دو تین اور ایسے اقدام کی ضرورت

جنرل اسمبلی کیا اہو تی ہے۔۔۔۔؟ کو ن کو ن سے ممالک اس میں شامل ہیں۔۔۔۔؟ یہ کیا کرتی اور کیا کر سکتی ہے۔۔۔۔؟ یہ تین بنیادی اور ضروری سوالات ہیں جو جنرل اسمبلی کا نام سن کر ذہن میں آجا تے ہیں۔ جنرل اسمبلی اقوام متحدہ کا وہ حصہ ہے جو امن اور دوسرے مختلف سوالات اور حا لات جو دنیا میں ہو رہے ان پر بحث کرتی ہے اور کو ئی حل پاس کرواتی ہے۔ دنیا کے ایک سو ترانوے ممالک اسکے رکن ہیں۔ ہر سال اسکے سیشن ہو تے ہیں اور مسائل پر بحث ہو تی ہیں۔ حالیہ سیشن اسکا سترواں سیشن تھا۔ پاکستان کی نمائندگی وزیر اعظم جنا ب نواز شریف نے کی۔ وزیر اعظم صا حب کے خطاب کے چیدہ چیدہ نکا ت یہ تھے۔
اس سیشن میں پاکستان کے علاوہ تمام عالم اسلام کے مشکلات پر بحث کی گئی۔

انڈیا کے سامنے چار نکات رکھ دیئے۔۔۔۔جو یقینا جنگی جنون میں مبتلا انڈیا کو حیرت میں ڈال دینے کے لیئے کا فی ہو نگے جس سے ہما ری خا رجہ پالیسی کی دور اندیشی ظا ہر ہو تی ہے۔ انڈیا کے سامنے چار نکا ت رکھنے سے اور وزیر اعظم صا حب کے خظاب میں اس معاملے کو اٹھا نے سے تمام دنیا پر پاکستان کا امیج واضح ہو چکا ہو گا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے جو بھارتی جارحیت کا منہ تھوڑ جو اب دے سکتا ہے مگر اسے خطے کا امن عزیز ہے۔
کشمیر سمیت لائن اف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی پر بھی بات کی۔۔۔
افغانستان کے حالات پر بات کی۔۔۔ اور افغانستان کی بہتری اور مدد کے لیئے بھی کہا۔
ہمسائے ممالک پر بات کی۔۔۔
اور درپیش چلنجیز پر بھی بات کی جس میں سرفہرست دہشت گردی سے نبرد ازما ہو نا ہے۔
لیکن وزیر اعظم صا حب کا زیادہ تر فوکس انڈیا پر تھا اور اس حو ا لے سے ذیادہ بات کی۔ اور اختیار کی گئی خاموشی کو ایک اچھے اور بہترین جگہ پر تھو ڑ دی۔ جس واقعی انڈین جل تھل گئے ہو نگے۔۔۔
دیکھا جائے تو وزیر اعظم صا حب کی تقریر کو جامع کہا جا سکتا ہے۔ درپیش مسائل پر، رونما ہو نے والے واقعات پر اچھی طریقے سے روشنی ڈالی گئی ہیں اور اچھے انداز میں پیش گیا ہے۔ جتنے بھی اہم ایشوز تھے، وزیر اعظم صا حب کی تقریر میں تقریبا ان تما م کو بیان کیا گیا ہے۔

وزیر اعظم صا حب کے خطاب کو مارننگ سیشن میں رکھا گیا تھا۔ اس سے تین چار دہا ئی پہلے پاکستان کے ہر دلعزیز رہنما ذولفقار علی بھٹو نے انتہائی جذبات بھرے لمحات میں اقوام متحدہ کے کا غذات پھاڑ ڈالے تھے اور وہا ن سے با ئکا ٹ کا اعلان کر کے روانہ ہو ئے تھے۔ جو بعد میں بیرونی دنیا کے لیئے خطرناک مسلم رہنما کی صورت میں نظر ارہے تھے۔ جناب وزیر اعظم صا حب آج ہم نے جو بیرونی دنیا سے نا طہ تھورنے کا جو بے جا خو ف اپنے اوپر مسلط کیا ہے یہ دراصل کچھ بھی نہیں ، پاکستان عظین طا قت سے مالا مال ہے بس ایک دفعہ آنکھیں دکھا نے کی ضرورت ہے، ہم ڈو مو ر کر تے کرتے خو د پھنس گئے۔ اگر اسی طرح جراتمندانہ قدم دو تین اور مواقع پر اٹھا لیئے جا ئے جیسا کہ جنرل اسمبلی میں ہو ا تو یقینا ہم دنیا کی خارجہ پالیسی کو کسی حد تک اپنے بارے میں مثبت رخ پر تبدیل کر لیں گے۔ جنا ب وزیر اعظم ہم قربا نیا ں دیتے دیتے بھی تھک گئے، ہم غیروں کے لیئے بھی لڑے، مگر نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا تو اب وقت آگیا ہے ہم بھی جرات کا مظا ہرہ کریں اور دنیا عالم کی اس بارے بے حسی کو منہ تھو ڑ جواب دے کر اپنی بے حسی کی عالم سے بھی نکلے۔

پاکستان میں پیدا ہو نا ، پاکستان جیسی سر زمین کے مالک ہو نا ہم پر اﷲ تعالی کا عظیم احسان ہے۔ ہم وسائل سے ما لا مال ملک ہے۔ ہمارے تمام مسائل کا حل اسی سر زمین میں ممکن ہو سکتا ہے۔ ہم انرجی کرائسس کا شکا ر ہے تو ہم دنیا کے اس خطے میں واقع ہے جو سورج کی روشنی سے ذیادہ استفادہ کر سکتا ہے ہم سورج کی روشنی سے کسی حد تک اپنی اس انرجی بحران کو کم کر سکتے ہیں ، ہم کو ئلے سے بھی کام چلا سکتے ہیں۔ انگریز جو کہ سارا سال بارش میں بھیگتے رہتے ہیں اور سنی ڈے کا انتظا ر کرتے ہیں یہا ں ہمیں سال کے چار موسم ملتے ہیں۔ جس سے ہم قدرتی طور پر ان کے مطابق فصلیں اگاتے ہیں اور میو ے کھا تے ہیں۔ آج اگر ہمیں واقعی ضرورت ہے تو ایک دلیر، بہادر اور سچے لیڈر کی جو کسی کی پرواہ نہ کر کے ، کسی کو خا طر میں نہ لا کے دستیاب وسائل کو استعمال کر کے پاکستان کو دنیا کی ترقی یا فتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرے۔ می اپ ذرا دور اندیشی سے سو چیں دنیا ہما ری محتا ج ہو سکتی ہیں۔ ہم وسائل سے مالا مال اور دنیا کے پاس وسائل ختم ہو رہے ہیں۔ جناب نو زشریف کی اس حو صلے کی داد دیتا ہو جو اپنا موقف بڑے اچھے اور واضح الفا ظ میں پیش کیا اور حالات کی باریکی کا جائزہ لیتے ہو ئے اپنا خطاب حالات کے مطابق دیا۔ جنا ب نواز شریف اپ اگر تھوڑا سا اور بھی دلیری کا مقابلہ کرے اور دور اندیشی کا مظا ہرہ کرے، قرضے لینے کے بجائے اپ اور اپکے ساتھی اپنا سرمایہ ہی واپس اس ملک کے لیئے لائے تو اس ملک کے عوام کے لیئے اپ بھی عمران خان ہو سکتے ہیں۔ دنیا اپ کی محتا ج ہو سکتی ہے بس دو تین ایسے جرات مندانہ اقدام کی ضرورت ہے۔
MUHAMMAD KASHIF  KHATTAK
About the Author: MUHAMMAD KASHIF KHATTAK Read More Articles by MUHAMMAD KASHIF KHATTAK: 33 Articles with 80303 views Currently a Research Scholar in a Well Reputed Agricultural University. .. View More