جُرم!

 خادم حسین جب بھی میرے پاس آتا ہے، مجھے کالم کے لئے کوئی نہ کوئی ایشو مل جاتا ہے، شاید وہ بھی اسی دن آتا ہے جس روز اس کے پاس کوئی نہ کوئی اہم بات ہوتی ہے۔ حساس ہونا کسی کی وراثت نہیں، بہت سے عام لوگ بھی بہت حساس ہوتے ہیں، اور بسا اوقات بہت دانش اور حکمت کی باتیں بھی کر جاتے ہیں، خادم کا مزاج بھی ایسا ہی ہے۔ اس کی باتوں میں سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ اس کی بعض آپ بیتیاں بھی کالم کا موضوع بن جاتی ہیں۔ اس نے مجھ سے ایک سڑک کے بارے میں معلوم کیا کہ آیا میرا وہاں سے ایک دو روز میں گزر ہوا ہے یا نہیں، میرے اقرار پر اس نے نیا سوال داغا کہ فلاں جگہ پر آپ نے فلاں لیڈی ڈاکٹر کا کلینک دیکھا ہے، میرے انکار پر اس نے ٹھنڈی آہ بھری، ایک اہم سڑک پر ایک خوبصورت سے گھر کو کلینک کا درجہ دیا گیا تھا اور بہت ہی دلکش انداز میں کلینک اور ڈاکٹر کا نام درج کیا گیا تھا۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ فی زمانہ دکان اسی صورت میں چمکتی ہے، جب وہ اچھی جگہ پر ہو، اس کی تزئین و آرائش کا خوب بندوبست ہو اور اس کی پبلسٹی بھی بہترین طریقے سے کی جائے۔ اس نے میری بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس مہنگے علاقے میں اس قدر اخراجات کے پیچھے کیا فلسفہ ہے؟ ظاہر ہے ایک لیڈی ڈاکٹر میٹرنٹی ہوم چلا رہی ہیں، یہاں زچگی کے معاملات درپیش ہوتے ہیں، زچہ بچہ کی نگہداشت کی جاتی ہے، اور اپنی سروسز کے نام پر ہی لوگوں سے رقم وصول کی جاتی ہے۔’’ یہ روایتی باتیں ہیں‘‘، اس نے کہا،’’ اور یہ جاننا بھی آپ لوگوں کا فرض ہے کہ مریضوں سے وصولی کتنی ہوتی ہے اور ان کے اخراجات کس قدر اٹھتے ہیں؟‘‘

مسئلہ یہ ہے کہ خادم حسین سمیت ہر فرد صحافیوں کے بارے میں یہ خیال کرتا ہے کہ جب بات ان تک پہنچ جائے گی تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ اس نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’ مگر مجھے جس بات کا صدمہ کھائے جارہا ہے وہ کچھ اور ہے‘‘، میں اس کی بات سننے کے لئے ہمہ تن گوش تھا، چند لمحے خاموشی کے بعد اس نے بتانا شروع کیا،’’․․․ تقریباً آٹھ دس سال قبل مجھے بھی اسی ڈاکٹر کے پاس جانے کا اتفاق ہوا تھا، تب موصوفہ کا کلینک اور جگہ پر تھا۔ اس نے زچگی کے بارہ ہزار روپے لئے تھے، میں نے نئی زندگی اور مجبوری کے عالم میں اس رقم کا بندوبست کیا تھا۔ ڈاکٹر نے چند منٹ ہی دیئے، ایک ننھا فرشتہ ہمارے حوالے کیا اور گھر کی راہ لی، رات کے تقریباً گیارہ کا وقت تھا۔ ہم لوگ ابھی مسرت وفرحت کے لمحات سے لطف اندوز ہوہی رہے تھے کہ کلینک کی نرس (عمر کے اعتبار سے وہ نرس کی والدہ کے برابر تھی، سچ تو یہ ہے کہ وہ دیسی دائی تھی) ہمارے کمرے میں خیر سگالی دورے پر آئی، کہ کاروائی بھی ہو جائے اور ’مٹھائی‘ بھی مل جائے۔ بے نیازی میں ہی اس نے معلوم کیا کہ بچہ ’نیلا پیلا‘ تو نہیں ہورہا، گویا ایسا ہورہا تھا، اسی کی جانب اس کا اشارہ تھا۔ اس نے نیک مشورہ دیا کہ اسے ہسپتال لے جائیں کیونکہ اسے آکسیجن کی کمی ہورہی ہے اور وہ یہاں دستیاب نہیں۔ اس کے بعد ہم بڑے ہسپتال گئے، کہاں کہاں گئے، کیا کیا بیتی، یہ ایک الگ کہانی ہے۔ بچہ بہت کمزور تھا، ذرا بڑا ہوا تو محسوس ہوا کہ وہ ہماری باتوں پر توجہ نہیں دیتا، جب بیٹھنے کی عمر کو پہنچا تو معمول سے کمزور تھا، ڈاکٹر نے ہمیں زار داری میں صدمے کی خبر سنائی کہ آپ کا بچہ ’’من موجی‘‘ ہوگا۔ تقریباً چار سال کی عمر میں اس نے چلنا شروع کیا، اب وہ خود کھانے پینے سے بھی قاصر ہے، چلنے میں بھی پاؤں کے اگلے حصے پر وزن ڈال کر چلتا ہے، پورا پاؤں نیچے نہیں لگاتا، دماغی طور پر بھی مکمل تندرست نہیں، خود واش روم بھی نہیں جاتا، گھر میں اس کے لئے ہمیں مسلسل ایک فرد کو ڈیوٹی دینا پڑتی ہے، ہم اسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے، وہ بہت حد تک دوسروں کو پریشان کرکے رکھتا ہے ․․․‘‘۔ باتیں بتاتے بتاتے اس کی آنکھیں دھندلانے لگی تھیں، مستقل صدمے کے آثار اس کے چہرے سے عیاں تھے، وہ زبانِ حال سے مجھ سے یہ سوال کر رہا تھا کہ یہ عظیم الشان میٹرنٹی ہومز ہمارے جیسے لوگوں کے خون پسینے کی کمائی سے بن رہے ہیں، کیا سہولتیں مکمل نہ کرکے بچوں کو مستقل معذور کرنے کا جرم قابلِ معافی ہے؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428416 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.