نہ جانے اب کہاں اس کا ٹھکانہ ہو گیا ہے
اسے دیدار کرائے زمانہ ہو گیا ہے
قرار آئے گا کیسے ملے بغیر اسے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے
ابھی تو آئے ہو کچھ دیر تو ٹھہر جاؤ
معطر آج مرا آشیانہ ہو گیا ہے
کیا غلط کیا جو ان کے پہلو میں بیٹھ گیا
ذرا سی بات پہ دشمن زمانہ ہو گیا ہے
تمہارا نام جو آیا مرے فسانے میں
مزاج تمہارا بڑا جارحانہ ہو گیا ہے