مذہبی فرقہ واریت :
قرآنِ کریم میں فرقہ واریت کے لئے لفظ تفرق استعمال ہوا ہے۔قرآن و سنت کی
نصوص قطعیہ سے ثابت ہے کہ تفریق و تحزب اور افتراق و اختلاف ممنوع ہے اور
ملی اتحاد کے منافی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تفرق سے کیا مراد ہے؟ کیا ہر
قسم کا اختلاف تفرق ہے؟ کیا ہر قسم کا اختلاف مذموم اور ممنوع ہے یا اس کی
کوئی قسم ممدوح اور مباح بھی ہے؟۔
اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے ہم کو تفرق کی مذمت اور ممانعت کے بارے
میں نازل شدہ آیات کی تفسیر و تاویل کی طرف رجوع کرنا پڑے گا تاکہ ان
آیاب کے سیاق و سباق ، شان نزول اور احادیث و آثا ر کی روشنی میں تفرق
اور اختلاف مذموم کی اصل حقیقت واضح ہوجائے۔
تفرق باب تفعل سے مصدر ہے اورا س کا مأخذ ہے " فَرقٌ" جس کے معنی ہیں
"فَصلٌ" یعنی دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ، علیحدہ کرنا۔ فَرقٌ کی
ضد ہے جَمعٌ جس کے معنی ہیں دو چیزوں یا کئی چیزوں کو ایک دوسرے سے ملانا
اور جوڑنا۔ مأخذ صرفی کے اس مفہوم کی مناسبت سے تفرق کے معنی ہیں الگ
ہوجانا، پھوٹ ڈالنا اور الگ الگ فرقوں، گروہوں اور جتھوں میں بٹ جانا۔
عربی لغت کی اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہر قسم کے اختلاف کو تفرق نہیں کہا
جاتا بلکہ اس اختلاف کو تفرق کہا جاتا ہے جو امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ کی
وحدت کو پارہ پارہ کرنے والے ہو، اُمت کو الگ الگ فرقوں اور ٹولیوں میں
بانٹنے والا ہو اور ان کے درمیان اخوت و الفت کے تعلقات کو عداوت و منافرت
میں تبدیل کرتا ہو۔
تفرق کی ممانعت:
تفرق کی مذمت اور ممانعت میں 6آیات قرآن میں آئی ہیں۔ لفظ تفرق کے ساتھ
ان میں سے پہلی آیت یہ ہے ۔
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا١۪ وَ
اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً
فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا١ۚ
" اور تھام لو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور یا د
کرو اللہ کی اس مہربانی کو جو تم پر کی گئی تھی جب کہ تم ایک دوسرے کے دشمن
تھےپس الفت ڈال دی اللہ نے تمہارے دلوں میں تو بن گئے تم اللہ کی اس
مہربانی سے بھائی بھائی۔"
اس آیت میں پہلے تو حکم دیا گیا ہے کہ حبل اللہ یعنی قرآن و سنت پر مجتمع
اور متحد ہوجاؤ اس لیے کہ امت کی وحدت اور ملت کے اتحاد کی بنیاد یہی ہے۔
اس کے بعد کہا گیا ہے کہ آپس میں پھوٹ نہ ڈالو فرقوں اور گروہوں میں اس
طرح نہ بٹو کہ ملی اتحاد کا شیرازہ بکھر جائے اور تم اتحاد ملت کی بنیادوں
پر متحد و مجتمع ہونے کی بجائے متفرق اور منتشر ہوجاؤ اس طرح دور ِجاہلیت
کی حالت یاد دلائی گئی ہے کہ تمہارے درمیان دشمنیاں اور جتھہ بندیاں تھیں
اور قبائل و گروہی عداوتیں اور عصبیتیں تھیں جو اسلام کی وجہ سے ختم ہوگئیں
اور تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے تو اب اسلام لانے کے بعد اور دین واحد
پر متحد ہوجانے کے بعد اگر دوبارہ تم نے اتحاد ملت کی بنیادوں کو نظر انداز
کرکے باہمی تفرق کی روش اختیار کی اور وہی پرانی قبائلی جتھہ بندیاں اور
دشمنیاں شروع کردیں تو اخوت و الفت کی نعمت سے محروم ہوجاؤگے۔ اس آیت کے
شان نزول اور سیاق و سباق اور کلمات کے معانی تینوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس
جگہ تفرق سے مراد وہ جتھہ بندی اور فرقہ بندی ہے جو صرف حسد و عناد اور
گروہی عصبیت پر مبنی ہو۔ امام ابن جریر نے بھی آیت کا یہی مفہوم بیان کیا
ہے:
ولاتفرقوا عن دین اللہ و عھد ہ الذی عھد الیکم فی کتابہ من الائتلاف والا
جتماع علی طاعتہ و طاعۃ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
"اور الگ نہ رہو اللہ کے دین سے اور اس کے عہد سے جو اس نے اپنی کتاب میں
تم سے لیا ہے کہ آپس میں الفت ومحبت کا رویہ اختیار کرو اور اللہ و رسول
کی اطاعت پر (حبل اللہ پر) متحد و مجتمع ہوجاؤ۔"
فرقہ واریت کی تین بڑے اقسام اور ان کےاسباب:
قاضی ابوبکر ابن العربی نے تفرق ممنوع اور اختلاف ممنوع کی تین قسمیں بیان
کی ہیں جو ملی اتحاد کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
الف:۔ ایک قسم وہ اختلاف اور تفرق ہے جو حسد و عناد اور قبائلی و علاقائی
یا گروہی عصبیت پر مبنی ہو کسی علمی تحقیق اور دلیل یا مذہبی عقیدے پر مبنی
نہ ہو اس کی ممانعت سورہ آل عمران کی مذکورہ آیات اور اس کے مفہوم کی
دوسری آیات و احادیث میں آئی ہے اور یہی زیادہ خطر ناک تفرق ہے۔
ب:۔ دوسری قسم اسلام کے بنیادی عقائدے سے جان بوجھ کر انکار کرنا، اختلاف
کرنا اور پھوٹ ڈالنا۔ یہ اختلاف و انکار چونکہ لا علمی کی وجہ سے نہیں کیا
جاتا بلکہ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے ۔ اس لیے اس کی اصل وجہ بھی حسد و عناد
اور خود سری و سرکشی ہوتی ہے۔ اس نوع کے تفرق کا ذکر سورۃ الشوریٰ میں ہوا
ہے۔
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِيْۤ
اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ وَ مَا وَصَّيْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِيْمَ وَ مُوْسٰى وَ
عِيْسٰۤى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ١ؕ كَبُرَ
عَلَى الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ١ؕ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْۤ
اِلَيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَ يَهْدِيْۤ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ۰۰۱۳وَ مَا
تَفَرَّقُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا
بَيْنَهُمْ١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰۤى اَجَلٍ
مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْرِثُوا
الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ۰۰۱۴
ان آیات کامفہوم یہ ہے کہ انبیاء اور ان کی امتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ دین
کو قائم کرو اور قائم رکھو۔ ولا تتفرقوا فیہ۔ اور اس دین میں تفرقہ اور
اختلاف نہ ڈالو یعنی سب مل کر اس پر ایمان لاؤ۔ اس پر عمل کرو، اس کو قائم
کرو اور اگر قائم ہے تو قائم رکھو اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ جس دین کی
دعوت تم دیتے ہو وہ مشرکین پر بھاری اور ناگوارہے لیکن جو لوگ حق کی طرف
رجوع کرنے والے ہوتے ہیں اور حق و صداقت کے متلاشی ہوتے ہیں ان کو اللہ
تعالیٰ چن کر اس دین کے پاس لے آئے گا اور وہ ایمان لے آئیں گے اور اقامت
دین کے لیے جدو جہد شروع کردیں گے۔ پھر اختلاف و انکار کی اصل وجہ پر متنبہ
کرتےہوئے فرمایا گیا ہے کہ :
وَ مَا تَفَرَّقُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ
بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ " اور تفرقہ اور اختلاف نہیں ڈالا ، انہوں نے مگر ان
کے پاس علم آجانے کے بعدڈالا ہے آپس کی ضد کی وجہ سے۔"یعنی توحید پر مبنی
دین اسلام سے اختلاف کرنے والوں کا یہ اختلاف غلط فہمی اور لاعلمی پر مبنی
نہیں ہے بلکہ اس اختلاف و انکار کا باعث اور اصل وجہ صرف نفسانیت، عداوت
اور بغاوت ہے۔اس قسم کے تفرق کاذکر قرآن میں اس طرح بھی ہوا ہے کہ:
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ
بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَيِّنٰتُ١ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ
عَظِيْمٌۙ۰۰۱۰ ۔
" اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو بنو ، جنہوں نے پھوٹ ڈالی اور اختلاف کیا
باوجود اس کے کہ ان کے پاس کھلی دلیلیں آگئی تھیں اور یہی لوگ ہیں جن کے
لیے بڑا عذاب ہے۔"
ج:۔ تیسری قسم تفرق کی وہ ہے کہ فروعی اور اجتہادی مسائل میں ایک دوسرے سے
براءت اور قطع تعلق کیا جائے اور ایک دوسرے کی تفسیق و تضلیل کی جائے یہ
بھی ممنوع ہے ۔ اس لیے کہ آراء کا یہ اختلاف قرآن وسنت کی تعبیر میں ہے
اور تعبیر و اجتہاد کا اختلاف امت کی وحدت کے منافی نہیں ہے تو جو شخص اور
گروہ اس نوع کے اجتہادی اور تعبیر کے اختلاف کو فرقہ واریت اور گروہ بندی
کا ذریعہ بناتا ہے اور مخالف رائے رکھنے والوں کی تضلیل و تفسیق اور تذلیل
و تحقیر کرتا ہے وہ یہودیوں کی سنت پر چلتا ہے اور قابل مذمت ہے۔
پاکستان میں فرقہ واریت کے دیگر وجوہات:
فرقہ واریت کےمذکورہ اقسام اور اسباب کے علاوہ کچھ سیاسی اور انتظامی
خامیاں اورخرابیاں بھی ہیں۔جس کی وجہ سے فرقہ واریت اس ملک سے ختم ہونے کے
بجائے مزید مستحکم ہوتاجارہاہے۔ پاکستان آزادی کے ابتدا سے بے شمارمسائل
اور بحرانوں سے دوچار رہاہے۔ مسائل کے حل کی بجائے منفی اقدامات، خرابی میں
اضافہ کاباعث بنتے رہے ہیں۔ اس لئے کہ ملک کو چلانے کے لیے کمزور اور بے
سمت ریاستی نظام اختیار کیا گیا۔ ملک کے اندر بہت سارے وسائل کو خود
انحصاری کی بنیاد بنانے کی بجائے امداد، قرضوں اور کشکول تھامنے کا رویہ
اپنایا گیاہے۔ ملک میں بار بار فوجی آمریت نے عوام کے اعتماد کو منتشر کیا
اور پوری قوم کو تقسیم درتقسیم کا شکار کردیا۔ عالمی قوتوں نے پاکستان کی
جمہوری حکومتوں کو تنگ کیا اور فوجی آمروں کی سرپرستی کی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلاف کا بنیادی ایشو ''مسئلہ کشمیر'' ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنی قرار داد ں کے ذریعے فیصلہ دیاہے کہ دو کروڑ کشمیریوں
کو حق خودارادیت دیا جائے۔لیکن کشمیریوں کو اُن کے اس حق سے محروم رکھا گیا
ہے۔ پاکستان کشمیریوں کی اصولی بنیادوں پر سیاسی اور اخلاقی و سفارتی مدد
کررہاہے جس کی سزا پاکستان کو دی جاتی اس صورتِ حال میں عالمی برادری
جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ملک میں جاگیردارانہ اور مفاد پرستی کی
بنیاد پر ناقص سیاسی ریاستی ڈھانچہ اورحکمرانوں کی بےحکمتی، حالات کی خرابی
کا باعث بنی ہے۔
عوام جن بنیادی مسائل اور بحرانوں سے دوچار ہیں ان میں غربت، جہالت، طبقاتی
نظامِ تعلیم، کرپشن، سیاسی عدم ِاستحکام، بیرونی مداخلت، دہشت گردی تخریب
کاری، مذہبی انتہا پسندی، آبادی میں وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ، مہنگائی،
بے روزگاری اورتوانائی کا بحران سرفہرست ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے میں
حکمران طبقات ناکام رہے ہیں اور اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے ریاستی نظام،
عوام کو تقسیم کرو۔ اورحکمرانی جمائے رکھوکے فارمولے پر عمل پیرا ہیں جس سے
معاشرے میں مذہبی، طبقاتی، لسانی اورعلاقائی تقسیم کے رجحانات پوری شدت سے
پیدا ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے شیعہ اور سنی مسالک کے درمیان عدم برداشت، دل آزار لٹریچر کی
اشاعت، غیرذمہ دارانہ تقاریر، ایک دوسرے کی توہین اورتضحیک شدت پسندی اور
لاقانونیت کےباعث بنے ہوئے ہیں۔سانحہ راولپنڈی اسی کا نتیجہ ہے جو کہ ایک
نہ ختم ہونی والی آگ نظر اتی ہے۔افسوس اس بات پر ہے کہ اب بھی حکمران طبقہ
ان مسائل کے حال کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔
پاکستان کا شمار عالم اسلام کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ لیکن یہاں شیعہ سنی
اختلاف اورفساد نے سنگین صورتِ حال اختیار کرلی ہے۔ سنی مسلک کے عوام بڑی
اکثریت میں ہیں۔ شیعہ مسلک اقلیت ضرور ہیں لیکن یہ آبادی عراق میں شیعہ
آبادی سے بڑی آبادی ہے۔
گذشتہ دو دہائیوں میں اس فرقہ وارانہ قتل وغارت گری کا تقریبا 4000
افرادشکار ہوئے ہیں۔ ایک منصوبے کے تحت صرف شیعہ ہی نہیں اہل سنت علمائے
کرام، واعظین، مشائخ عظام، ڈاکٹرز اور انجینئرز ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو رہے
ہیں۔واقعہ گجرات اور لاہور اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
مدارس، مساجد، مزارات اور امام بارگاہیں،سب ہی منصوبہ بندی کے تحت تخریب
کاری کا نشانہ بن رہی ہیں۔یہ سب کچھ اس ملک میں نفرت پیدا کرنے کے لیے کیا
جا رہاہے تاکہ پاکستان، ایران، افغانستان، سنٹرل ایشیا اور چین متحد نہ
ہوسکے۔ظاہر ہے کہ جس کی نتیجے میں امریکہ اور اس کی حوارین کی بالادستی
یہاں قائم رہی گی۔
اس صورتِ حال کا القاعدہ، طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اورسپاہ محمدکو
ذمہ دارقرار دیا جاتاہے۔ یقینا خرابی پیداکرنے اور بربادی مسلط کرنے کے لیے
لوکل ایکٹرز ضرور استعمال ہوتے ہیں لیکن ڈائریکٹراور ماسٹر مائنڈ کہیں اور
ہیں جن کے خطہ میں معاشی، سیاسی، دفاعی اور بالادستی کے مفادات ہیں۔
اصلاحی تجاویز
1۔اتحادِ ملت
مذہبی قرقہ واریت کے خاتمے کی جدوجہد کی کامیابی کےلیے ملت کا اتحاد ضروری
ہے اور ملت کا اتحاد علماء دین کے اتحاد کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے کہ
علماء دین ملت کے دینی قائدین ہیں ۔ جب قائدین میں افتراق و انتشار ہو اور
وہ فرقوں اور گروپوں میں بٹ چکے ہوں اصول و عقائد میں متحد ہونے کے باوجود
انہوں نے ایک دوسرے کو گرانے اور ہرانے کے لیے فرقہ بندی، گروہ بندی اور صف
بندی کر لی ہو اور اپنی علمی قوت اور تحریرو تقریر کی صلاحیتیں اتحادِ امت
کی بجائے افتراقِ امت کے لیے اور غلبہ اسلام کی بجائے اپنے اپنے فرقوں اور
گروپوں کو غلبہ اور برتری دلانے کے لیے استعمال کرتے ہوں تو قائدین کا یہ
افتراق و انتشار ان کے متبعین میں او ر اماموں کا یہ تفریق و تحزب ان کے
مقتدیوں میں بھی پھیلےگا اور ملی اتحاد کا شیرازہ بکھر جائے گا جیسا کہ آج
کل بکھرا پڑا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فرقوں کی بنیاد پر جماعتوں کی
تنظیم اور مسجدوں کی تعمیر کی روش اخلاص کے ساتھ ترک کردی جائے اور علماء
دین کے اتحاد و اتفاق کے لیے ایک مہم شروع کی جائے۔ حنفی وغیرہ حنفی اور
دیوبندی وغیرہ دیوبندی کی بنیاد پر جب مسجدیں بنیں گی یا ان پر قبضے کئے
جائیں گے تو ملت کا اتحاد محض ایک تصوراتی اور کتابی چیزیں بن جائے گی
عملاً باہم متحارب اور متباغض فرقے اور گروہ برسر پیکار رہیں گے لیکن جب
فرقوں اور اجتہادی مسلکوں کی بنیاد پر نہ مسجدیں بنیں گی ، نہ مدرسے بنیں
گے نہ تنظمیں بنیں گی اور نہ جلسے اور کانفرنسیں ہو ں گی بلکہ ساری
سرگرمیاں قرآن و سنت اور دین اسلام کےنام پر ہوں گی تو اس کے نتیجے میں
اخوت اسلامی کی روح افزا اور ایمان افروز فضا بنے گی اور ملی اتحاد کا منظر
بر سر زمین آنکھوں سے دیکھا جائے گا ۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آراء کا
اختلاف ختم ہوجائے گاآراء کا تنوع تو ختم نہیں ہوسکتا ۔ جب اسلام نے
اجتہاد کی اجازت دی ہے اور اجتہاد میں آراء کا اختلاف ایک فطری چیز ہے تو
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام نے اجتہادی اختلاف کی اجازت بھی دی ہے بلکہ
مسجدوں اور مدرسوں کے اس اشتراک سے فرقہ بندی ختم ہوجائے گی۔ اسلا م کے
اصول اور اہل سنت کے اصول میں اشتراک کے باوجود ایک دوسرے کی اقتداء میں
نمازیں نہ پڑھنا اور مسجدیں الگ کرنا اصول اسلام کے خلاف ہے اور اصول اہل
سنت کے بھی خلاف ہے ۔
اتحادِ ملت کی بنیادیں
اُمتِ مسلمہ اور ملتِ اسلامیہ فرقوں اور گروہوں کے مصنوعی اور سطحی اتحاد
کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی معنوں میں جسدواحد اور بنیان مرصوص کی طرح اُمت
واحدہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ "وحدت اُمت" اور "اتحاد ملت" کی بنیاد کیا ہے؟
اس سوال کا جواب ظاہر ہے کہ یہی ہوسکتا ہے کہ جس دین اور شریعت کی بنیادپر
یہ اُمت اور یہ ملت وجود میں آئی ہے وہی دین شریعت ملت کے اتحاد کی بنیاد
ہے اور وہ دین اسلام اور شریعت محمدیﷺ ہے ۔ دین اسلام کے اصول و فروع دونوں
کا سرچشمہ اور مأخذقرآن و سنت ہے اس لیے اتحاد کی بنیاد قرآن و سنت ہی بن
سکتے ہیں اور کوئی چیز اتحاد کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے "حبل
اللہ" پر مجتمع اور متحد ہونے کا حکم دیا ہے اور آپس میں پھوٹ ڈالنے سے
منع کیا ہے۔
رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے یہی پسند کرتا ہے کہ
حبل اللہ پر متحد ہوجاؤ اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔
حبل اللہ یعنی اللہ کی رسی سے مراد کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں صحیح حدیث
میں ملتا ہے کہ :
کتاب اللہ ھو حبل اللہ من اتبعہ کان علی الھدی و من ترکھا کان علی ضلالۃ ۔
جس طرح اتباع قرآن ہدایت ہے اور ترک قرآن ضلالت ہے اسی طرح اتباع رسول
ہدایت ہے۔ واتبعوہ لعلکم تھتدون ۔اور اس کی (رسول کی) پیروی کرو تاکہ تم
سیدھا راستہ پا سکو۔"
وانک لتھدی الی صراط مستقیم ۔ " اور بے شک آپ لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتے
ہیں۔"
قرآن کریم کی 60آیات میں اطاعت اور اتباع رسول کا حکم دیا گیا ہے۔ ان
دلائل قرآنیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اتحاد کی دوسری بنیاد سنت رسول ہے ۔اتحاد
ملت کی بنیاد قرآن و سنت ہے جو لوگ اس بنیاد کو نہیں مانتے وہ اُمت مسلمہ
کے وحدت اور ملت کے اتحاد سے باہر ہیں اور امت مسلمہ کے مقابلے میں سب کے
سب ملتِ واحد ہیں ۔ الکفر ملۃ واحدۃ۔
اتحا د کی اصل بنیادیں تو یہی دو ہیں لیکن چونکہ قرآن وسنت سے ثابت ہے کہ
اجماعِ صحابہ اور اجماعِ اُمت بھی حجت شرعیہ ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنا
ضلالت ہے اس لیے اُمت کی وحدت کی تیسری بنیاد اجماع ہے اور جو لوگ ثابت شدہ
اجماع کے خلاف انفرادی اجتہاد آرائی کرتے ہیں وہ دراصل امت کی وحدت کو
نقصان پہنچاتے ہیں اور ضلالت کے راستے پر جا رہے ہیں۔
ماہرین شریعت نے اجماعِ اُمت بالخصوص اجماعِ صحابہ کے حجتِ شرعیہ ہونے پر
قرآن کریم اور احادیثِ رسول سے استدلال کیا ہے۔ قرآن و سنت کے انہی دلائل
کی بنا پر حضرت عمرؓ نے قاضی شریح کے نام اپنے خط میں لکھا تھا کہ "اگر
قرآن وسنت سے حکم معلوم نہ ہو سکے تو وہی فیصلہ کرو جس پر صالحین کا اجماع
ہوچکا ہو۔"
بہر حال قرآن وسنت کے منصوص احکام اور اجماعِ صحابہ و اجماعِ امت سے ثابت
شدہ احکام اتحاد ملت کی بنیادیں ہیں۔اور اس کے مطابق اس ملک کے عوام میں
شعور پیداکرنا چاہئے اور ان شاء اللہ اس کی بنیاد پرفرقہ واریت کوکم کرکے
تدریج کے ساتھ ختم کیاجاسکتاہے۔
2۔سیاسی اور انتظامی اقدامات
صرف یہ کہہ دینے سے کہ دینی مدارس اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں یہ مکمل
سچائی نہیں۔ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہر قسم ذاتی سیاسی مفادات سے
بالاتر ہوکر اسلا م کی صحیح فکر کی ترویج کی لئے اقدامات کریں۔ فرقہ واریت،
اور محرومیوں کی بنیاد پر شدتِ جذبات کے ازالے کے لیے، انتظامیہ کے تمام
متعلقہ گروہوں کو اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے۔اس کے لیے ضروری ہے
کہ بیرونی مداخلت ختم کیاجائے، حکومت کسی بھی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ
میں امریکی آلہ کار بننے سے انکار کرےاور امریکہ کو خطہ سے نکلنے پر
مجبورکیا جائے ۔ ملک کے اندر دینی و سیاسی قیادت اور ریاستی ادارے،
متحدہوکربرداشت، باہمی احترام اور قانون کے بلاامتیاز نفاذ کے لیے اقدامات
کریں ۔ اس کے علاوہ حل کے لیے درج ذیل امور بہت اہم ہیں:
(1) خطرات کو مول لے کر مسائل حل کرنےکے اقدامات
(2) مذاکرات کے ذریعے انتہا پسند گروپس کو قومی دھارے میں لانے کی لئے عملی
پیش رفت کیجائی۔
(3) میڈیا (پِرنٹ و الیکٹرانک)کومکمل دیانتداری اورغیرجانبداری کیساتھ
حقیقی حل کے لئے تعمیری اور مثبت کردار ادا کرنا چاپئے۔
اس طرح سیاسی اور ریاستی سطح پر متحد ہو کر واضح لائحہ عمل اختیار کیا
جائے۔ سیاسی قوتیں سیاسی استحکام پر متحد ہوں۔ پِرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا
پرعوام میں بیداری اور آگہی کی بھر پورمہم چلائی جائے۔ یہ اقدام فرقہ
وارانہ شدت کے خاتمے کا باعث ہوسکتے ہیں۔
متصادم گروہوں میں سے مہذب، معزز، صاحبانِ فکر و دانش جرأت کا مظاہرہ کریں
اور مذاکرات کے ذریعے گفتگو کا ماحول پیدا کریں تو جذبات جو انتہا پر ہیں
انھیں اعتدال کی سطح پر لایاجاسکتاہے۔
پاکستان اسلامی نظریاتی مملکت ہے، اسلام، قرآن اور عشق رسول اللہﷺ عوام کی
رگ و پے میں رچا بسا ہے۔لہذاریاستی طاقت کے ساتھ سیکولر اور طبقاتی نظام
تعلیم نیزبے مقصد نصاب تعلیم کی بجائے جدید تقاضوں اور حالات کے مطابق
تعمیری اوراسلامی نظریاتی نظام ِتعلیم پاکستان کی اہم ترین ضرورت ہے۔
مذہبی فرقہ واریت کے خاتمے کے لئےملی یکجہتی کونسل کے 17نکاتی ضابطہ اخلاق
کی روشنی میں یہ آئینی تحفظ دیا جائے کہ فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ بنیاد
پر نفرت اور لاقانونیت کو سنگین جرم اور اس کی مھین سزا دی جائے گی۔
پِرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، انسانیت کے دشمن فرقہ پرست عناصر کو ہیرو بناکر
پیش نہ کریں۔ دین اسلام ہی اس ملک کے عوام کے اتفاق کا واحد اور بنیادی
ذریعہ ہے۔لہذا اسلام اور اسلامی روایات کوکمزور نہ کیا جائے ورنہ خدا
نخواستہ جتنے قومیں اس ملک میں آبادہیں اتنے اس ملک کے ٹکڑے ہو جائے نگے۔
یہ واضح اور اٹل حقیقت ہے کہ ہرقسم فرقہ واریت کے خاتمے کا ایک اور صرف ایک
بہترین حل اتحادِ اُمت ہے۔ قرآن و سنت کے غلبہ اور نظامِ اسلام کی نفاذمیں
ہی ملتِ اسلامیہ کی خیر ہے یہی اس ملک کے نجات کا واحد راستہ ہے۔ |