Add Poetry

خموشی کی زباں میں گفتگو کرنی بھی آتی ہے

Poet: Hazrat Allama Pir Syed Naseer-ud-Din Naseer Gillani (Golra Sharif) By: Khalid Roomi, Rawalpindi

 خموشی کی زباں میں گفتگو کرنی بھی آتی ہے
ہمیں اشکوں سے شرح ارزو کرنی بھی آتی ہے

فقط ہاتھوں سے مہندی کو رچانا ہی نہیں آتا
انھیں ہر آرزو میری لہو کرنی بھی آتی ہے

نہیں دشوار کوئی ، منزل مقصود کا ملنا
سفر در پیش ہو ، تو جستجو کرنی بھی آتی ہے

ادب مانع ہے ، ورنہ بارگاہ ناز میں جا کر
ہمیں ہر بات ان کے روبرو کرنی بھی آتی ہے

کہیں ایسا نہ ہو گھبرا کے وہ محفل سے اٹھ جائیں
کہ اس ناچیز کو کچھ ہاؤہو کرنی بھی آتی ہے

کسی کے مرتبے کا پاس ہے وقت سخن لازم
تمھیں واعظ کسی سے گفتگو کرنی بھی آتی ہے

بہا کر خون دل ، ارمان سب اپنے لہو کر کے
ترے کوچے کی مٹی سرخرو کرنی بھی آتی ہے

جناب شیخ سے ہے مختلف اپنی قدح نوشی
بحمد اللہ عباد بے وضو کرنی بھی آتی ہے

نصیر ! اپنوں کی عزت لوگ کرتے آئے ہیں ، لیکن
وہ ہم ہیں جن کو تعظیم عدو کرنی بھی آتی ہے

Rate it:
Views: 488
12 Sep, 2011
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets