میوزیکل تھیٹر کی سٹوڈنٹ کا کہنا ہے کہ انھیں فخر ہے کہ وہ اپنی زندگی کے منفی پہلوؤں کو نظر انداز کرنے میں کامیاب ہوئیں اور مِس انگلینڈ بننے میں کامیاب ہوئیں۔
یہ 20 سالہ نوجوان خاتون ان 12 خواتین میں شامل تھیں جنھوں نے مقابلے کے فائنل راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کیا تھاگریس رچرڈسن کو ہم جنس پرست ہونے پر سکول میں ہراساں کیا جاتا تھا لیکن اب وہ مِس انگلینڈ کا تاج جیتنے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے 'خواب کی تعبیر' حاصل کرلی ہے۔
گریس کا کہنا ہے کہ لیسٹرشائر میں انھیں ان کے جنسی رجحانات کے سبب مسلسل تنگ کیا جاتا تھا۔
میوزیکل تھیٹر کی سٹوڈنٹ کا کہنا ہے کہ انھیں فخر ہے کہ وہ اپنی زندگی کے منفی پہلوؤں کو نظر انداز کرنے میں کامیاب ہوئیں اور مِس انگلینڈ بننے میں کامیاب ہوئیں۔
گریس تاریخ کی پہلی مِس انگلینڈ ہیں جو اپنی ہم جنس پرست شناخت کو چھپاتی نہیں ہیں۔
گریس 2026 میں مِس ورلڈ کے مقابلے میں انگلینڈ کی نمائندگی کریں گی۔
اپنے سکول کے دور کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ: 'میری عمر 15 برس تھی جب میں نے بطور ہم جنس پرست اپنی شناخت ظاہر کی۔ وہ کورونا وائرس کے فوراً بعد کا وقت تھا اور سکول میں میرے ساتھی مجھ سے اچھا برتاؤ نہیں کرتے تھے، جس سے میری ذہنی صحت پر بُرا اثر پڑا۔'
لیسٹر کالج آف پرفارمنگ آرٹس کی یہ طالبہ اب انگلینڈ کی نمائندگی کرتے ہوئے مس ورلڈ میں حصہ لیں گی'مجھے متعدد چیزوں کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا، کبھی بہت زیادہ دُبلا ہونے پر، کبھی چھوٹا اور پھر کبھی زیادہ لمبا ہونے پر۔'
گریس کہتی ہیں کہ انھیں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ تمام کام ہی خراب کر رہی ہیں۔
مِس انگلینڈ بننے پر وہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ: 'اب اچھا لگتا ہے یہاں ایسے کھڑے ہونا اور لوگوں کو بتانا کہ 'دیکھو میں نے کیا حاصل کرلیا ہے۔'
'میں نے وہ تمام منفی باتیں نظر انداز کیں جو مجھے کہی جاتی تھیں اور میں حقیقی طور پر اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کر سکی۔'
یہ 20 سالہ نوجوان خاتون ان 12 خواتین میں شامل تھیں جنھوں نے مقابلے کے فائنل راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ وہ ’ٹیلنٹ‘ کی کیٹیگری میں فاتح رہیں۔
وہ بیلے ڈانس پیش کرنے والی تھیں مگر مقابلے میں شامل ہونے کے ایک ہفتے بعد ان کا پاؤں ٹوٹ گیا۔ اس لیےججوں کو متاثر کرنے کے لیے انھوں نے اپنے میوزیکل تھیٹر کے ٹیلینٹ کا استعمال کیا۔
گریس نے لورن الریڈ کا گایا ہوا گیت ’نیور اینف‘ (فلم دی گریٹسٹ شو مین کا) پیش کیا۔ اس گانے نے انھیں پہلی پوزیشن دلوائی۔
لیسٹر کالج آف پرفارمنگ آرٹس کی یہ طالبہ اب انگلینڈ کی نمائندگی کرتے ہوئے مس ورلڈ میں حصہ لیں گی جو اگلے سال کے آغاز میں متوقع ہے۔ اس مقابلے کے مقام کا اعلان ابھی نہیں ہوا۔
اگر وہ جیت جاتی ہیں تو وہ 1964 کے بعد مس ورلڈ جیتنے والی پہلی برطانوی خاتون ہوں گی۔
گریس کا کہنا ہے کہ ’اگر میں مس ورلڈ کا تاج انگلینڈ واپس لا سکی تو یہ بہت شاندار ہو گا۔۔۔ لیکن نتیجہ کیا ہو گا اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘