بنانے لگ گیا ہوں غزلیں درد لکھنا بھول گیا
دو اب کوئی نیا غم پچھلے تمام بھول گیا
روزِ محشر جو پوچھیں گے بتاو کون تھا شخص
لاج یوں رکھو گا تیری، کہو گا نام بھول گیا
نِبھا رہا تھا وہ قردار جو انھیں پسند تھا
بچھرا وہ جو توکیا تھا قردار بھول گیا
اسکے ش کو تو چھوریں ہم ع تک نہیں پہنچتے
ق تک جو پہنچا تھا وہ تحت ہزارہ بھول گیا
ہر قبر پر تھے پھول پرے ساری مٹی تھی نم وہاں
لگتا تھا آج کوئی امیر اپنوں کی قبر بھول گیا