سرسبز اور لہلہاتی فصلیں چھوٹی سی سڑک پر سفر کو
بہت خوشگوار بنادیتی ہیں، منزل پر پہنچنے تک انسان اپنے ذہن میں خاکہ تیار
کرتا جاتا ہے، دور تک نہایت سلیقے سے کاشت کی گئی فصلیں کاشت کار کے ذوق کا
منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اپنے ہاں مضافاتی علاقوں کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں دیکھ کر
سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے، کچرے اور گندگی کے ڈھیر سڑک کناروں پر موجود ہوتے
ہیں، رہی سہی کسر ٹریفک کے اژدھام سے پوری ہو جاتی ہے، ایسے میں ضلع وہاڑی
سے پنتالیس اور اس کی تحصیل میلسی سے بیس کلومیٹر پر ایک گاؤں سردار پور
جھنڈیر پہنچ کر سارے اندازے غلط ثابت ہوجاتے ہیں۔ ملتان سے اٹھاسی اور
بہاولپور سے ستّر کلومیٹر کی مسافت پر پاکستان کا سب سے بڑا نجی کتب خانہ
واقع ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان کچھ چکرا جاتا سا جاتا ہے، آخر فصلیں کاشت
کرتے زمینداروں کو اتنی بڑی لائبریری بنانے کا خیال کیسے آیا؟ کھادوں،
بیجوں، سپرے اور مویشیوں کی باتوں میں وقت گزارنے والے زمیندار اتنے نفیس
ذہن کیسے ہوگئے؟ جنون اور دیوانگی کا بڑا نمونہ یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔
انسان کشاں کشاں یہاں پہنچتا ہے تو گردونواح کا ماحول سب سے پہلے اس کی
توجہ حاصل کرتا ہے۔ لائبریری کی عمارت پانچ ایکڑ کے پارک میں واقع ہے، جسے
نہایت ہی خوبصورتی اور محنت سے گل وگلزار بنایا گیا ہے، یہاں قیمتی اور
نہایت دیدہ زیب پودے لگائے گئے ہیں، باڑوں اور پودوں کی تراش خراش پر خصوصی
توجہ دی گئی ہے، گھاس کو نہایت سلیقے سے تراشا گیا ہے، درختوں کے سائے میں
جگہ جگہ بیٹھنے کے لئے کرسیاں اور بینچ رکھے گئے ہیں، بل کھاتی راہداریاں
مزید دلکشی پیدا کرتی ہیں، ایک آبشار بھی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہی ہے۔
چار دیواری سے اُس پار مالکان کی رہائش گاہیں ہیں، مسجد کا بلند وبالا
مینار اپنی عظمت کی داستاں بیان کر رہا ہے، لائبریری اور گھروں درمیان ایک
سڑک ہی واقع ہے، دس برس قبل یہ لائبریری بھی سڑک کے دوسری طرف ہی ہوتی تھی۔
اس دلفریب ماحول میں لائبریری کی پرشکوہ عمارت ہے،گنبد سربلند ہیں۔
سردارپور جھنڈیر میں ’’مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری‘‘ نہ صرف پاکستان بلکہ
دنیا بھر میں اہم مقام ومرتبے کی حامل ہے۔ کہنے کو تو یہاں کے ایک دانشمند
اور زیرک زمیندار غلام محمد چوغطہ (1865-1936) نے اپنے ڈیرے میں اپنے ورثے
میں دیگر اسباب کے ساتھ چند سو کتابیں چھوڑی تھیں، مگر کون جانتا تھا کہ یہ
چھوٹا سا چشمہ بعد ازاں ایک بڑے دریا کا روپ دھار لے گا اور تشنگانِ علم
اپنی پیاس بجھانے کے لئے دور دراز کی مسافتیں طے کر کے نگر نگر سے یہاں تک
آنے کے لئے خصوصی سفر کریں گے، کیونکہ سردار پور جھنڈیر کسی بھی صورت میں
کسی بڑی شاہراہ پر واقع نہیں ہے، بنانے والے کے ذہن میں یقینی طور پر یہ
خیال آیا ہوگا کہ یہاں کون آئے گا اور انہوں نے خود کو خود ہی جواب دے لیا
ہوگا کہ پیاسا کنویں کے پاس آیا کرتا ہے، کبھی کنواں چل کر کسی پیاسے کے
پاس نہیں گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہزاروں لوگ لائبریری کو دیکھنے اور اس سے
استفادہ کرنے آتے ہیں۔ ان کے نواسوں میاں مسعود احمد، میاں محمود احمد اور
میاں غلام احمد جھنڈیر نے اس مشن کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اور اپنے ہی
وسائل سے معاملہ چند سو کتابوں سے لاکھوں کتابوں اور قیمتی مخطوطات اور
قلمی نسخوں کے انتخاب تک پہنچ گیا۔ تینوں بھائیوں نے زراعت سے پیدا شدہ
وسائل کو یہاں پر لگایا، یہ حضرات جدید طریقہ کاشت کے مطابق کام کرنے والے
درمیانے زمیندار ہیں، تاہم حال میں وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ وہاں سے ان کے
بیٹے لائبریری کے لئے کتب بھیجتے رہتے ہیں۔ اب اس لائبریری کی عمارت میں
آٹھ بڑے ہال، آڈیٹوریم،کمیٹی روم، ملٹی میڈیا،ورک سٹیشن، استقبالیہ، دفتر
اور ہاسٹل شامل ہیں۔ 2007میں مکمل ہونے والی نئی عمارت اکیس ہزار مربع فٹ
پر مشتمل ہے۔ یہاں قرآن پاک کے 1153نسخے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔ دس پارے
ساڑھے تین فٹ لمبے اور ڈھائی فٹ چوڑے صفحات پر لکھے گئے ہیں، جن کا وزن سو
کلو گرام ہے۔ سونے کے تاروں سے لکھا قرآن پاک بھی موجود ہے۔ اس لائبریری
میں موجود کتابوں کی تعداد دولاکھ پندرہ ہزار سے زائد ہے، جرائد ورسائل ایک
لاکھ اٹھارہ ہزار سے زائد ہیں اور مخطوطات کی تعداد چار ہزار پچاس ہے۔
مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری میں تاریخی، مذہبی، ثقافتی اور ادبی ورثہ
محفوظ ہے۔ کتابوں کو اس ترتیب سے رکھا گیا ہے کہ بڑے مصنفین کی تمام کتابوں
کو یکجا کر دیا گیا ہے، یعنی مشاہیر کے لئے الگ الگ گوشہ موجود ہے۔ 1890ء
نجی حیثیت سے قائم ہونے والی لائبریری کی اصل اٹھان اس وقت ہوئی جب یہاں
پوسٹ گریجوایٹ ریسرچ سکالرز کے کام کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن
کے پروجیکٹس کی روایت پروان چڑھی ، اب پی ایچ ڈی، ایم فل سکالرز انگریزی
اور اردو زبان میں تحقیق میں یہاں سے استفادہ کرتے ہیں۔ پاکستان اور بیرونِ
ملک سے بھی سالانہ سیکڑوں محققین اس لائبریری کا وزٹ کرتے ہیں۔ چھوٹے اور
دوردراز گاؤں میں ہونے کی وجہ سے سکالرز کو ضروری سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں،
جن کے تمام اخراجات لائبریری انتظامیہ کے ذمہ ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر سے
چانسلرز، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز ، ادبی شخصیات، یونیورسٹیوں اور
کالجز کے اساتذہ اور سٹوڈنٹس کے لئے یہ پُر کشش جگہ ہے۔ یہاں تحقیقی کام کے
لئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اجاگر کیا جاتا ہے۔ میڈیا کے اداروں
میں انٹرویوز اور ڈاکومنٹریز جاری رہتی ہیں۔ لائبریری کے ایک بڑے ہال کمرے
میں اُن اشیا کو محفوظ کیا گیا ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ متروک ہورہی ہیں،
جن میں برتن، گھروں میں استعمال کی اشیا، موسیقی کے آلات، قدیم ٹیلی فون
سیٹ، بیلوں سے کھیت میں چلایا جانے والا ہل، تنور، پنگھوڑا،لسی بنانے والی
مدھانی ، غرض انسانی استعمال کی بہت سی چیزیں وہاں رکھی ہیں، جو متروک ہو
چکی ہیں، یا ہونے والی ہیں۔
لائبریری کی اہمیت اور ’برکت‘ کا تقاضا تھا کہ گاؤں مثالی سہولیات سے
آراستہ ہو جائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، سب سے بڑی بات تو یہی ہے کہ لائبریری
کا پورا ماحول آلودگی سے پاک ہے، نہ شور، نہ گرد وغبار اور نہ کوئی اور
آلودگی۔اس گاؤں میں گرلز ہائی سکول، بوائز سکول، ہسپتال، ڈاکخانہ، بینک ،
ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، واٹر فلٹریشن پلانٹ، سیوریج کا نظام، ٹیلی فون
ایکسچیج، پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ کی سہولتیں موجود ہیں۔ اس اہم مقام(گاؤں) تک
پہنچنے کے لئے حکومت نے میلسی کینال پر ’غازی عباس‘ اور ’غوث پاک‘ کے نام
سے دو پُل تعمیر کئے ہیں،تاکہ لائبریری سے استفادہ کرنے والے کسی مشکل
اورچکر کے بغیر یہاں پہنچ سکیں۔ محکمہ ریلوے نے یہاں کے قریبی ریلوے سٹیشن
کا نام ’’آرے واہن‘‘ سے تبدیل کر کے ’’سردار جھنڈیر‘‘ رکھ دیا ہے۔ اسی طرح
واپڈا نے بھی اپنی ایک سب ڈویژن کا نام ’’سردار پور جھنڈیر‘‘ رکھا۔ پی ٹی
سی ایل نے محققین کی سہولت کے انٹر نیٹ کا بندوبست بھی کر رکھا ہے، جس کے
لئے آپٹک فائبر کا اہتمام ہے۔
جنگل میں منگل لگانا کارِ آسان نہیں، اگر اس کی بنیاد میں کتاب سے حد درجہ
لگاؤ تھا، تو اسے پروان چڑھانے والوں کی کتاب دوستی بھی بے مثال ہی ہے۔
موجودہ عمارت میں لائبریری منتقل ہوئے دس برس کا عرصہ ہو چکا ہے، اس کے
اردگرد کا ماحول بھی مکمل نگہداشت کا عملی ثبوت ہے، مگر آئی ٹی کی برق
رفتار ترقی نے قوم کو مطالعہ سے دور کردیا ہے، اگرچہ تحقیق کی اہمیت کبھی
کم نہ ہوگی، مگر لوگوں کے پاس اول تو لائبریری جانے کا وقت نہیں، وہ فیس بک،
وٹس ایپ اور اسی قسم کی دیگر سرگرمیوں میں مسلسل مشغول ہیں، دوسرا یہ کہ
سرسری معلومات انہیں اب انٹر نیٹ سے بھی دستیاب ہو جاتی ہیں، جس کی وجہ سے
کتاب کی تلاش میں لائبریری تک کا سفر ہر کوئی نہیں کرتا۔ اس نجی لائبریری
میں بھی سیر سپاٹے کے لئے لوگ تو آتے ہیں اور کچھ دیر گزار کر تصاویر وغیرہ
بنا جاتے ہیں، مگر تعلیمی ماحول کی کمی ہے۔ تیئس برس سے لائبریری میں خدمات
سرانجام دینے والا غلام رسول قلندری بھی شاید اپنی اولاد کو خود سرانجام
دینے والی خدمات پر آمادہ اور قائل نہ کرسکے، کیونکہ یہ حقیقت صدمے کے ساتھ
تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ نور بکھیرنے والے ایسے اداروں کا مستقبل تابناک
دکھائی نہیں دیتا۔لائبریری ذاتی ہونے کی وجہ سے اس پر خرچ اور دیگر معاملات
مالکان کی ترجیح ہیں، کوئی وقت تھا جب تحقیق کے لئے آنے والوں کی خوب خاطر
تواضح ہوتی تھی،مگر اب یہ باتیں قصہ پارینہ ہو چکی ہیں۔ ملازمین کی بھی کمی
ہے۔ عمارت نئی ہے، کتابیں سلیقے سے رکھی ہیں، اگر اس سلسلے کو مزید بہتر
کرنے کے لئے حکومت کچھ ملازمین یہاں تعینات کردے، جو صرف یہاں خدمات
سرانجام دیں، تنخواہ سرکاری خزانے سے لیں، بس لائبریری کے نظم ونسق میں
تعاون کریں، تو اس سے لائبریری کی کارکردگی میں بہت بہتری آسکتی ہے۔ |