اللہ کی رسی

دنیا میں شاید کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہ نکلے جو تنازعات، اختلافات، لڑائی جھگڑے وغیرہ کو اُس کی ذات میں بہتر اور مفید جانتا ہو اس کے برعکس اتفاق و اتحاد ایک ایسی چیز ہے جس کے محمود اور مطلوب ہونے پر دنیا کے تمام انسانوں کا اتفاق ہے۔ اس لئے دنیا کی ہر جماعت، ہر پارٹی لوگوں کو متفق کرنے کی ہی دعوت دیتی ہے لیکن دنیا کے حالات کا تجربہ بتاتا ہے کہ اتفاق کے مفید و ضروری ہونے پر سب کے اتفاق کے باوجود بھی انسانیت فرقوں، گروہوں، پارٹیوں میں بٹی ہوئی ہے، پھر ہر فرقہ کے اندر فرقے اور پارٹی کے اندر پارٹیوں کا لامحدود سلسلہ ایسا ہے کہ صحیح معنوں میں دو آدمیوں کا اتحاد و اتفاق بھی ایک افسانہ بن کر رہ گیا ہے۔ وقتی اغراض کے تحت چند آدمی کسی بات پر اتفاق کرتے ہیں، اغراض پوری ہو جائیں یا ان میں ناکامی ہو جائے تو نہ صرف یہ کہ اتفاق ختم ہو جاتا ہے بلکہ افتراق اور عداوتوں کی نوبت آتی ہے۔
غور کیا جائے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص دوسروں کے بنائے ہوئے نظام و پروگرام پر اُن سے متفق ہونے کی بجائے لوگوں کو اپنے بنائے ہوئے پروگرام پر متحد کرنے کی دعوت دیتا ہے اس کا لازمی نتیجہ افتراق و انتشار نکلتا ہے۔ اور اختلافات کی دلدل میں پھنسی ہوئی انسانیت کے ہاتھ اس کے سوا کچھ نہیں آتا کہ
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

اس لئے قرآن کریم نے تنازعات و اختلافات سے بچنے اور اتحاد و اتفاق اختیار کرنے کی صرف تلقین ہی نہیں فرمائی بلکہ اس کے لئے ایک ایسا منصفانہ و عادلانہ اصول بھی بتلا دیا جس کے ماننے سے کسی گروہ کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ کسی انسانی دماغ یا چند انسانوں کے بنائے ہوئے نظام و پروگرام کو دوسرے انسانوں پر تھوپ کر ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ سب اس پر متفق ہو جائیں گے عقل و انصاف کے خلاف اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں البتہ ربّ العالمین کا دیا ہوا نظام اور پروگرام ضرور ایسی چیز ہے کہ اس پر سب انسانوں کو متفق ہونا ہی چاہئے، کوئی عقلمند انسان اس سے اصولاً انکار نہیں کرسکتا۔

خاتم الانبیا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کا آخری پیام قرآنِ پاک کی صورت میں لائے ہیں آج اس کے سوا کوئی نظام اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں، آج یہی ایک ایسا نظام ہے جو بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے، اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے خود اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اس لئے قیامت تک اس میں کسی قسم کی تحریف کا بھی امکان نہیں۔ غیر مسلم جماعتوں کو چھوڑ کر اگر مسلمانوں کی مختلف پارٹیاں قرآن کریم کے نظام پر متفق ہو جائیں تو ہزاروں گروہی اور نسلی وطنی اختلافات ختم ہو سکتے ہیں جو انسانیت کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔

اب اگر مسلمانوں کے درمیان کوئی باہمی تنازعہ یا اختلاف رہے گا تو وہ صرف فہم قرآن اور تعبیرِ قرآن میں رہ سکتا ہے اور اگر ایسا اختلاف حدود کے اندر رہے تو نہ تو وہ مذموم ہے اور نہ انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے مضر اور منفی پہلو رکھتا ہے بلکہ عقل والوں کے درمیان ایسا اختلافِ رائے رہنا فطری امر ہے، اس لئے اس پر قابو پانا اور حدود کے اندر رکھنا کچھ دشوار نہیں، اس کے برعکس قرآنی نظام سے آزاد ہو کر افراد اور جماعتیں لڑتے رہیں تو اس وقت تنازعات و اختلافات کا کوئی علاج نہیں رہتا، اور اسی نزاع اور اختلاف و انتشار کو قرآنِ کریم نے سختی سے منع فرمایا ہے اور آج اسی قرآنی اصول کو نظر انداز کر دینے کی وجہ سے ہماری پوری ملّت انتشار و افتراق میں پھنس کر برباد ہو رہی ہے۔ قرآن کریم نے اس افتراق کو مٹانے کا نسخۂ اکسیر اس طرح بتلایا ہے۔

وَاعْتَصِمُوْابِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا۔ ’’یعنی اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھامو‘‘۔ اللہ کی رسی سے مراد قرآنِ مجید ہے۔عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کتاب اللہ اللہ تعالیٰ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے۔ قرآن یا دین کو رسی سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہلِ ایمان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ یعنی ہر انسان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظامِ حیات یعنی قرآن پر مضبوطی سے عمل کرے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان باہم متفق و متحد اور منظم ہو جائیں گے۔ جس طرح کسی بلندی پر چڑھتے وقت ایک مضبوط رسی کو پکڑ لیں تو ہلاکت سے محفوظ رہیں گے اسی طرح اگر سب مل کر اللہ کی رسی یعنی قرآن کو پوری قوت سے پکڑے رہو گے تو کوئی شیطان شر انگیزی میں کامیاب نہ ہوسکے گا اور انفرادی زندگی کی طرح مسلمانوں کی اجتماعی قوت بھی ناقابلِ تسخیر ہوجائے گی۔ اور اس سے ہٹ کر قومی و اجتماعی زندگی تو تباہ ہوہی جائیگی اور اس کے بعد انفرادی زندگی کی بھی خیر نہیں جس کا عملی نمونہ آج ہمیں ہر طرف نظر آرہا ہے۔

یہاں یہ بات جاننا بھی لازمی ہے کہ وحدت و اتفاق کے لئے ضروری ہے کہ اس وحدت کا کوئی خاص مرکز ہو۔ لیکن اقوام عالم کی مرکز وحدت کے اعتبار سے راہیں مختلف ہیں، کہیں نسلی اور نسبی رشتوں کو مرکزِ وحدت سمجھا گیا، کہیں رنگ کا امتیاز، کہیں وطن و زبان اور کہیں آبائی رسوم و رواج کو مرکز وحدت بنایا گیا۔ قرآن کریم نے ان سب کو چھوڑ کر مرکز وحدت اللہ کی رسی قرآن کریم کو یعنی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کو قرار دیا اور دو ٹوک فیصلہ کر دیا کہ مومن ایک قوم ہے جو اللہ کی رسی سے وابستہ ہے۔ کوئی مشرق کا رہنے والا ہو کا مغرب کا، گورا ہو یا کالا، عربی زبان بولتا ہو یا ہندی و انگریزی، کسی قبیلہ کسی خاندان کا ہو ہر شخص اس صحیح اور معقول مرکزِ وحدت کو اختیار کر سکتا ہے اور دنیا بھر کے پورے انسان اس مرکزِ وحدت پر جمع ہو کر بھائی بھائی بن سکتے ہیں۔

دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے باہمی تنازعات و اختلافات کو مسلمانوں کی اجتماعی و انفرادی قوت کے لئے مضر قرار دیا ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے وَلَا تَنَازَعُوْا یعنی آپس میں نزاع اور کشاکش نہ کرو ورنہ تم میں بزدلی پھیل جائیگی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ ان باہمی تنازعات و اختلافات کے دو نتیجے بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ تم ذاتی طور پر کمزور اور بزدل ہو جائو گے، دوسرے یہ کہ تمہاری ہوا اکھڑ جائیگی دشمن کی نظروں میں حقیر ہو جاؤ گے۔ باہمی نزاع اور کشاکش سے دوسروں کی نظر میں حقیر ہو جانا تو ایک واضح بات ہے لیکن خود اپنی قوت پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے کہ اُس میں کمزوری اور بزدلی آجاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باہمی اتحاد و اعتماد کی صورت میں ہر ایک انسان کے ساتھ پوری جماعت کی طاقت لگی ہوتی ہے اس لئے ایک آدمی اپنے اندر بقدر اپنی جماعت کے قوت محسوس کرتا ہے اور جب باہمی اتحاد و اعتماد نہ رہا تو اس کی اکیلی قوت رہ گئی۔

اس کے بعد قرآن کریم نے ان تنازعات اور جھگڑوں سے بچنے کا کامیاب نسخہ بھی بتلا دیا کہ وَاصْبِرُوْا یعنی صبر کو لازم پکڑو۔ کوئی جماعت خیالات اور مقصد کے اعتبار سے کتنی ہی متحد کیوں نہ ہو لیکن طبعی طور پر انسانوں کی خصوصیات مختلف ہوتی ہیں اس لئے اختلافِ رائے بھی ضرور ہوتا ہے اس لئے دوسروں کے ساتھ چلنے اور اُن کو ساتھ رکھنے کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آدمی طبعیت کے خلاف باتوں پر صبر کرے اور انہیں نظر انداز کرے اور اپنی رائے پر اتنا نہ جمے نہ اتنا اصرار کرے کہ اُس کو قبول نہ کیا جائے تو لڑ نے لگ جائے اسی کا دوسرا نام صبر ہے۔ آج کل ہر شخص جانتا اور کہتا ہے کہ تنازعات بہت بُری چیز ہے مگر اس سے بچنے کا جو طریقہ ہے یعنی خلافِ طبعیت باتوں پر صبر کرنا اور اپنی بات منوانے کی فکر نہ کرنا یہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے اسی لئے اتفاق و اتحاد کی ساری نصیحتیں بے سود ہو جاتی ہیں۔ اگر انسان دوسرے سے اپنی بات نہیں منوا سکتا تو چاہئیے کہ دوسرے کی بات مان لے اور اگر ایسا صحیح نہیں تو کم ازکم نزاع سے بچنے کے لئے سکوت اختیار کرلے۔ اس لئے قرآن کریم نے نزاع سے بچنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ صبر کی تلقین بھی ہر فرد جماعت کو کردی تاکہ نزاع سے بچنا عملی دنیا میں آسان ہو جائے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ لَا تَنَازَعُوْا فرمایا یعنی باہمی کشاکش کو روکا ہے اختلافِ رائے کے اظہار سے منع نہیں کیا۔ اختلافِ رائے جو دیانت اور اخلاص کے ساتھ ہو وہ کبھی نزاع کی صورت اختیار نہیں کیا کرتا۔ نزاع و جدال وہیں ہوتا ہے جہاں اختلاف رائے کے ساتھ اپھی بات منوانے اور دوسرے کی بات نہ ماننے کا جذبہ کام کر رہا ہو۔

اس مختصر سی وضاحت کے بعد اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ کیا ہر اختلاف مذموم ہے، یا کوئی اختلاف غیر مذموم بھی ہے، جواب یہ ہے کہ ہر اختلاف مذموم نہیں ہے، بلکہ مذموم وہ اختلاف ہے جس میں اپنی نفس کی خواہشات کے پیچھے لگ کر قرآن سے دور رہ کر سوچا جائے، لیکن قرآن کی اتباع کرتے ہوئے، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تشریح و تفصیل کو قبول کرتے ہوئے اپنی فطری استعداد اور دماغی صلاحیتوں کی بنا پر اگر فروع میں اختلاف کیا جائے تو یہ اختلاف فطری ہے اور اسلام اس سے منع نہیں کرتا۔ صحابہ و تابعین اور فقہا کا اختلاف اسی قسم کا اختلاف تھا، اور اسی اختلاف کو رحمت قرار دیا گیا ہے۔

اب رہی انفرادی طور پر باہمی تنازعات و اختلافات کا معاملہ تو اس کے لئے بھی قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے۔ اس نظام اور ضابطہ حیات کے مطابق ہر فرد اپنے اعمال و اخلاق کی اصلاح کرکے اپنی دنیوی اور دینی زندگی کو درست کرلے گا اور تقویٰ اختیار کرے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ باہمی اختلافات و تنازعات اُس کے لئے مضر ثابت ہوں یا اُن کا حل نہ نکالا جا سکے۔ یہ وہ حکیمانہ اصول ہے جسکو لے کر ایک مسلمان ساری دنیا کو للکار سکتا ہے کہ یہی صحیح راستہ ہے، اس طرف آئو، اور مسلمان اس پر جتنا بھی فخر کریں بجا ہے۔ لیکن افسوس کہ یورپ والوں کی گہری سازش جو اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے صدیوں سے چل رہی ہے وہ خود اسلام کے دعویداروں میں کامیاب ہو گئی اور اب امتِ اسلامیہ کی وحدت عربی، مصری، ہندی، سندھی میں بٹ کر پارہ پارہ ہوگئی۔ قرآن کریم کی یہ آیت ہر وقت ار ہر جبہ ان سب کو یہ دعوت دے رہی ہے کہ یہ درحقیقت جاہلانہ امتیازات ہیں اور ان کی بنیاد پر قائم ہونے والی وحدت کوئی معقول وحدت نہیں اس لئے اللہ کی رسی کی وحدت اختیار کرو جس نے ان کو پہلے بھی ساری دنیا میں غالب اور سر بلند بنایا اور اگر پھر ان کی قسمت میں کوئی خیر مقدر ہے تو وہ اسی راستہ سے مل سکتی ہے۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 195033 views A Simple Person, Nothing Special.. View More