رضا علی عابدی کا شمار پاکستان اور ہندوستان کے سینئر ترین صحافیوں میں
ہوتا ہے وہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔اس وقت رضاعلی عابدی کی صورت میں ایک
بہترین کالم نگار،افسانہ نویس،سفر نگاراوربہترین براڈکاسٹر اور بلند پایا
استادپاکستان کے پاس موجود ہے ۔78سالہ زندگی میں سے انہوں نے نصف سے
زائدقلم قبیل سے وابستگی میں گزار دیئے ۔رضا علی عابدی 30نومبر
1936کوہندوستان کے علاقے رورکی میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم انہوں نے
ہندوستان کے علاقے یوپی سے حاصل کی ،ان کے والد کا تعلق لکھنوء سے تھا ،وہ
1950کو پاکستان میں آگئے ۔13برس کی عمر میں انہوں نے اخبارات و جرائد کا
باقاعدگی سے مطالعہ شروع کیاجو 65سال بعد بھی جاری و ساری ہے۔اخبارات کے
مطالعہ سے وہ فن خبر نگاری سے مکمل واقف ہو چکے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے
20برس کی عمر میں 1956میں پہلی مرتبہ بائیں ہاتھ سے انگریزی خبر کا ترجمہ
کیا۔انہوں نے 1965کی جنگ کو نہ صرف دیکھا بلکہ اس کو مکمل اخبار میں رپورٹ
بھی کیا ۔اس وقت وہ عملی طور پر روزنامہ حریت کے ساتھ منسلک تھے۔اس کے بعد
انگلستان مزید تعلیم کے حصول کے لئے اکالرشپ پر چلے گئے۔پھر 1972میں ا نہوں
نے بی بی سی سے منسلک ہو کر عملی طور پر اپنے کیئرئرکا آغازکیا اور پھر بی
بی سی کے پروگرام ،ڈاکیومنٹریاں تھیں اور رضاعلی عابدی تھے ،بی بی سی نے
انہیں پاکستان بلکہ پوری دنیا کے اردو بولنے والوں میں دلوں میں جا
بٹھایا۔اور یوں وہ 1996میں60سال کی عمر میں ریٹارڈ ہوئے۔
رضا علی عابدی نے اب تک 30سے زائدکتابیں لکھیں ہیں جس میں 16بڑوں
اور14کتابوں کا تعلق بچوں اور کے مسائل و عمر سے ہے ۔اُن کو 6نومبر 2013کو
بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کی طرف سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی دینے
کااعلان کیا گیا۔ 1996میں ریٹائرڈمنٹ کے ایک ماہ کے توقف کے بعد سے2008تک
انہوں نے واپس پیچھے مڑ کرنہیں دیکھا یہی وجہ سے کہ آج ان کی طرف پاکستان
کے نوجوان دیکھ رہے ہیں اور انہی نوجوانوں میں وہ ایک ایسے دن میں اپنی
زندگی کے اوراق ِزیست کو پلٹ رہے تھے کہ جس وقت عالمی سطح پر ’’ریڈیو کا
دن‘‘ منایا جارہا تھا۔ یہ دن اس تصور کی بنیاد پر منایا جاتا ہے کہ ریڈیو
وہ ذریعہ ابلاغ ہے جو فرد کے اندر شعور پیدا کرنے کے ساتھ عالمی سطح پر
قوموں کے درمیان رابطے کا وسیلہ ہے اور ایک ایسا ذریعہ ہے جو بیک وقت زیادہ
سے زیادہ لوگوں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے،اسی ریڈیو سے منسلک رہنے والی
شخصیت رضا علی عابدی 13فروری 2013کووفاقی اُردو یونیورسٹی عبدالحق
کیمپس(کراچی) کے شعبہ ابلاغِ عامہ کے تحت منعقدہ سیمینار سے مہمان خصوصی کی
حیثیت سے خطاب کررہے تھے۔صحافت کی صنف سے واقفیت کے متلاشیوں کے سامنے وہ
اپنے وسیع تجربے کو بیان نہایت ہی سادہ اور عوامی انداز میں بیان کررہے تھے
۔انہوں نے طلبہ و طالبات سے مخاطب ہو کر کہا کہ جن حالات میں ہم نے اس
میدان میں قدم رکھا تھا اس دور میں خواتین ٹی وی پر مرد کی تصویر دیکھ کر
بھاگ جاتی تھیں اب تو میڈیا ملک کے بگڑے ہوئے حالات کو بے جاسنسنی خیزی اور
بے ہنگم طریقے سے پیش کررہا ہے ،میڈیا کی اس روش سے پاکستان میں انسانی
زندگی بے مزہ ہوتی محسوس ہورہی ہے۔ پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا کے نجی
شعبے میں آمد کے بعد سے اردو زبان کے فروغ میں بڑی مثبت تبدیلی آچکی ہے مگر
میڈیا کی پیش کش بے جا غفلت اور پڑھنے لکھنے کی عادت سے دوری نے اردو زبان
کی خوبصورتی اور شائستگی کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے ۔اردو ایک شائستہ
وشستہ زبان ہی نہیں بلکہ رابطے اورابلاغِ عامہ کی زبان بھی ہے۔
تشنگانِ علوم وفنون ِصحافت سے رضا علی عابدی کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے
اس شعبے میں رہ کر اصول و کلیاتِ صحافت کے تحت 35برس گزارے ہیں جس کے بعدوہ
اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ صحافی کو اپنے قارئین اور سامعین سے محبت اور ہر
خبر اور پروگرام میں مدنظر رکھنا چاہئے اور اسی اصول کے تحت انہوں نے وقت
گزارا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگ کو پسند کرتے ہیں۔ رضا علی عابدی
نے ابلاغِ عامہ کے طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنی تحریروں میں
شائستگی و شستگی لائیں تاکہ ان کی بات قاری کے دل و دماغ تک پہچے اور وہ اس
کااثر قبول کرے ۔ میڈیا کے اداروں کے لیے اپنے قارئین، سامعین اور ناظرین
کا اعتبار حاصل کرنا اور اسے برقرار رکھنا بہت اہم ہوتا ہے۔ لیکن لگتا آج
کل لگتا ہے کہ آج کل پاکستان میں میڈیا کے ادارے سامعین و ناظرین کے اعتبار
کے بجائے سیاسی اور تجارتی سہاروں کی وجہ سے چل رہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ
میڈیا میں کام کرنے والے ملازمین کو وقت پر تنخواہیں بھی اد ا نہیں ہوتی
ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ میڈیا کے پیغام میں تھوڑی بہت مبالغہ آرائی تو دنیا
میں ہر جگہ میں پائی جاتی ہے مگر پاکستان میں خبروں کی دوڑنے خبروں اور
اطلاعات کی صحت کو بھی متاثر کردیا ہے خبروں اور افواہوں میں فرق کرنا
دشوار ہوچکا ہے ۔انہوں نے نوجوان براڈ کاسٹراو ر نئے لکھنے والوں کو تلقین
کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے سامعین و ناظرین سے اپنے فن او ر اپنے آپ کی طرح
محبت پیدا کریں اور ان کو بہترین معلومات شائستگی سے پہنچانے کے لیے اپنے
پروگرام عکس بند کریں ۔ اس موقع پر رضاعلی عابدی نے بی بی سی میں35سالہ
ملازمت کے دوران 15سالہ پرنٹ اور ’’براڈ کاسٹنگ ‘‘کے دوران پیش آنے والے
دلچسپ واقعات بھی سنائے۔انہوں نے بتایا کہ ان کی 30تصانیف میں 16بڑوں کے
لئے اور 14بچوں کے لئے لکھی ہیں مطالعے کااورتحریر کا یہسلسلہ اب بھی جاری
ہے اور میرے جیب میں موجود قلم اب بھی چاہ رہا ہے کہ میں کچھ لکھوں اور جب
میں لکھتا ہوں وہ کسی قاری تک پہنچتا ہے تو میرا ضمیر مطمئن ہوتاہے یہ
سلسلہ اب بھی جاری ہے۔انہوں نے ابلاغ عامہ کے طلبہ کو بتایا کہ خیالات کو
پرکشش بناکر دل میں اتارنا ہی براڈ کاسٹر کا کمال حسن ہے بی بی سی میں سروس
کے دوران ان کو سکھایا گیاکہ ان کو اپنی آواز سے پیا رکرنا چاہیے لیکن اب
زندگی لگا کہ میں یہ تجربہ اخذ کرچکا ہوں کہ براڈ کاسٹر کو اپنی آواز سے
اپنے سامعین سے محبت پیدا کرنا چاہیے۔ |