محبت پھول جیسی ہے - قسط 4

3 اپریل 2005 بروز اتوار
پچھلےچند دنوں سے مصیبتوں نے جیسے میرے گھر کا راستہ ہی دیکھ لیا۔ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ ایک ختم ہوتی نہیں، دوسری راہ دیکھ رہی ہوتی ہے اور خوشیاں تو ایسے روٹھیں کہ واپس مڑ کر دیکھا تک نہیں۔ویسے زندگی تو نام ہی اسی کا ہے ۔ کہیں خوشی توکہیں غم۔ کہیں بہار تو کہیں خزاں۔لیکن میرے خیال میں تو زندگی میں کہیں گہری کھائیاں ہیں جس میں اندھیرے ہی اندھیرے ہیں اور ان کا سفر طے کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن سا لگتا ہے اور کہیں پہاڑ ہیں جن کو سر کرنا محال ہے اور خوشیاں ان دونوں میں گمنام شے ہے۔انسان خوشیوں کی تلاش میں کبھی گہری کھائی میں جا گرتا ہے یا ایسے پہاڑ کو سر کرنے کی کوشش کرتا ہے جو ایک ناممکن کام ہے۔ میں بھی شائد زندگی کے ایسے ہی دور سے گزر رہا ہوں۔
کل ابو کی برسی تھی۔پورا خاندان تو اس طرح اکٹھا ہوگیا جیسے ہم ان کے جانے کا غم نہیں بلکہ ان کے جانے کی خوشی منارہے ہوں۔کسی کو بلاؤ نہ بلاؤ سب اس طرح اکٹھے ہوجاتے ہیں جیسے میلہ لگ رہا ہو۔چلو آہی گئے ہیں تو آکر ایصال ثواب کے لیے کچھ پڑھ ہی لیں۔ دو اکٹھے ہوئے نہیں، باتیں شروع۔ مجھے تو اتنی کوفت ہوتی ہے کہ بس کیا بتاؤں۔ دل تو چاہتا ہے کہ اسی وقت ان سب کو وہاں سے جانے کا کہہ دوں مگر کیاکریں۔ ۔ ۔دنیا داری بھی تو نبھانی پڑتی ہے۔مہمانوں کو یہ کیوں خیال نہیں رہتا کہ جس گھر میں ہم جارہے ہیں وہ تو خود ایک غم سے گزر رہا ہےاور ہم کیوں ان کے گھر جاکران کی پریشانی کو بڑھائیں۔ اگر افسوس کے لیے آنا ہی ہے تو ایک دو بندے آجائیں۔ ۔ ۔مگر ۔ ۔ ۔نہیں۔ ۔ ۔پورا خاندان لیے بغیر تو ہلنا تک نہیں۔۔ ۔ ۔ ۔امی،ابو،خالہ،ممانی،ماموں،چاچا،چاچی،بھائی،بہن، بیٹا،بیٹی،پوتا،پوتی، نواسا، نواسی۔ ۔۔ ۔ اگر پھر بھی کوئی رہ گیا ہو تو گلی محلے کے دو چار بچے ہی پکڑ کر لے آتے ہیں ۔ ۔ ۔۔ ۔ اب کیا کریں؟؟؟۔ ۔ ۔۔ اب آہی گئے تو افسوس کیا اور چلے جائیں۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ ظلم یہ کہ۔ ۔ ۔ اب بھی نواب ذادے ہلنے کا نام تک نہیں لیتے جب تک ان کے سامنے کچھ کھانے کے لیے نہیں رکھا جائے۔ ۔ ۔اور سب سے بڑھ کر ظلم یہ کہ ان کو کھانا بھی ایک سے بڑھ کر ایک چاہیے۔ وہ تو یہ بھی دھیان نہیں رکھتے کہ ہم شادی میں بیٹھے ہیں یا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امی بھی کیا کرتیں؟ مجبور ہو کر ساری جمع پونجی کو ان پر لٹانا پڑا۔ ۔ ۔ چند مہینوں سے جو میں نے ٹیوشن پڑھاپڑھا کر پیسے اکٹھے کیے تھے ، اس غرض سے کہ اگلے سمیسٹر کی فیس ادا کرسکوں۔ ایک لمحے میں ایسے برباد ہوئے کہ میری آنکھوں سے آنسو بہے بغیر نہ رہ سکے۔ ایک انسان ہزاروں مشکلات کو جھیل کر پائی پائی جمع کرتا ہے۔ یہ دنیا دار کیسے برباد کر دیتے ہیں؟ یہ میں نے کل جانا۔ ۔ ۔ امی نے میرے چہرے سے میری پریشانی کو تو پڑھ لیامگر کر بھی کیا سکتی تھیں؟خود بھی تو وہ دوسروں کے کپڑے سی کر گزارا کرتی ہیں۔بس ایک خاموشی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ایک غریب کی زندگی بھی کتنی مشکل ہے۔ امیر کے لیے کیا مشکل؟؟؟ وہ تو پیسوں کو بھی اس طرح بہاتے ہیں جیسے پانی بہارہے ہوں۔ان کے بارے میں سوچ کر اپنا وقت ضائع کیوں کروں؟ مگر اب فیس کہاں سے لاؤں گا؟؟؟ اگرچہ ابھی پانچ مہینوں کا وقت ہے مگر یہ پانچ ماہ تو ایسے گزر جائیں گے جیسے پانچ منٹ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کروں؟ کیا نہ کروں؟ ؟ ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ دو چار ٹیوشن جو اب میرے پاس ہیں وہ بھی اللہ اللہ کر کے ملی تھیں۔اب مزید۔ ۔ ۔ ۔! لیکن اگر آگے پڑھنا ہے تو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا۔
آج کا سارا دن بھی اسی طرح گزر گیا۔ بس جب اسائنمنٹ بنانے لگا تو کرن کی یاد نے مسکراہٹ لانے میں مدد کی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
11 اپریل2005 بروز سوموار
آج میری اور دانیال کی دوستی ہوئے دس دن گزر چکے ہیں۔ پچھلے دس دنوں میں اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے لیکن وہ اس کو چھپانے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔ کئی بار میں نے اس سے پوچھا مگر اس نے کچھ نہ بتایا۔ اس کو پریشان دیکھ دیکھ کر میں بھی پریشان ہونے لگی کہ آخر کیا وجہ ہے کس نے دانیال کو اس قدر خاموش بنادیا۔خاموش طبیعت کا تو وہ پہلے ہی مالک تھا ۔ اس پر مزید خاموشی۔۔۔۔ اب تو وہ کامران کے ساتھ بھی کم وقت گزارتا تھا مگر کامران اس کے بارے میں اتنا فکرمند نہ تھا شائد وہ اس کی وجہ جانتا تھایا پھر وہ اس کی طبیعت کو سمجھتا تھا۔۔آخر کیا وجہ تھی؟ مجھے نہیں معلوم ۔ مجھے تو یہ بس معلوم ہے کہ دانیال پریشان ہے اور مجھے اس کی وجہ ڈھونڈ کر اس کی پریشانی کو دور کرنا ہے مگر کیسے ؟؟؟؟ یہ نہیں جانتی۔
آج کلاس کے بعد جب دانیال باہر جانے لگا تو میں نے فورا اسے روک لیا۔
"سنو ! دانیال۔۔۔ کیا تم فارغ ہو؟"
"ہاں ۔۔۔ کوئی کام تھا؟" پیچھے مڑ کر نگاہوں کو نیچا رکھتے ہوئے اسنے جواب دیا
"ہاں کام تو ہے۔۔۔۔ مگر۔ ۔ ۔ اس طرح کرتے ہیں کینٹین جا کر بات کرتے ہیں۔ کچھ کھاپی بھی لیں گے اور بات بھی ہوجائے گی"
"جو بات کرنی ہے، اس ہی جگہ پر کرلو ۔۔۔ اتنی دور جانے کی کیا ضرورت؟؟؟"
المختصر نہ نہ کرتے ہوئے بھی وہ میرے اسرار پر جانے کے لیے تیار ہوگیا لیکن وہ جانے کے لیے منع کیوں کر رہا تھا؟ اس وقت تو میں سمجھ نہیں پائی مگر وہاں جاکر معلوم ہوگیا۔ کینٹین میں جاکر ہم دونوں ایک طرف ٹیبل پر بیٹھ گئے ۔ وہاں کافی شور تھا مگر اس شور میں بھی اس کی خاموشی ایک الگ حیثیت رکھتی تھی۔
"کیا کھاؤ گے؟" میں اپنا پرس ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھتی ہوں
"مجھے کچھ نہیں کھانا۔ جس کام کے لیے تم مجھے یہاں لے کر آئی ہو، وہ بتاؤ۔"
وہ بھی بتا دونگی مگر پہلے کچھ کھانے پینے کے لیے تو منگوالیں۔۔۔ "
وہ مجھے منع کرتا رہا لیکن میرا اسرار جاری رہتا ہے تو اچانک انجانے میں اس کے منہ سے اصل بات نکل جاتی ہے
"میں نے کہا نا۔۔۔۔ مجھے کچھ نہیں کھانا۔"
"مگر کیوں؟"
"کیونکہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ کچھ خرید سکوں۔۔ ۔ ۔ " یہ سن کر میں بہت حیران ہوئی اور اس نے بھی فورا اپنی آنکھیں نیچے کر لیں اور اپنے ہاتھوں کو مضبوطی سے بند کرلیا۔ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے اپنے کہے گئے الفاظ پر بہت شرمندگی محسوس ہورہی ہے۔اس کی ندامت مسلسل بڑھتی جاتی ہے مگر الفاظ لوٹ نہیں سکتے اگر ایسا ممکن ہوتا تو وہ ضرور ان الفاظ واپس بلالیتا۔ اور میں بھی ایک وقت کےلیے شاک ہوجاتی ہوں اور میں فورا سمجھ جاتی ہوں کہ آخر دانیال کیوں پریشان رہتا ہے اور کیوں اتنی دیر سے منع کرہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آج پھر میں نے اس کی عزت نفس کو ٹھیس پہچائی ہو۔ ایسا میں نے جان بوجھ کر تو نہیں کیا لیکن بات جو بھی ہو۔۔۔ آج میں اس کو اتنا مجروع نہیں ہونے نہیں دونگی۔
"تم کو پیسے دینے کو کس نے کہا؟؟ لگتا ہے تم نے میری بات کو غور سے نہیں سنا۔۔۔ میں نے کہاتھا کہ تم آرڈر کرو۔۔۔"بات بدلنے کے لیے میں نے اس سے کہا مگر وہ خاموش رہتا ہے اور کوئی جواب نہیں دیتا۔
"ارے با با۔۔۔۔ میرے پاس پیسے ہیں۔ بل میں دونگی۔ تم بس آرڈر کرو"
"دیکھو کرن۔۔۔ مجھے غلط مت سمجھنا" وہ آہستہ سے کہتا ہے۔"بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔"
"اب کہو نا۔۔۔ تم کوشرمانے کی کوئی ضرورت نہیں"
"میں ان لڑکوں میں سے نہیں جو اپنے آپ کو جان بوجھ کر اتنا بےبس ظاہر کرتے ہیں کہ لڑکیوں کے پیسوں پر عیش کرسکیں۔"اس کے ان الفاظ نے مجھے بہت متاثر کیا اور آگے جو اس نے کہا میں سن ہی نہیں پائی اور اسکی شخصیت میں ایسے کھوگئی کہ مجھے سب بھول گیا۔ اتنے میں وہاں مہر آجاتی ہے۔ دانیال تو فورا خاموش ہوجاتاہے مگر میں اب بھی اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہوں۔
"ارے۔ ۔ ۔ اس کو کیا ہوا؟۔ ۔ ۔ ۔ "وہ ہنستے ہوئے پوچھتی ہے
“I don’t know”
"ارے کیا ہوا؟ کن خیالوں میں کھوئی ہو؟" وہ مجھے آہستہ سے تھپڑ مارتے ہوئے کہتی ہے
میں ایک دم بوکھلا کر اس کے طرف دیکھ کر حیران ہو جاتی ہوں
"ارے مہر۔ ۔ ۔ تم۔ ۔۔ ۔ یہاں۔ ۔ کب؟؟"
"جناب ۔ ۔ ۔ اپنے خوابوں سے باہر آؤگی تو ہمارا پتاچلےگانا۔۔۔"پل بھر کے لیے سب خاموش ہو جاتے ہیں۔
"ارے یہ کیا۔۔۔؟؟ تم نے ابھی تک آرڈر نہیں دیا۔" حیرت سے پوچھتی ہے
"او۔ ۔ ۔ہو۔ ۔ ۔آج تو دانیال صاحب بھی ہیں۔ پھر تو ٹریٹ ان کی طرف سے بنتی ہے۔" اسکی یہ بات سن کر دانیال کے چہرے پر پریشانی چھا جاتی ہے اور اسکی پریشانی پر مجھے بھی بہت برا لگا مگر اب مہر کو میں کیسے روک سکتی تھی؟
"ایک منٹ۔ ۔ ۔ ۔ ایک منٹ۔ ۔ ۔ ۔ آج پہلی بار دانیال ہمارے ساتھ ٹریٹ کر رہا ہے تو اس خوشی میں بل میں پے کرونگی۔ اٹ از او کے؟؟؟؟"
وہ کچھ دیر سوچ کر ہاں کردیتی ہے مگر وہ اب بھی اپنے اپ کو ملامت کر ہا ہوتا ہےاور میں اس کے چہرے سے اسکی پریشانی کو صاف صاف پڑھ سکتی تھی۔شائد اب میں اس کو سمجھنے لگی تھی۔ اب جب میں اس کی پریشانی کو جان گئی تو اس کو حل کیسے کیا جائے؟ ہر وقت اسی کے بارے میں سوچنے لگی ۔کافی بار سوچا کہ مہر سے بات کرکے دیکھوں مگر دانیال کا چہرہ مسلسل سامنے آجاتا اور اس غرض سے کہیں ایک بار پھر اس کو میری وجہ سے شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے میں کچھ نہیں کہتی اور خاموش رہتی ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلی قسط کی جھلکیاں:
دانیال کی پریشانی کو کیسے دورکرے گی کرن؟۔۔۔۔کیا مل پائے گا دانیال کو اس کی مشکلات کا حل؟؟؟ ۔۔۔۔
جانیے "محبت پھول جیسی ہے" کی اگلی قسط میں

Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 107461 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More