تعلیم ایک بہت بڑا کاروبار

دن بہ دن کراچی میں میں نے یہ نوٹ کیاہے کہ پرائیوٹ اسکولز، کالجز کی نسبت کوچنگ سینڑزیا لینگویج سینٹرز کے قیام میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے یہ ایک اچھی بات بھی ہے تعلیم کے فروغ کے لئے لیکن شاید علم اور استاد کی قدر میں کمی بھی اسی سے رونما ہورہی ہے۔ علم اور اُستاد کی قدر میں کمی اس لئے رونما ہورہی ہے کہ پہلے طلباء کرام کو اپنے علاقے سے باہر کالج جانا پڑتا تھا اور استاد کی ہدایات ملتی کالج سے جو کہ ایک قسم کی مفت تعلیم ملتی تھی اورملتی ہے اور استاد کا ایک روب ودب دبا اور عزت کا مقام ہوا کرتا تھا ، اُس وقت طلباء کو اپنی مشقت اور پیسوں کے ساتھ ساتھ اپنے استاد کی قدر ہوا کرتی تھی ، چونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ اُسے جتنی سہولت دی جائے اُتنا ہی انسان میں اُس شےء کی بے قدری جنم لیتی ہے۔ اور اب آج کل کے اِنہیں طلباء کرام کو یہ سہولت حاصل ہوئی ہے کہ ان کو اپنی گلی، محلہ اور علاقے سے باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اور تو اور کالجز لیول کے طالب علم جن کے داخلے گورنمنٹ کالجز میں ہوئے ہیں انہیں تو اب انہیں کوچنگ سینٹر ز کی بدولت کالجز جانا بھی نصیب نہیں ہوتا ، یہ بات بھی الگ ہے کہ گورنمنٹ کالجز میں تنظیمیں ہوتی ہیں اور عام طلب علم کو تنظیم والے تنگ کرتے ہیں ، لیکن اگر ایک عام طالب علم خود کو ان سے دور ہی رکھے تو وہ کسی حد تک ان تنظیم کے فارغ لفنگوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے میں خو د بھی گورنمنٹ کالج کا طالب علم ہوں اور میں بھی انہیں مراحل پر سے گزرا اور گزر رہا ہوں، اور دوسری بات اگر یہ کہی جائے کہ گورنمنٹ کالجز میں پڑھائی نہیں ہوتی تو یہ بات صحیح بھی ہے اور غلط بھی صحیح اور غلط کسطراح سے ہیں آئے ذرا اس بات پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں کہ وہا ں کے استاذا کرام کبھی آتے ہیں اور کبھی نہیں آتے اور آئے بھی ہوں تو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا اور احساس ہو بھی تو وہ کلاس لینے کیوں آئے جب ایک استاد کی کوئی بات ہی نہ سنے جماعت میں اور اسکے ساتھ طالب علم کا رویہ ہی ٹھیک نہ ہو، اور یا جما عت میں طالب علم ہی نہ ہو۔" میں نے خود تنظیم کے رکن جو کالج کا بد قسمتی سے طالب علم تھا بی ۔کام کا، ایک دن آیا جب ہما را داخلہ نیا نیا ہوا تھاکالج میں ہم کلاس لے رہے تھے انگریزی کے مضمون کا استاد ہمیں نصاب کا سبق کے بارے میں ہمیں پڑھا رہا تھا کہ اتنے میں ایک نوجوان جسکی عمر 23سے 24سال کی ہوگی آیا اور استاد سے پہلے ہاتھ ملایا اور کچھ آہستہ آواز میں کہنا لگا(ادب کے ساتھ) لیکن استاد نے سمجھا کہ شاید یہ نوجوان مجھ انرولمنٹ فارم کے بارے میں پوچھ رہا ہے(کیونکہ انرولمنٹ فارم آئے تھے کالج میں ) اور میرا وقت ذایع کر رہا ہے غلط جگہ پر غلط بندے سے انرولمنٹ کے بارے میں آگاہی لے رہا ہے تو استاد نے اس نوجوان سے توجہ ہٹائی اور جماعت میں موجود طالب جوصفحہ اول میں بیٹھا تھا مخاطب ہو کر کہا "ارے بھائی اسے کوئی سمجھاؤ"اتنے میں وہ نوجوان بھڑک اُٹھا اورغصے سے کہا"سر آپ کیسے بات کر رہے ہو، آپکا بے ہیور کیسا ہے، میں یہاں تنظیم میں ہوں " اتنے میں استاد کی ہوا نکل گئی اورکہا اچھا اچھا میں سمجھا کہ آپ انرولمنٹ فارم کے بارے میں پوچھ رہے ہو ، کہیے کیا بات ہے۔"میں حیران ہوگیا کیوں کہ میرا ذہن تو اسکول میں جسطرح استاد کا رعب ودب دبا اور عزت و وقار ہوتی ہے وہ مجھے یہاں نظر نہیں آئی اُس حساب سے بناہوا تھا، اور مجھے کافی عجیب سا لگا ۔لیکن آج کل کے طالب علموں میں وہ شرم و حیا ء،احترام و آداب ، عزت کرنا اور وہ شعو ر کہا ں ہے جو کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا، آج کل کا نوجوان بھرم بازی، آزادی ، فحاشی اور آرام پسند جوہے۔ جو کہ ہمیں تعلیم کے میدان میں بخوبی نظر آتا ہے اُن کے نتائج اوسط کے حساب سے کہ کتنے فیصد طلباء کامیاب اور کتنے فیصد ناکام رہے ، لیکن زیادہ تھر نتائج کوچنگ کلاسز کے باوجود بھی خراب ہی آتا ہے ، کیوں آتا ہے اسکے بھی دو نتائج ہیں یا تو طالب علم کو شوق نہیں پڑھنے کا بس گھر والوں کی ضد کی وجہ چند کتابیں کاپیا ں اُٹھا کر آجاتا ہے یاپھر اپنے شو ق سے کوچنگ سینٹر آجاتا ہے لیکن پڑھائی کے لئے نہیں بلکہ کلاس میں ہلا گلہ کے لئے آتا ہے اور دوسروں کابھی وقت ذائع کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوچنگ سینٹرز میں بد انتظامی کا ہونا، مثلاً(استاد کا اکثر تعطیل پر ہونا، استاد کا کلا س میں بچوں کے ساتھ پڑھائی کے دوران ہلہ گلہ، نصابی مضامین کو وقت اچھے طریقے سے پڑھا کر وقت پر ختم نہ ہونا، یا نصابی مضامین میں جو دل چاہا پرھایا اور جو نہ چاہ نہ پڑھایا) شامل ہیں۔ اور جو تھوڑا بہت اچھے نتائج آتے ہیں وہ بھی کچھ طلب علموں کی خود کی محنت اور چند نامی گرامی کوچنگ سینٹرز کی محنت ، سختی کا نتیجہ ہوتا ہے۔آج کل ہر وہ شخص جس نے گریجویٹ یا ماسٹر کیا ہے اور اُسے تھوڑا بہت تجربہ ہے پڑھانے کا تو وہ لازمی کسی نہ کسی کوچنگ سینٹر میں پڑھتا یا خودکا کوچنگ سینٹر کھول کے پڑھا رہاہوگا، اور وہ کسطرح پڑاھتا ہے وہ بھی میں دیکھ چکا ہوں ، باہر اپنے کوچنگ سینٹر ز کے اشتہار میں کافی ساری خصوصیات لکھیں ہونگی مثلاً( فلانے مشہور کالج کالیکچرار یا پروفیسر کے نام دئے ہونگے،ہفتے کے ساتھ دن کلاسزز ، میل، فیمل الگ الگ کلاسز کا آغاز، تمام مضامین کی تیاری، معیاری نوٹس کی فراہمی۔ وغیرہ وغیرہ) یہ سب عام علاقوں میں جو کوچنگ سینٹر ہوتے ہین ان کے اشتہار میں ہوتا ہے لیکن اندر کچھ اور ہی ماحول ہوتا ہے جب بچوں کو کچھ دن ڈیمو دیا جاتا ہے تو اُس میں صحیح پڑھایا جاتا ہے لیکن جیسے ہی ڈیموں مکمل اور طلباء آنا شروع ہوجاتے ہیں تو یہ اپنی حرکتوں میں آہستا آہستا آنا شروع ہوجاتے ہیں ، میں یہ بات کسی فروٹ فروش، سبزی فروش کی بات نہیں کررہا بلکہ اس ملک کی اُن پڑھے لکھے لوگوں کی بات کر رہا ہو ں جو خود کو ، گریجویٹ، ماسٹر ، پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر سمجھتے اور لوگوں کے سامنے بڑھے فخر سے کہتے ہیں ، میں اُ ن کا یہ حال بیان کر رہا ہوں۔اور یہی لوگ رولا بھی روتے ہیں کہ ہم پڑھے لکھے لوگ ہیں ہمیں گورنمنٹ جوبز یا اچھی پوسٹ نہیں ملتی یا ہماری تنخواہیں کم ہیں وغیرہ وغیرہ۔اور اگر دیکھا جائے تو ہیں لوگ اتنا کماتے ہیں کہ پوچھو نہیں ہمار ا ایک ٹیچر تھا جو ایک پرائیوٹ کالج میں پڑھتا ہے اور وہا ں سے کوئی پچس ہزار تنخواہ وہاں سے لیتا ہے اور پھر کالج کے بعد ایک کوچنگ سینٹر جاتا ہے وہاں سے ہفتہ کے چند مقرر دنوں کے مقرر گھنٹوں کے پندرہ سولہ ہزار وہا ں سے لیتا ہے اور پھر اسکے بعد اپنا کوچنگ سینٹر، کمپیوٹر اور لینگویج سینٹرہے اور اب تو اسکول بھی صبح کی شفٹ میں کھولنے کا ارادا کیا ہے جو کسی وائس پرنسپل کے زیرِ نگرانی میں ہوگا۔اور اس بلڈنگ میں جو بجلی کا بل آتا ہے 450-600کے اندر آتا ہے (بجلی کی چوری کی وجہ سے)اور جناب اسی ٹیچر کے اتنے نیک خیالات ہیں کہ اس نے ابھی لاسٹ ٹائم سندھ پبلک سروس کمییشن میں جونیرسکول ٹیچر کی اسامیا ں آئی تھی تو وہاں بھی اپلائی کیا تھا وہاں سے پاس ہوگئے ابھی اُن کواپنے علاقے میں گورنمنٹ اسکولوں میں تائنات کیا جائے گا۔تو نیک خیالات یہ ہیں کہ اُن کا یہ کہنا ہے کہ ایک مرتبہ میری گورنمنٹ اسکول میں جاب ہوجائے تو پھر مجھے وہا ں اسکول جانے کی کیا ضرورت خالی حاضری لگا کہ آجایا کرونگا، گورنمنٹ اسکولوں میں کون جاتا ہے پڑھانے کے لئے اور ویسے بھی یہاں کے پرنسپلز میرے جان پہچان کے ہیں۔ اور یہ بات اس ٹیچر نے اپنے منہ سے اپنی کوچنگ کلاس میں بچوں کے سامنے بولی تھی۔اور اس کے باوجود بھی اسک پیٹ نہیں بھرتا ہر وقت رولا روتا ہے اور حکمرانوں یا دیگر سینئرز کے خلاف گالیاں بھگتا ہے۔خیر اب اسطراح کے نیک خیالات اگر ایک ماسٹر ڈگری ہولڈر کے ہونگے تو اس ملک کا یہی حال ہوگا۔ تو اس طرح کے استاد سے باقی مخلص  اساتذا کرام کی عزت پر فرق پڑھتا ہے۔ اوربہت سی باتیں بنتی ہیں۔تو تعلیم ایک کاروبار بن چکا ہے نہ صرف پڑھائی کے دوران بلکہ جب امتحانات آتے ہیں تو بھی اس میں خوب جان پہچان اور لوٹ مار چل رہی ہوتی ہے کہ نقل ہورہی ہوتی ہے امتحانی حال میں کچھ بچھے نقل کرتے ہیں جو جان پہچان اور پیسے والے ہوتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔تو یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں تعلیم تو عام ہے پر اس کا کوئی فائدہ نہیں ، پڑھے لکھے لوگ دھوکے باز اور لوٹیرے ہیں ۔ حضور ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہیـ"یہ حدیث اپنی جگہ پر صحیح ہے ، لیکن اس علم کا کیا فائدہ جو بندے کو اپنے رب سے جد ا کردے اس کے اعمال کو بگاڑ دے اور اسکے اعمال کو شریعت کے خلاف کردے ایسا علم علم نہیں کہلاتا بلکہ جہالت ہے ، علم تو وہ ہے جو بندے کواپنے رب سے ملادے اور بندے اور رب کے بھیچ ایک راستہ قائم کردے۔ میں نے حدیث کی جو اپنے الفاظ میں جو وضاحت کی اسکا یہ مطلب بلکل نہیں کہ انسان دنیاو ی تعلیم حاصل نہ کرے،بلکہ دنیاوی تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کیونکہ دنیاوی تعلیم اس جدید دور کی ضرورت ہے آج اگر کوئی عالم ہے یا مفتی ہے تو اسے کوئی آفیشل ذمہ داری نہیں سونپبتا یا دوسرے الفاظ میں اسکے عالم اور مفتی ہونے کا آفس والوں کو کوئی فائدہ نہیں سوائے اسلامی مسائل کے۔اور اپنی قوم اور ملک کی ترقی اور دیگر فلاحی کام میں ترقی اسی دنیاوی تعلیم کے ذریعے کی جا رہی ہے۔پر اسکے ساتھ ساتھ ہمیں دینی تعلیم میں بھی پیچھے نہیں چھوڑنا چاہئے کیونکہ دین اسلام کی تعلیما ت کو دنیا کی تمام تعلیما ت پر بر تری حاصل ہے اور دین اسلام کی تعلیمات ہمیں زندگی گزارنے کا صحیح راستہ بتاتی ہے۔
Muhammad Adnan Aqeel
About the Author: Muhammad Adnan Aqeel Read More Articles by Muhammad Adnan Aqeel: 3 Articles with 2798 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.