دنیا کی سب سے عظیم ہستی (میری ماں)

’’ ساری دنیا کے قیمتی موتی بھی پرو لو تو ماں کی بانہوں جیسا ہار نہیں بن سکتا‘‘
پڑھنے ، سننے اور دیکھنے کو دُنیا میں بہت ساری عظیم ہستیاں نظر آتی ہیں۔ جو اپنی جگہ اپنا مقام رکھتی ہیں۔ اپنی عزت و احترام کروانا بخوبی جانتی ہیں۔ لیکن ماں اِن سب کی سرتاج ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جس کا درجہ سب سے بلند ہے۔ ماں کا لفظ ہونٹوں سے ادا ہوتے وقت دونوں لب آپس میں ایک دوسرے کا بھوسہ لیتے ہیں۔خدا نے ماں کو بلند و بالا مقا م عطا کیا ہے۔ اگر ماں جیسی عظیم ہستی نہ ہوتی تو زمین پر کسی انسان کا وجود نہ ہوتا ۔اور نہ ہی یسوع مسیح مقدسہ مریم کی کوکھ سے جنم لیتے ۔ ماں ایک ایسی ہستی ہے۔ جو انسان کو دُنیا میں لانے کا سبب بنتی ہے۔ جب خدا نے انسان کو مٹی سے بنایاتو اُس نے بنانے کے بعد محسوس کیا کہ اِس کا کوئی مدد گار بھی ہونا چاہیے ۔توخدا نے آدم کی پسلیوں میں سے ایک پسلی لی اور اُس سے عورت کو بنایا۔

آج یہی عورت بہن کے روپ میں بھائیوں کی مددگار، بیوی کے روپ میں خاوند کی مددگار اور ایک ماں کے روپ میں اپنے بچوں کی محافظ ہے۔ ہرمرد کی کامیابی کے پیچھے کے ایک عورت کاہاتھ ہوتاہے۔ چاہے وہ بہن کے روپ میں ہو، اچھی دوست کے روپ میں ہو ،اچھی بیوی یا ماں کے روپ میں ہو۔ اِس لیے ماں کو بھلانا ناقابلِ فراموش ہے۔ بنائے عالم سے ہی خدا نے ماں کو عظیم مرتبہ عطا کیا ہے۔ماں انبیاء کی ہو یا رسولوں کی ، ماں امیر کی ہو یا غریب کی ہو، ماں کالے کی ہو یا گورے کی ہوں ماں ! ماں ہوتی ہے۔سب ماؤں کا درجہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ ماں کے دودھ کا قرض چُکا یا نہیں جا سکتا ۔ اِسی لیے تو کہتے ہیں کہ ’’ ماں کے قدموں تلے جنت ہے ‘‘۔بچے کی سب سے پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے۔ اِسی درسگاہ سے بچہ سب سے پہلے ماں کہنا سیکھتا ہے۔
؂ساری زندگی ماں کے نام کرتا ہوں
مَیں خود کو ماں کا غلام کرتا
جنہوں نے کی زندگی اُولاد کے نام
جو ہیں مائیں اُن کو سلام کرتا ہوں
جہاں دیکھتا ہوں لفظ میں لکھا ہوا
چومتا ہوں اُس کا احترام کرتا ہوں
میری زبان کو مِل جاتی ہے مٹھاس
جب بھی ماں سے کلام کرتا ہوں

ایک نوجوان لڑکی کو ماں بننے کے لیے نوماہ کا عرصہ لگتا ہے۔یہ عرصہ بڑا تکلیف دہ اور درد نا ک ہوتا ہے۔ ایک دوشیزہ نو ماہ تک بڑے کرب ناک عمل میں سے گزرتی ہے اور نو ماہ مکمل ہونے پر ایک ننھی منھی جان کو دردِ زہ کی حالت میں جنم دیتی ہے۔ اِن تمام تر اذیتیوں کو برداشت کرنے کے بعد ایک دوشیزہ ماں کا روپ دھارتی ہے۔ جیسے ہی وہ بچہ جنتی ہے۔ ویسے ہی اُ س کا غم خوشی و شادمانی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ دنیا بھر کی خوشیا ں اِ س بچے کے روپ میں اِس کے آنچل میں آجاتی ہیں۔ کیونکہ وہ ایک ننھی جان کو اِس دنیا میں لانے کا سبب بنتی ہے۔

خدا نے ماں کا دل ایسا حساس بنادیا ہے کہ اگر اُس کا بچہ پل بھر کے لیے بھی اُس کی نظروں سے اُوجھل ہو جائے ۔ توماں ہرنی کی مانند اپنے بچے کو ڈونڈھتی ہے۔ اپنی آنکھوں میں اشکوں کا سمندر سموئے اپنے بچے کی راہ تاکتی رہتی ہے۔ اِس اُمید کے سہارے کہ کہیں سے تو اُس کے بچے کے قدموں کی چاپ سُنائی دے گی۔ ماں کبھی حوصلہ نہیں ہارتی ۔ اُس کا حوصلہ ہمیشہ بلند رہتا ہے۔ کیونکہ اُس کا توکل خدا پر ہوتا ہے۔ اور ہمیشہ اپنے کی فلاح و بہبود اور اُن کی کامیابی کے لیے دعا گورہتی ہے۔

’’ ایک دن سکو ل سے نکلا تو آسمان پر بادل تھے ۔ سوچا بارش آنے سے پہلے گھر پہنچ جاؤں ۔ابھی آدھا فاصلہ ہی طے ہوا تھا کہ بارش شروع ہو گی۔ کانپتا، ٹھٹھرتا گھر پہنچا تو بھائی نے کہا کہ نظر نہیں آرہا تھا کے بارش ہو رہی ہے۔ بہن نے کہا تھوڑی دیر رُک جاتے ۔ ابو نے کہا بہت شوق ہے بارش میں بھیگنے کا ۔ اتنے میں ماں میرے سرپر تولیہ رکھ کر بولی یہ بارش تھوڑی دیر رُک نہیں سکتی تھیــ۔ــ‘‘ماں کی عظمت کو سلام ہے۔ جو بہن بھائیوں اور باپ کو چھوڑ کر اپنے بارش میں بھیگے اور تھکے ہارے بچے کو سینے سے لگا کر ساری تھکن اُتار دیتی ہے۔اپنے پلو سے اُ س کا بارش سے تر چہرہ خشک کرتی ہے۔ بچہ ہزار ہا غلطیاں کرے لیکن ماں پھر بھی در گزر کرتی ہے۔ گرمی کی وجہ سے پسینہ آتا ہے ۔’’ ایک شخص نے جب یہ پسینہ اپنی بیوی کے ڈوپٹے سے پونچھا تو اُس نے کہا ڈوپٹہ گندہ نہ کرو۔ جب اُس نے وہی پسینہ اپنی ماں کے ڈوپٹے سے پونچھا تو ماں نے کہا یہ ڈوپٹہ گندہ ہے ۔ بیٹا میں تجھے صاف کپڑا دیتی ہوں۔ ‘‘دنیا میں سب کچھ ملتا ہے مگر ماں نہیں ملتی۔ رات کو ماں بچے کو خشک اور خود گیلی جگہ پر سوتی ہے۔ ماں کی دعا بخور کی مانند آسمان کے دریچوں کو چیرتی ہوئی خدا تک پہنچتی ہے۔ اِسی لیے تو کہتے ہیں۔ ’’ ماں کی دعاجنت کی ہوا ۔‘‘ایک شیر خوا ر بچہ اپنی ماں کو بھول جاتا ہے۔ لیکن ماں اپنے شیر خوار بچے کو نہیں بھولتی۔ اپنا پیٹ کا ٹ کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی ہے۔جب ماں تھکی ہاری گھر واپس آتی ہے۔ تو اُس کی ساری تھکن دور ہو جاتی ہے ۔ کسی نے مجھ سے پو چھا ماں کیا ہے ؟میں نے کہا کہ ماں محبت کا بہتا سمندر ہے، ماں کھِلتا گلاب ہے، ماں اندھیرے میں اُجالاہے، ماں اُمیدمیں خوشی ہے، ماں موتیوں کی چھنکار ہے، ماں ایک مضبود چٹان ہے، ماں سورج کی پہلی کرِن ہے، ماں چمکتا ستارہ ہے، ماں کو بھُلانا میرے بس میں نہیں ۔ اُس شخص کو بتاتے ہوئے میرے الفاظ کم پڑگئے لیکن ماں کی ممتا کم نہ ہوئی۔ آج بھی جب گھر واپس جاتا ہوں تو ماں سینے سے لگا لیتی ہے۔ بالوں میں اپنے نرم و نازک ہاتھ جب پھیرتی ہے تو ساری تھکن دور ہو جاتی ہے۔

آنکھوں سے خوشی کے اَشک بہنے شروع ہو جاتے ہیں اور دامن بھیگ جاتا ہے ۔’’ ماں ۔۔۔ انسان کو انسان بنانے والی ۔۔۔ زندگی برتنے کے آداب سکھانے والی ۔۔۔ اخلاق کی نئی جو ت جگانے والی۔۔۔ ماں کے ہاتھ ۔۔۔ محبت کے پیالے ،میری من کی سیرابی کا باعث بنتے ۔۔۔لب یا قوت ۔۔۔ نورانی لفظوں سے سجے۔۔۔ ایک نظر پیار کی ۔۔۔ صبح مقبول کا ثواب ۔۔۔ ماں میری ماں ۔۔۔ میری ابتداء میری انتہا ۔۔۔واحد موضوع گفتگو ۔۔۔ جس پر ساری عمر باتیں کر سکتا ہوں۔

ماں کی قدر کیا ں ہے؟ اگر پوچھنی ہو تو اُن سے پوچھو جن کی ماں اِ س جہانِ فانی سے رحلت کر گئی ہو ، اُن سے پوچھو جو ماں سے کُوسوں دور ہیں۔ جب بھی کوئی غم و پریشانی یا بیماری کی حالت میں ہوتا ہے تو اُس کے منہ سے ــ’’ ہائے ماں ‘‘ کے الفاظ نکلتے ہیں۔ جن لبوں سے یہ الفاظ ادا ہوتے ہیں ۔ وہی ماں کی قدرو منزلت کو جانتا ہے۔
؂ نہ جائیو پردیس نئیں جے ماں لبنی
ماں تو ودہ کے نئیں جے ٹھنڈی چھاں لبنی

شاعر کے مطابق حقیقت میں پردیس میں ماں کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ مَیں خود ماں سے دور پردیس میں ہوں اور اُس کی کمی محسوس کر رہا ہوں ۔اِس عظیم ہستی کے متعلق تحریر کرتے ہوئے میری آنکھوں میں اشکوں کا سیلاب جاری ہے۔اگر میرے بس میں ہوتا تو اِس عظیم ہستی کی تعریف اپنے لہوں سے قلم و بند کرتا ۔ لکھنے کے لیے تو بہت کچھ ہے مگر قلم سیاہی ساتھ چھوڑ گئی ہے۔ آنسوؤں کا بہتا ہوا سمندر صحفہء قُرطاس کو ریزہ ریزہ کر رہا ہے۔ماں تیری محبت کے ایک لمحے کا قرض بھی ادا نہیں کر سکتا ۔ مَیں ذرا ہوں ۔۔۔ بس تیرے قدموں میں بکھرا ہو اہوں اور بکھرا رہنا چاہتا ہوں۔
؂ماں تیرا وجود ، باعث ِ فرحت ہے تو میری پیار بھری جنت ہے
تجھ سے مشروط میری خوشیا ں تو میرا سکوں ، میری راحت ہے
بن تیرے کچھ نہیں ذات میں میری تجھے چاہنا میری عبادت ہے
تیرا سایہ میرے سر پر ہے کتنی اچھی میری قسمت ہے
کوئی اِس کو گرا نہیں سکتا جس دل میں تیری محبت ہے
تیرے قدموں کی خاک ہو جاؤں یہ میرے لئے سعادت ہے
Irfan Dominic
About the Author: Irfan Dominic Read More Articles by Irfan Dominic: 6 Articles with 5698 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.