اگر شاہد آفریدی کے والد اس کو کرکٹر کی
بجائے ایک صحافی بننے پر مجبور کرتے اور جاوید چوہدری کے والد ان کو صحافت
میں بھیجنے کی بجائے کرکٹ کھیلنے پر مجبور کرتے تو آج نہ ہمارے پاس کرکٹ کے
میدان میں شاہد آفریدی جیسا مایہ ناز کھلاڑی ہوتا اور نہ صحافت کے میدان
میں جاوید چوہدری جیسا کوئی کالم نگار!
لیکن ہمارے معاشرے میں اکثر و بیشتر جگہوں پر ایسا ہی ہو رہا ہوتا ہے۔ کہاں
تو کالج اور یونیورسٹی کی آئیڈیلزم کو فروغ دیتی اور معاشرے میں تبدیلی کے
خواب دکھلاتی فضا اور کہاں عملی دنیا کے ریگزار میں قدم رکھتے ہی ان خوابوں
کا ہوا میں تحلیل ہو جانا صرف اس وجہ سے کہ جو کچھ نوجوان کرنا چاہ رہے
ہوتے ہیں ان کے گھر والے، خاندان والے، معاشرہ، احباب اور ان کے گرد و پیش
کے حالات انہیں کرنے نہیں دیتے ۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے جیسے ہی نوجوان اپنے تعلیمی ادارے سے فراغت
حاصل کرتا ہے اور بعض اوقات تو دوران طالب علمی ہی وہ ایک دم جیسے بلینک
(Blank) سا ہو جاتا ہے جیسے اس سے کوئی اس کی متاع عزیز چھین لی گئی ہو۔
اسے سمجھ نہیں آتا کے وہ کیا کرے؟ کس سے مشورہ کرے؟ کس طرح اس بڑے مقصد کی
طرف اپنی پیش قدمی کو جاری رکھے جس کا تصور یو نیورسٹی یا اس کے تعلیمی
ادارے میں اس کے ذہن میں اتر جاتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب وہ عمو ماَ
20-25َ کے پیٹے میں ہوتا ہے اور نوجوانوں کی زندگی کا اہم مرحلہ20-25سال کی
عمر میں ہی آتا ہے جسے ٹرانزیشنل (Transitional) دور بھی کہتے ہیں۔
یہ تو اس کا ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو یہ ہے کہ پڑھائی ختم ہوئی نہیں کہ
ساتھ ہی ساتھ گھر والوں کا دباﺅ کہ پیسے کماﺅ کے لاﺅ، ”اب گھر کو تمہاری
ضرورت ہے“، ”اب ہمارا انحصار تم پر ہی ہے،“ جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ
آپ کے پاس جو علم ہے آپ اس کو اپنے طے شدہ اہداف حاصل کرنے یا اپنے پسندیدہ
شعبے کے لئے استعمال نہیں کر سکتے کہ اس کی آپ کو اجازت نہیں دی جاتی اور
طرح طرح رکاوٹیں آپ کے سامنے کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ لیکن یہ بات ذہن میں
رکھئے کہ یہ ایک ایسا دو رہے جو سب پر آتا ہے چاہے کوئی اپنی آنی والی
زندگی میں بہت بڑا آدمی ہی کیوں نہ بننے والا ہو۔
اس مرحلے میں دو باتیں آپ کو اپنے ذہن میں راسخ کر لینی چاہییں:
۱)پریشانی اور تناﺅ کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا کہ کہیں یہ آپ کو غلط
کیرئیر یا کام کی جانب لیجانے کا سبب نہ بن جائے ۔
۲) یہ بات اہم ہے کہ یہ مرحلہ ہر کسی پر آتا ہے، یعنی یہ کوئی بہت بڑا
مسئلہ نہیں ہے، آپ بھی ۳۔۲سال میں اس سے نکل جائیں گے اور ۵۲ سال بعد تو
یقیناً آپ ایک ایسی اچھی جگہ پر ہوں گے کہ آپ اپنے اس Transitional Period
کو یاد کر کے ہنسا کریں گے، کہ میں ایسا بھی سوچتا رہا ہوں!
بات صرف اسی پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ یہاں سے لازمی ہے کہ آپ پوری یکسوئی
کے ساتھ چند باتیںسوچیں:
﴿پوری سنجیدگی سے اس بات کا جائزہ لیں کہ آپ نے کیا کام کرنا ہے یا کیا کام
آپ کر سکتے ہیں؟ ﴿ اگر آپ زندگی میں بہت کام کرنا چاہتے ہیں تو ایک کام
کریں۔۔۔لیکن کون سا؟۔۔۔بس ایک۔۔۔صرف ایک کام۔۔۔ جیسے ایک ایک قطرہ پانی بھی
اگر مستقل کسی چٹان پر بھی گرتا رہے تو اس میں سوراخ کر دیتا ہے، تو زندگی
میں ایک کام اور صرف ایک کام ہی آپ کو اس دنیا میں وہ جگہ دلا سکتا ہے جو
صرف بڑے آدمیوں کے لئے ہی مخصوص ہوتی ہے۔
﴿ایک اور بات جو نہایت ہی اہم ہے وہ یہ کہ جو بھی کام کریں، اپنی پسند کا
کام کریں پھر آپ کو ایک دن بھی کام نہیں کرنا پڑے گا۔ اور ایسے بہت سے
لوگوں سے تو آپ بھی واقف ہوں گے جو اپنی پسند کا کام نہ کرنے کے باعث زندگی
بھر بے چینی کا شکار رہتے ہیں اور اپنے ناپسندیدہ کام کی تھکن کو اپنی روح
میں بھی محسوس کرتے ہیں اور زندگی بھر اس شعبے میں کوئی بڑا مقام نہیں حاصل
کر پاتے ۔۔۔ایک صاحب ہیں ہمارے جاننے والے،٢٧ سال بعد صحافت سے ریٹائر ہوئے
اور اپنا بزنس شروع کیا، ایک دن ان سے ملاقات ہوئی تو پوچھا زندگی کیسے گزر
رہی ہے تو کہنے لگے ”شکر ہے کہ اس مصیبت کی زندگی سے نجات ملی، ساری ساری
رات ڈیسک پر بیٹھ کر خبریں بنانا اور اخبار کو فائنل کر کے جانا ایک عذاب
لگتا تھا۔ ہاں اب زندگی میں لطف ہے، ایک ریلیکس زندگی گزار رہا ہوں، صبح سے
شام تک کاروبار دیکھتا ہوں اور بقیہ وقت اپنی فیملی کے ساتھ گزارتا ہوں۔“
یہ فیصلہ اگر وہ ٢٧ سال پہلے ہی کر لیتے تو کاروبار میں یقیناً ایک اچھے
مقام تک پہنچ چکے ہوتے۔۔۔تو پسند کا کام ہی آپ کی زندگی کو سنوار سکتا ہے
اور یہی کام اگر نہ کر سکے توآ پ کی زندگی بگاڑ بھی سکتا ہے۔
ایک اور مسئلہ جو آپ کے ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے کہ جب جیب میں پیسے تک
نہیں ہے، گھر والے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ پیسا کماﺅ تاکہ
تمہاری شادی وغیرہ کے بارے میں سوچیں اور یہاں آپ بات کرتے ہیں ایک کام
کرنے کی اور وہ بھی پسندکا کام!
اس سے ہٹ کر سوچنے میں بھی کوئی برائی نہیں اگر آپ کے پیش نظر اگر کوئی بڑا
مقصد نہیں ہے، لیکن پھر یہ سوچ ایک” دہاڑی دار ملازم کی سوچ” سے بڑھ کر
نہیں ہر چند کہ آپ کی آمدنی لاکھوں روپے ہو۔
اگر آپ اس دہاڑی دار سوچ سے باہر نکل کر کچھ سوچنے کی ہمت رکھتے ہیں تو پھر
ایک جگہ تنہائی میں بیٹھ کر ان باتوں کا تہیہ کر لیں کہ، اب آپ اپنی زندگی
کے حوالے سے بالکل سنجیدہ ہو کر یہ سوچیں گے- اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے
کہ اب آپ طالب علم نہیں اور آپ نے زندگی میں کوئی بڑا کام کرنا ہے جس سے
معاشرے کو بھی فائدہ پہنچے - یہ بھی سوچیں کہ مستقبل میں مجھے کیا کرنا ہے،
اور یہ سارا کام بالکل یکسو ہو کر کرنا ہے کسی مداخلت کے بغیر!
اب اپنے آپ سے پوچھیں کہ میری پسند کیا کام ہے، سائنس پسند ہے، ذہن مکینکل
چیزوں کی طرف کھنچتا ہے، وکالت کا شعبہ اختیار کرنا ہے، ٹیچر بننا ہے یا
پھر میڈیا کی فیلڈ جوائن کرنی ہے یا ان کے علاوہ کسی اور چیز میں دلچسپی ہے
تو وہ میر ا انتخاب ہوگا، پھر ان صلاحیتوں کو List Down کر لیں جو متعلقہ
شعبے کے لئے ضروری ہیں، پھر یہ دیکھیں کہ میرے اندر کون سی صلاحیتیں ہیں
مثلاً سکھانے کی صلاحیت اچھی ہے تو پھر ایک استاد کے طور پر آپ کامیاب ہو
سکتے ہیں، لکھنے کی صلاحیت ہو تو آپ ایک لکھاری یا صحافی بن سکتے ہیں،
بولنے کی صلاحیت اچھی ہے تو پھر وکالت کا شعبہ آپ کے لئے موزوں ہے اور اس
کے علاوہ ایک لمبی فہرست ہے ان شعبوں کی جو آپ کی پسند کے ہوسکتے ہیں ۔
ان لمحات میں جب آپ یہ سب سوچ رہے ہوں تو یہ خیال آپ کو بد دل نہ کرے کہ آپ
کا تعلق ایک چھوٹے یا غریب گھرانے سے ہے، یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ دنیا
کی تاریخ کے تمام بڑے لوگوں کا تعلق خواہ وہ رہنما ہوں یا سائنسدان، فاتح
ہوں یا ادیب ان سب کا تعلق معمولی طبقے سے تھا ان میں سے کسی کا باپ غریب
تھا تو کوئی کسان، کوئی بے روزگار تھا تو کوئی کلرک لیکن ان ہی لوگوں میں
سے ماﺅزے تنگ، کارل مارکس اور ان جیسے دوسرے افراد اٹھے جنہوں نے اپنی
قوموں کی تاریخ ہی بدل ڈالی۔ وہ کیا چیز تھی جس نے ان کو ایک عام غریب آدمی
سے مختلف کر دیا؟ وہ تھی ان کی محنت، مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنے
کی ان کی حیرت انگیز قوت، ان کی نہ ختم ہونی والی توانائی اور دباﺅ میں کام
کرنے کی صلاحیت!
تو آپ بھی اپنے حوصلے آزمانا چاہتے ہیں تو زندگی میں ہمالیہ پہاڑ جتنا بلند
کوئی مقصد آپ کے سامنے ہونا چاہئے، لیکن جیسے ہمالیہ پہاڑ کو سر کرنے کے
لئے خصوصی تیاری کرنی ہوتی ہے اسی طرح اپنے مقصد کو پانے کے لئے بھی تیاری
لازمی ہے کہ اس راہ میں آپ کو برف کا سامنا بھی کرنا ہوگا، اونچائی تک
پہنچنے میں مشکلات بھی آپ کے قدم روکیں گی، پھر ان مشکلات سے بچنے کے لئے
آپ کو منصوبہ بندی بھی کرنی ہوگی اور پھر اس کے لئے مطلوبہ وسائل بھی بہم
پہنچانے ہوں گے۔
لیکن مسئلہ میرے دوستوں یہ ہے کہ اتنے مراحل دیکھ کر آپ اپنا حوصلہ کھو
دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ” چھوڑو یار کوئی چھوٹی موٹی جاب ہی کر لیتے ہیں“،
جو چیز کرنے کی ہے وہ یہ کہ یہ سب دیکھ کر حوصلہ کھو نہیں دینا اور اپنے
ارادوں کو ترک نہیں کر دینا بلکہ عزم، حوصلہ، آہنی ارادے اور مستقل مزاجی
سے، ٹوٹ کر اور لگ کر اپنے مقصد کی طرف قدم بہ قدم، زینہ بہ زینہ بڑھتے چلے
جانا ہے۔“
اس بات کو بھی محسوس کریں کہ ہر بندے میں اللہ نے کوئی نہ کوئی خصوصی
پوٹینشل رکھا ہے جو کسی اور میں نہیں ہوتا کیونکہ اللہ اتنا مہربان اور
رحیم ہے کہ اس نے اپنی ہر مخلوق میں کوئی منفرد خاصیت پیدا کی ہے، آپ کو بس
یہ کرنا ہے اپنے اندر موجوداس منفرد بات، خاصیت، خوبی کو ڈھونڈنا، نکھارنا
اور اس کو مہارت کے درجے پر لے جانا ہے، اس کام میں آپ کے لئے ایک اور چیز
فائدہ مند ہو سکتی ہے کہ عموماً انسان جس کام کو پسند کرتا ہے اور اس کو
کرنے میں وہ مزا محسوس کرتا ہے اور وہی کام اس کے لئے مخصوص ہوتا ہے۔
آپ اپنی زندگی بدل سکتے ہیں، بات صرف سوچنے کی اور اس پر عمل کر گزرنے کی
ہمت اور استقامت پیدا کرنے کی ہے، بس اپنے پسند کے کام میں کامل مہارت حاصل
کریں اور اپنی زندگی کے لئے ایک بڑے اور واضح مقصد کا تعین کریں جو اجتماعی
طور پر بھی معاشرے کے فائدہ مند ہو، پھر آپ دیکھیں گے کہ کامیابی کس طرح
ہاتھ باندھے آپ کے پیچھے کھڑی ہوگی۔ |