غیر اخلاقی ٹی وی پروگراموں کی بندش کی قرارداد منظور

منگل کے روز قومی اسمبلی نے ملک میں نجی اور سرکاری ٹی وی چینلوں پر غیر اخلاقی پروگراموں پر پابندی عاید کرنے کے حوالے سے جماعت اسلامی کے ایم این اے صاحبزادہ طارق اللہ کی جانب سے پیش کردہ قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی گئی ہے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جب ٹی وی کھولیں فحش پروگرام دیکھنے کو ملتے ہیں، جو آئین کے آرٹیکل 37کے منافی ہے۔ پیمرا کے ضابطہ اخلاق کی شق میں بھی کہا گیا ہے کہ غیر اخلاقی اور فحش پروگرام نہیں دکھائے جا سکتے، لیکن اس پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ جماعت اسلامی کے شیر اکبر خان نے قومی اسمبلی میں کہا کہ ملک میں 100 سے زاید چینل چل رہے ہیں ،جن پر فحاشی و عریانی ہوتی ہے، یہ آئین کی متعدد شقوں کے خلاف ہے۔ اس وقت میڈیا پر فحاشی و عریانی کا بازار گرم ہے، جو پیمرا کے قواعد کے خلاف ہے۔ ٹی وی کے بعض پروگرام ہمارے کلچر اور اخلاقیات کے خلاف ہیں، حکومت فحاشی روکنے کے لےے اقدامات کرے۔

واضح رہے کہ متعدد بار عدالت میں چینلز پر فحاشی اور بداخلاقی پر مبنی مواد کی روک تھام کے لیے درخواست دائر کی جاچکی ہے، جس کے بعد متعدد بار عدالت نے غیر اخلاقی ٹی وی پروگرامز کے حوالے سے پیمرا کے خلاف نوٹس بھی لیااور سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ”پیمرا“ کو اس بات کا پابند بھی کیا تھا کہ کیبل پر دکھائے جانے والے غیرقانونی انڈین اور دوسرے فحش چینلوں کو بند کیا جائے، مگر پاکستان بھر میں چینلوں پر ہرقسم کی گندگی بلاروک ٹوک دکھائی جارہی ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ میڈیا کے ذریعے قوموں کو بگاڑا بھی جاسکتا ہے اور سنوارا بھی جاسکتا ہے۔ اگر میڈیا مثبت کردار ادا کرے تو اس کے نتائج مثبت مرتب ہوتے ہیں اور اگر منفی کردار ادا کرے تو اس کے نتائج بھی منفی ہی برآمد ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں میڈیا کو مثبت کی بجائے منفی کرداد کے لیے زیادہ استعمال کیا جارہا ہے۔ ملک بھر میں کیبل نیٹ ورک کے ذریعے درجنوں غیرقانونی چینل دکھائے جارہے ہیں،جن کو دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے،یہی مادر پدر آزاد چینلز ملک میں فحاشی کو فروغ دینے میں اہم کرداد ادا کررہے ہیں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈ یا کی تشہیر سامعین اور ناظرین کے اذہان پر دیگر طریقوں کی نسبت زیادہ اثرات مر تب کرتی ہے۔ تشہیر کی صنعت میں ناظرین کی آنکھو ں کو خیرہ کرنے کے لیے عورت کو بطور آلہ اور ذریعہ استعمال کیاجارہا ہے۔ اشیاءاور خدما ت کے سستے داموں استعمال کی ترغیب وتحریص کے لیے نیم برہنہ لبا س میں ملبوس خواتین کا بطور آلہ استعمال ایک گھٹیا اور عالمی سطح پر مستعمل طریقہ تشہیر ہے۔ پردہ اسکرین پر جاذبیت میں اضافے کے لیے عورت کے استعمال اور اسے مال تجارت کے مساوی کر دینے سے اس کی عزت نفس ختم ہو جا تی ہے۔

ہمارے ملک میں میڈیا کا احتساب نہ ہونے کے سبب میڈیا اس قدر آزاد ہوگیا ہے کہ چند ٹکوں کے عوض ٹی وی پر فحش اشتہارات کی بھرمار ہے،ٹی وی چینلز پر بھارتی تہذیب و ثقافت پر مبنی عریاں پروگرام نشر ہوکیے جاتے ہیں ، جس سے نئی نسل کا اخلاقی دیوالیہ نکل گیا۔ چند سالوں سے تو ایک منظم منصوبے کے تحت فحاشی ، عریانی کو فروغ دینے میں الیکٹرانک میڈیا بھرپور کردارادا کر رہا ہے۔اخلاقی اقدار سے گرے ہوئے اشتہارات اور فحاشی و عریانی پر مبنی پروگرامات نے قوم کی غیرت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ سازش کے تحت مذہبی کلچر کو کچل کر فحاشی پر مبنی مغربی تہذیب کو ملک میں مسلط کیا جا رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور نجی ٹی وی اداروں نے قومی غیرت کی لوٹ سیل لگا دی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں فحاشی و عریانی پر مبنی اشتہارات ، پروگرامات نہ صرف ہماری ثقافت و تہذیب پر حملہ ہے، بلکہ ہمارے آئین و قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کے دستور کے سیکشن دوئم میں لکھا ہے کہ ریاست پاکستان کا مذہب اسلام ہو گا اور قراردادِ مقاصد کی شقیں اس کا ایک اہم حصہ ہوں گی۔ آئین کا سیکشن 31 اسلامی طرز زندگی سے متعلق ہے،جس میں لکھا ہے کہ حکومت ایسے اقدامات اٹھائے گی جن کی بدولت پاکستان کے مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قرآن اور سنت کے مطابق بسر کر سکیں گے۔ آئین کے سیکشن 37 میں سماجی انصاف دینے اور سماجی برائیاں ختم کرنے کا ذکر ہے، جس کے سب سیکشنز جی اور ایچ میں بڑے واضح انداز میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں جسم فروشی یا بدکاری، جوا کھیلنے، نشہ آور دواﺅں کے استعمال اور Obscene یعنی اسلام کی رو سے غیر شرعی بے حیائی، قابل حقارت اور بیہودہ لٹریچر اور اشتہاروں کے استعمال کی ریاست میں بالکل اجازت نہیں ہو گی۔

اسی قسم کی بے ہودگی اور فحاشی کو کنٹرول کرنے کے لیے ہمارے ملک میں ”پیمرا“ کے نام سے ایک ایسا ادارہ ہے، جو میڈیا کو نشریات کا لائسنس جاری کرنے کا کا م کرتا ہے۔ یہ ادارہ لائسنس کے لیے ناگزیر چیزوں کو واضح کرتا ہے، جن میں نشر ہونے والے پروگراما ت اور اشتہارات کے حوالے سے قواعد وضو ابط شامل ہیں۔ پیمرا قوانین کے تحت کسی بھی پروگرام کے مشتملات ،ا س کے بنیادی خاکے اور تصورات کی رہنمائی کے لیے قواعد وضع کیے گئے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا میں نشر کیے گئے پروگرامات کے مندرجات پر عوامی حلقوں کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کو جاننے اور قواعد پر عمل درآمد کے لیے مجالس شکایا ت (کونسلز آف کمپلینٹس) بھی قائم کی گئی ہیں۔ میڈیا کی تشہیر اور کیبل آپریٹرز کے حوالے سے پیمرا کا ضابطہ اخلاق یہ ہے کہ بدکاری کی حوصلہ افزائی کرنایا کسی بھی طریقے سے بے شرمی پر ابھارنا، شہوانی جذبات بھڑ کانا اور غیراسلامی اقدارکو فروغ دینے کی کسی بھی تشہیر کی اجازت نہیں ہے۔ ہر قسم کا ایسامواد جو گھر ،خا ندان اور شادی کے تقدس کو پامال کرے یا غیر شائستہ ، فحش یا توہین آمیز خیالات اور برتاؤ پر مشتمل ہو، وہ بھی ممنوع ہے۔اسی طرح ایسی تشہیر جو نظریہ پاکستا ن اور اسلامی اقدار کے منافی مواد پر مشتمل ہو اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔اس قانون کے تحت تشہیر کرنے والا اپنی تشہیر کو آئین پاکستان اور ملکی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے اس انداز میں ترتیب دے کہ اس میں اخلاقیا ت ،شائستگی اور پاکستان کے مذہبی طبقات کے جذبات کی توہین کا کوئی پہلو نہ ہو۔ ہمارے آئین و قوانین میں اس قسم کے قواعد و ضوابط ہونے کے باوجود آج تک سختی سے ان پر عمل نہیں ہوسکا اور نہ ہی سرکاری سطح پر اس جانب کبھی توجہ دی گئی۔میڈیا پر غیر قانونی مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے اگرچہ پیمرا نام کا ادارہ قائم ہے لیکن وہ بھی غیر متحرک و جامد۔حالانکہ میڈیا پر غیر اخلاقی و فحش مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک میں سخت قوانین مرتب کیے گئے ہیں، جن کے مطابق بے حیائی کے فروغ ، غیر مہذب مواداور تصاویر کی اشاعت اور عوام کے ذوق سلیم کو زک پہچانے والے مواد کی تشہیر پر سزا کا تعین کیا گیا ہے۔کسی ایسے اشتہار کو شائع کرنےکی اجازت نہیں، جس میں عورت کے تحقیر آمیز امیج کو سامنے لایا جائے ۔ خواتین کی ایسی تصویر کشی نہیں ہونی چاہیے جوخاندان اور معاشرے میں ان کے ماتحت اور ثانوی حیثیت کے کردار کی حو صلہ افزائی کا باعث ہو۔ اکثر ممالک میں کیبل آپریٹر اس بات کی ضمانت دینے کے پابند ہیں کہ وہ کیبل پر نشر ہونے والے اپنے پروگرامات میں خو اتین کی ایسی نمائندگی کریں گے جو ذوق سلیم اور شائشتگی کے معیارات پر پو ری اترتی ہو ں۔ ہمارے ہاں قانون اور اس کے نفاذ کے نظا م کی اصلاح اور قوانین پر سختی سے عمل کی ضرورت ہے۔قومی اسمبلی میں اگرچہ میڈیا پر غیر اخلاقی ٹی وی پروگرامات کے خلاف قرارداد منظور ہوچکی ہے، لیکن اس پر عمل کروانے کے لیے سخت اور طویل جدوجہد درکار ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700724 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.