اٹوٹ رشتوں کے
سارے بندھن شکستہ سوچوں
کے دائروں میں
سمٹ گئے ہیں
ہم اپنی راہ سے بھی ہٹ گئے ہیں
سکون قلب و جگر کی خاطر
ہم اپنی اپنی مسافتوں کی تلاش میں ہیں
مگر یہ شہر ہوس جو ہم کو
اذیتیں در اذیتیں دے
قرار چھینے سکون لوٹے
ہمیشہ نفرت کی آریوں سے
ہماری شہ رگ کو کاٹتا ہے
ہمارے سینوں میں
زخم بوئے گئے ہیں اتنے
کہ جن کی شدت سے
کانپ اٹھا وجود سارا
ہم اتنے گھاؤ چھپائے دل میں
نجانے کیسے دکھوں سے
اپنے بدن کو ڈھانپے
عذاب لمحوں میں
جی رہے ہیں