برس کے جا بھی چکا تیرے پیار کا موسم
وہ بے زبان لبوں کی پکار کا موسم
خزائیں جا بھی چکیں، اور بہار آبھی گئی
مگر نہ بدلا دلِ بے قرار کا موسم
نہ جانے کیسی قیامت کی نارسائی ہے
نہ آیا مجھ پر تیرے اختیار کا موسم
ہمیں یہ ضد ہے کہ تجھ سے کبھی نہ مانگیں گے
ترے وصال کا منظر، خمار کا موسم
مرے حواس پہ چھایا ہے کتنا سناٹا
کوئی ہوا چلے ، آئے بہار کا موسم