن دہلی یونیورسٹی اور اس سے ملحق کالجز میں سمینار اور
ورکشاپ کا اہتمام پروفیسر دنیش سنگھ کی نگرانی میں کیا جا رہا ہے ۔جس میں
میقاتی نظام کے تحت بننے والے نصاب اور بیکلوریٹ کورسز پر مناسب تجاویز اور
اس کا خاکہ پر بھر پور سائنسی، علمی وادبی گفتگو ہورہی ہے اور نصاب کی تیار
ی کے امور پر کامیابی کے ساتھ توجہ دی جا رہی ہے۔
پروفیسر دنیش سنگھ دہلی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہیں جو درس و تدریس میں
ہمہ تن گوش رہتے ہیں ملک گیر پیمانے پر عہدِ حاضر میں سائنس و ٹکنا لوجی کا
منظر نامہ چند دانشورں سے منور اور تاباں نظر آتا ہے ۔سائنس و ٹکنا لوجی کا
آغاز تقریباً ہزاروں سال پہلے ہوا ہے اور تب سے ہی ہمیں سائنس کے نقوش ملتے
ہیں ۔ اس سفر میں ایک مسلسل ارتقاء نظر آتا ہے ۔ ارتقا کی ان کڑیوں کو
دیکھا جائے تو پروفیسر دنیش سنگھ کی شخصیت علم ریاضی میں اپنا ایک منفرد
مقام بنا چکی ہے۔وہ صرف ایک ماہر ریاضیات اورسانئس داں ہی نہیں معلم،
دانشور، صحافی،مترجم اور محقق کی حیثیت سے مشہور و معروف ہیں۔ بطور سائنس
داں وہ اپنے ہم عصروں میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اور ابھی تک ان کے نصف
درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ علم ریاضی میں وہ ایک محقق کی حیثیت سے بھی
کا فی مقبول ہو چکے ہیں۔ ان کی تدریسی اور تحقیقی زندگی کا آغاز تقریباً
چار دہائیوں قبل یعنی ۱۹۸۱ء سے ہوا ہے۔
قومی سطح پر عہد حاضر میں پروفیسر دنیش سنگھ عصری علوم کی بیداری کا اہم
اور کلیدی دستخط ہیں۔ انہوں نے دہلی یونیورسٹی کے مایہ ناز کالج سینٹ
اسٹفین سے ۱۹۷۵ء میں گریجویشن، ۱۹۷۷ء میں ایم اے ریاضی میں کرنے کے بعد
شعبۂ ریاضی دہلی یونیورسٹی سے ایم فل اور امپیریل کالج آف سائنس ٹیکنا لوجی
اور میڈیسن لندن انگلینڈ سے ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری حاصل کی۔ موصوف کا
ایریا آف ریسرچ Functional Analysis operational theory and Harmonic
Analysisہے ۔انہوں نے اپنا تعلیمی کیریر ۱۹۸۱ء سے اپنے کالج سینٹ اسٹفین سے
شروع کیا اور اس قدر ریسرچ میں میں منہمک ہو گئے کہ تعلیمی میدان میں غیر
معمولی کارہائے نمایاں انجام دینے کی وجہ سے حکومت ہند شروع سے ہی بڑے بڑے
تعلیمی کاموں اور امور کو سلجھانے کی ذمہ داری ادا کی اور فی زمانہ
۲۹؍اکتوبر ۲۱۰ سے ہندوستان کے صف اول کی یونیورسٹی میں بحیثیت وائس چانسلر
کی خدمات بحسن خوبی انجام دے رہے ہیں۔ موصوف علم ریاضی میں اعلیٰ معیاری
تحقیق اپنے طالب علمی کے زمانے میں ہی سے انجام دیتے رہے ہیں ۔انڈین انسٹی
ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی نئی دہلی اور Statistical institute Delhiکو بھی اپنا
معیاری تحقیق سے نوازا ہے ساتھ ہی موصوف کی نمایاں کار کردگی کو سراہتے
ہوئے شعبۂ ریاضی یونیورسٹی آف Huston, Texas U.S.Aنے Adjunct Professorکے
خطاب سے نوازا ہے اور 2005-2010ساؤتھ کیمپس ڈائریکٹر اور ۱۳اگست ۲۰۱۰
۔۲۵اکتوبر ۲۰۱۰Officiatingپرو وائس چانسلر دہلی یونیورسٹی کی حیثیت سے کا
رہائے نمایاں انجام دیے۔ حکومت ہند نے یہ اہم ذمہ داری سونپی ہے۔ جس کی طرف
پروفیسر دنیش سنگھ متواتر یقیں محکم اور عمل پیہم کے ساتھ رواں دواں ہیں۔
پروفیسر دنیش سنگھ سائنس کی خصو صیات سے بخوبی واقف ہیں ان کی سائنسی ورثہ
روایت وجدّت کا ایک حسین امتزاج ہی نہیں بلکہ آنے والی نسل کے لیے نئی
بیداری کا نقیب بھی ہے ۔ ان کے ریسرچ میں نئی تراکیب ،نئی تمثالیں اور
علامتیں بکثرت پائی جا تی ہیں جو ایک طرف ہماری سائنسی ترقی کی رفتار کی
عکاسی کر تے ہیں اور دوسری طرف کلاسیکی علم الحساب سے ہمارا راستہ مضبوط کر
تی ہیں ۔ کسی بھی بڑے اسکالر کے لیے ضروری ہے کہ وہ قدامت سے انحراف نہ کرے
۔ اس کی اہمیت اور اس کی بڑائی اس میں مضمر ہے ۔پروفیسر دنیش سنگھ جن کی
متعدد کتابیں اور بہترے بصیرت افزا سائنسی،تاریخی،تعلیمی اور ثقافتی مضامین
ہندوستان اور بیرون ملک کے Academic World میں بقائے دوام حاصل کر چکی
ہیں۔موصوف نہ صرف یہ کہ عالمی شہرت یافتہ دانشور و سائنس داں ہیں بلکہ وہ
ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے بھی اپنی ایک علےٰحدہ شناخت رکھتے ہیں اور اکبر
اصغر لاتعداد مختلف النوع عالمی تعلیمی،سائنسی وثقافتی اداروں کے رکن خاص
اور اعزازی فیلو بھی ہیں۔ پروفیسر دنیش سنگھ، ہندوستان بالخصوص مسلمانوں
میں اعلیٰ تعلیم کے رجحان کو فروغ دینے والی شخصیت کی حیثیت سے بطور خاص جا
نے جا تے ہیں۔اردو ادب کے حوالے سے موصوف کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی میں
اردو کا موقف انفارمیشن ٹکنا لوجی کے چیلنج پر منحصر ہے۔ لہٰذا اس صدی میں
اردو کو انفارمیشن ٹکنا لوجی سے مربوط کر تے ہوئے دنیا کو یک لسانیت یایک
لسانی حیثیت اختیار کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔وہ ہندوستان کے اردو اداروں
اور اکادمیوں کی جانب سے عصری علوم کی ترجمہ کاری اور عصری تقاضوں سے نمٹنے
کے لیے ہندوستان بھر کے اردو اداروں کا قومی وفاق قائم کرنے کی ضرورت محسوس
کر تے ہیں، اور پیغام دیتے ہیں کہ اساتذہ اردو ،سائنس اورٹکنا لوجی کی
روشنی میں عصری طریقہ تعلیم اختیار کریں تاکہ اردوزبان وادب کو عصری علوم
کی طرح فروغ دینے میں مدد مل سکے۔
عالی جناب پروفیسردنیش سنگھ کی پرستی میں نہ صرف یہ کہ دہلی یونیورسٹی نے
اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر لیا ہے بلکہ یو جی سی سے الحاق تمام
یونیورسٹیوں میں دہلی یونیورسٹی کے نام کے ساتھ پروفیسر دنیش سنگھ کا نام
عزت واحترام کے ساتھ لیا جانے لگاہے۔ ہر ایک کی زبان پر داد و سخن کے بے
ساختہ الفاظ جاری ہیں۔ پروفیسر موصوف کی وائس چانسلر شپ میں کس قدر
یونیورسٹی نے تعمیر و ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔ شعبہ مثلاً دہلی یونیورسٹی
کے جملہ کالجز اور اس کے تمام شعبہ کی جانب سے آئے دن علمی، سائنسی، ادبی
اور ثقافتی محفلوں کا انعقاد عظیم اور اعلیٰ نمائش تواتر وترتیب کے ساتھ
ہورہا ہے۔ جس کا انحصار تعمیر وترقی پر مبنی ہے اس کا زندہ مثال انتر دھونی
ہے۔ جس میں قومی اور بین الاقوامی سطح کے سمینار بھی شامل ہیں یہ سبھی علمی
،ادبی اور ثقافتی پیشکش موصوف کی علم و ادب اور سائنس نوازی کا ثبوت فراہم
کرتے ہیں۔ ان کی نگرانی میں زبان و ادب کے ماہرین، ادبا، شعرا، سائنس داں،
دانشور اسکالر محققین اور نقادوں کی صدارت میں کئی جلسے منعقد کیے گئے۔ اس
موقعوں پر ہمیشہ یونیورسٹی سالانہ رپورٹ اور مجلہ بھی جاری کرتا رہا ہے۔ اس
طرح موصوف کی قیادت میں شبانہ روز متعدد سائنسی تحقیق بڑے بڑے علمی کام
ہوتے رہتے ہیں۔ طوالت کی وجہ سے انفرادی طور پر سب کا ذکر کرنا یہاں ممکن
نہیں۔
یونیورسٹی کی ساری ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ہی یونیو رسٹی کے
عہدیداروں، اساتذہ اور طلبا کے ساتھ جا بجا خصوصی نششتوں میں شرکت کو بھی
لازمی قرار دیتے ہیں۔عدل و انصاف اور مساوات کی کسوٹی پر جب ہم پروفیسر
دنیش سنگھ کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں تو جملہ امور میں ہمیں آپ کا کردار
اس سفید چادر کی طرح نظر آتا ہے جس پر کوئی بد نما داغ تو کجا ایک معمولی
دھبہ بھی دکھائی نہیں دیتا موصوف اپنے ہم عصروں میں منفرد و ممتاز شخصیت کے
حامل ہیں۔جب بھی موصوف کے سامنے کوئی سائل آئے تو بلا امتیاز مذہب و ملت
اور رنگ و نسل اس کی بات سنتے ہیں اور یونیورسٹی کے اصول و ضوابط کی روشنی
میں اس کا مسئلہ فوراً حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خاص کر طلبا کے تعلیمی
امور کو وہ بڑی سنجیدگی سے مقررہ اوقات میں حل کرتے ہیں اور ان کی جائز
ضروریات کو ہر ممکن طریقے سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کی زندہ مثال
میقاتی نظام کے تحت چار سالہ بیکلوریٹ کورس کا خوشنما اور کامیاب آغاز
انجام ہیں۔
دہلی یونیورسٹی کے سربراہ نہ صرف علمی شوق وشغف کے حامل ہیں بلکہ جیسا کہ
ذکر ہوا ہے کہ وہ ایک بہترین منتظم بھی ہیں لہٰذا وہ جس کا کام کا بھی
بیڑااٹھاتے ہیں اس کے لیے دہلی یونیورسٹی کے طلبا اور اساتذہ کی فلاح کو مد
نظر رکھتے ہوئے اپنے رفیقوں اور انتظامیہ کی پوری ٹیم کو شامل رکھتے ہیں۔
مذکورہ پروگرام کو کامیاب بنانے میں جن روشن دماغ اور مجتہد حضرات نے
کارہائے نمایاں انجام دیے ان میں اساتذہ کی ایک لمبی فہرست ہے، مگر چند
شخصیات مثلاً پروفیسر امیش رائے (ڈائریکٹر ساؤتھ کیمپس)، پروفیسر سدھیش
پچوری(کارگزار پروائس چانسلر و ڈین آف کالجز)، محترمہ الکا شرما (رجسٹرار)،
پروفیسر ستونتی کپور(پروکٹر)وغیرہ اہم ہیں۔
علمی وادبی محفلیں ہمارے ثقافتی ،تہذیبی اورادبی شعور کی آئینہ دارہوتی ہے۔
ہر چندکہ زمانے کی بدلتی ہوئی قدریں اور تمدن کی وسعتیں ادبی محفلوں کے
روایتی وقار پر کسی حد تک اثرانداز ہوئی ہیں، لیکن اس کے باوجود ہماری ادبی
محفلیں آج بھی اپنے اندر علم و ادب وتہذیب کی ایک مخصوص فضا رکھتی ہیں۔ آج
کی علمی و ادبی محفلوں کے مقابلہ میں ماضی کی محفلیں پھر بھی ہماری شاندار
روایتوں کا سرمایہ ہیں جو کتابوں میں نہیں تو کم از کم ذہنوں میں یادوں کی
صورت میں محفوظ ہے۔
دہلی یونیورسٹی جس نے دنیائے ادب کو ہر دورمیں کچھ نہ کچھ گہرنایاب بخشے
ہیں،اپنے ماضی میں بھی علم وفن کے ایسے ایسے نگینوں سے مالا مال تھا جوآج
بھی پوری آب وتاب کے ساتھ صفحہ تاریخ پر جگمگارہے ہیں۔ علم دنیا کا سب سے
طاقتور وسیلہ ہے جس کے ذریعہ انسان اپنی شخصیت کو نکھار تا ہے اور قوم وملک
وملت اوردنیا کو ترقی کی راہوں پر آگے چلاسکتا ہے۔ یہ بات دہلی یونیورسٹی
کے وائس چانسلر جناب پروفیسر دنیش سنگھ نے یوم گل نمائش کے موقع پر دہلی
یونیورسٹی کے زیراہتمام اساتذہ اور طلبا کے سہ روزہ تعلیمی، تحقیقی اور
تربیتی، کیمپ، انتردھونی ، کے افتتاحی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کی۔
پروفیسر دنیش سنگھ نے اساتذہ اور طلبا کو محنت اور ڈسپلن کی اہمیت بتاتے
ہوئے کہاکہ دنیا میں کوئی کامیابی منظم بغیر منظم محنت اور جانفشانی کے
حاصل نہیں ہوسکتی۔ کم عمری میں اگر محنت اورنظم وضبط کی عادت ڈالی جائے تو
یہ تمام عمر کام آتی ہے ۔انہوں نے اساتذہ اور طلبا سے کہا کہ وہ ہر کام
سلیقے سے کرنا سیکھیں اپنے بزرگوں کا احترام کریں اور دوسروں کی مدد کو
اپنی عادت بنائیں ۔عصری تقاضے کی روشنی میں توازن کے ساتھ متوازی اور بہتر
طریقہ کار کواپنی زندگی کا شعار بنائیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ دورمقابلہ آرائی
کا ہے اور اس میں جو سلیقہ سے محنت کرے گا وہ بازی مار لے جائے گا۔ امکانات
بہت ہیں مگر حوصلہ اور تدبر شرط ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ اساتذہ اور طلبا
دنیا اور بطور خاص ہندوستان کے مذہبی ،علمی، ادبی اور سائنسی پیشوا کے اسوہ
کو اپنا رہنما بنائیں ۔انہوں نے ملک کی آزادی اورترقی کے لیے گاندھی ،نہرو
ابوالکلام آزاد وغیرہ رہنماؤں کی خدمات کا ذکر خیر خاص طورسے کیا اوران
لوگوں کے جذبۂ حب الوطنی سے رہنمائی حاصل کرنے کی تلقین کی۔ہمیں طلبا کی
شخصیت کی ہمہ جہت نشوونما اوران کی قائدانہ صلاحیتوں کواجاگر کرنا ہے
۔ہمارا یقین ہے کہ دہلی یونیورسٹی کا ہر بچہ کچھ مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ
عملی زندگی میں اپنے سفرکا آغاز کرسکتاہے۔ جنہیں ان صلاحیتوں کو نکھار نے
کا موقع مل جاتا ہے وہ کامیاب ہوجاتے ہیں اورجوان مواقعوں سے محروم رہ جاتے
ہیں وہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کا ادراک تک نہیں کرپاتے۔ اس کیمپ کے ذریعہ
اساتذہ اور بطور خاص طلبا کو خود اعتمادی،خود شناسی اور ذمہ داریوں کو قبول
کرنے کا جذبہ بیدار کرانے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ ہی صحیح اقدار اور اخلاقی
وسماجی اقدار کا بھی درس دیا۔ تاکہ وہ آنے والے ہندوستان کی تمام ملکی امور
اور زمام سنبھالتے ہوئے اسے صحیح راہ پر گامزن کرسکیں اور اسے ترقی یافتہ
ممالک میں سے ایک بناسکیں۔ کیمپ کا افتتاح عزت مآب وزیر برائے مواصلات اور
ترسیل وابلاغ حکومت ہند جناب کپل سبل نے کیا اور اس دوران اندرون وبیرون
ممالک بطور خاص دہلی یونیورسٹی کے متعدد نامور اساتذہ اور دانشوروں نے طلبا
اور اساتذہ سے خطاب کیا۔ اس کیمپ میں ڈرامہ، بیت بازی، تقاریر، مذاکرہ، ورڈ
گیم، معمہ کیمپ فائر وغیرہ متعدد گیم کو شامل کیاگیا۔ قومی سطح پرنمائش گل
کا بھی انعقاد کیا گیا۔ تعلیمی اور تربیتی مختلف مقابلے منعقد کیے گئے۔
تعلیم وتربیت سے متعلق مختلف میدانوں میں غیرمعمولی تحقیق اور نیا انکشاف
کرنے والے اساتذہ طلبا اور کبیر وصغیر جملہ ملازموں کو انعامات واکرامات سے
نوازا گیا۔
اس جشن کی خاصیت ہی تھی کہ یونیورسٹی کے جتنے بھی نمایاں تخلیقی کارنامے
ہیں ان کو پیش کیا جائے ۔ جس طرح 26جنوری کو یوم جمہوریت کے موقع پر صدر کی
موجودگی میں ملک اپنے تمام فوجی مشقوں اور توانائی وترقی کی نمائش کرکے فخر
کااظہار کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح رات دن وائس چانسلرکی سرپرستی میں تمام
اسٹالوں پر اپنے اپنے شعبوں اور کالجوں کے اساتذہ اور طلبا اپنی فتوحات کا
مظاہرہ کرکے فخر کرتے ہوئے نظر آئے اور یہ نمائش مسابقتی طور پر کوشش کرتی
ہوئی دیکھنے میں آئی یعنی جس اسٹال کی رونق ماند تھی اگلے ہی روز دوگنی
توانائی اور آب وتاب کے ساتھ اتنا ہی جوش جانے کہاں سے شامل ہوگیا۔ یہ جذبہ
شوق کس نے بیدار کیا اور کس ہستی کی جدوجہد پر ہم اپنی یونیورسٹی کے پیش
رفتوں سے آگاہ ہوئے۔ یقینا پروفیسر دنیش سنگھ کی سوچ اور محنت پس اس کے پشت
کارفرما تھی۔
میڈیا کے ذریعہ ان پروگراموں کی نشر واشاعت کے بعد ہزاروں کی تعداد میں
مختلف شہروں سے تعلیمی اداروں کے اساتذہ منتظمین اور طلبا دہلی یونیورسٹی
کا رخ کررہے ہیں۔ رشک بھری نظروں سے یہاں کے دیوار ودیوار کو تکتے ہیں۔
تہذیبی وثقافتی پروگراموں کے انعقاد میں اس ملک کی قومی وملی اقدار کے
احساس کو فروغ دیا ہے۔ جبکہ لیٹریچر اور سوشل سائنس کی جدید تر کتب وجرائد
اس جشن کا اہم مرکز توجہ رہے۔ کسی بھی تعلیمی ادارے کے ذمہ داروں کا فرض
ہوتا ہے کہ وہ اساتذہ اور طلبا کے اندر تعلیمی شوق کو بیدار کریں اوران کو
ہر ممکن سہولت فراہم کرائیں۔ دہلی یونیورسٹی نے اس پروگرام کے ذریعہ وہی
پیغام بحسن وخوبی انجام دیا ہے۔
پروفیسر دنیش سنگھ کی نگرانی نے اچھے،سچے انسانوں کی حیثیت سے اپنے طلبا کی
شخصیت کی تعمیرکے سلسلہ میں کوئی بھی دقیقہ اٹھاکر نہیں رکھا ہے۔ طلبا کی
ہنرمندی یا دانشوارانہ صلاحیتو ں کے فروغ کے علاوہ دہلی یونیورسٹی پر
اعتمادانسانوں کے طورپر ان کی شخصیت کی تشکیل میں بھی کافی اہم رول ادا
کرتا رہاہے اور کررہا ہے۔ دہلی یونیورسٹی اپنے طلبا کی ذہنی صلاحیتوں کو
اجاگر کرنے اور ان کے اندر خوداعتماد کوجلا بخشنے کے سلسلہ میں مسلسل اور
متواتر کوشش کرتا رہا ہے اور کررہا ہے۔ دہلی یونیورسٹی مہارت میں یقین
رکھتا ہے اس کا نصب العین کلیدی افکار ونظریات او رعملی سوچ کے نادر امتزاج
کے ساتھ تعلیم کا فروغ ہے۔ ہماری طاقت ہمارے ٹیچرس ہیں جو بچوں کو اپنی
منجملہ صلاحیتوں کے اعتماد سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد کرتے ہیں
اور ایک ایسا پلیٹ فارم اس کی شخصیت کے فروغ کے لیے مہیاکراتے ہیں جہاں اس
کے پاس مواقع کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ دہلی یونیورسٹی دوسری یونیورسیٹیوں کے
ساتھ مقابلے میں یقین نہیں رکھتا ۔ بلکہ وہ اقدار اوراقدار پر مبنی تعلیم
کے اپنے اعلیٰ میزان و معیار کے تعین میں یقین رکھتا ہے۔
دہلی یونیورسٹی کے انتر دھونی عظیم الشان سائنسی، ٹکنا لوجی، علمی،ادبی
اورثقافتی پروگرام کے اختتام پرمختلف کوئزمیں حصہ لینے والے اساتذہ اور
طلبا کی ایک بڑی تعدادکو مختلف ایوارڈ ،انعام واکرام اور پھول کا گلدستہ سے
نوازا گیااور انتر دھونی میں شرکت کرنے والے تمام مندوبین،اساتذہ ،طلبا اور
عوام الناس کی خدمت میں پروفیسر دنیش سنگھ نے ہدیہ سلام پیش کرتے ہوئے سب
کا شکریہ اداکیا۔ |