والدین کے نام کھلا خط

السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ :
یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ ہر معاشرہ مختلف خاندانوں کے مجموعے کا نام ہے۔ اور ہر خاندان ایک مرد عورت کے قانونی تعلق سے بنتا ہے۔ اسلام نے مثالی معاشرہ بنانے کے لئے مرد کو وہ ذمہ داریاں دی ہیں جو اس کی جسمانی تخلیق، ذہنی صلاحیتوں اور دائرہ کار کے عین مطابق ہیں یعنی وہ خاندان کا سرپرست، نگران، مالی ذمہ داریاں نبھانے والا اور پورے خاندان کی قیادت کرنے والا ہوتا ہے۔ مختصرالفاظ میں وہ خاندان کا سربراہ ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت کو بھی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کے عین مطابق ذمہ داریاں دی ہیں، کہ وہ چار دیواری کے اندر گھر کی نگران گویا گھر کی ملکہ ہوتی ہے۔ اور بچوں کی معلمہ، مربیہ اور ممتا بھری آغوش ہوتی ہے۔ ان دونوں میاں بیوی میں جس قدر ہم آہنگی اور الفت وتعلق بلکہ محبت ووفا ہوگی یہ خاندان اسی حساب سے مثالی بلکہ دنیا میں جنت نظیر ہوگا۔ اسی لیے اسلام نے انتخاب بیوی میں دین داری کو معیاری اور مثالی اصول قرار دیا ہے فرمایا : ''فاظفر بذات الد ین '' '' دین دار بیوی کا انتخاب کر کے کامیاب ہو جا ۔'' اس لیے کہ دین دار عورت جب بیوی بنتی ہے تو وہ خاوند کے حقوق کو خوب جانتی ہے لہٰذا اپنی دنیا پر سکون بنانے کی خاطر اور آخرت کی نجات کی خاطر خاوند کی خوب خدمت اور اطاعت کرتی ہے اسی طرح اپنے اور اپنے خاندان کے گھر کو راحت کدہ بنا دیتی ہے، دیندار خاتون جب ماں بنتی ہے تو اسے خوب معلوم ہوتا ہے کہ اب اس کی ذمہ داری صرف خاوند کی اطاعت ہی نہیں بلکہ آنے والی نسل کی تربیت بھی ہے تو یہ خاتون بہترین معلمہ، اعلیٰ صلاحیت کی مربیہ اور ممتا بھری آغوش کا روپ دھار لیتی ہے جس کے سائے میں آنے والی نسل پروان چڑھتی ہے۔

اب اگلے مرحلے میں یہ دونوں میاں بیوی (جو کہ اب امی ابو بن چکے ہیں) کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی نسل کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داریاں اٹھائیں، انہیں جدید علوم سے آراستہ کریں اور ساتھ ساتھ دینی تعلیم اور بالخصوص دینی تربیت پر توجہ دیں، اس دینی تربیت کی نہ تو کوئی عمر ہے اور نہ نصاب، بلکہ ہر ہر لمحہ حسب ضرورت دینی تقاضے کو سامنے رکھ ان کی تربیت کریں، اور جس قدر یہ کام جلد شروع کردیں گے اتنی ہی آسانی ہوگی کیونکہ عادتیں بن جانے یا پختہ ہو جانے کے بعد پہلے انہیں چھڑوانا پڑتا ہے پھر نئے سرے سے تربیت کرنی پڑتی ہے اسی لیے ایک مقولے میں کہا گیا ہے کہ :

''العلم فی الصغرکالنقش علی الحجر'' ''کہ بچپن کا علم پتھر پر لکیر ہے''۔

لہٰذا اس مغالطے میں نہ رہیں کہ بچہ بڑا ہو کر سیکھ جائے گا یا سدھر جائے گا بلکہ ابھی سے فکر کرلیں اسی میں فائدہ اور آرام ہے۔ واضح رہے کہ تربیت عمل سے شروع ہوتی ہے، مثلاً جب آپ فرائض کی پابندی کریں گے اور کبائر و منکرات سے پرہیز کریں گے تو لامحالہ آپ کی اولاد بھی ایسا ہی کرے گی، آپ نماز پڑھنے مسجد میں جائیں گے تو آپ کے بچے ضد کر کے آپ کے ساتھ جائیں گے، ماں گھر میں نماز پڑھے گی تو ننھی منی بچیاں اس کی نقالی میں الٹے سیدھے سجدے ٹیکیں گی، اسی طرح جب آپ غلط کام نہیں کریں گے، مثلاً جھوٹ نہیں بولیں گے، وعدہ خلافی نہیں کریں گے، گالی گلوچ نہیں کریں گے، تو بڑی حد تک امید ہے کہ آپ کی اولاد میں ایسی غلط حرکتیں نہیں آئیں گی۔ اس لیے کہ والدین کی تربیت ہی بچے کو بناتی اور بگاڑتی ہے رسول ۖ نے فرمایا ''کل مولود یولد علی الفطرہ'' کہ ہر بچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اس کو یہودی، نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں معلوم ہوا کہ والدین کی غلط تربیت بچے کو بگاڑ سکتی ہے۔ اس خوش فہمی میں قطعاً نہ رہیں کہ ہم نے تو اولاد کو اچھا برا سمجھا دیا تھا اب وہ جو چاہیں کریں، نہیں نہیں ہرگز نہیں، ایسا بہت مشکل ہے کہ آپ خود تو نماز پڑھنے نہ جائیں اور بچے کو نماز کی تلقین کریں اور توقع رکھیں کہ وہ نمازی بن جائے گا۔ یا آپ خود جھوٹ بولیں وعدہ خلافی کریں گالی گلوچ کریں اور بچے سے امید کریں کہ وہ مہذب و مرتب ہوگا اور اس قسم کی غلط حرکتیں اس کے اندر نہیں آئیں گی، کیونکہ کیکر کاشت کر کے آم کے پھل کی توقع نہیں کی جاسکتی الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو خالص اپنے فضل سے راہ راست پر ڈال دے۔ اولاد کی تربیت میں ایک اور بات بہت اہم ہے کہ والدین اور اولاد کے درمیان دوری نہیں بلکہ دوستی ہونی چاہئے اس طرح کہ مل کر کھائیں، مل کر تفریح کریں، بازار مل کر جائیں، سیر و تفریح کے لئے نکلنا ہو تو مل کر نکلیں بچوں کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات واشکالات اٹھیں تو انہیں حل کرنے کی کوشش کریں، والدین اولاد کے مسائل کو از خود سمجھیں اور اگر کوئی مسئلہ اولاد کی طرف سے آئے تو انہیں ڈانٹنے کے بجائے شفقت و ہمدردی سے سنیں پھر یا تو مسئلہ حل کر دیں یا کم از کم مطمئن کردیں۔ اور بچوں کے ساتھ اتنی بے تکلفی سے رہیں گویا کہ وہ آپ کے دوست ہیں اس طرح وہ ہر طرح کا مسئلہ اور ضرورت بے دھڑک آپ کے سامنے رکھ سکیں گے اور آپ باآسانی حل کرسکیں گے اور یہ بات تربیت کے لئے از حد ضروری ہے۔ نیز انکے بچپنے کی غلطیوں کوتاہیوں سے از حد درگزر کرلیں اگر توجہ دلانے کی ضرورت ہو تو پہلے ا س کا عذر سنیں، اگر معقول ہو تو قبول کر لیں ورنہ پیار سے سمجھا دیں، ڈانٹنے اور مارنے سے پرہیز کریں اور اگر مجبوراً سختی کی ضرورت پیش ہی آجائے تو سختی کسی کے سامنے نہ کریں اور بچے کی توہین کرنے سے حد الامکان احتیاط کریں۔ ورنہ یہی بچہ بڑا ہو کر جوابی کاروائی کرے گا۔

ہاں البتہ اگر آپ بچے کو شاباش دینا چاہیں یا کسی کامیابی پر انعام دینا چاہیں تو سب کے سامنے دیں بلکہ اس کی مشہوری کر دیں تاکہ آپ کا بچہ خوش ہوجائے۔

اولاد چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں سب کی دینی تربیت دنیا میں سکون اور آخرت میں نجات کا باعث ہے بلکہ ان کی نیکی میں شرکت اور حصہ داری کا سبب ہے بالخصوص بچیوں کی دینی تربیت انتہائی اہم ہے اس لئے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليہ وآلہ وسلم نے تربیت بنات کی بہت فضیلت ومرتبت بیان فرمائی ہے۔ آپ صلى الله عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

''جس نے بچیوں کی اچھی پرورش کی، یہ بچیاں اس کے لئے جہنم سے حفاظت بن جائیں گی'' ۔

نیز فرمایا: '' جس نے بچیوں کو اچھی تعلیم دی، ان کے ساتھ حسن سلوک کیا اور ان کا نکاح کر دیا اس کے لئے جنت ہے '' ۔

گویا بچیوں کی صحیح پرورش وتربیت آخرت میں جنت کی ضمانت ہے نیز ایک اچھی تربیت یافتہ بچی جو کل کو جاکر کسی کی بیوی بنے گی تو پرسکون زندگی گزارے گی اور ماں بنے گی تو اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرسکے گی، اور اس طرح ایک صالح معاشرہ وجود میں آجائے گا۔

آخر میں ایک بات بڑی دل سوزی کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ بچیوں کی خوب پرورش کریں لڑکوں کو کبھی ان پر ترجیح نہ دیں، ان کی خوب تربیت کریں اور اسکے ساتھ ساتھ ان کے نکاح کرتے وقت رسم و رواج، ذات برادری، مال و دولت، عزت و شہرت اور معاشرے میں مقام و حیثیت کو بنیاد بنانے کے بجائے یہ ضرور دیکھ لیں کہ جس انسان کے سپرد آپ دل کا ٹکڑا، گھڑا ہوا ہیرا، تعلیم و تربیت سے آراستہ بیٹی کر رہے ہیں کیا وہ انسان دیندار بھی ہے؟ اسکی تربیت دین کے مطابق ہوئی ہے؟ یا بس رسم ورواج کا بندہ ہے .......۔

ورنہ معذرت کی ساتھ آپ نے اس قیمتی اور تربیت یافتہ بچی کو اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہے، اس کے بعد بیٹی کی ساری عمر کی بد عائیں آپ کا نصیب ہوں گی۔

اگر آپ اس نتیجے پر راضی ہیں تو، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ورنہ ہماری درخواست پر دوبارہ غور کر لیں، بلکہ ٹھنڈے دل سے غور کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ پل کی غلطی نسلوں کا پچھتاوا بن جائے۔

آخری بات اور اہم ترین بات کہ اپنی اولاد کے حق میں دعا کیا کریں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تنہائی کے اوقات میں اولاد کے حق میں ضرور دعا کیا کریں۔ انہی دعاؤں کا پھل آپ کو ضرور دنیا میں ملے گا ورنہ مرنے کے بعد آپ کو یہ پھل پہنچتا رہے گا۔ کیونکہ اللہ بڑا کریم ہے۔

دعا گو اور محتاج دعا
Mohammed Ammar Ashraf
About the Author: Mohammed Ammar Ashraf Read More Articles by Mohammed Ammar Ashraf: 9 Articles with 18856 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.