تم نے کب مجھ سے ملنا گوارا کیا
میں نے جب کبھی تم کو اشارہ کیا
پہلی بار ہی ہنس کر مخاطب کیا
تم نے کب یہ کرم پھر دوبارہ کیا
تیری مدح سرائی میں زلفوں کو شب
اور آنکھوں کو تیری ستارہ کیا
خود ہی چھوڑا ہمیں اس رہ عشق پر
نام بدنام بھی پھر ہمارا کیا
مجھ کو تیری وفا نے نکما کیا
بے وفائی نے مجھ کو آوارہ کیا
تیرے کہنے پہ ہی تو اے قاتل میرے
اس دنیا سے میں نے کنارہ کیا
نیند بھی ساتھ چھوڑنے لگی جب میرا
تیری یادوں کو ہی پھر سہارا کیا
روبرو میرے چشم تصور میں تم
چلو دل نے تو تیرا نظارہ کیا
امن ہمدم کو ئی جب مجھے نہ ملا
اپنےآپ میں ہی پھر گزارا کیا